’سوڈان میں باغیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے سفارتی مشنز پر بھی حملے کیے‘
پاکستان میں تعینات سوڈان کے سفیر صالح محمد احمد نے کہا ہے کہ سوڈان میں باغیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے سفارتی مشنز پر بھی حملے کیے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں تعینات سوڈان کے سفیر صالح محمد احمد نے فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے تناظر میں سوڈان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ”سوڈان میں صورتحال دن بدن بہتر ہورہی ہے۔ درحقیقت یہ بحران ریپڈ سپورٹ فورسز کی سوڈانی فوج کے خلاف حملوں سے شروع ہوا اور انھوں نے سوڈانی فوج کی مختلف بیسز کے ساتھ دارالحکومت خرطوم کے کئی اہم مقامات پر اور سوڈان کے دیگر شہروں میں بھی حملے کیے“۔
صالح محمد احمد نے بتایا کہ ”باغیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے سفارتی مشنز پر بھی حملے کیے تقریباً دس سے پندرہ ممالک کے سفارتخانوں پر حملے ہوئے“۔
ان کا کہنا تھا کہ باغیوں نے سفارتی مشنز پر حملوں کے ساتھ کاروں پر بھی حملے کیے۔ اور ترکی کے ہوائی جہاز پر بھی حملہ ہوا جو اپنے لوگوں کے انخلاف میں مصروف تھا۔
سوڈان میں پاکستانی
سوڈان میں موجود پاکستانیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ”جہاں تک مجھے علم ہے سوڈان میں پاکستانیوں کی تعداد 2 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ سوڈان میں پاکستانی مختلف شعبوں میں کاروبار سے منسلک تھے۔ جیسے چھوٹی صنعتیں، دوسرے کاروبار اور زراعت وغیرہ، یہ دارالحکومت خرطوم کے علاوہ سوڈان کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر تھے“۔
سوڈان کے سفیر نے پاکستانیوں کی واپسی کے حوالے سے مزید بتایا کہ میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ ایک بڑی تعداد تقریبا ایک ہزار کے قریب وہاں سے نکل چکے ہیں اور خوش قسمتی سے وہاں سفارتخانے نے اس انخلا میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ساتھ تعاون اور رابطہ کی بدولت اہم کردار ادا کیا ہے۔
پورٹ سوڈان
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پورٹ سوڈان، سوڈان میں بحیرہ احمر کی ریاست کا دارالخلافہ ہے اور یہ خرطوم سے بہت دور ہے اور کافی محفوظ بھی ہے اور سوڈان کی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے۔ جو کہ تمام غیر ملکیوں کے انخلاف کو دیکھ رہی ہے جو کہ سوڈان چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اور میرے خیال میں ہر چیز بہتر ہوجائے گی اور ہورہی ہے۔
سوڈان میں جاری صورتحال کے حل سے متعلق سوال پر سفیر نے کہا کہ ”سوڈان کسی بھی علاقائی یا اندرونی تجویز یا پہل پر عمل درآمد کے لئے تیار ہے۔ جنگ کو روکنے کے لئے ہم نے امریکا، سعودی عرب، افریقین یونین اور دوسری تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کوششوں پر مثبت ردعمل دیا ہے“۔
سری لنکا نے معاشی بحران کا حل کیسے تلاش کیا
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سری لنکا کے مرکزی بینک کے صدر ڈاکٹر نند لال ویرا سنگھے نے بتایا کہ معاشی بحران میں سخت اور مشکل فیصلے کرنا پڑے۔ جیسے کہ “ سخت مالیاتی پالیسی، لچکدار ایکسچینج ریٹ اور قیمتوں میں اصلاحات کا پروگرام متعارف کرایا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ بجلی اور گیس کے لئے قیمتوں کا تعین کیا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں اصلاحات کی ابتداء کی اور یہ تینوں کام صحیح وقت پر کئے، اسکے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج کے لئے بات چیت کی اور ہم نے گزشتہ مارچ میں آئی ایم ایف پروگرام کامیابی سے حاصل کیا۔
سری لنکا کے مرکزی بینک کے صدر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آئی ایم ایف سے 2.9 بلین ڈالر کی توقع تھی تو کیا وہ پیکج مکمل ہوا یا آپ بھی پاکستان کی طرح انتظار کررہے ہیں۔ جس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ہم پہلی قسط حاصل کرچکے ہیں اوربورڈ سے چار سالہ پروگرام کی منظوری بھی ہوچکی ہے جو کہ 20 مارچ کو ہوئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ سری لنکا چار سالہ ٹھیک اصلاحاتی پروگرام کے لئے پرعزم ہے۔ ہمیں ان چار سالوں میں ترقی کرنی ہے اور ہم نے آہستہ آہستہ آگے کی سمت بڑھنا ہے۔ اصلاحات کا نفاذ کرنا ہے۔ ادائیگیوں کے عدم توازن کو ٹھیک کرنا ہے اور تمام شعبوں میں تنظیم نو کرنی ہے تاکہ ہم اپنی معاشی صورتحال کو واپس بہتر حالت میں لا سکیں۔
سری لنکا نے مہنگائی کی شرح کیسے کم کی
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نند لال ویرا سنگھے نے بتایا کہ جب ہم نے تکلیف دہ اصلاحات کا نفاذ کیا تو مہنگائی جیسے مسائل کا یقیناً سامنا تھا اور مہنگائی ہماری ایک اہم ذمہ داری تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ”ایک وقت میں مہنگائی 70 فیصد ہوگئی تھی گزشتہ سال ستمبر میں لیکن سخت انتظامات کے نتیجے میں ہم گزشتہ مہینے مہنگائی کو 35 فیصد پر لے آئے ہیں اور اس سال کے اختتام پر اسے سنگل ہندسے میں لے کر آئیں گے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں“
Comments are closed on this story.