Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

فیصلے سے واپسی ناممکن، حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے، سپریم کورٹ

سیاسی جماعتوں کی سینٸر لیڈر شپ سپریم کورٹ طلب
اپ ڈیٹ 19 اپريل 2023 11:55pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

عدالت عظمیٰ نے وزارت دفاع کی دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی جب کہ سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو بھی نوٹس جاری کر دیٸے۔

سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے داٸر درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کی، جب کہ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

پنجاب اور کے پی فنڈز سے متعلق سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کے لیے وفاقی حکومت کو 27 اپریل تک فنڈز جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، فنڈز ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی نافرمانی کے سنگین نتائج ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لئے دائر دو درخواستوں سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات سے متعلق ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ نے ملک میں عام انتخابات اور دو صوبائی انتخابات سے متعلق آج سماعت کے تحریری حکمنامے میں کہا کہ رخواست گزار کے وکیل نے موجودہ صورتحال میں سیاسی ڈائیلاگ کی بات کی ہے جو خوش آئند ہے، چار اپریل کو انتخابات سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے۔

عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی رائے دی ہے تاہم سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے ہی انتخابات کا عمل بہتر ہوگا، دوسرا کوئی راستہ سپریم کورٹ کے انتخابات کرانے کے فیصلے کو ختم نہیں کرسکتا۔

تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواستگزارکے مطابق سیاسی جماعتوں کا باہمی احترام ضروری ہے، 14مٸی کو انتخابات کے عدالتی حکم پر مزاحمت کا سامنا ہے، ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا تجربہ الگ الگ کرانے سے بہتر رہا، انتخابات سیاسی میدان میں سیاسی قوتوں کے درمیان لڑے جاتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں درخواست گزار کے اٹھاے گٸے نکات غور طلب ہیں، الیکشن اسی صورت بہتر ہوں گے جب سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل ہو، سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ایک اچھی تجویز ہے، جماعتیں سینٸر عہدیدار کو نماٸندہ مقرر کرکے عدالت بھیجیں۔

سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 4 اپریل کا فیصلہ واپس لیا جائے، یہ استدعا ناقابل سماعت ہے جس پر کوئی ریلف نہیں دیا جاسکتا ہے، وزارت دفاع کی جانب سے کی گئی استدعا عدالت قبول نہیں کرسکتی ہے جب کہ فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزرات خزانہ کی رپورٹ بھی ناقابل قبول قرار دی جاتی ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے موقف کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن عدالتی کارروائی کو دوبارہ سے نکتہ آغاز پر لانا چاہتی ہے، الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کی تاریخ بحال کرانے کی استدعا کی ہے، جن نکات پر پہلے فیصلہ ہوچکا ہے اسے دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

تین رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ عدالت کے احکامات کا مقصد آئین میں دی گئی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی یا نافرمانی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جب کہ آٸین کہتا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن ہوں۔ کیس کی سماعت جمعرات کو دوبارہ ہوگی۔

اس سے قبل وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں، وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھیں۔

اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر رپورٹ پڑھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد فنڈز کی منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔

پارلیمنٹ میں حکومت کی اکثریت پر سوالات

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکاجاسکتا ہے، وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہئے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ گرانٹ کی بعد میں منظوری لینا رسکی تھا۔

جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونا تھی، جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے، کیا کبھی گرانٹ کی منظوری میں حکومت کو شکست ہوئی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سال 2013 میں کٹوتی کی تحریکیں منظوری ہوچکی ہیں۔ جسٹسں منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی معاملے میں قرارداد منظوری کرچکی تھی۔

جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا قرارداد منظوری کے وقت گرانٹ منظوری کیلئے پیش کی تھی، وفاقی حکومت کی اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے، حکومت کی گرانٹ اسمبلی سےکیسے مسترد ہوسکتی ہے، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کاعلم ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس سوال کا جواب دیں پھرآگے چلیں گے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کوہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کرواسکتی تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گرانٹ جاری ہونے کے بعد منظوری نہ ملے تو اخراجات غیر آئینی ہوتے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ توقع ہے حکومت اپنے فیصلے رہ نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں، فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے، حکومت کوعدالتی احکامات پہنچا دیں۔

سپریم کورٹ نے فنڈز کی فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ سے دوبارہ جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے، 1987 سے 2018 تک کئی الیکشن ہوئے، سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے، 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے، 2007 میں بھی تو بے نظیربھٹو کی شہادت ہوئی تھی، 2013 میں بھی دہشت گردی تھی، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے کہ الیکشن نہیں ہوسکتے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام سیکیورٹی فورسز نے فرائض سرانجام دئیے تھے، اب 2 صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف دیا کہ آپریشنزمیں متعین ٹارگٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے، توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ برطانیہ میں جنگ کےدوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کےدوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوئے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مؤقف پیش کیا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، سال2001 سے سیکیورٹی ادارے سرحدوں پر مصروف ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کا کہا، عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو پیغام آپ دینا چاہ رہے ہیں وہ سمجھ گیا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہو جائیں گے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا 2018 کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے، حکومت آرٹیکل 245 کا اختیارکیوں استعمال نہیں کررہی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور 4 اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا، بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ میری درخواست پرڈی جی ملٹری آپریشنزنےبریفنگ دی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اصل تصویر سے آگاہ کیا، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے، انہوں نے بہت اچھی بریفنگ دی تھی، افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا، اس کیس میں فیصلہ سنا چکے ہیں واپس نہیں جاسکتے، عدالت اب آگے جائے گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آئین بالادست نہیں ہے، افواج نے ملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا کہ وسائل دیں الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، سنا ہے وزراء کہتے ہیں اکتوبرمیں بھی الیکشن مشکل ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کل بلاول بھٹو اور آج وزیراعظم سے ملا تھا، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، وزیرخارجہ آج مولانافضل الرحمان سے مل کر انہیں مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہبازشریف اور عمران خان سے ملے ہیں، اور دونوں فریقین نے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو گنجائش نکال سکتی ہیں، اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، 5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل

وزارت دفاع کے وکیل شاہ خاور نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد ضروری ہے، لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں، عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کیلئے درخواست دائر کی۔

شاہ خاور نے مؤقف پیش کیا کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہییں، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثرانداز ہوں گی۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ جب بحث ہورہی تھی تواٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر زور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے یہ مؤقف اپنانے سے روکا ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہوجائیں توآئیڈیل حالات ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے، آئین کے مطابق 90 دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں، آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں، عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا، حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے، سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں، نگراں حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

عدالت نے وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔ عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینٸر لیڈر شپ عدالت پیش ہو۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے۔

چیف جسٹس کا تحریک انصاف کے وکیل سے مکالمہ

عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے۔

فیصل چوہدری نے عدالت کو جواب دیا کہ ایک طرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق مذاکرات کے لئے زمان پارک آئے، تو دوسری طرف ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہو گیا۔

چیف جسٹس نے فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا، قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں۔

فیصل چوہدری نے چیف جسٹس سے کہا کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے فیصل چوہدری سے کہا کہ پارٹی قیادت سےہدایات لیکرعدالت کوآگاہ کریں۔

فیصل چوہدری نے ایک بار پھر مؤقف پیش کیا کہ ملک کا وزیر داخلہ ہر گھنٹے بعد عدالت کو دھمکیاں دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ 14مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے، کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں، سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے۔

وزارت دفاع کی درخواست

وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں۔ اس حوالے سے قومی ، سندھ اوربلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے دی جائے۔

وزارت دفاع کی جانب سے دائرسربمہردرخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کا حکم دیا جائے، ساتھ ہی سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کا حکم واپس لیتے ہوئے عدالت سندھ اور بلوچستان اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات کا حکم دے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ کہ دہشتگردوں اور شرپسندوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے۔ ملک میں جاری سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ 4 اپریل کا فیصلہ واپس لے۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو 17 اپریل تک انتخابی اخراجات کیلئے 21 ارب کے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا فنڈز فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم قومی اسمبلی نے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ منظور کرتے ہوئے فنڈز کے اجرا کی قرارداد مسترد کردی تھی۔

گزشتہ روز الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک نے پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی سے متعلق رپورٹس عدالتی حکم پرسپریم کورٹ میں جمع کروائی تھیں۔

وزارت خزانہ نے اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے رپورٹ جمع کرائی، لیکشن کمیشن کے حکام نے مؤقف تحریری طور پر جمع کرایا جبکہ اسٹیٹ بینک حکام کی جانب سے بھی تحریری رپورٹ جمع کرائی گئی۔

رپورٹس میں وفاقی کابینہ کے فیصلے اور پارلیمان کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات شامل ہیں، جب کہ عدالتی حکم پر اسٹیٹ بینک کو فراہم کردہ معاونت کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہے۔

Ministry of Defence

Supreme Court of Pakistan

Elections

Punjab Elections

Politics April 19 2023