Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وزیراعظم شہباز شریف سے سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمان کی ملاقات ہوئی۔
پی ایم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے شہباز شریف کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی پارلیمنٹ سے منظوری پر مبارکباد پیش کی۔
پی ڈی ایم سربراہ نے وزیرِاعظم کو اتحادیوں کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی جب کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کی سماعت پر بھی مشاورت ہوئی۔
ملاقات میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 سے متعلق مشاورت اور ملکی سیاسی صورتحال سمیت امن و امان سے متعلق گفتگو کی گئی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں دہرے معیار اور ججز کا اپنا اپنا انصاف ہے۔
ایک بیان میں سراج الحق نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو اپنی مرضی کے فیصلے چاہئیں، طاقتور کے لیے قانون موم کی ناک اور کورٹ کچہری کھلونا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سیکڑوں افراد کا قاتل عدالت میں وکٹری کا نشان بنا تا ہے اور نجی جیلیں بنانے والے سردار کو چند روز میں ضمانت مل جاتی ہے۔
سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں 75 برسوں سے ظلم و نا انصافی جاری ہے، لہٰذا قوم فیصلہ کرے کہ ظالموں کا ساتھ دینا ہے یا کرپٹ نظام بدلنا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کیس میں پی ٹی آئی کے 72 کارکنان کو رہا کرنے کی خبروں کو مسترد کردیا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق آج کسی ملزم کی شناخت پریڈ نہیں ہوئی، 72 ملزمان کو شناخت پریڈ کے بعد رہا کرنے کی خبر درست نہیں، تمام ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جن کی شناخت پریڈ کل ہوگی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل خبر سامنے آئی تھی کہ لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کی ایڈمن عبہر گل خان نے کینال روڈ پر پولیس سے جھڑپوں کے کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے تحریک انصاف کے 72 کارکنان کو شناخت نہ ہونے پر کیس سے ڈسچارج کر دیا۔
پی ٹی آئی کارکنان کو شناخت پریڈ مکمل ہونے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا، انسداد دہشت گردی عدالت میں پولیس نے ڈسچارج رپورٹ بھی پیش کی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ کوٹ لکھپت جیل میں ملزمان کی شناخت پریڈ ہوئی، اس دوران گواہان کارکنان کو بطور ملزم شناخت نہیں کر سکے۔
پولیس ذرائع نے بتایا تھا کہ کیس سے دسچارج ہونے والے ملزمان پر پولیس پر تشدد، ان کی گاڑیاں جلانے اور پیٹرول بم پھینکنے کا الزام تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمان سے منظور بل عدالت کو ادارہ جاتی طور پر مضبوط کرے گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر وزیراعظم شہبازشریف نے ٹوئٹ کیا۔ جس میں انھوں نے لکھا کہ پارلیمان سے منظور بل سے بنچ کی تشکیل اور آرٹیکل 184(3) کے عمل کو شفاف اور جامع بنانے میں مدد ملے گی۔
وزیراعظم نے ٹویٹ میں لکھا کہ منظور بل سے انصاف کی فراہمی میں معاونت ہوگی اور پارلیمان سے منظور بل عدالت کو ادارہ جاتی طور پر مضبوط کرےگا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے عدالتی اصلاحات بل دوہزار تئیس کی منظوری پر ملک بھر کی وکلاء برادری کو مبارکباد پیش کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ وکلاء برادری سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا ہے۔ ایک ماہ قبل وکلاء نے مجھ سے ملاقات کی تھی اور میں نے ان سے یہ قانون جلد منظور کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ وکلاء نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں، ان کا تحفظ اور فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہے، وکلاء برادری کی مزید بہتری کیلے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے بعد اب سینیٹ نے بھی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظور کرلیا ہے۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دی گئی۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہے کہ الیکشن لاتواء کیس پر 5 رکنی بینچ ہو یا فُل کورٹ، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ٹوئٹر پر جاری بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بنیاد آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور اس کو خطرات لاحق ہیں، حکمران انتخابات سے خوفزدہ ہیں اور اپنے سزا یافتہ مجرم قائدین کو بچانے کیلئے اس قدر بے چین ہیں کہ دستور و قانون کی حکمرانی کی آخری علامت تک کو مٹانے پر آمادہ ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی 2 صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے آئینی و قانونی ماہرین سے مشورہ کیا تھا، آئینی ماہرین نے بتایا تھا کہ آئین کے تحت انتخابات 90 دن میں ہونا لازم ہیں۔
الیکنش کے معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 90 روز میں انعقاد کے حوالے سے متعلقہ آئینی شق کو پھلانگنا ممکن نہیں۔ مجرموں کی امپورٹڈ سرکار، اس کے سرپرست اور ایک نہایت متنازعہ الیکشن کمیشن اب آئین کا کھلا مذاق اڑانے پر اتر آئے ہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دستور کے مختلف حصوں کو خود کے لئے قابلِ عمل جب کہ دیگر کو ناقابلِ نفاذ قرار دیکر یہ گروہ دراصل پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہے جو آئین و قانون کی حکمرانی پر استوار ہے۔
انتخابات التواء کیس کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ 5 رکنی بنچ ہو یا فُل کورٹ، ہمیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین میں فراہم کردہ مدت کے دوران ہورہے ہیں یا نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ نواز شریف آئین اور قانون کے مفرور مجرم ہیں، حکومتی بل انھیں ایک اور این آر او دینے کی کوشش ہے۔
لاہور میں سابق اراکین اسمبلی اور وکلا سے ملاقات میں پرویزالہٰی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے، حکومت کومعلوم ہونا چاہئےکہ سپریم کورٹ بھی سپریم ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔
چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ پی ڈی ایم سپریم کورٹ کو آئین کی پاسداری سے روکنا چاہتی ہے، آئین کی تشریح کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے، پی ڈی ایم الیکشن روک کر قومی سلامتی سے کھیل رہی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ حکومتی بل نوازشریف کو ایک اور این آر او دینے کی کوشش ہے، سابق وزیرعظم آئین اور قانون کے مفرور مجرم ہیں، نوازشریف جب بھی واپس آئیں گے، جیل جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک کو بھنور سے نکالنے کی امید عدلیہ سے ہے۔
اسلام آباد میں فواد چوہدری، اسد عمر اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے، ملک میں معاشی اورسیاسی عدم استحکام ہے، ملک کو بھنور سے نکالنے کی امید صرف عدلیہ سے ہے۔
فواد چوہدری
رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بینچ ٹوٹنے سے آئین کو چیلنج درپیش ہوگیا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 30 اپریل تک الیکشن ہونا ہے، 3 ماہ میں ایسا کیا ہو جائے گا کہ سب معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، اور فنڈزآجائیں گے،سیکیورٹی بھی مل جائے گی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ظلم اور جبر کے ساتھ ملک چلایا جارہا ہے، اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کی کوشش کی جارہی ہے، عدالتی احکامات کوردی کی ٹوکری میں ڈالاجارہاہے ہم سپریم کورٹ اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن اس کے داخلی معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
اسد عمر
رہنما پی ٹی آئی اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت قومی سلامتی کیلئے خطرہ پیدا کررہی ہے، تین ماہ سے بول رہا ہوں کہ آئین خطرے میں ہے، آئین ٹوٹتا ہے تو قومی معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئین پر عمل کرانے کی ذمہ دار ہے، آٸین ایک سماجی معاہدہ ہے اگر یہ معاہدہ ٹوٹ گیا تو کچھ نہیں بچے گا، تحریک انصاف ہر حال میں آٸین کے ساتھ کھڑی ہے، سپریم کورٹ میں سب قانون کے مطابق ہونا ہے، اگر عدالت عظمیٰ پر حملہ ہوتا ہے تو یہ پاکستان پرحملہ ہوگا، پورا پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلےکے ساتھ کھڑا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی ظاہر نہ کرنے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل ہیں۔ درخواست گزار شہری محمد ساجد کے وکیل حامد علی شاہ جبکہ عمران خان کے وکلا سلمان اکرم راجہ اور ابو ذر سلمان خان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل حامد علی نے موقف اپنایا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں دئیے بیان حلفی میں اپنی بچی کا نام ظاہر نہیں کیا، عمران خان کی نااہلی کے لیے تمام حقائق پٹیشن میں درج ہیں۔
وکیل نے مزید دلائل دیئے کہ پبلک آفس ہولڈر میں ہے کہ عمران بطور پارٹی سربراہ بھی نہیں رہ سکتے، عمران خان نے پٹیشن میں ذکر کئے حقائق کا جواب نہیں دیا جس سے وہ تسلیم شدہ ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے نہ انکار کیا نہ کچھ مانا ہے، ابھی تک عدالت یہ پٹیشن قابل سماعت ہونے کے حوالے سے سن رہی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق اگر کوئی جھوٹا بیان حلفی دیتا ہے تو وہ 62 ون ایف کے تحت نااہل ہوتا ہے۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر عدالت اس نقطے پر پہنچ جائے کہ یہ بیان حلفی غلط تھا تو پھر کیا ہو گا۔
وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ پھر وہ ممبر اسمبلی بننے اور پارٹی ہیڈ رہنے سے نااہل ہو جائے گا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اس رویے پر بھاری جرمانہ کیوں نہ کیا جائے، صرف بتانا چاہتے تھے عدم ثبوت پر ہم یہ کیس خارج کر چکے، ہم فیصلہ کریں گے پہلے کیس قابل سماعت ہے یا نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک عدالت یہ پٹیشن قابل سماعت ہونے کے حوالے سے سن رہی ہے۔ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا اور سماعت ملتوی کردی۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خاتون جج دھمکی کیس میں جاری ناقابل ضمانت وارنٹ ایک روز کےلئے معطل کر دیے۔
گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حاضری سے استثنا کی درخواست خارج کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے، اور عمران خان کو 18 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کے فیصلے پر سیشن کورٹ میں نظرثانی اپیل پر سماعت ہوئی۔ عمران خان کے وکلاء علی بخاری اور فیصل چودھری عدالت میں پیش ہوئے۔
خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
عمران خان کے وکیل علی بخاری نے توشہ خانہ کیس میں جاری وارنٹ کو معطل کرنے کا فیصلہ پڑھ کرسنایا، اور استدعا کی کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ کومعطل کیا جائے۔
وکیل فیصل چوہدری نے مؤقف پیش کیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ایڈیشنل سیشن جج کے تفصیلی آرڈر کے چند نکات کو نظر انداز کیا، عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ کو معطل کیا جائے۔
عدالت نےعمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کل تک معطل کر دیئے، اور سیشن جج سکندر خان نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
وفاقی وزیرداخلہ راناثنا اللہ نے کہا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے 10سال تک سیاسی افراتفری پھیلائی اور ملک کو انتشار کی جانب دھکیلا ہے۔
سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنےکا کہا اور ان کے ریمارکس لائق تحسین ہیں عمران خان نے 10سال ملک میں افراتفری پھیلانےکی محنت کی اور ملک کو انتشار کی جانب دھکیلا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کےحل کیلئے گریٹ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تمام سیاسی جماعتیں،عدلیہ، دیگراسٹیک ہولڈر بیٹھ کربات کریں، میثاق جمہوریت، میثاق معیشت پر مشترکہ لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمےکیلئے اقدامات کررہے ہیں مذاکرات کی راہ میں ایک فریق رکاوٹ ہے، ایک فرق اپنے مخالفین کوختم کرنا چاہتا ہے اور ہم الیکشن میں چلے جائیں تومذاکرات کس بات پرہوں گے۔ ؔ
قومی اسمبلی کے بعد اب سینیٹ نے بھی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظور کرلیا ہے۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دے دی گئی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے لئے تحریک ایوان میں پیش کی تاہم تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے بل کی مخالفت کی گئی۔
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بل کی شق وار منظوری لی، بل کی منظوری کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے شدید احتجاج کیا اور شور شرابہ کرتے رہے، جب کہ پی ٹی آئی ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔
بل پر ووٹنگ ہوئی تو تحریک انصاف کی مخالفت کے باوجود ایوان نے بل کی کثرت رائے سے مںظوری دے دی، بل کی حمایت میں 60 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ پڑے۔ جس کے بعد سینیٹ اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
اس سے قبل وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں، حکومت نے مردم شماری کے لئے فنڈز جاری کیے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مردم شماری کو 30 اپریل تک مکمل کرنا ہے، ملک میں پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری ہورہی ہے۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری پر ہمارے تحفظات برقرار ہیں، ایسی مردم شماری کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا، 2017 کی مردم شماری پر کسی کو اتفاق نہیں تھا۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ ڈیجٹل مردم شماری میں نادرا کو آن بورڈ لیا جائے، جتنے لوگ گنے گئے اس گھر کے سربراہ کو بتایا جائے، مردم شماری صرف نشستوں نہیں بلکہ وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہے، یہ کونسا خفیہ ڈاکومنٹ ہے جس کو چھپایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مردم شماری کو شفاف اور قابل قبول بنانے کے لئے سب سیاسی جماعتوں کو سنا جائے، متنازع مردم شماری کو کوئی نہیں مانے گا، اربوں لگا کر اگرمتنازع مردم شماری کی گئی تو کیا فائدہ۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا بیرونی قرضہ نیچے گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ذخائر میں بہتری لائی جائے، پہلے بھی کہا تھا کہ معیشت پر سیاست کے جائے چارٹرآف اکانومی پربات کی جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ایک دن بھی بیرونی ادائیگی نہیں روکی، کوشش ہے رواں سال اسٹیٹ بینک کے ذخائر 13 ارب ڈالرتک پہنچ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے، انتخابات ابھی ہوئے تو پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ اب 2 حکومتیں بن جائیں تو کیا اکتوبر میں شفاف انتخابات ہو سکیں گے۔ 2 صوبوں میں پرانی مردم شماری پر الیکشن کرانا درست نہ ہوگا، باقی پورے ملک میں نئی مردم شماری پر الیکشن ہوں گے۔
اسحاق ڈارنے فیصل سبزواری کے اعتراضات درست ہیں، 2018 کے انتخابات نئی مردم شماری پرہونے تھے، 2018 میں الیکشن کے لئے آئین میں ترمیم کی گئی۔ آئینی ترمیم کے تحت پرانی مردم شماری پرالیکشن ہوئے، مردم شماری کے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے مردم شماری پر بحث رکھ لیتے ہیں۔
وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے سینیٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمنٹ نے تاریخ ساز قانون سازی کی ہے، پارلیمنٹ سے عدالتی اصلاحاتی بل منظور ہوا، سینیٹ میں 60 کے مقابلےمیں 19ووٹ سے منظور ہوا، اصلاحات سے سپریم کورٹ میں اجتماعی سوچ کوفروغ ملے گا۔
وفاقی وزیر قانون نے بتایا کہ پارلیمنٹ سے وکلا کےتحفظ کا بل بھی پاس ہوا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بل پر قومی اسمبلی میں بدھ کو بات ہوچکی ہے، بل پر محسن لغاری نے اعتراض اٹھایا تھا، بل سے سپریم کورٹ کومزید مضبوط بنا کر 184/3 کے بے دریغ استعمال کا راستہ روکا گیا ہے، بارایسوسی ایشنز نے قانون سازی کو سراہا ہے۔
سینئر ماہر قانون اور پیپلزپارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیارکو مزید وسیع کردیا گیا ہے، 14دن میں ارجنٹ کیسزکو سماعت کیلئے مقرر کرنا ہوگا، 1980میں سپریم کورٹ کے قوانین میں تبدیلی نہیں ہوئی تھی، ججزاور وکلا کہتے ہیں کہ پرانے قوانین کوتبدیل کیا جائے اب نیا وکیل پرانےکیس پر نظرثانی اپیل دائر کرسکے گا۔
فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ 184/3 کے ذریعے نسلہ ٹاور کا فیصلہ آیا، لوگ ابھی بھی بے گھر ہیں، بےگھر افراد سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائرکرسکیں گے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو واپس لینے کے لئے مراسلہ ارسال کردیا گیا ہے۔
مراسلہ صدر پاکستان عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو بھجوایا گیا ہے۔
مراسلہ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے چیئرمین اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ارسال کیا ہے۔
مراسلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 70 کے تحت پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کرسکے، آرٹیکل 195 رولز اینڈ پروسیجر بنانے کی بات کر رہا ہے اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔
مراسلے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق چیف جسٹس پاکستان سوموٹو لینے کا اختیار رکھتے ہیں، عدالتی اصلاحات بل کو فوری طور پر واپس لیا جائے ورنہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سینیٹ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی مخالفت کا اعلان کردیا ۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے معاملے پر سینیٹ میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈراور پی ٹی آئی رہنما شہزاد وسیم نے اجلاس کی صدارت کی۔
ذرائع کے مطابق مشترکہ اجلاس میں سینیٹ اجلاس سے متعلق حکمتِ عملی مرتب کی گئی۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر مشاورت بھی کی گئی۔
سینیٹر فیصل جاوید نے بتایا کہ پارٹی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی مخالفت کریں گے۔
فیصل جاوید نے مزید کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ بل کو کمیٹی میں بھیجا جائے۔
حکومت کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل سینیٹ سے پاس کرانے کی فکر لاحق ہے، رات گئے خصوصی طیارہ تین سینیٹرز کو کوئٹہ سے اسلام آباد لے کر پہنچ گیا۔
ان سینیٹرز میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نوابزادہ ارباب عمر فاروق کاسی، سردار شفیق ترین اور خاتون عابدہ محمد عظیم شامل ہیں۔
سینیٹرز صبح 10 بجے ہونے والے سینیٹ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اجلاس کی صدارت کریں گے۔ جس کا 13 نکاتی ایجنڈا جاری کیا جاچکا ہے۔
وزیر قانون سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ایوان بالا میں پیش کریں گے۔
وزیر دفاع نیشنل یونیورسٹی آف پاکستان کے قیام کا بل ایوان بالا میں پیش کریں گے۔
اجلاس میری ٹائم زون اور پیر روشن شاہ انسٹیوٹ میران شاہ کے قیام کا بل بھی پیش ہوگا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ابھی نہیں دیکھا، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا فیصلہ کروں گا۔
نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹر ویو میں عارف علوی نے کہا کہ ی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی، میں انسان حقوق کی وزیر سے بات کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کوئی ایوارڈ نہیں دے گی، پی ٹی آئی حکومت میں دیئے گئے ایوارڈز پر مجھے بھی تعجب ہوا۔
انتخابات پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لئے کسی نے کہا سکیورٹی نہیں دے سکتے، کسی نے کہا فنڈز اور کسی نے کہا وہ آر او نہیں دے سکتے، تمام اداروں میں آج کل پریشانی کے کریکس نظر آرہے ہیں۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ جمہوری طاقتیں آپس میں لڑیں تو خطرہ رہتا ہے آئین کو مسخ نہ کیا جائے، ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اتفاق رائے تلاش کیا جاتا ہے، البتہ غصے اور دباؤ میں لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو انہیں ادا نہیں کرنے چاہیے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر صدر علوی نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ابھی دیکھا نہیں ، لہٰذا یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ میں اس پر کیا فیصلہ کروں گا، چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی قانون سازی کی ٹائمنگ ایک سوالیہ نشان ہے۔
بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ اس وقت کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا
ان کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی کا کہنا تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، عدالت میں تقسیم ہوسکتی ہے، دنیا میں ایسا ہوتا ہے، بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ اس وقت کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا، دعا ہے کہ ججز آپس میں اشتراک پیدا کریں۔
اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے
اکتوبر میں انتخابات کے اعلان کے حوالے سے صدر علوی کا کہنا تھا کہ اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے، انہوں نے یہ بات صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے قبل عمران خان کو بتا دی تھی۔
یاسمین راشد سے گفتگو کی آڈیو کی تصدیق اور نہ ہی تردید کروں گا
اپنی آڈیو لیک پر صدر مملکت نے کہا کہ یاسمین راشد سے گفتگو کی آڈیو لیک کا کوئی ایکشن نہیں لیا، نہ میں اس آڈیو کا تصدیق اور نہ ہی تردید کروں گا، میری یا کسی کی آڈیو لیک کرنا غیر اخلاقی کام ہے۔
چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے لیے بنائے گئے نئے قانون میں ایک ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، جس کے بعد اس بل نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔
یہ ترمیم اصل میں محسن داوڑ نے قائمہ کمیٹی میں پیش کی تھی، جہاں بلاول بھٹو زرداری نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔
تاہم بدھ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف بلاول کو گھیرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ترمیم کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران منظور ہونے والے بل کا حصہ بنا دیا گیا۔
ایوانِ بالا میں اور صدر کی منظوری کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔
محسن داوڑ کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ بل کی شق 5 میں ترمیم کی جائے تاکہ:
“ذیلی دفعہ (1) کے تحت اپیل کا حق کسی ایسے متاثرہ شخص کو بھی دستیاب ہو جس کے خلاف اس ایکٹ کے آغاز سے قبل آئین کے آرٹیکل 184 کی شق (3) کے تحت حکم دیا گیا ہو۔ بشرطیکہ اپیل اس ذیلی دفعہ کے شروع ہونے کے 30 دنوں کے اندر دائر کی جائے۔
فطری طور پر، اس سے از خود نوٹسز کے ہر فیصلے کو چیلنج کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ بل 30 دن کی مدت متعین کرتا ہے، اور سینیٹ کے راستے اسمبلی سے گزر چکا ہے، اس لیے اگلے چند دنوں میں اس پر کچھ کارروائی ہوتی نظر آنی چاہیے۔
کم از کم فواد چوہدری تو یہی سوچ رہے ہیں۔
بل کے اسمبلی سے منظوری کے فوراً بعد پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں فواد نے کہا کہ ترمیم خفیہ طور پر منظور کی گئی۔
انہوں نے لکھا، ”آج اس حکومت نے نواز شریف کو نااہلی کے خلاف ریلیف دینے کیلئے چوری ترمیم کروائی، انہوں نے پھر ثابت کیا یہ کتنے بڑے فراڈ ہیں، نواز شریف کی نااہلی آرٹیکل 184(3) کے تحت ہوئی، عام قانون سے آپ اس کو کیسے بدل سکتے ہیں، نواز شریف آ کر ٹرائیل کا سامنا کریں چور دروازے استعمال کرنا بند کریں۔“
ن لیگ کے سپریمو کو 2017 میں عوامی عہدہ رکھنے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تھا، آرٹیکل 184(3) کے تحت تشکیل دی گئی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے ساتھ دروغ گوئی کی تھی، کیونکہ وہ اپنے بیٹے سے وصول کی جانی والی تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے تھے، بھلے ہی وہ انہیں ملی نہ ہو۔
ججز کو اس پانچ رکنی لارجر بینچ سے چنا گیا تھا جس نے اصل میں شریف خاندان کے خلاف پانامہ کیس کی سماعت کی تھی۔
نواز شریف نے 2017 میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن بے سود رہا۔
آرٹیکل 184(3) (جو سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے) کے تحت کئے گئے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور متاثرہ فریق کے پاس واحد راستہ نظرثانی کا مطالبہ کرنا ہے، جس کا بنیادی مطلب ہے کہ آپ ان ہی ججوں سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہتے ہیں۔
نیا قانون شکایت کنندگان کو آرٹیکل 184(3) کے تحت دیئے گئے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دے گا۔
چونکہ قانون کا اطلاق پرانے مقدمات پر بھی ہوگا، فواد کا خیال ہے کہ اس سے نواز شریف کو فائدہ ہوگا۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور ختم نہیں ہو سکتی، یہ ہماری ریڈ لائن ہے جس کا ہم دفاع کریں گے۔
لاہور میں آل پاکستان وکلاء کنونشن خطاب کرتے ہوئے عابد زبیری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا جو فیصلہ ہے 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں وہ کہاں ہے، آئین کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں گے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ فل کورٹ اگر بننا ہے تو 15 ججرز کا بنے گا ورنہ نہیں بنے گا، سب چاہتے ہیں اصلاحات ہوں لیکن بل غلط وقت پر پیش کیا گیا۔
عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کوتاریخ پراعتراض تھا تو نظرثانی درخواست دیتی، تاریخ تبدیل کرنے کا الیکشن کمیشن کو کیا اختیار تھا، اداروں نے آئین اور قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، لہٰذا وقت آگیا ہے آئین توڑنے والوں پر آرٹیکل 6 لگایا جائے۔
صدر سپریم کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتی، ایک ہی مطالبہ ہے چیف جسٹس اپنا ہاؤس آرڈر میں کریں، جب جوڈیشری پر حملہ ہوگا ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ زیادتی کسی جماعت سے ہو فرد سے یا حسان نیازی سے قبول نہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے ہم سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں، لیکن میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ کالے کورٹ کے ساتھ ہوں۔
عابد زبیری نے مطالبہ کیا کہ اختلاف جمہوریت کی خوبصورتی ہے، جو بھی قانون کی بالادستی کی بات کرے گا اس کے ساتھ ہیں، عہد کریں ایک ادارے کی حیثیت سے آئین اور عدلیہ کے ساتھ ہیں، البتہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے وہ سپریم کورٹ کےحکم کے مطابق انتخابات کرائے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2023 قومی اسمبلی نے منظور کرلیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ ایوان میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ وزیر قانون نے پیش کی۔
بل پر بحث کے بعد شق وار منظوری لی گئی جس کے بعد قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔
وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ قانون سازی آئین پاکستان کے عین مطابق ہے، اس قانون نے سپریم کورٹ کی پاور میں کمی کی اور نہ اضافہ کیا، سپریم کورٹ میں مداخلت تب ہوتی ہے جب ہم کسی اجنبی کو اختیار میں شامل کرتے ہیں۔
بل کے مطابق بینچ کی تشکیل کا فیصلہ 3 ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی جو چیف جسٹس، 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوگی، کمیٹی کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔
منظور شدہ بل میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت کیس کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا، معاملہ قابل سماعت ہونے پر بینچ تشکیل دیا جائے گا، معاملے کی سماعت کے لئے بنچ کم سے کم 3 رکنی ہوگا جب کہ تشکیل کردہ بینچ میں کمیٹی سے بھی ججز کو شامل کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 روز میں اپیل دائر کی جا سکے گی، 14 روز میں اپیل کی سماعت کے لئے لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا، اپیل کرنے والے فریق کو مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا اور آئین کی تشریح کے لئے 5 سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں ہوگا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں محسن داوڑ کی ترمیم بھی منظورکرلی گئی، بل منظوری کے بعد ماضی کے مقدمات میں بھی ریلیف ملے گا، ماضی میں مقدمات کے فیصلوں کے خلاف ایک ماہ کی اپیل کرسکیں گے جب کہ ایک 184 کے تحت ماضی کے فیصلوں کو بھی ایک ماہ کا وقت مل جائے گا۔
اس سے قبل محمود بشیر ورک کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا، جس میں سپریم کورٹ پریکٹسز اور پروسیجر بل پر غور کیا گیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ازخود نوٹس کا بے جا استعمال کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد آنے والے تین چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کا استعمال بہت کم کیا تاہم چیف جسٹس ثاقب نثارنے سو موٹو اختیار کا بے دریغ استعمال کیا جس پر بار کونسلز اور لیگل کمیونٹی کو شدید تحفظات تھے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز کی جانب سے اس معاملے پر بات کی گئی تو حکومت نے قانون سازی کا فیصلہ کیا۔
ممبر کمیٹی محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ اس ایکٹ کا اطلاق پچھلے تاریخوں سے کیا جائے جس پرسید نوید قمرنے کہا کہ ایسا نہ کریں اس سے تاثرجائے گا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لئے قانون سازی کی جارہی ہے۔
وزیر قانون نے بتایا کہ معاملے کو ججز پر ہی چھوڑ دیا جائے، کمیٹی نے غور کے بعد بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ایوان میں پیش کیا تھا جسے قائمہ کمیٹی بجھوا دیا گیا تھا۔