انصاف کے اصولوں کی پامالی پر احتجاج ہمارا حق ہے، وزیر قانون
وفاقی وزیرقانون وانصاف اعظم نذیرتارڑ نے کہا ہے کہ قوم کی تقدیر سے جڑے مقدمات کو تحمل سے سب کو اکھٹا بٹھا کر سنا جاتا ہے، قوم کی تقدیر کے فیصلے انا اور ضد کو سامنے رکھ کر نہیں کیے جاتے، اکثریتی فیصلے کو اقلیتی فیصلے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، ازخود نوٹس فیصلہ کو تبدیل کرنے سے انصاف کے اصولوں کی پامالی ہوئی ہے اور اس پر احتجاج ہمارا حق ہے۔
منگل کوقومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیرقانون نے کہا کہ کل اسی ایوان میں قائد ایوان نے عدالت عظمیٰ میں جاری آئینی مقدمہ پربات کی تھی، میں نے ایوان کو مقدمہ کی تفصیلات سے آگاہ کردیا تھا ، پورے ملک نے سماعت دیکھی اور پڑھی ہے۔
وزیرقانون نے کہا کہ جب ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کے لئے 2 صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہوئی تو سنجیدہ حلقوں نے اس کی مخالفت کی اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ اس اس کا بنیادی مقصد سیاسی تقسیم کی داغ بیل ڈالنی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوارمیں عام انتخابات پر انگلیاں اٹھائی گئی، جس کی ہم نے قیمت چکائی ہے، اگر 1977 کے انتخابات کسی نگران سیٹ اپ کے تحت ہوتے تونتائج ملے جلے ہوتے اور 11 سالہ ماشل لانہ لگتا جس کی قیمت ہماری نسلیں دے رہی ہے۔
وزیرقانون نے کہاکہ اسی ایوان نے پچھلے ہفتہ اپنا آئینی فریضہ اداکرتے ہوئے قرارداد منظورکی اورمطالبہ کیا کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیا جائے، ازخودنوٹس کے فیصلے میں مقدمات خارج کردیے گئے تھے، فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ یہ صوبوں کے مسائل ہیں، اس ایوان نے استدعا کی کہ عدل کے ایوان میں تقسیم ہے اس لئے اس معاملہ کوفل کورٹ میں لے جایا جائے ، ہاتھ جوڑ کراستدعا کی کہ اس معاملہ کوانا اورضد کا معاملہ نہ بنایا جائے بلکہ آئینی اورسیاسی بحران کے خاتمہ کیلئے فل کورٹ میں معاملہ سنا جائے مگر افسوس کے ایسا نہ کیا گیا، سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو فریق نہیں بنایاگیا، اٹارنی جنرل نے بھی ساری باتیں بنچ کے سامنے رکھی اوراپیل کی کہ معاملہ فل کورٹ میں بھیجا جائے یا ان ججز کوبھیجا جائے جواب تک کسی بینچ کاحصہ نہیں بنے ہین۔
وزیرقانون نے کہا کہ 3 رکنی بینچ نے ان اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے خود ہی شیڈول جاری کردیا، ہم انتخاب سے بھاگنے والے نہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس سے متعلق درخواست پر فیصلہ سنایا کہ ازخودنوٹس کے تحت سماعتیں فل کورٹ میٹنگ کے بعد ہی ہوں گی،اس عدالتی فیصلے کو انتظامی سرکلر کے ذریعے ختم کردیا گیا اور 6 رکنی بینچ بنایا گیا جس نے ایک گھنٹے کے بعد تین رکنی بینچ کے فیصلے کوختم کردیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایک طرف کہاگیا کہ اس فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور دوسری طرف اس کے لئے 6 رکنی بینچ بنا دیا گیا، کیا اس طرح کی عجلت سے ملک، آئین اورقانون کو استحکام ملے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے آئین اور قانونی مقدمات جو قوم کی تقدیر سے جڑے ہوتے ہیں انہیں تحمل سے سب کواکھٹا بٹھاکرسناجاتا ہے، انا، ادارہ جاتی تسلط کو نہیں دیکھا جاتا، ہم آئینی اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں،
وزیرقانون کا کہنا تھا کہ ادارے کے اندر سے آواز آئی ہے کہ ون مین شوچل رہاہے، اکثریتی فیصلہ کواقلیتی فیصلہ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، 184 کے حوالہ سے فیصلہ پر جو طرزعمل اپنایا گیا وہ درست نہیں ،فیصلہ سے انصاف کے اصولوں کی پامالی ہوئی ہے اوراس پراحتجاج ہمارا حق ہے۔
Comments are closed on this story.