مال کے بدلے مال، پاکستان کو صدیوں پرانا تجارتی طریقہ اپنانے کی نوبت کیوں آئی؟
پاکستان کی وزارتِ تجارت نے یکم جون کو افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ صدیوں پرانے بارٹر سسٹم کے تحت ”مال کے بدلے مال“ کی تجارت کی منظوری کا باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
اس بارٹر ٹریڈ سسٹم کے تحت پاکستان 26 اقسام کی اشیاء افغانستان، ایرام اور روس کو برآمد کر سکے گا، ساتھ ہی مذکورہ تین ممالک سے ڈالرز میں ادائیگی کے بغیر گیس، پٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ سمیت دیگر اشیاء درآمد کرسکے گا۔
صدیوں پرانے اس طریقہ کار کے تحت تین ممالک کے ساتھ تجارت کی اجازت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے، جب پاکستان کو زرِمبادلہ کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اسےعالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ بیل آؤٹ پیکچ کی بحالی کا بھی چیلنج درپیش ہے۔
بارٹر سسٹم کے تحت کون تجارت کر سکے گا؟
حکومت کی بارٹر پالیسی کے تحت وہ سرکاری اور نجی تجارتی ادارے مال کے بدلے مال کی تجارت کرسکتے ہیں، جو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس بطور فعال ٹیکس دہندگان رجسٹرڈ ہیں اور انہوں نے پاکستان سنگل ونڈو سسٹم کی سہولت بھی حاصل کر رکھی ہے۔
اسی طرح ایسے افراد جن کے پاس کسٹم حکام کے ذریعے ایک باضابطہ درآمدی اور برآمدی تجارتی معاہدہ موجود ہے وہ بھی اس نئی پالیسی سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
قیمتوں اور مال کی تعداد میں فرق پڑے گا؟
مال کے بدلے مال کی تجارت کی اجازت اشیاء کی ”درآمد کے بعد برآمد“ کے اصول پر دی جائے گی اور درآمد کی جانے والی اشیاء کی مالیت برآمد کی جانے والی اشیاء کے مساوی ہوگی۔
وزارت تجارت نے اپنے اعلامیے میں 26 اقسام کی تجارتی اشیاء کی فہرست دی ہے جو بارٹر ٹریڈ کے ذریعے ایران، افغانستان اور روس کو برآمد کی جا سکتی ہیں۔
ان اشیاء میں چاول، گوشت، دوا سازی کی مصنوعات، چمڑے کی مصنوعات، الیکٹرک پنکھے، گھریلو سامان، ٹیکسٹائل، جراحی کے آلات، برقی آلات، موٹرسائیکلیں اور ٹریکٹر بھی شامل ہیں۔
درآمد کی جانے والی اشیاء کی فہرست میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت کوئلہ، گندم، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔
اب ڈالر کی ضرورت نہیں
پاکستان کو اپنی برآمدات کے لیے ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ تجارت کی صورت میں ملک کو ڈالر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے پاکستان اپنی تجارت میں بھی اضافہ کر سکتا ہے۔
عالمی پابندیاں
ایران اور روس پر عائد عالمی پابندیوں کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ پاکستان کی تجارت متاثر ہورہی تھی، جب کہ افغانستان میں بھی بینکنگ چینلز پوری طرح فعال نہیں ہیں۔ ایسے میں پاکستان نے بارٹر ٹریڈ کی منظوری دے کر بظاہر ایک قابل قبول اقدام کیا ہے۔
پاکستان کا بارٹر ٹریڈ کی اجازت دینا حکومت کی مجبوری نظر آتی ہے، کیونکہ ملکی معیشت اس وقت بحران کا شکار ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملکی مجموعی پیداوار کی شرح پانچ فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 0.29 فیصد رہی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ پاکستان کا مجموعی تجارتی حجم لگ بھگ 100 ارب ڈالر ہے، جس میں ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ باہمی تجارتی حجم ڈھائی سے تین فیصد ہے۔
پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔
بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے شاید اس منصوبے پر درپیش مشکلات کا کوئی حل تلاش کر لیا جائے، کیونکہ ایران سے بارٹر ٹریڈ کے ذریعے دیگر اشیاء کے علاوہ پیٹرولیم منصوعات بشمول گیس اور کوئلہ بھی درآمد کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed on this story.