Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
لاہورکی ضلعی انتطامیہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو آج 6 مئی کو لاہورمیں ریلی نکالنے کی اجازت دے دی۔
پی ٹی آئی سے حلف لینے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے ریلی کی اجازت دی جس کا نوٹیفکیشن ڈپٹی کمشنر لاہور نے جاری کردیا۔
اجازت نامے کے مطابق ریلی کی اجازت دن 2 بجے سے شام ساڑھے 7 بجے تک ہوگی جب کہ انتظامیہ پولیس کے ساتھ تعاون کرے گی اور سیکیورٹی کی ذمہ دار بھی ہوگی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ریلی عدلیہ اور اداروں کی خلاف تقاریر کی اجازت ہوگی نہ ریلی کے دوران پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔
ریلی کا مقصد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی ہے، جو آج زمان پارک سے لکشمی چوک تک نکالی جائے گی۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دو روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی سے قبل لاہورزمان پارک والی رہائشگاہ سے روانگی سے قبل قوم کے لیے خصوصی ویڈیو بیان میں آج ہفتہ 6 مئی کو 4 شہروں اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاورمیں ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا تھا۔
عمران خان نے قوم سے درخواست کی تھی کہ چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کے لیے سب لوگ آج شام ساڑھے 5 بجے اپنے محلوں ، گاؤں میں ایک گھنٹے کیلئے باہرنکلیں۔
سابق گورنر سندھ اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب میں الیکشن نہ ہوئے تو وزیراعظم شہباز شریف اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نااہل ہوجائیں گے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں بات کرتے ہوئے عمران اسماعیل نے کہا کہ ایم یو ایم کے فروغ نسیم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے ریفرنس تیار کیا اور اسے دائر کرنے کے لئے عمران خان کو قائل کیا تھا جب کہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ فروغ نسیم کے پیچھے بھی کوئی تھا۔
ایک سوال کے جواب میں عمران اسماعیل نے کہا کہ فروغ نسیم کو کلین چِٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ عدلیہ کے خلاف جو سسٹم بنا رہے تھے میری اس پر نظر تھی اور میں عمران خان کو کہتا رہا یہ کہیں اور سے لائن لے رہے ہیں، اسی پر میں نے ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا۔
سابق گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم عمران خان کو یقین دلایا کرتے تھے کہ ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں، وہ پی ٹی آئی کے وزیر اور سینیٹر ہیں۔
پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے عمران اسماعیل نے کہا کہ انتخابات اب مشکل لگ رہے ہیں اور اگر الیکشن نہیں ہوئے تو وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر نااہل ہو جائیں گے جب کہ سپریم کورٹ کی بات نہ ماننے پر آرٹیکل 6 بھی لگ سکتا ہے۔
حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات پر ان کا کہنا تھا کہ ہم بیک وقت انتخابات کرانے پر رضامندی ظاہر کی تھی، ہم نے ترمیم کے لئے قومی اسمبلی میں واپسی اور الیکشن کرائے کے لئے فوری امبلی توڑ دیں، صرف 40 سے 50 دن کا فرق تھا لیکن پی ڈی ایم نے مذاکرات میں لچک نہیں دکھائی۔
عمران خان سمجھتے ہیں ان کی جیب میں ایک پسٹل ہے جسے وہ استعمال کرنا چاہتے ہیں، نوید قمر
اس موقع پر وفاقی وزیر تجارت اور رہنما پیپلز پارٹی سید نوید قمر نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں ان کی جیب میں ایک پسٹل ہے جسے وہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں زیر سماعت انتخابات سے متعلق کیس پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ معاملہ مذاکرات سے ہی راستہ نکل سکتا ہے، تحریک انصاف صرف آئین کی شق پر زور دے رہی ہے جب کہ بیک وقت انتخابات بھی الیکشن ایکٹ 2017 کا حصہ ہے۔
عدالت حکومت سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست چاہتی ہے، احمد بلال محبوب
پروگرام روبرو میں صدر پلڈات احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ 14 مئی کا حکم برقرار ہے، جسے سپریم کورٹ کی جانب سے بار بار یاد دلانے کے پیچھے کوئی مقصد ہوگا، عدالت حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست چاہتی ہے تاکہ 14 مئی کا فیصلہ تبدیل کیا جاسکے۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ ہوسکتا ہے سپریم کورٹ نے جلد بازی میں 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم نامہ جاری کیا، بعد ازاں سکیورٹی فورسز کے حکام نے عدلیہ کو بریفنگ دی اور پھر عدلیہ نے سماعت میں سنگین صورتحال ہونے کا اعتراف کیا تھا۔
لاہور: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے فرح گوگی کے ریڈ وارنٹ کے لئے انٹرپول کو خط لکھ دیا ہے۔
ایف آئی اے میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح خان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے انٹرپول کے ذریعے فرح خان کو گرفتار کر کے پاکستان لانے کا فیصلہ کر لیا اور اس ضمن میں فرح خان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لئے انٹرپول سے رابطہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے ریڈ وارنٹ کے لئے انٹرپول کو درخواست دے دی ہے، ریڈ وارنٹ جاری ہوئے تو فرح خان کی گرفتاری عمل میں لائے گی۔
واضح رہے کہ عدالت فرح خان کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ فرح خان تحقیقات سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہیں، جنہوں نے غیر قانونی سیاسی اثر و رسوخ سے اربوں روپےکمائے اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔
ذرائع ایف آئی اے نے کہا کہ فرح خان نے منی لانڈرنگ کے ذریع ےاثاثہ جات بنائے، انہوں نے سرکاری افسران پر دباؤ ڈال کر غیر قانونی ٹھیکے لئے اور ٹھیکے ایوارڈ کروانے کے لئے کروڑوں روپے کی رشوت بھی لی۔
پنجاب پولیس کی جے آئی ٹی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا بیان ریکارڈ کر لیا، پنجاب فرانزک اور کرائم سین یونٹ نے بھی جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کئے۔
عمران خان کے خلاف ہنگامہ آرائی کار سرکار میں مداخلت سمیت دیگر الزامات میں درج دس مقدمات کی تحقیقات کے لئے ایس ایس پی عمران کشور کی قیادت میں پنجاب پولیس کی جے آئی ٹی زمان پارک پہنچی۔
جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو زمان پارک کے داخلے کی اجازت دی گئی، جے آئی ٹی نے ایک گھنٹہ پچاس منٹ تک تفتیش اور شواہد اکٹھے کرنے کا عمل جاری رکھا۔
ٹیم نے چیئرمیں تحریک انصاف عمران خان سے پچاس سے زائد سوالات کئے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ نے تفشیش کے بعد میڈیا کے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔
عمران خان کے چیف آف اسٹاف شبلی فراز نے میڈیا کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج کے فیصلے پر جے آئی ٹی بنی، جس میں پولیس، آئی بی اور آئی ایس آئی کے لوگ شامل ہیں۔ جے آئی ٹی نے چیئرمین پی ٹی آئی سے جو بھی سوالات کئے، ان کے جواب دیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ججز پر حملہ کرنا مسلم لیگ ن کا وطیرہ بن گیا ہے۔ الیکشن سے بچنے کیلئے انہوں نے چیف جسٹس کو نشانے پر رکھا ہے۔ اس وقت ڈرا نے دھمکانے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے، ہمارے دور اقتدار میں ان کے لانگ مارچ تھے ہم نے ایک ایف آئی آر درج نہیں کی۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ عمران خان عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اس لیے بیماری کے باوجود جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ ہم نے بڑے جلسے کئے لیکن ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا۔ تحریک انصاف تمام صوبوں کی جماعت ہے، ہم جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں اور آئین میں جو لکھا ہے اس کے مطابق چیزیں چلنی چاہئیں۔
تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ ہائیکورٹ کے حکم پر پولیس نے رابطہ کیا اور ہم نے ان کو عزت اور احترام کے ساتھ زمان پارک کی رسائی دی۔ جن مقدمات میں پولیس تفتیش کیلئے آئی ان میں سے تین میں وہ ہماری ملزم ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ عدالت ہو یا جے آئی ٹی عمران خان خود پیش ہو رہے ہیں ہم آئین کی جنگ لڑ رہے ہیں ہفتے کو آئین بچاؤ ریلیاں نکالیں گے۔
زمان پارک میں جے آئی ٹی کی جانب سےعمران خان سے پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات کی تفصیلات سامنے آگئیں۔
سوال:۔ کیا 8 مارچ کو معلوم تھا کہ دفعہ 144 کا نفاز ہوچکا ؟
جواب:- میڈیا بلیک آؤٹ تھا مجھے سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ دفعہ 144 نافذ ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا سے پتہ چلا تو حماد اظہر کو ریلی ملتوی کے اعلان کی ہدایت کی۔
سوال:۔ آپ کو ظل شاہ کی موت کا کیسے پتہ چلا ؟
جواب:۔ یاسمین راشد نے بتایا کہ ظل شاہ کی لاش فٹ پاتھ سے ملی ہے، ظل شاہ کو پولیس حراست میں مارا گیا ہے۔
سوال:ـ راجہ شکیل اور اسکے ڈرائیور کو جانتے ہیں ؟
جواب:ـ میں کسی کو نہیں جانتا مجھے نہیں پتہ اسکا ڈرائیور کون ہے۔
سوال:۔ 14 مارچ کو پولیس نوٹس لے کر آئی آپ کو پتہ تھا ؟
جواب:ـ میں گھر میں تھا، کیا اندازہ ہوسکتا ہے باہر کیا ہورہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے عدلیہ سے اظہار یکجہتی کے لئے کل ریلی نکالنے کی اجازت کےلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں بتایا گیا ہے کہ این او سی کے لیے ڈی سی سے رجوع کیا گیا مگر انہوں نے انکار کردیا، ڈپٹی کمشنر کو ریلی کا این او سی جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں زیرو پوائنٹ سے ایف نائن پارک تک ریلی کی اجازت دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے پرامن کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔
عدالت سے ریلی کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
دوسری جانب میڈیا سے گفتگو میں اسد عمر نے کہا کہ پورے ملک کے لوگ سپریم کورٹ اور آئین کیساتھ کھڑے ہیں۔
مزید کہا کہ ہم آئین سے اظہار یکجہتی کے لیے پرامن ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی جارہی ،یہ کونسا آئین اور کونسی جمہوریت ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو گرفتار نہ کرنے کے حکم میں 8 مئی تک توسیع کردی ہے۔
عثمان بزدار کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات سےمتعلق سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے کی جہاں عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو گرفتار نہ کرنے کے حکم میں 8 مئی تک توسیع کی ہے۔
عدالت نے سرکاری وکیل کی عثمان بزدار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم واپس لینے کی استدعا مسترد کی۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی ہر کیس میں گرفتاری کیوں درکار ہوتی ہے۔
جسٹس طارق سلیم نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ پرویز الٰہی کے گھر پر جو کچھ ہوا اس کے بعد آپ کو اپنی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے، پیر تک گرفتار نہیں ہونگے تو کچھ فرق نہیں پڑتا، ان کا ویک اینڈ اچھا گزر جائے گا۔
وکیل عثمان بزدار نے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ آئے روز چھاپے مارے جارہے ہیں مقدمات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے، اینٹی کرپشن اور پولیس کی جانب سے ہفتے اور اتوار کو مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں، لوگ اپنے گھروں میں جا نہیں سکتے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ شامل تفتیش ہوئے ہیں؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ عثمان بزدار ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
عدالت نے کہا کہ آپ وزیر اعٰلی رہے ہونگے مگر یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔ عثمان بزدار نے کہا کہ مجھے جب بلایا گیا تب کرونا میں مبتلا تھا کل بھی تین گھنٹے اینٹی کرپشن میں موجود رہا بتایا گیا کہ کوئی کوئی کیس نہیں ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب میں پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی ہم منصب کی جانب سے سرحد پار سے دہشتگردی سے متعلق بیان پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے دہشت گردی کو ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے علاقائی ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کو سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کریں۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے عوام کی اجتماعی حفاظت ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگربڑی طاقتیں امن ساز کردار ادا کریں تو ہم اہنے خطے کے لوگوں کیلئے وسیع ترتعاون، اقتصادی مواقع اور علاقائی انضمام کی راہ ہموارکرتے ہوئے امن کے امکانات لاسکتے ہیں۔ سفارتی پوائنٹ سکورنگ کے لیے دہشت گردی کو ہتھیار بنانے میں نہ پھنسیں۔
بلاول کے بیان کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے آفیشل ٹوئٹرہینڈل پر شیئر کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کے منافی ہیں۔
بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019مین مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد پاکستان نے اپنے روایتی حریف کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔
قبل ازیں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے افتتاحی اجلاس سے اپنے خطاب میں سرحد پاردہشت گردی کے مسئلے کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور اسے سرحد پار دہشت گردی سمیت اس کی تمام شکلوں اور مظاہر میں روکا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ جب دنیا کووڈ اور اس کے نتائج کا سامنا کرنے میں مصروف ہے تو دہشت گردی کی لعنت بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ہندوستان ٹائمز نے بھارتی وزیر خارجہ کے حوالے سے کہا کہ اس خطرے سے نظریں ہٹانا ہمارے سلامتی کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
جے شنکر نے مزید کہا کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ انہوں نے افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کرنے پر زور دیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے افغانستان کی صورتحال پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف علاقائی انضمام اور اقتصادی تعاون بلکہ عالمی امن و استحکام کی بھی کنجی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے علاقائی رابط بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ SCO یوریشین کنیکٹیوٹی کa وژن اگلی سطح پر لے جانے کے لئے کلیدی پلیٹ فارم ثابت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو جو اہمیت دیتا ہے اس کا گوا میں میری موجودگی سے زیادہ طاقتور اشارہ کچھ نہیں ہوسکتا۔
وزیر خارجہ نے ’شنگھائی اسپرٹ‘ میں شامل باہمی اعتماد اور مشترکہ ترقی کے اصولوں پر پاکستان کے معاہدوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان باہمی اعتماد اور مشترکہ ترقی کے اصولوں پر مکمل عمل پیرا ہے۔
بلاول بھٹو نے موسمیاتی بحران کے خلاف مشترکہ کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانیت کے وجود کے لئے ایک خطرہ ہے۔
اس سے قبل بھارتی شہرگوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو کی آمد پر بھارتی وزیر خارجہ سبرا مینم جے شنکر نے ان کا استقبال کیا۔
اجلاس کے بعد جولائی میں ہونے والے SCO سربراہان مملکت اجلاس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ شام اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا اور فوڈ سیکیورٹی، توانائی اور عوامی سطح پر رابطوں کو مزید گہرا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم روس کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی کی نئی راہیں کھولتی ہے۔
روسی ہم منصب کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری نے ازبکستان کے وزیر خارجہ بختیار سعیدوف سے بھی ملاقات کی۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیاگیا، اس کے علاوہ اقتصادی تعلقات اور علاقائی رابطوں کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ژانگ منگ نے بھی پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ بلاول بھٹو نے انہیں شنگھائی تعاون تنظیم کی قیادت کے وژن کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق ژانگ منگ نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی مسلسل حمایت پر وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے، رابطے، امن اور خوشحالی کے لیے وزیر خارجہ کے تعمیری کردار کو سراہا۔
کانفرنس میں دیگر وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات کرنے والے بلاول کا کہنا ہے کہ ان کا دورہ بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر پر پاکستان کے پختہ عزم کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
گزشتہ روز گوا پہنچنے پر بھارتی حکام نے بلاول کا استقبال کیا تھا۔ ان کے ہمراہ اسد مجید خان، ممتاز زہرہ بلوچ، الیاس نظامی اور دیگرپر مشتمل ایک وفد بھی ہے۔
گوا میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بلاول نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزرائے خارجہ کانفرنس کی کامیابی کے لیے پُرامید ہیں۔
بھارت 4 سے 5 مئی تک ہونے والی 2001 میں قائم کی جانے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا میزبان ہے۔ SCO ایک علاقائی سیاسی اور سیکورٹی بلاک ہے جس کے ارکان میں روس،چین، بھارت, پاکستان ، سری لنکا ، کرٖغزستان، ازبکستان اور تاجکستان شامل ہیں۔
بلاول نے مزید کہا کہ اپنے دورے کے دوران دوست ممالک کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ تعمیری بات چیت کا منتظر ہوں۔
یہ 2011 کے بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ بھارت ہے۔بین الاقوامی میڈیا پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو بھارت کے ساتھ مصالحتی عمل شروع کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان دونوں میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ماہرین کو دونوں ممالک کے تعلقات میں برف پگھلنے کا کوئی امکان فی الحاال نظرنہیں آرہا۔
مزید برآں، پاکستان کی حکومت کشمیر پالیسیوں اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک کی وجہ سے ھارتی انتظامیہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر سنگین سیاسی نقصان کا خطرہ مول لے گی۔ اس لیے خارجہ پالیسی بلاول کے دورے کو پاکستان کے لیے ایک علاقائی ضرورت کے طور پر دیکھتی ہے نہ کہ دو طرفہ۔
ذرائع ابلاغ کا ماننا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے اسلام آباد کو تنظیم میں اپنا اثر و رسوخ کھونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شرکت بذریعہ ویڈیو لنک کی جاسکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو کے ذ ریعہ شرکت ممکن تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مودی سے محبت کرنے والےکشمیر میں کیے جانے والے مظالم اور مودی جنتا کو خوش کرنے کے لیے بھارت کے مسلمانوں اور اقلیتوں کو درپیش مشکلات کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں۔
شیریں مزاری نے بھی طنزیہ ٹویٹ میں کہا کہ امپورٹڈ وزیر خارجہ گوا جانے کے لیے بے چین ہیں۔
ملک میں ایک ہی روزانتخابات کیس میں حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی سے مذاکرات سے متعلق جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔
سپریم کورٹ میں جواب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کےسربراہ اسحاق ڈارنے اٹارنی جنرل کی وساطت سے جمع کرایا۔
حکومتی اتحاد کی جانب سے جمع کروائے جانے والے جواب میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک میں ایک تاریخ کوالیکشن کرانےپرمتفق ہیں۔
حکومت کے مطابق ملکی مفاد میں مذاکرات کاعمل بحال کرنےکوتیارہیں۔ پی ٹی آئی نے ملک بھر میں ایک ہی تاریخ کو الیکشن کرانے پراتفاق کیا۔انتخابات کے معاملےپرفریقین میں مذاکرات پرمثبت پیشرفت ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کواپنے جواب میں حکومت مزید بتایا کہ اس تاریخ پراتفاق نہیں ہوسکا کہ قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیاں کب تحیل کی جائیں۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں لچک دکھائی، مذاکرات میں اسمبلیوں کووقت سے پہلے تحلیل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف آج لندن میں دولت مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
یاد رہے کہ وہ بدھ کے روز ایک ہفتے کے غیر ملکی دورے پر برطانوی دارالحکومت لندن پہنچے تھے، وفد کے ہمراہ پہنچنے پر پاکستانی ہائی کمشنراور برطانوی وزیرخارجہ کے خصوصی نمائندے نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔
پی ایم ہاؤس کے اعلامیہ کے مطابق برطانیہ میں 7روزہ قیام کے دوران وزیراعظم برطانوی حکومت کی دعوت پر برطانوی بادشاہ کی تاج پوشی اور شاہی تقریب میں شریک سربراہان مملکت کی دعوت میں شرکت کریں گے۔
دوسری جانب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمان اور دوسرے ادارے مل کر پاکستان کی خدمت کریں، اسی میں ملک کی بقا اور عوام کی خوشحالی کا راز ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پارلیمان کے آئینی حق کو چھیڑا نہیں جا سکتا، دوہرا معیار کسی بھی معاشرے کے لیے سود مند نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم نے شکوہ کیا کہ ماضی میں اپوزیشن کو جعلی مقدمات میں جیل بھجوایا گیا، کسی کی ہمشیرہ کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج منٹوں میں درجنوں ضمانتیں ہو جاتی ہیں، یہ دہرا معیار ہے جسے کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ آئین کی بالادستی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ دیتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں 10 مئی کو طلب کر لیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کی، اس دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سیشن عدالت توشہ خانہ کیس کی براہ راست سماعت نہیں کرسکتی۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 190 سیکشن کے تحت کیس بھیجا جائے تو سیشن عدالت کیس سن سکتی ہے، درخواست گزار ڈسٹرکٹ الیکشنز کمشنر کی جانب سے شکایت دائر کرنے کا قانونی طریقہ کار درست نہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی مرضی ہے دائرہ اختیار کی درخواست کو خارج کردے ہم دوسری درخواست پر بحث کر لیں گے، ہم کیس کا سامنا کرنے آئے ہیں، ہم پر احسان نہ کریں۔
جج نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے عمران خان کو پیش کرنے کا نہیں کہا، کیا یہ کافی نہیں کہ ملزم عدالت میں موجود نہیں اور عدالت آپ کو سن رہی ہے، ایک ہی آرڈر میں دونوں درخواستوں کا فیصلہ کریں گے۔
عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن قوانین کے حوالے سے کوئی بھی عدالتی فیصلہ اس عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، الیکشن قوانین کے تحت سیشن عدالت اس کیس کا ٹرائل کر سکتی ہے۔
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے اسپیکر کے ریفرنس پر کارروائی کی، عمران خان نے جان بوجھ کر اثاثوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔ بعد ازاں عدالت نے توشہ خانہ کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 10 مئی کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائے گی، لہٰذا عمران خان 10 مئی کو عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
ملک بھرمیں ایک ہی دن انتخابات کروانے کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوئے توعدالت فیصلے کو لےکر بیٹھی نہیں رہےگی،عدالت نے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حکومت عدالتی احکامات پرعملدرآمدکرنےکی پابندہے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے تو اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔ حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔
یف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،دیگر دو ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس منیب اختر شامل تھے۔
سماعت سے قبل حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا ۔
سماعت کے آغاز پرپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے آج صبح پی ٹی آئی سے مذاکرات پر حکومتی اتحاد کی جانب سے جمع کروایا گیاپڑھ کر سنایا۔
فاروق نائیک نے بتایاکہ مذاکرات میں چیئرمین سینیٹ نےسہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کےنامزدممبران نے مذاکرات مین شرکت کی، مذاکراتی کمیٹی نے پانچ اجلاس کیے۔ مذاکرات میں تاریخ اورمہینہ ابھی طے ہونا ہیں ۔ملکی معیشت2017سے بہترپوزیشن میں نہیں، پاورسیکٹر میں سرکولرڈیٹ کا اضافہ ہوا جبکہ اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ 2022 کے سیلاب نے کئی لاکھ ڈالرز کا نقصان کیا اور موجودہ معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مذاکرات میں ایک ہی دن الیکشن کرانے پراتفاق ہواہے تاہم اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا لیکن حکومت ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے پر تیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ وزیر خزانہ کے دستخط سے جمع ہوئی ہے، سیاسی مساٸل کو سیاسی قیادت حل کرے۔ عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں اور سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدہ پر زور دیاگیا، آئی ایم ایف معاہدہ اورٹریڈپالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بجٹ صرف قومی اسمبلی پاس ہی کرسکتی ہے اور اگرصوبائی حکومتیں ختم نہ ہوتی تومسئلہ نہ ہوتا۔ بجٹ کیلئےآئی ایم ایف کاقرض ملنا ضروری ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائرمیں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟اس ہر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنمے ریمارکس میں مزید کہا کہ کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دیں گے۔ کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟۔
انہوں نے واضح کیا کہ آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اورعدالت اس حوالے سے اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے۔ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، اگر مذاکرات ناکام ہوئےتو عدالت فیصلے کو لیکر بیٹھی نہیں رہے گی ، عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کا مزید کہنا تھا کہ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا۔ عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا۔غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ نہیں کرتے۔ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو جائزہ لیں،جو بات یہاں ہورہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو90 روز میں الیکشن کے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا،انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں۔ یہ تمام نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے اور آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔
جواب میں فاروق ایچ نائیک بولے، ’ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا۔ آپ نے کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، چار تین کی بحث میں لگے رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ آج بھی کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔
چیف جسٹس نے اتحادی حکومت پر اظہار برہمی دکھاتے ہوئے کہا کہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے ابھی تک نظرثانی اپیل تک دائر نہیں کی۔ حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے، ہم نے اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے۔ معاشی و سیاسی، معاشرتی، سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ آئینی بحران بھی ہے۔ اگرسیاستدانوں کواپنےحال پر چھوڑدیں توآئین کہاں جائےگا،کل ہم نے 6 فوجی جوان کھوئے،ملک کی خاطر بہت بڑی قربانیاں دی جارہی ہیں۔معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کروائیں۔
فاروق ایچ نائیک نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ 6 نہیں 8جوان شہید ہوئےاوراساتذہ کو بھی مارا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہوگا، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرالے ؟ سپریم صرف اللہ کی ذات ہے،حکومت عدالتی احکامات پرعملدرآمد کرنےکی پابندہے۔ عدالت تحمل مظاہرہ کررہی ہے،کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم قانون پر عملدرآمد کیلئے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، جوانوں نےقربانیاں دی ہیں ہم بھی قربانیاں دینے کیلئے تیارہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کروانے پر اتفاق کرتے ہوئے شرط رکھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں۔ دوسری شرط تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کروائے جائیں۔ تیسری شرط تھی کہ انتخابات میں تاخیر کو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔ تحریک انصاف نے 14 مٸی کو انتخابات کے حکم پرعملدرآمد کی استدعا کر دی ہے۔ عدالت اپنے حکم پرعملدرآمد کرواتے ہوئے فیصلہ نمٹا دے۔
تحریک انصاف کے وکیل نے مزید کہا کہ حکومت نے 14 مٸی انتخابات کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست داٸر نہیں کی۔ فاروق ناٸیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہیں۔ آٸین سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔14مئی چند دن بعد ہے لیکن فنڈز جاری نہیں ہوئے، نظریہ ضرورت کی وجہ سےالیکشن مزیدتاخیرکاشکارنہیں کرسکتے۔ فاروق ناٸیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیرمتعلقہ ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ناٸیک نے عدالت کو صرف مشکلات سے آگاہ کیا۔
دوران سماعت وفاقی وزیر ریلوے اورلیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے حکومت کا مؤقف عدالت کے سامنے رکھا۔ روسٹرم پرآنے کے بعد چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا، “ خوش آمدید خواجہ سعد رفیق صاحب“۔
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وکیل نہیں ہوں اس لیے عدالت میں بات کرنےکاسلیقہ نہیں جو کہوں گا سچ کہوں گا،سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ ماداروں اورسیاسی جماعتوں کےدرمیان عدم اعتماد بہت گہراہے، 2017سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی۔
حکومتی موقف بیان کرنے والے سعد رفیق نے کہا کہ کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا، اس کے متحمل کیسے ہوسکتے ہیں؟ مذاکرات کے دوران بہت کچھ سننا پڑا، آئین90دن کےساتھ شفافیت کابھی تقاضہ کرتا ہے،پنجاب پرالزام لگتا ہے کہ یہی حکومت کافیصلہ کرتاہے۔ الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا ہے،آئین کے تقاضوں کو ملا کر ایک ہی دن الیکشن ہوں، صرف ایک صوبے میں الیکشن ہواتوتباہی لائے گا۔
سعد رفیق نے کہا کہ سیلاب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر انتخابات میں تاخیر ہوئی۔ کئی ماہ سے 63 اے والا نظرثانی کیس زیر التواہے۔ اس ہر چیف جسٹس نے بتایا کہ، “ 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقررہو رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں۔مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے،سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں۔دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کے لیے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے، میری تجویز ہے کہ یہ جاری رکھنے چاہئیں ، عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک جمہوری پارٹی ہیں، جمہوریت کے ذریعے ہی اقتدار لیناچاہتے ہوں گے یا اپوزیشن۔ آج آپ کی طرف سے آج سنجیدہ باتیں ہوٸی ہیں اور یہی باتیں ہمیں لکھ کر دی جاسکتی تھیں۔
چیف جسٹس نے اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق استفسارکرتے ہوئے کہا کہ ہم سن رہےتھےکہ بجٹ مئی میں بھی پیش کیاجاسکتاہے۔
اس پر سعد رفیق کا کہنا تھا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا، نہ پہلےوالامارشل لاءہے نہ گزشتہ دورکانقاب پوش مارشل لاءہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے،حالات سازگار نہیں، بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہورہےہیں۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے، پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے،لکھ کرنہیں دی گئی۔ عدالت کےسامنےصرف فنڈزاور سیکیورٹی کامعاملہ اٹھایاگیا، کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نیک بیتی دکھانے کیلیے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں، سیکیورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی، 8اکتوبر تک سیکیورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی۔ صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے، 12 اگست کواسمبلی تحلیل ہوتی ہےتو12اکتوبرتک الیکشن ہوں گے۔ بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس نے سعد رفیق سے کہا، ’خواجہ صاحب آپ کی باتوں میں ہی وزن لگ رہا ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے، ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں۔
اس پر سعد رفیق نے کہا کہ سوموٹو کےنتیجےمیں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی، عدالت خود بھی اس نقطے پر غور کرسکتی ہے۔
چیف جسٹ نے سعد رفیق سے کہا کہ، “آپ کےعلاوہ کوئی سنجیدہ نقطہ اٹھانانہیں چاہتا، ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے،دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہئیے۔ آپ کا اتفاق رائے ہوجائےتوامتحان سے نکل سکتے ہیں اللہ نے امتحان مقررکیا ہےتو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
جواب میں سعد رفیق نے کہا کہ بات 2اور ہفتوں کی رہ گئی ہے،باتوں کیلئے بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا اور ایسا نہ ہو ہم باتیں کرتے رہ جائیں۔ مذاکرات جاری رہیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کا موقف سننے کے بعد چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کارروائی سے متعلق مناسب حکم جاری کرے گی۔
سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کیلئے اٹارنی جنرل سمیت دیگرفریقین کونوٹس جاری کررکھا تھا، اس کیس میں الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو انتخابات کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست دائرکررکھی ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے 27 اپریل کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم جاری کیا تھا، تین صحفات پرمشتمل تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی ہدایت نہیں کی، یہ ان کی اپنی کوشش ہے۔ عدالت کی جانب سے 14 مئی کوانتخابات کرانےکاحکم برقرار ہے۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطوں اور فاروق نائیک نے چیئرمین سینیٹ کے کردارسے عدالت کو آگاہ کیا۔
گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کہہ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے حوالے سے معاملات طے کر لیں، بصورت دیگر آئینی طور پر ہمارے پاس 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ واپس لینے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت مذاکرات پرمجبور نہیں کرسکتی صرف آئین پرعمل چاہتی ہے، سیاسی جماعتیں آئین کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، یہ صرف ایک تجویز ہے۔ قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو پھر جیسا ہے ویسا ہی چلےگا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کے درمیان اب تک تین مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں، اسحاق ڈار کے بقول حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ایک ہی روز الیکشن پراتفاق ہو چکا ہے۔ تاہم الیکشن کی تاریخ پر تاحال ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
تحریک انصاف نے مذاکرات سے متعلق رپورٹ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جبکہ حکومتی اتحاد پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے متعلق اپنا جواب آج جمع کروایا ہے۔
سپریم کورٹ میں جواب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کےسربراہ اسحاق ڈارنے اٹارنی جنرل کی وساطت سے جمع کرایا۔
حکومتی اتحاد کی جانب سے جمع کروائے جانے والے جواب میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک میں ایک تاریخ کوالیکشن کرانےپرمتفق ہیں۔ پی ٹی آئی نے ملک بھر میں ایک ہی تاریخ کو الیکشن کرانے پراتفاق کیا۔اس تاریخ پراتفاق نہیں ہوسکا کہ قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیاں کب تحیل کی جائیں۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں لچک دکھائی،مذاکرات میں اسمبلیوں کووقت سے پہلے تحلیل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔