Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

بحریہ ٹاؤن سے ٹکرلینے والے کراچی کے معروف مورخ گُل حسن کلمتی چل بسے

انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق کچھ حیرت انگیز دعوے کیے
شائع 17 مئ 2023 03:36pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی کے ماضی کو دستاویزی شکل دینے والے سندھ کے مشہور مورخ گل حسن کلمتی کینسر کے باعث انتقال کرگئے۔

سندھی، اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں لکھنے والے گُل حسن کلمتی انڈیجینس رائٹس الائنس کے رکن تھے جس نے ملیر میں بحریہ ٹاؤن اراضی کے حصول پر ملک ریاض سے لڑائی لڑی تھی۔

گُل حسن نے کراچی کے نجی اسپتال میں آخری سانسیں لیں، وہ جگر کے سرطان میں مبتلا تھے۔ ان کی نماز جنازہ آج صبح 11 بجے حاجی تاہی گوٹھ گڈاپ ملیر میں ادا کی گئی۔

کراچی میں اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹرزاہد فاروق نے اظہارافسوس کرتے ہوئے کہا کہ گل حسن کلمتی کا کام ہمارے لیے بہت قیمتی ہے۔

گُل حسن کلمتی نے سندھ کی تاریخ پرجو کچھ بھی لکھا ہے، خاص طور پر تقسیم سے پہلے کراچی کی تاریخ کے بارے میں، ان میں سے زیادہ تر سندھی میں تھا، اور زاہد فاروق نے ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ، ’’کلمتی نے بہت سی چیزیں لکھیں، مقبروں کے بارے میں لکھا، انہوں نے مندروں (ہندوؤں کی عبادت گاہ) کی تاریخ پر لکھا اور میں نے منگھوپیر مندر [بھاگناری شیو مندر] پر ان کی تاریخ پڑھی‘۔

زاہد فاروق نے کہا کہ کلمتی نے اپنی زندگی میں دو کردارادا کیے، ایک طالب علموں کے لیے اور دوسرا سماجی کارکنوں کے لیے۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب ملیر، گڈاب کی سرسبز و شاداب زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کس طرح ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کا مقابلہ کیا۔

زاہد فاروق نےمزید کہا کہ ان کے دوست کلمتی اور ٹیم ان لوگوں کو اپنی چھتری تلے لائی، جن کی کوئی آواز نہیں تھی۔ انہوں نے مسائل اجاگرکیے اور انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آواز دی لیکن بدقسمتی سے آج وہ آواز جو ہمیشہ ناانصافی کے خلاف اٹھتی تھی، وہ آواز جو عوام کے لیے تھی اور وہ قلم جس نے ہمیشہ مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اب مستقل طور پر خاموش ہوچکے ہیں۔

گُل حسن کلمتی کے بارے میں

گل حسن کلمتی کے آٹھ بہن بھائی ہیں۔ وہ 5 جولائی 1957 ء کو حاجی آرزی بلوچ گاؤں گڈاپ، ضلع ملیر ، کراچی میں پیدا ہوئے۔

کلمتی نے 1978 میں ایس ایم آرٹس کالج کراچی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء میں جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ یہیں سے سندھی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔

انہوں نےبرطانوی دور سے قبل کے کراچی کو دستاویزی شکل دی اور اکثر سیمیناروں اور کانفرنسوں میں اپنی تحقیقات سے متعلق بتایا۔

گُل حسن کلمتی نے سسوئی پر ایک کتاب لکھی جو صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی ’شاہ جو رسالو‘ میں نظر آتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسررخمان پالاری اور گُل حسن کلمتی نے سال 2014 اور 2015 کے دوران سندھ ابیہاس اکیڈمی کے پراجیکٹ کے تحت اپنے پیارے پنہوں کی تلاش میں سندھ بھر میں بنبھور سے تربت تک کا سفر کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سسی نے شاید اس راستے میں موجودہ بحریہ ٹاؤن کو عبور کیا تھا۔ یہ کتاب جامعہ کراچی کے شاہ عبداللطیف چیئر نے شائع کی ہے

گُل حسن کلمتی نے بدھ مت کی باقیات اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے تکیہ (آرام گاہ) کے مقام کی نشاندہی کی۔ ان کے مطابق بدھ مت کی باقیات اور شاہ صاحب کا تکیہ دونوں اب بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات میں مدفون ہیں۔

سال 2015 میں ماہم مہرکے ساتھ ایک غیر مطبوعہ انٹرویو میں انہوں نے اس حوالے سے مختصربات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ شاہ لطیف کا تکیہ وہ جگہ ہے جہاں گرینڈ مسجد تعمیر کی جا رہی ہے۔ اگر آپ بحریہ ٹاؤن کے فیز ون میں جائیں تو آپ کو جبل پیارو مل جائے گی۔ شاہ لطیف نے پیارو کا ذکر اس لیے بھی کیا ہے کیونکہ یہ وہ راستہ ہے جس پر سسی نے پنہون کی تلاش میں جاتے ہوئے ہوٹس (قبیلے) کا سراغ لگایا تھا۔

پھر جہاں عظیم الشان مسجد تعمیر ہو ئی اگر آپ بورڈ کے بالکل سامنے جائیں تو وہ شاہ لطیف کا تکیہ تھا، جسے انہوں نے مکمل طور پر مسمار کر دیا ہے۔

ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟ ہم جوگیوں سے سنتے ہیں جب بلوچستان میں نانی ہنگلج کا میلہ شروع ہوتا ہے اور وہ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ وہ راستہ تھا جو مائی سسوئی نے بھانبور سے لیا تھا۔

ملیر کی سید ہاشمی ریفرنس لائبریری میں آپ غلام رسول کلمتی کی سب سے مشہور کتاب ’کراچی کے حالات‘ دیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان

sindh

Bahria Town

GUL HASSAN KALMATI