روسی خام تیل کا پہلا کارگو پاکستان پہنچنے کا امکان، امریکہ اعتراض کرے گا؟
پاکستان کی جانب سے روس کو سستے تیل کا ٹیسٹ کارگو آرڈر کئے جانے کے بعد روسی خام تیل کا پہلا کارگو 24 مئی تک پاکستان پہنچنے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان ضرورت کا 30 فیصد تیل روس سے خریدے گا، جو کہ عالمی مارکیٹ سے 35 فیصد تک کم قیمت میں ملنے کا امکان ہے۔
اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان کراچی بندرگاہ پر ایک کارگو مئی میں پہنچانے کا معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت رعایتی روسی خام تیل کے لیے پہلا آرڈر دیا گیا۔
وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا تھا کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان صرف خام تیل خریدے گا، ریفائنڈ ایندھن نہیں۔ اور توقع ہے کہ اگر پہلا لین دین آسانی سے ہوتا ہے تو درآمدات ایک لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ جائیں گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) ابتدائی طور پر روسی خام تیل کو ریفائن کرے گی، جس میں دیگر ریفائنریوں کو بعد میں ٹرائل رن کے بعد شامل کیا جائے گا۔
روس کے وزیر توانائی نکولے شولگینوف کی زیر قیاست ایک وفد جنوری میں اس معاہدے پر بات چیت کے لیے اسلام آباد آیا تھا، جس کے بعد انہوں نے روسی وزیر توانائی نے کہا تھا کہ پاکستان کو تیل کی برآمد مارچ کے بعد شروع ہو سکتی ہے۔
اس وقت شولگینوف نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان خام تیل کی خریداری دوست ممالک کی کرنسیوں میں کرے گا۔
انہوں نے اس وقت پاکستان کے اقتصادی امور کے وزیر ایاز صادق کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ”ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ادائیگیاں دوست ممالک کی کرنسیوں میں کی جائیں گی۔“
انہوں نے ’دوست ممالک‘ کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی دونوں وزراء نے منصوبہ بند خریداریوں کے سائز کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔
دوسری جانب امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تیل کا حالیہ معاہدہ ایک ”خودمختار فیصلہ“ ہے کیونکہ امریکہ ماسکو کو ”توانائی کی منڈی سے“ نکالنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
روس سے پاکستان کی تیل کی خریداری پر ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ ہر ملک اپنی توانائی کی فراہمی سے متعلق اپنے خود مختار فیصلے کرنے جا رہا ہے۔
ویدانت پٹیل نے منگل کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ”جی 7 کے ذریعے ریاست ہائے متحدہ امریکہ قیمت کی حد کا ایک بڑا حامی رہا ہے، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ روسی توانائی کو مارکیٹ سے دور رکھنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سپلائی کی مانگ ہے۔“
ویدانت پٹیل نے مزید کہا کہ ”لیکن ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ روسی توانائی کی منڈیاں پوٹن کی جنگی مشین کے لیے تباہی کا باعث نہ بنیں۔“
گزشتہ سال پاکستان نے بھی اپنے حکام کو روس بھیجا تھا، جس کے بعد مصدق ملک نے اطلاع دی تھی کہ ماسکو رعایتی نرخوں پر خام تیل فروخت کرے گا۔
پاکستان کے درآمدی بل کا سب سے بڑا حصہ تیل اور توانائی ہے اور ملک غیر ملکی ذخائر میں کمی کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے نبرد آزما ہے۔
پاکستان روایتی طور پر اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے خلیج پر انحصار کرتا رہا ہے، لیکن روس یوکرین جنگ اور ایندھن کی بلند قیمت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی مخدوش مالی صورتحال نے حکام کو سستے متبادل کی تلاش میں ماسکو کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔
Comments are closed on this story.