تارکین وطن کو یورپ پہنچنے کا ’قانونی راستہ‘ فراہم کرنے کی یورپی پیشکش
گزشتہ ہفتے یونان کے سمندر میں ڈوبنے والی تارکین وطن کی کشتی کو پائلٹ کرنے کے الزام میں نو مشتبہ انسانی اسمگلروں کو یونان کی ایک عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
یونانی حکام نے کہا ہے کہ اس حادثے میں اب تک 78 افراد ہلاک ہوچکے اور 104 کو زندہ بچایا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر شام، افغانستان، مصر اور پاکستان سے ہیں۔
یہ کشتی بدھ کی صبح جنوبی یونانی قصبے پائلوس سے تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) دور ڈوبی۔ جو لیبیا کے توبروک سے اٹلی کی طرف جا رہی تھی۔
خیال کیا جارہا ہے کہ حادثے کے نتیجے میں 500 سے زائد افراد لاپتہ ہیں جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن اور اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی، یو این ایچ سی آر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ خیال کیا جارہا ہے کہ 400 سے 750 کے درمیان لوگ جہاز پر سوار تھے۔
فرانس اور جرمنی کے وزراء نے اتوار کی شام ہجرت کو کنٹرول کرنے اور بحیرہ روم کے خطرناک راستوں پر ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر بات چیت کے لیے تیونس کا دورہ کیا۔
تیونس، جو لیبیا کا پڑوسی ہے، یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے افراد کیلئے ایک اہم گزرگاہ ہے۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب جیرالڈ درمانین کے ساتھ تیونس کا سفر کیا۔
فیسر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ، ’ہم اسمگلروں کے غیر انسانی کاروبار کی بنیاد کو ختم کرنے کے لیے قانونی نقل مکانی کے راستے بنانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پناہ گزینوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور بحیرہ روم پر ہونے والی خوفناک اموات رک جائیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’افریقی ممالک کے لوگ غیر معمولی تعداد میں تیونس سے یورپ تک خطرناک سمندری گزرگاہوں پر سفر کرتے ہیں، اور یورپی حکام تیونس کے بڑھتے ہوئے خود مختار صدر، قیس سعید کی حکومت سے مزید مضبوط کارروائی کے خواہاں ہیں۔‘
رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں، تیونس حکام نے 13,000 افراد کی کشتیوں کو مشرقی بندرگاہی شہر سفاکس پر روکا، جو یورپ جانے کیلئے کا ایک اہم راستہ ہے۔
Comments are closed on this story.