Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
ماہر قانون اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حامد خان کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس وقت پارلیمنٹ جانا درست نہیں تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“میں بات کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ عام حالات میں ججز کا اسمبلی جانا مناسب ہوتا ہے، آج اگر چیف جسٹس جاتے تو جسٹس فائز عیسیٰ بھی جا سکتے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے حوالے سے حامد خان نے کہا کہ عدلیہ کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کا پارلیمنٹ میں اس وقت جانا درست نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت لگ رہا ہے کہ عدلیہ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، کسی کو نہیں معلوم اکثریت کس طرف ہے، آپس کی تقسیم نظر آرہی ہے، سوچ کے حوالے سے تقسیم ہو تو کوئی ہرج نہیں اور لگتا ہے دونوں دھڑے یکساں تقسیم ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ صدر مملکت کی دستخط سے قبل یہ ایک بل ہے، جب یہ قانون بن جائے گا پھر کسی بھی شخص کو آرٹیکل 8 کے تحت اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
ماہر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ سے متعلق بل عام حالات میں لاتے تو اچھا سمجھا جاتا، اس وقت کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لئے قانون سازی نہیں بلکہ عدلیہ کے اختیار کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لہٰذا اس معاملے پر عدالتی کارروائی ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں تقسیم اور پنجاب میں انتخابات پر ماہر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اپنی تقسیم خود ختم کرنی چاہئے، چیف جسٹس کو سب کو اکھٹے رکھنا ہوتا ہے، البتہ فل بینچ بنا دیتے تو اچھی بات تھی، شروع میں ہی فل کورٹ بن جاتی تو بات یہاں تک نہ پہنچتی۔
اس موقع پر سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ ججز کو عوامی فنکشن میں نہیں جانا چاہئے، پاکستان بار یا سپریم کورٹ بار کے زیر اہتمام تقاریب میں ججز جاتے ہیں۔
پنجاب میں انتخابات کے معاملے پر مظہر عباس نے کہا کہ عدلیہ کا کام الیکشن شیڈول دینا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت ہوگی تو وہ اس پر جواب دے سکتا ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے منیب فاروق نے کہا کہ میں جسٹس فائز عیسیٰ کے پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت پر کوئی اعتراض نہیں، البتہ فائز عیسیٰ کی تقریب سنی تو لگا کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں مزید بہتر تقریر کر سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیراعظم اور آصف زرداری کے برابر میں بٹھانا مناسب نہیں تھا، انہیں اجلاس کے میزبان کسی نیوٹرل مقام یا گیلری میں بٹھا سکتے تھے۔
پشاور: خیبر پختوںخوا کی نگراں کابینہ کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر صوبے میں انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے۔
پشاور میں نگراں کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں شرکاء نے الیکشن کمیشن کو صوبے میں انتخابات کے لئے مراسلہہ لکھنے کی منظوری دی۔
اجلاس میں الیکشن کمیشن کو موجودہ حالات میں صوبے میں انتخابات ممکن نہ ہونے سے آگاہ کرنے کے لیے خط لکھنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
کابینہ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمیں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے فنڈ نہیں، انتخابات کے لئے کہا سے دیں، کئی ایسے ادارے ہیں جن کے ملازمین کو ابھی تک تنخواہیں نہیں ملی۔
کابینہ نے صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ پولیس پر حملے ہو رہے ہیں، لہٰذا ان حالات میں انتخابات ممکن نہیں۔
سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے وزیراعظم سے بھی درخواست کی ہے کہ اپوزیشن سےمذاکرات کریں۔
آئین کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ 35 سالہ سیاسی تاریخ کا گواہ ہوں، میرے والد بھی اسی اسمبلی میں بیٹھے تھے، اور دستور پاکستان پر دستخط کئے تھے، لیکن ہمارے بزرگوں نے جو خواب دیکھا وہ پورا نہ ہوسکا، ذوالفقار بھٹو کو ڈی سیٹ کیا گیا۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، اور ہم ہی پاکستان بچائیں گے، ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، آئین کو کچھ نہیں ہوا، کسی کو آئین سے کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے، جاپان دیوالیہ ہوا، ارجنٹینا دیوالیہ ہوا لیکن آج وہ کہاں کھڑےہیں، دیوالیہ ہونے سے کچھ نہیں ہوگا، ایسی کوئی چیزنہیں جو پاکستان نہیں کرسکتا۔
سابق صدر نے کہا کہ دوستوں کو دشمن بنانے کی سازشیں ناکام ہوں گی، یہ پہلی دفعہ نہیں کہ کورٹ نے نوٹس دیا ہو، ہمارے دور میں کسی کی بیٹی، بہو کو جیل میں نہیں ڈالا گیا، میری بہن کو جیل میں ڈالا گیا اس وقت نوٹس کیوں نہیں ہوا، ہم نے کبھی مذہب کوسیاسی کیلئے استعمال نہیں کیا، میرے پاس راز ہیں، کچھ بتاسکتا ہوں اور کچھ نہیں، مجھے کالعدم تنظیموں کی جانب سےخطرات ہیں۔
آصف زرداری نے تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن آئے اور وزیراعظم سے مذاکرات کرے، اور وزیراعظم کو بھی درخواست کروں گا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں، لیکن مذاکرات سے پہلے کوئی شرائط نہ رکھی جائیں، ڈائیلاگ کی اتھارٹی وزیراعظم کے پاس ہے۔
سابق صدر نے بتایا کہ بی بی (بے نظیر بھٹو) نے کہا کہ میں مشرف سے کیسے بات کروں، انہوں نے کہا کہ میراخاوند جیل میں ہے، پھر انہوں نے امریکا سے بات کی، اور پھر عالمی طاقتوں نے مشرف کو اقتدار سے نکالا۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کچھ قوتیں جمہوریت کےخلاف سازشیں کررہی ہیں، اور ملک میں سلیکٹڈ راج قائم کیا گیا۔
آئین کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ 1947میں پاکستان بنا اور 10اپریل 1973 کو وفاقی جمہوری اسلامی آئین کی بنیاد رکھی گئی، اور آج ہم اس آئین کی گولڈن جوبلی منانے کیلئے یہاں موجود ہیں، پاکستان کا آئین وہ زنجیر ہے جو چاروں صوبوں کو جوڑتا ہے، تعلیمی نصاب میں یہ دن پڑھایا جانا چاہئے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا، سیاسی کارکنوں نے آئین کیلئے بڑی قربانیاں دیں، ہم نے 3 آمریتوں کا مقابلہ کیا، ضیاء الحق کی آمریت نے جمہوریت کی بنیادیں ہلادیں، بینظیر بھٹو نے جمہوریت کی بحالی کا سفر شروع کیا، اور 1973 کے آئین کی بحالی کیلئے30 سال جدوجہد کی۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ پرویزمشرف نے جو بیج بویا ہے وہ آج تک کاٹ رہے ہیں، ہم بحرانوں کا مقابلہ کرکے آگے بڑھے، کچھ قوتیں جمہوریت کے خلاف سازشیں کررہی ہیں، ملک میں سلیکٹڈ راج قائم کیا گیا، ملک کو ون یونٹ بنانے کی کوشش کی گئی، 18ویں ترمیم کےخلاف سازشیں ناکام بنائی گئیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ 2 جمع 2 کا جواب تین ہوتا ہے، جب کہ واضح طور پر فیصلہ 4،3 کا تھا، اس قسم کا مذاق آئین اور عدلیہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، یوم دستور پر چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ سیاسی سوچ کو پس پشت رکھ کر ججزصاحبان آپس میں بیٹھیں، اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ادارے کو بچائیں، ہر ادارے کو اپنے آئینی اختیارمیں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ ایسے بھی ججز گزرے ہیں جنہوں نےآئین کا تحفظ نہیں کیا، اور بہادر اور غیرت مند ججز بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک پر دوبارہ دہشت گردی مسلط کی، ہم پوری قوم اور سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں اور انہیں شکست دیں گے، ملک میں آئینی وجمہوری بحران ہے، جمہوری اورآئینی بحران کیلئےسیاسی جماعتوں کوبات چیت کرناہوگی، آئینی بحران سےنکلنےکاواحدحل مذاکرات ہیں۔
سینیٹ میں تمام انتخابات بیک وقت کرانے کی قرارداد منظور کرلی گئی۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ کا اجلاس جاری ہے، جس میں ملک میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے تمام انتخابات بیک وقت کرانے کی قرارداد پیش کی گئی، قراردادسینیٹر طاہر بزنجو نے پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرائے جائیں، معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے، تمام انتخابات بیک وقت ہونے ضروری ہیں۔
قرارداد کی منظوری کےخلاف اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، اور اپوزیشن اراکین نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا، اور شدید نعرے بازی کی۔
اپوزیشن لیڈر نے منظور قرارداد مسترد کردی
اپوزیشن لیڈر تحریک انصاف کے سینیٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ ایوان میں ڈاکا ڈالا گیا ہے، پنجاب الیکشن سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے، لیکن حکومت مسلسل توہین عدالت میں لگی ہوئی ہے، حکمرانوں نےعدلیہ پر حملہ کیا اب پارلیمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔
شہزادوسیم کا قرارداد دوبارہ پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سینیٹ میں منظور قرارداد مسترد کرتے ہیں، ہم واک آؤٹ پر تھےانہوں نے قرارداد منظورکرلی۔
سینیٹ کے اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ ایکٹ 2010 میں مزید ترمیم کا بل 2022 بھی منظور کرلیا گیا۔ بل سینیٹر سیمی ایزدی نے پیش کیا۔
وزیرخزانہ سینیٹراسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات اخراجات بل پیش کردیا۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے منی بل 2023 ایوان میں پیش کردیا، اور اسپیکر نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا۔
منی بل اس اعتبار سے عام قانون سے مختلف ہے کہ منظوری کی صورت میں صدر مملکت کے پاس اس بل کو روکنے کا اختیار نہیں اور انہیں دس دن کے اندر دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ جبکہ عام بل کو صدر مملکت نظرثانی کیلئے واپس بھیج سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹراسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کابینہ نےالیکشن اخراجات بل قومی اسمبلی میں لانے کا فیصلہ کیا، اب ایوان فیصلہ کرے کہ رقم الیکشن کمیشن کو فراہم کی جائے یا نہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 2017 میں گروتھ ریٹ 6 فیصد ہوچکا تھا، ملک میں مہنگائی کی شرح صرف2 فیصد تھی، نوازشریف کےدور میں ملک میں خوشحالی تھی۔ 2018 میں سلیکٹڈ حکومت کو لایا گیا، جس نے معیشت کو برباد کردیا، گزشتہ سال سلیکٹڈ حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا، سابقہ حکومت نے ملک کو دیوالیہ کردیا تھا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ منتخب حکومت کے سامنے سازشوں کے جال بچھا دیئےگئے، حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا تھا، اگلا مرحلہ ملک کو خوشحال بنانا ہے، لیکن پی ٹی آئی قیادت ملک میں مایوسی اورانتشارپھیلاناچاہتی ہے، ان کی خواہش ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوسکے، میرے امریکا کے دورے کی منسوخی پر بھی پروپیگنڈہ کیاگیا، یہ وطن عزیز کی جنگ ہنسائی کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے مشکل حالات میں ریاست کو سیاست پر ترجیح دی، سیاسی نقصان کے باوجود ملک کی معیشت کو بہتر بنایا، اور سابقہ حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پورا کیا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ملک کو 14ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، متاثرین کی بحالی کیلئے16ارب ڈالر کی ضرورت ہے، عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں14فیصداضافہ ہوچکاہے، خوراک کی درآمد کیلئے ڈالر میں ادائیگی کرنی ہوتی ہے، دنیا میں توانائی کی قیمت میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان دور میں گردشی قرضوں میں 1300 ارب کا اضافہ ہوا، ہم ایک سال میں 12 ارب ڈالر قرض واپس کر چکے ہیں، کمزور طبقے کو 23 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارےمیں واضح کمی آئی ہے، تجارتی خسارے میں 35 فیصد کمی آئی ہے، برآمدات، ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا گیا، زرمبادلہ کی گراوٹ کو کنٹرول کیا گیا۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے بل سینیٹ میں بھی پیش کردیا، جسے چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کےسپرد کردیا۔ چیئرمین سینیٹ نے منی بل پر سینیٹرز کی تجاویز طلب کرلیں، اس دوران اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کئےجانے پر احتجاج اور نعرے بازی کی گئی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی آئی سینیٹرز نے الیکشن کراؤ ملک بچاؤ کے نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے اسپیکر ڈائس کے سامنے آکر نعرے بازی کی جبکہ اسپیکر نے نعرے لگانے والے ارکان سے کہا کہ تشریف رکھیں، آپ کو بات کرنے کا موقع ملے گا۔
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی ختم کرنے کے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے کے معاملے پر پیمرا اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے کیس کی سماعت کی، عمران خان کے وکیل احمد پنسوتہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی کے خلاف عدالت نے حکم امتناعی جاری کررکھا ہے۔
وکیل احمد پنسوتہ نے مزید کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر عائد پابندی ختم نہیں کی گئی، عام انتخابات کا شیڈول آنے کے بعد انتخابی مہم شروع ہورہی ہے، پیمرا کا پابندی کا نوٹیفکیشن بلا جواز اور قانون سے ہٹ کر ہے۔
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالتی حکم کےمطابق عمران خان کی تقاریر کی نشریات بحال کرنے کا حکم دیاجائے۔
جس پر عدالت نے پیمرا اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ میں توشہ خانہ تفصیلات پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی، حکومت نے اپنے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ذریعے اپیل دائر کی۔
سنگل بنچ کے خلاف حکومتی درخواست پر جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس رضا قریشی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس شاہد بلال نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے وزارت پارلیمان اور وزارت داخلہ کو فریق نہیں بنایا۔ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ میں میمو میں یہ فریق ایڈ کر دوں گا۔
وکیل وفاقی حکومت نے اپنے دلائل میں کہا کہ سنگل بنچ نے تحائف دینے والے ممالک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا کہا، حکومت نے توشہ خانہ کے تحائف کا ریکارڈ پبلک کردیا، اور سب کچھ ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے، تحائف کے سورسز کی حد تک ریلیف مانگا ہے۔
جسٹس رضا قریشی نے استفسار کیا کہ کیا تحائف لینے والے ڈکلییر بھی کر رہے تھے کہ نہیں۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے استفسار کیا کہ اگر ہمیں کوئی گفٹ دے تو ہم بھی تحائف ڈکلییر کرنے کے پابند ہیں، 1990 سے پہلے کا ریکارڈ کدھر ہے۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کا 1990 سے 2001 تک کا ریکارڈ منظر عام پر لانے کا حکم
وکیل وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ 1990 سے پہلے کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے۔ جس پر جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ آپ کے پاس ہونا چاہیے آپ حکومت ہیں۔
وکیل وفاقی حکومت نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ ایک خاص خطے کے لوگ بہت مہنگے گفٹ دیتے ہیں، جب مہنگے گفٹ ملتے ہیں تو باتیں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
عدالت نے وفاق سے توشہ خانہ کا 1947سے2001 تک کے ریکارڈ سے متعلق جواب طلب کرلیا، اور فریقین کو17اپریل کےلیےنوٹس بھی جاری کردیے۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم فریقین کو مکمل سن کر فیصلہ کریں گے۔
واضح رہے کہ سنگل بینچ نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔
23 مارچ کو جاری کیے گئے تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ حکومت عدالتی حکم کی مصدقہ نقل کے 7 یوم میں توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرے۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی
فیصلہ میں کہا گیا کہ حکومت 1990ء سے 23 مارچ 2023ء تک تحائف دینے والوں کا نام بھی 7 یوم میں پبلک کرے۔
جسٹس عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ تحائف کی ملکیت حکومت کے پاس ہوتی ہے، تحائف تب تک حکومت کے پاس ہوتے ہیں جب تک لینے کا طریقہ نہ اختیار کیا جائے۔
وفاقی کایبنہ نے الیکشن فنڈ کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوانے کی مںظوری دے دی گئی۔
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں 2 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
آج کے اجلاس میں دوبارہ وزارت خزانہ کی الیکشن فنڈز سے متعلق سمری پر تفصیلی مشاورت ہوئی اور پھر منظوری دی گئی کہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھیجا جائے۔
منظوری سے قبل وفاقی کابینہ اجلاس سے تمام سرکاری افسران کو نکال دیا گیا۔
اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے سمری پر وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی گئی۔
گزشتہ اجلاس میں وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ فیصلے اور قومی اسمبلی کی منظور کردہ قرار داد پر تفصیلی مشاورت کی۔
وفاقی کابینہ نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی تھی کہ وزارت قانون کی مشاورت سے اس معاملے میں پارلیمان سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے طریقہ کار اور ضابطہ کے مطابق سمری تیار کرے اور کابینہ کے اجلاس میں پیش کرے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو حکم دیا تھا کہ وفاق 10 اپریل تک 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دے ، الیکشن کمیشن 21 اپریل کو رقم سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے وزیرآباد حملہ کیس کی تفتیش میں اہم کردار اور مدعی مقدمہ ایس ایچ او عامر شہزاد کے انتقال کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
آزادی مارچ کے دوران عمران خان پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملے کے واقعے میں مقدمے کے مدعی ایس ایچ او عامر شہزاد گزشتہ روز دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔
عمران خان نے اس حوالے سے کی جانے والی ٹویٹ میں ایس ایچ او عامر شہزاد کی دل کا دورہ پڑنے سے اچانک موت کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا، ’ انہوں نے مجھ پر وزیر آباد قتل کی کوشش کی ایف آئی آر درج کرائی تھی اور اس قتل کی سازش کے پیچھے افراد کو بے نقاب کرنے میں ایک اہم گواہ تھے۔’
عمران خان نے اگلی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ریکارڈ سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔
ایس ایچ او کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی ٹویٹ میں ایف آئی اے کے تفتیش کار ڈاکٹر رضوان کی موت کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کے منی لانڈرنگ کیس میں مقصود چپراسی اور دیگر تمام گواہوں کی موت کے پراسرار حالات کو یاد کرنا بھی ضروری قراردیا۔
عمران خان کے کنٹینرپرفائرنگ کی ایف آئی آر عامر شہزاد کی مدعیت میں ہی درج کی گئی تھی، پی ٹی آئی کی جانب سے ان پر حملہ کی ایف آئی آر بروقت درج نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیاتھا۔ وزیرآباد حملے کے وقت عامرشہزاد ایس ایچ او صدر تھے۔
واضح رہے کہ عمران خان پر گزشتہ سال ریلی کے دوران حملہ کیا گیا تھا، تین نومبر 2022 کو وزیرآباد سے گزرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حقیقی آزادی مارچ کے کنٹینر پر فائرنگ کے نتیجے میں عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت 14 افراد زخمی ہو گئے تھے جب کہ معظم نامی ایک شخص جاں بحق ہو گیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر شبلی فراز کا کیس جسٹس ارباب محمد طاہر کی عدالت کو منتقل کردیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے شبلی فراز کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی اور حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
شبلی فراز وکیل بابر اعوان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسی طرح کے دوسرے کیسز جسٹس ارباب محمد طاہر کی عدالت میں زیر سماعت ہیں، ایک ہی قسم کی ایف آئی آر ہے تو اسی بینچ میں بھجوا دیتا ہوں ۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمر ایوب کا اسی طرح کا کیس دوسرے بینچ میں ہے، شبلی فراز کا کیس جسٹس بابر ستار کی عدالت میں مقرر کردیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ بابر ستار صاحب تو چھٹیوں پر ہیں، اگر ہنگامی نوعیت ہے جسٹس ارباب طاہر کی عدالت میں کل کے لئے مقرر کرتے ہیں۔
عدالت نے شبلی فراز کا کیس جسٹس ارباب محمد طاہر کی عدالت کو بھجوا دیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر اسپیکرقومی اسمبلی اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے راجہ ریاض کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: راجہ ریاض کو عہدے سے ہٹانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
درخواست گزار منیر احمد کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ عدالت نے تحریک انصاف کےاراکین قومی اسمبلی کےاستعفوں کی منظوری پر حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے، اسمبلی رولز کے حوالے سے بھی عدلیہ کا فیصلہ آ چکا ہے، پی ٹی آئی اراکین کی موجودگی میں راجہ ریاض کی تقرری غیر آٸینی ہے۔
مزید پڑھیں: راجہ ریاض کی تعیناتی کیخلاف درخواست چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بھجوادی گئی
وکیل نے کہا کہ راجہ ریاض کا تعلق پی ٹی آٸی سے ہے وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکتے، اسمبلی کی مدت ختم ہونے والی ہے مگر اسپیکر نے راجہ ریاض کو عہدے سے نہیں ہٹایا۔
وکیل نے استدعا کی کہ عدالت اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی راجہ ریاض کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔
مزید پڑھیں: راجہ ریاض کی بطور اپوزیشن لیڈر تعیناتی کیخلاف درخواست پر تحریری حکم جاری
جس پر عدالت نے اسپیکرقومی اسمبلی اور دیگر فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ ہفتے جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 118 اور 108 کے ضمنی انتخابات کی منسوخی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 12 اپریل کو جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پی ٹی آئی رہنماؤں فرخ حبیب اور اعجاز شاہ کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب اور اعجاز شاہ کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے۔
عدالت نے دونوں حلقوں میں ضمنی انتخابات کی منسوخی کے معاملے پر الیکشن کمیشن سے 12 اپریل کو جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناعی کی درخواست پر بھی الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا۔
یاد رہے کہ 8 اپریل کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں فرخ حبیب اور اعجاز شاہ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 108 اور این اے 118 کے ضمنی انتخابات کی منسوخی کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کے عام انتخابات کے لئے 120 دن سے کم کا عرصہ رہ گیا، 120 دن سے کم کا عرصہ ہو تو ضمنی انتخابات نہیں ہوسکتے، 120 دن سے کم عرصے کے لئے ضمنی انتخاب کرانا قانون کے منافی ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 118 اور 108 میں ضمنی انتخاب کو منسوخ کیا جائے۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی 2 کیسز میں عبوری ضمانت میں 29 اپریل تک توسیع کردی۔عدالت نے کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمات کی سماعت ایک ہی تاریخ پر رکھیں گے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے شاہ محمود قریشی کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف وزری پر تھانہ کھنہ میں درج 2 مقدمات کی سماعت کی۔
شاہ محمود قریشی اپنے وکیل علی بخاری کے ہمراہ اے ٹی سی جج راجہ جواد عباس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
جج نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی کو کیسز سے ڈسچارج کرنا ہے؟
جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ایماء کی دفعات کی حد تک شاہ محمود قریشی کو کیس میں نامزد رکھنا ہے۔
جج راجہ جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوشن سے پوچھ لیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ اور کون گواہ ہے؟ سابق وزیرِ خارجہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا ہے، وجہ تو بتائیں۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے عدالت میں بیان دیا کہ میں جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا۔
جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ کیا معلوم آپ کی روح جائے وقوعہ پر موجود ہو؟ جج راجہ جواد عباس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج لگ گئے۔
جج نے پراسیکیوٹر سے پوچھا کیا کہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے حکم پر کارکنان نے احتجاج کیا تو کیا کوئی ثبوت ہے؟ کیا آپ کویقین ہے کہ ایس ایچ او کی موجودگی میں کارکنان کو حکم دیا؟
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے کارکنان کو احتجاج کا حکم دیا اور کارکنان نے آگے پیغام پہنچایا۔
جج راجہ جواد عباس نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کارکنان خود کہے کہ کچھ نہیں کیا تو تب آپ اس کی بات مانتے نہیں۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیاسی بنیادوں پر انتقام لینے کے لئے کیسز بنائے گئے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ماہ رمضان ہے، روزے کی حالت میں ہوں، پراسیکیوشن جھوٹ کہہ رہی ہے، میں نے کسی کو کبھی اکسایا، نہ 40 سال میں ایسا کوئی حکم دیا، پراسیکیوشن حلف لے کرکہے کہ مجھ پر سچ الزام لگا رہے ہیں میں عدالت کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے مطابق ایسے کیسز میں حلف پر بیان نہیں لیا جاسکتا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے شاہ محمود قریشی کی دونوں کیسز میں عبوری ضمانت میں 29 اپریل تک توسیع کردی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف کیسز میں آئندہ سماعت ایک ہی تاریخ پر رکھیں گے۔
جس پر وکیل علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی تفتیش میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر شاہ محمود قریشی کے خلاف تھانہ کھنہ میں 2مقدمات درج ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن کی سربراہی میں لارجر بینچ نے عمران خان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ دوسری پٹیشن کس طرح سنی جا سکتی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ اس میں 2 استدعا کی گئی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ آپ پارٹی چیئرمین کو ہٹانے کے کس طرح متاثرہ فریق ہیں، جس پر وکیل نے میں ایک ووٹر اور ملک کا شہری ہوں۔
لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کو اعتراض ہے تو کسی دوسری پارٹی میں چلے جائیں، آپ کی یہ پہلی پٹیشن ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی یہ میری پہلی پٹیشن ہے۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
درخواست شہری محمد جنید نے ایڈووکیٹ آفاق احمد کی وساطت سے دائر کی تھی، دائر درخواست میں عمران خان اور چیف الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن عمران خان کو این اے 95 میانوالی سے نااہل قرار دے چکی ہے، الیکشن کمیشن نے 7 دسمبر 2022 کو عمران خان کے خلاف قانون کاروائی کا آغاز کیا، توشہ خانہ کے حقائق چھپانے پر الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر 2022 کو عمران خان کو نااہل قرار دیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ اس سے قبل نواز شریف کو بھی عدالت نااہل کر چکی ہے، جس کے بعد نواز شریف پارٹی صدر نہیں رہے، نااہلی کے بعد کوئی پارٹی ہیڈ نہیں رہ سکتا، الیکشن کمیشن سے رجوع کیا مگر عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عمران خان کو چیئرمین تحریک انصاف کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔
وفاقی پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو 9 مختلف مقدمات میں تفتیش کے لئے 11 اور 12 اپریل کو طلب کرلیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سی ٹی ڈی سمیت 9 تھانوں میں مقدمات درج ہیں، ان مقدمات میں تفتیش کے لئے وفاقی پولیس نے عمران خان کو طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے عمران خان کو 2 مقدمات میں 11 اپریل اور 7 کیسز میں 12 اپریل کو بلایا لیا ہے۔
وفاقی پولیس نے عمران خان کو شامل تفتیش ہونے کے لئے نوٹسز بھجوا دیے ہیں، تمام نوٹسز عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک بھجوائے گئے ہیں۔
تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں عمران خان کو 2 مقدمات میں 11 اپریل کو طلب کیا گیا ہے جبکہ پولیس لائنز میں بھی 11 اپریل کو 12 بجے بلایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں بھی طلب کرلیا گیا ہے۔
عمران خان کو 12 اپریل کو تھانہ کھنہ میں درج مقدمے میں طلب کیا گیا اور انہیں اپنے ہمراہ تمام دستاویزات لانے کی ہدایات بھی کی گئی ہے۔
نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ عمران خان پیش ہو کر اپنا مؤقف دیں، پیش نہ صورت میں قانونی کارروائی ہوگی ۔
حکومت نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل 2023 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کروالیا۔
اسپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں وزیرقانون اعظم نزیر تارڑ نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل پیش کیا اور پارلیمان نے بل کو منظور کرلیا۔ ایوان میں اکثریت کے ووٹ سے بل پاس کیا گیا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل پر دستخط کیے بغیر پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا تھا تاہم اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری کے بعد بل کو دستخط کے لئے دوبارہ صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا۔ اگر صدرعارف علوی نے دستخط نہیں کیے تو 10 دن بعد یہ بل خود ہی قانون بن جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی بھرپور مخالفت کی اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
حکومت نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم بھی مسترد کردی۔ مشتاق احمد نے سوموٹو کے خلاف اپیل کی مخالف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو بچانے کے لیے قانون سازی کی مخالفت کرتا ہوں، بنچ تشکیل دینے کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ رہنا چاہئے، یہ لوگ اپنی لیڈرشپ کو اس بل کے ذریعے ریلیف دینا چاہتے ہیں، ہمیں یہ منظور نہیں۔
سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل 2023 منظور ہونے کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 15 مئی کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
دوسری جانب مذکورہ بل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور درخواست میں وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو شہری منیر احمد کی جانب سے ان کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے چیلنج کیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 آئین پاکستان کے خلاف ہے اور ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو آئین سے متصادم ہو۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے رولز بنے ہوئے ہیں لہٰذا آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قانون بدنتیی پر مبنی ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک اس قانون پر عملدرآمد سے حکومت کو روکا جائے۔
درخواست میں یہ بھی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے پنجاب میں انتخابات کو التواء میں ڈالنے کے لیے موجودہ بل کو منظور کیا ہے۔