پی ٹی آئی کا پاکستان اور اسرائیل کے درمیان غذائی تجارت کے خلاف احتجاج
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان خوراک کی تجارت پر احتجاج کرتے ہوئے وزارت خارجہ سے وضاحت طلب کی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے یہ مطالبہ سینئر رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی ایک ٹویٹ میں سامنے آیا، جہاں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکی یہودی کانگریس کی ایک پریس ریلیز شیئر کی۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ”تو حکومت کی تبدیلی کی سازش کا ایک اور خفیہ ایجنڈا پورا ہو رہا ہے اور سازش کرنے والے بھی نیتن یاہو سے سیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ وزارت خارجہ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جب پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تو یہ سب کیسے ہو رہا ہے۔ لندن پلان کے حصے کے طور پر اور کون سے خفیہ معاہدے کیے گئے ہیں؟“
پاکستانی یہودی شہری ہونے کا دعویٰ کرنے والے فشیل بن خلد نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستانی مصالحے اور خشک میوہ جات اسرائیل کو برآمد کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تیس مارچ کو جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں، یہودی کانگریس نے اس چھوٹے قدم کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے اسرائیلی اور پاکستانی معیشتوں پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ”اس پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہم عوامی سفارت کاری کے اقدام 2005 کی وراثت کو یاد کرتے ہیں، جس کی سربراہی ہمارے صدر جیک روزن نے کی تھی، جو امریکن کونسل آف ورلڈ جیوری کے ساتھ شراکت داری میں تھی، جو اس وقت دو قوموں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور اقتصادی پیش رفتوں پر منتج ہوا۔ جن کے ابھی تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن جن کے کاروباری افراد اور ٹیکنالوجیز مشترکہ خوشحالی کی تلاش میں آگے بڑھے ہیں۔“
قبل ازیں قشیل خلد نے ٹوئٹر پر مقامی مارکیٹ میں نمائش کے لیے رکھے گئے پاکستانی فوڈ آئٹمز کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستانی فوڈ پراڈکٹس کی پہلی کھیپ اسرائیل کی مارکیٹ میں ایکسپورٹ کی ہے۔
اس عمل کے بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اس میں بہت محنت صرف ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ تین چھوٹے اسرائیلی گاہکوں نے نمونے قبول کئے اور وہ قیمت پر متفق تھے۔
انہوں نے لکھا، ”میں ان سے کئی بار گلفوڈ دبئی اور انوگا جرمنی کی کھانے اور مشروبات کی نمائشوں میں ملا۔“
ان کے مطابق دو کا تعلق یروشلم ، اور ایک کا حیفہ سے تھا۔
ایک ٹویٹر صارف نے ردعمل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ پاکستانی کھانے پینے کی اشیاء کا معیار قابل قبول ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
”اسرائیلی خریداروں کی طرف سے ردعمل عام طور پر ایک کاروباری شخص کی طرح ہے جو قابل قبول قیمت پر اچھی مصنوعات کی تلاش میں ہیں۔“
مزید برآں، انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت اور خریداروں کو پاکستان سے تجارت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جب تک کہ معیار، مقدار اور پیکیجنگ تصریح کے مطابق ہو۔ اور سب سے اہم بات اگر قیمت صحیح ہو تو وہ خریدیں گے۔
Comments are closed on this story.