پاکستان کے چینی کرنسی میں روسی تیل خریدنے پر امریکا کا ردعمل
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہناہے کہ ہم جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کے احترام کے لیے پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان میں عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جانے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’ہم ان خبروں سے آگاہ ہیں کہ نو مئی کے احتجاج میں حصہ لینے کے الزامات کے تحت سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں گے۔‘
میتھیو ملر نے کہا، ’ماضی کی طرح ہم پاکستانی حکام پر مسلسل زور دیتے ہیں کہ وہ پاکستانی آئین میں سب کیلئے دیے گئے جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کریں۔ ہم پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ اعلیٰ سطح پر باقاعدگی کے ساتھ انسانی حقوق، جمہوریت، تحفظ، صحافیوں کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی پر زور دیتے ہیں جو امریکا کے لیے اولین ترجیح ہے۔ ’
پاکستان میں روسی تیل کی درآمد اور ادائیگی چینی کرنسی میں کیے جانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ’ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہر ملک کو اپنی ضروریات اور حالات کے مطابق توانائی کی درآمد کا انتخاب کرنا ہوگا۔ لیکن چونکہ آپ نے ایک خاص چیز کے بارے میں پوچھا ہے تو ہمارا خیال ہے کہ روسی تیل مارکیٹ سے بہت کم قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔ یہ علامت ہے کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر روسی تیل کی قیمت پر جو حد مقرر کی تھی اس نے روسی تیل کی قیمت مارکیٹ میں بہت کم کردی اور ہمارا اندازہ ہے کہ اس سے روسی حکومت 100 ارب ڈالر کے ریونیو سے محروم ہو گئی ہے جو یوکرین کی جنگ میں استعمال کیا جاتا۔‘
امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں روسی تیل کی درآمد امریکی منظوری سے کی گئی، اس بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ پرائیویٹ سفارتی گفتگو کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔
تاہم انہوں نے کہا، ’ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ روسی تیل کی فروخت کے اثرات کم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں اور امریکا نے روسی توانائی کی دیگر ملکوں کو برآمد پر کوئی تعزیریں عائد نہیں کیں۔‘
ان سے سوال ہوا کہ آیا پاکستان نے روس سے تیل درآمد کرنے سے پہلے امریکا سے مشورہ کیا تھا؟
جس پر ان کا کہنا تھا کہ، ’ہم دنیا بھر میں ان سوالات پر بات کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ فیصلے ہیں جو ہر ملک کو خود کرنے ہیں۔‘
Comments are closed on this story.