نواز شریف کا لندن میں بیٹھ کر سیاسی سرگرمیاں کرنا بڑا امیگریشن اسکینڈل بن سکتا ہے، اسپاٹ لائٹ آن کرپشن
بدعنوانی پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی نجی ادارے ”اسپاٹ لائٹ آن کرپشن“ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی برطانیہ میں سیاسی سرگرمیاں برطانوی امیگریشن سسٹم کا ’سب سے بڑا اسکینڈل‘ بن سکتی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ”دی گارڈین“ کو دئیے گئے ایک بیان میں اسپاٹ لائٹ آن کرپشن کی سربراہ ڈاکٹر سوزین ہالی نے کہا کہ نواز شریف کی لندن میں رہنے کی اہلیت برطانوی حکومت کے لیے سوالات کھڑے کرتی ہے۔
ڈاکٹر سوزین ہالی کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے (نواز) شریف برطانیہ آکر پاکستان میں انصاف سے بچنے میں کامیاب ہوگئے، پھر ان کا یہاں رہتے ہوئے کاروبار کرنا اور یہاں سے سیاسی سرگرمیوں کی ہدایات دینا اصل امیگریشن اسکینڈل ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب برطانیہ کے امیگریشن سسٹم کی بات آتی ہے تو واضح طور پر کرپٹ سیاستدانوں کے لیے ایک اصول ہے اور حقیقی پناہ گزینوں کے لیے دوسرا اصول ہے۔‘
اتوار کو ”دی گارڈین“ پر شائع ایک مضمون میں معروف پاکستانی فیملیز سے منسلک لندن کی دو رہائش گاہوں کا ھوالہ دیتے ہوئے برطانیہ کے سیاسی اشرافیہ کے لیے پناہ گاہ اور ان کی دولت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
آرٹیکل میں شریف خاندان کے ایون فیلڈ ہاؤس میں واقع پارک لین کے گھر کا ذکر ہے، ساتھ ہی بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے منسلک ہائیڈ پارک پلیس پر واقع اس حویلی کا بھی ذکر ہے جو نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے 2019 میں ان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے دوران سامنے آئی تھی۔
آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ ملک ریاض کی جائیداد، جس کی مالیت 2019 میں 50 ملین پاؤنڈ تھی، این سی اے سیٹلمنٹ کا مرکز تھی اور پاکستان اس بات پر منقسم تھا کہ وہاں رقم کا کیا ہوگا۔
شائع آرٹیکل میں بتایا گیا کہ مذکورہ گھر 2022 کے آغاز میں 38.5 ملین پاؤنڈ میں فروخت کیا گیا تھا اور این سی اے نے رقم بھی پاکستان کو واپس کر دی تھی۔
آرٹیکل میں نقل کردہ انسداد بدعنوانی کی تحریکوں کے مطابق، پاکستان میں ہونے والی بدامنی نے برطانیہ کی این سی اے اور ملک ریاض کے لیے سیٹلمنٹ سے رقم حاصل کرنے میں اِس کے کردار کے بارے میں اہم خدشات کو جنم دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد اور لندن کے درمیان پیسے کی نقل و حرکت اور برطانیہ کی سیاسی اشرافیہ اور ان کی دولت کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر عجیب و غریب حیثیت۔ خان کی گرفتاری اور پاکستانی سیاست میں پچھلی دہائی کے ہنگاموں سے گہرا تعلق ہے۔
رپورٹ میں لندن کو شریف اور ریاض خاندانوں جیسی دنیا بھر کی اشرافیہ کی جائیدادوں اور دولت کو ”پناہ گاہ“ قرار دیا گیا۔
ملک ریاض کے قانونی نمائندوں کے مطابق، جن کا مضمون میں حوالہ دیا گیا تھا، اس خاندان کی برطانیہ میں دیگر جائیدادیں بھی تھیں جو پاکستان کے ٹیکس حکام کو انہوں نے ظاہر کی تھیں۔
کہانی کا اگلا حصہ ایون فیلڈ ہاؤس پر مرکوز ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شریف خاندان نے چار مہنگے اپارٹمنٹس کو اکٹھا کرکے ایک مکان بنایا۔
دی گارڈین میں شائع ان دو گھروں کی کہانی، انسداد بدعنوانی کے کارکنوں کے مطابق، ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح برطانیہ کو ”دنیا کی سیاسی اشرافیہ کی طرف سے لندن میں چھپائی گئی غیر واضح دولت کی چھان بین کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔“
Comments are closed on this story.