Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  
Live
Politics March 29 2023

بل پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، عدالت میں تقسیم ہوسکتی ہے: صدر مملکت

چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی قانون سازی کی ٹائمنگ ایک سوالیہ نشان ہے، عارف علوی
شائع 29 مارچ 2023 09:02pm
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علی۔ فوٹو — فائل
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علی۔ فوٹو — فائل

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ابھی نہیں دیکھا، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا فیصلہ کروں گا۔

نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹر ویو میں عارف علوی نے کہا کہ ی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی، میں انسان حقوق کی وزیر سے بات کرتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کوئی ایوارڈ نہیں دے گی، پی ٹی آئی حکومت میں دیئے گئے ایوارڈز پر مجھے بھی تعجب ہوا۔

انتخابات پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لئے کسی نے کہا سکیورٹی نہیں دے سکتے، کسی نے کہا فنڈز اور کسی نے کہا وہ آر او نہیں دے سکتے، تمام اداروں میں آج کل پریشانی کے کریکس نظر آرہے ہیں۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ جمہوری طاقتیں آپس میں لڑیں تو خطرہ رہتا ہے آئین کو مسخ نہ کیا جائے، ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اتفاق رائے تلاش کیا جاتا ہے، البتہ غصے اور دباؤ میں لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو انہیں ادا نہیں کرنے چاہیے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر صدر علوی نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ابھی دیکھا نہیں ، لہٰذا یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ میں اس پر کیا فیصلہ کروں گا، چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی قانون سازی کی ٹائمنگ ایک سوالیہ نشان ہے۔

بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ اس وقت کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا

ان کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی کا کہنا تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، عدالت میں تقسیم ہوسکتی ہے، دنیا میں ایسا ہوتا ہے، بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ اس وقت کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا، دعا ہے کہ ججز آپس میں اشتراک پیدا کریں۔

اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے

اکتوبر میں انتخابات کے اعلان کے حوالے سے صدر علوی کا کہنا تھا کہ اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے، انہوں نے یہ بات صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے قبل عمران خان کو بتا دی تھی۔

یاسمین راشد سے گفتگو کی آڈیو کی تصدیق اور نہ ہی تردید کروں گا

اپنی آڈیو لیک پر صدر مملکت نے کہا کہ یاسمین راشد سے گفتگو کی آڈیو لیک کا کوئی ایکشن نہیں لیا، نہ میں اس آڈیو کا تصدیق اور نہ ہی تردید کروں گا، میری یا کسی کی آڈیو لیک کرنا غیر اخلاقی کام ہے۔

کیا نیا عدالتی بل نواز شریف کو نااہلی کے فیصلے میں فائدہ پہنچائے گا؟

محسن داوڑ کی ترمیم نے بل کو دائرہ کار کو سابقہ مقدمات کیلئے فائدہ مند بنا دیا۔
شائع 29 مارچ 2023 07:36pm

چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے لیے بنائے گئے نئے قانون میں ایک ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، جس کے بعد اس بل نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔

یہ ترمیم اصل میں محسن داوڑ نے قائمہ کمیٹی میں پیش کی تھی، جہاں بلاول بھٹو زرداری نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔

تاہم بدھ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف بلاول کو گھیرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ترمیم کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران منظور ہونے والے بل کا حصہ بنا دیا گیا۔

ایوانِ بالا میں اور صدر کی منظوری کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔

محسن داوڑ کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ بل کی شق 5 میں ترمیم کی جائے تاکہ:

“ذیلی دفعہ (1) کے تحت اپیل کا حق کسی ایسے متاثرہ شخص کو بھی دستیاب ہو جس کے خلاف اس ایکٹ کے آغاز سے قبل آئین کے آرٹیکل 184 کی شق (3) کے تحت حکم دیا گیا ہو۔ بشرطیکہ اپیل اس ذیلی دفعہ کے شروع ہونے کے 30 دنوں کے اندر دائر کی جائے۔

فطری طور پر، اس سے از خود نوٹسز کے ہر فیصلے کو چیلنج کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ بل 30 دن کی مدت متعین کرتا ہے، اور سینیٹ کے راستے اسمبلی سے گزر چکا ہے، اس لیے اگلے چند دنوں میں اس پر کچھ کارروائی ہوتی نظر آنی چاہیے۔

کم از کم فواد چوہدری تو یہی سوچ رہے ہیں۔

بل کے اسمبلی سے منظوری کے فوراً بعد پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں فواد نے کہا کہ ترمیم خفیہ طور پر منظور کی گئی۔

انہوں نے لکھا، ”آج اس حکومت نے نواز شریف کو نااہلی کے خلاف ریلیف دینے کیلئے چوری ترمیم کروائی، انہوں نے پھر ثابت کیا یہ کتنے بڑے فراڈ ہیں، نواز شریف کی نااہلی آرٹیکل 184(3) کے تحت ہوئی، عام قانون سے آپ اس کو کیسے بدل سکتے ہیں، نواز شریف آ کر ٹرائیل کا سامنا کریں چور دروازے استعمال کرنا بند کریں۔“

نواز شریف کو اس قانون سے کیسے فائدہ ہوگا؟

ن لیگ کے سپریمو کو 2017 میں عوامی عہدہ رکھنے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تھا، آرٹیکل 184(3) کے تحت تشکیل دی گئی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے ساتھ دروغ گوئی کی تھی، کیونکہ وہ اپنے بیٹے سے وصول کی جانی والی تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے تھے، بھلے ہی وہ انہیں ملی نہ ہو۔

ججز کو اس پانچ رکنی لارجر بینچ سے چنا گیا تھا جس نے اصل میں شریف خاندان کے خلاف پانامہ کیس کی سماعت کی تھی۔

نواز شریف نے 2017 میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن بے سود رہا۔

آرٹیکل 184(3) (جو سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے) کے تحت کئے گئے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور متاثرہ فریق کے پاس واحد راستہ نظرثانی کا مطالبہ کرنا ہے، جس کا بنیادی مطلب ہے کہ آپ ان ہی ججوں سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہتے ہیں۔

نیا قانون شکایت کنندگان کو آرٹیکل 184(3) کے تحت دیئے گئے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دے گا۔

چونکہ قانون کا اطلاق پرانے مقدمات پر بھی ہوگا، فواد کا خیال ہے کہ اس سے نواز شریف کو فائدہ ہوگا۔

پشاور ہائیکورٹ نے سابق صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کو بری کردیا

ضیاءاللہ آفریدی کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل خارج
شائع 29 مارچ 2023 06:20pm
علامتی تصویر (فائل فوٹو)
علامتی تصویر (فائل فوٹو)

پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخوا حکومت کے سابق وزیر ضیاء اللہ آفریدی کو غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں بری کردیا۔

جسٹس ارشد علی نے کیس کی سماعت کی اور ضیاءاللہ آفریدی کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل خارج کردی۔

اس وقت کے احتساب کمیشن نے کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں ضیاء اللہ آفریدی کو گرفتار کیا تھا۔

لوئر کورٹ نے ضیاء اللہ آفریدی کو بری کیا تھا، جس کے بعد صوبائی حکومت نے ضیاء اللہ آفریدی کی بریت کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

حسان نیازی کی والدہ کی درخواست لارجربینچ کے روبرو مقرر کرنے کی سفارش

حسان نیازی کیخلاف درج بے بنیاد مقدمات خارج کرنے کا حکم دیا جائے، والدہ کی استدعا
شائع 29 مارچ 2023 01:24pm

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی اور مختلف صوبوں میں لے جانے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے مزید سماعت کیلئے درخواست لارجر بینچ کے روبرو مقرر کرنے کی سفارش کردی۔

حسان نیازی کی والدہ نورین نیازی کی درخواست پرلاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست مزید سماعت کیلئے لارجر بنچ کے روبرو مقرر کرنے کی سفارش کی۔

عدالتی حکم پر حسان نیازی کیخلاف درج 7 مقدمات کی تفصیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نے پولیس رپورٹ پیش کی۔

نورین نیازی کے وکیل عابد ساقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ حسان نیازی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے بلاجواز مقدمات درج کرکے ریمانڈ کے نام پر ایک سے دوسرے صوبے منتقل کیا جارہا ہے۔

والدہ کی جانب سے درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ حسان نیازی کیخلاف درج بے بنیاد مقدمات خارج کرنے کا حکم دیا جائے۔

شہباز گل کو امریکا جانے کی اجازت مل گئی

پی ٹی آئی رہنما کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا
شائع 29 مارچ 2023 11:55am
تصویر: اے ایف پی/ فائل
تصویر: اے ایف پی/ فائل

لاہورہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کا نام چار ہفتوں کیلئے ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا۔

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے اقدام کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے 4 ہفتوں کیلئے شہبازگل کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے امریکا جانے کی اجازت دے دی ہے۔

سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ اندرونی معاملہ نہیں ہوتا، رانا ثناء اللہ

توقع ہے عدالت عظمیٰ قوم کی رہنمائی کرے گی، وزیر داخلہ
شائع 29 مارچ 2023 11:43am
فوٹو۔۔۔۔۔۔ اسکرین گریب
فوٹو۔۔۔۔۔۔ اسکرین گریب

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ قانون کی حکمرانی میں کردار ادا کرے، ابہام فل کورٹ بینچ ہی دور کرسکتا ہے، توقع ہے عدالت عظمیٰ قوم کی رہنمائی کرے گی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاست میں رواداری میں عدالت اپنا کردار ادا کرے، سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ اندرونی معاملہ نہیں ہوتا، ابہام کو دور کرنے کے لئے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جانا چاہیئے، ازخود نوٹس کو پہلے 7 پھر 5 ججز نے سنا، ابہام فل کورٹ بینچ ہی دور کرسکتا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالت عظمی قانون کی حکمرانی میں کردار ادا کرے، عدالت عظمی سے توقع ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کرے گی، سپریم کورٹ سے انصاف چاہتے ہیں، انصاف کے لئے سپریم کورٹ کے دروازے پر آئے ہیں۔

رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے مفاد میں بہتر ہوگا کہ اب کوئی زحمت پیدا نہ کرنے، پارلیمنٹ کو قانون کی حکمرانی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے، قومی اسمبلی نے درست وقت پر بل پر فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ میرے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ آگے کرنے کا اختیار ہے، اگر 2 اسمبلیوں کے انتخابات پہلے اور 3 کے بعد میں ہوئے تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا، اس طرح کے انتخابات کے بعد شفاف الیکشن مبہم ہوجائیں گے۔

رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ فتنہ 2014 سے اسی ایجنڈے پر کام کررہا ہے، فتنہ ملک میں انارکی اور لاقانونیت پھیلانا چاہتا ہے، جب میدان لگے گا تو پتہ چل جائے گا کہ کون کتنا مقبول ہے۔

ہنگامہ آرائی کیس: پولیس کو اسد عمر کی گرفتاری سے روک دیا گیا

پی ٹی آئی رہنما کی عبوری ضمانت منظور
اپ ڈیٹ 29 مارچ 2023 12:01pm
تصویر/ فائل
تصویر/ فائل

لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے جلاؤ گھیراؤ اور پولیس تشدد کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسدعمر کی 7 اپریل تک عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔

عدالت نے پولیس کو اسد عمر کی گرفتاری سے روکتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے۔

انسداد دہشتگردی عدالت نے اسد عمر کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔

تھانہ شادمان پولیس نے اسد عمر سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کررکھا ہے جبکہ عدالت نے گذشتہ روزعدم حاضری کے باعث ضمانت خارج کی تھی۔

پی پی پی، ن لیگ کے پارٹی فنڈنگ کیسز کے فیصلے جلد کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا
شائع 29 مارچ 2023 11:22am
اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے پارٹی فنڈنگ کیسز کے فیصلے جلد کرنے کی پی ٹی آئی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کورٹ الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کر سکتی ہے کہ نہیں، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کا طریقہ کار تھوڑا خراب ہوگیا ورنہ یہ مسائل نہ ہوتے، پارٹی اکاؤنٹ کے آڈٹ کے بعد پارٹی کو صفائی کا موقع دینا چاہیئے، باقی کارروائی بعد میں کرنی چاہیئے تھی۔

عمائمہ انور نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کتنا وقت لگے گا باقی پارٹی کی اسکروٹنی کرنے میں؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اس حوالے سے فکس ٹائم نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایک اکاؤنٹنٹ کو بھی شامل کرنا چاہئیے تھا کمیٹی میں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ایک اکاؤنٹنٹ شامل ہے اے جی پی آر سے، انتخابات کی وجہ سے بڑا بوجھ ہے الیکشن کمیشن پر۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن تو آپ کرواہی نہیں رہے، وہ تو اکتوبر میں ہیں، تب تک یہ کام مکمل کر لیں۔

بعدازاں دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی کی فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار

انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کی متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر
شائع 29 مارچ 2023 11:08am
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار کر دیا۔

مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کی متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی تاہم رجسٹرار آفس نے درخواست لینے سے انکار کردیا۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تینوں سیاسی جماعتوں کو انتخابات ملتوی کیس میں پارٹی بننے کی درخواست دوران سماعت عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

گذشتہ روز حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں شامل تینوں بڑی جماعتوں نے تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا تھا۔

جج صاحبان کے آپس کے معاملات سے ہمارا لینا دینا نہیں، فواد چوہدری

سپریم کورٹ کو کمزور ہونے نہیں دیں گے، پی ٹی آئی رہنما
شائع 29 مارچ 2023 10:21am
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جج صاحبان کے آپس کے معاملات سے ہمارا لینا دینا نہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ ‏پوری قوم سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے، جج صاحبان کے آپس کے معاملات سے ہمارا لینا دینا نہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کمزور ہونے نہیں دیں گے اور نہ ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش برداشت کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری عوام پر چھوڑیں، عمل عوام کروائیں گے۔

پی ٹی آئی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی یقین دہانی کرائے، سپریم کورٹ

الیکشن تاریخ کے مقدمے میں چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جسٹس جمال مندوخیل
اپ ڈیٹ 29 مارچ 2023 05:45pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت (کل) جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے نے بدھ کی سماعت میں کہا کہ غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کےدرمیان تناؤسےدیگرریاستی ادارےمتاثرہورہےہیں، عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے اس لیے خاموش رہ کر سنتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی بھی مانگ لی۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اس بات بھی کی وضاحت کردی کہ ان کے اور جسٹس منصور علی شاہ کی نظر میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق درخواستیں چار تین کے اکثریتی فیصلے سے مسترد ہوچکی ہیں اور یہ کہ عدالت عظمی نے یکم مارچ کے فیصلے پر آرڈر آف دی کورٹ جاری ہی نہیں کیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔

لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

بدھ کو سماعت شروع ہوئی تو وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ کیس میں پارٹی بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنا مؤقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کوسنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، آپ کی جوگزارشات ہیں وہ تحریری صورت میں دیں۔

فاروق ایچ نائک نے کہا کہ ہم نے درخواست مقدمہ میں فریق بنانے کیلئے دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو سن لیں گے آپ درخواست دیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اختیارات کے نقطہ پرفیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کا نقطہ نہیں ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں، رجسٹرار آفس ہماری درخواست ہی نہیں لیتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آفس کو ہم کہہ دیتے ہیں آپ درخواست دے دیں۔

جسٹس جمال مندو خیل

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 4 ججز نے پی ٹی آٸی کی درخواستیں خارج کی، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈرآف کورٹ نہیں تھا تو صدر نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادرعدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف پیش کیا کہ میری آج پہلی پیشی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سے پہلے سواتی صاحب کمیشن کے وکیل تھے، ہم اس کیس کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ عدالت مجھے نہیں سنناچاہتی تو دوسرےوکیل کو سن لیں، عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں، بینچ کہہ دے تو چلا جاؤں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد شاہ اور سجیل سواتی پیش ہوئے تھے، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی ہیں۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے کہہ دیا تومیں بیٹھ رہا ہوں، ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں، عرفان قادر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔

الیکشن کمیشن کے دوسرے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سجیل سواتی سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کےتحت فیصلے پرعملدرآمد کیا۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنی گزارشات پیش کروں گا، الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدرمملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا، اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی، آرٹیکل218کی ذمہ داری کسی بھی قانون سےبڑھ کرہے، انتخابات کیلئے سازگارماحول کا بھی آئین میں ذکرہے، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روزمیں ہوناہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آج ریکارڈ کی فائل منگوالیں،اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں۔

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پرپانچ ججزکے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلہ کے پیراگراف 14 کو پڑھ کرعمل کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا۔ وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہےکہ فیصلہ 4/3 کا ہے۔ وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ اسی بات کو دیکھ کرعدالتی حکم پرعمل کیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، اقلیت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی، عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا مؤقف ہے۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی، تو سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کیلئے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن کی تاریخیں تجویزک یں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل17پر امن انتخابات کی بات کرتا ہے، ووٹ کے حق اور شہریوں کی سیکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزارکی نفری مانگی گئی، فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، رپورٹس میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہرکی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز ہر انحصار کر رہے ہیں، جب کہ عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا، وزارت داخلہ نے 8 فروری کے خط میں امن وامان کا ذکر کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن سے کہا کہ اس کے علاوہ بہت سارے سوالات ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں، آپ دلاٸل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پنجاب کیلئے 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہے۔ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سےجواب دے سکتی ہے۔

انتخابات کیلئے بجٹ اور سیکورٹی کے سوالات

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف دیا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کاعلم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک ہی دفعہ انتخابات پر47 ارب روپے خرچ ہوں گے، اور انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا سیکیورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ نے توعمران خان پرحملے کا بھی حوالہ دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جومعلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ نے یہ باتیں صدرمملکت کےعلم میں لاٸی، اگر صدر کو نہیں بتایا توآپ نے غلطی کی ہے، صدر مملکت نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا علاقوں کو کلٸیر کرنے میں 6 ماہ لگیں گے، سیکیورٹی سے متعلق اعداد وشمار بڑے سنجیدہ ہیں۔

وکیل سنجیل سواتی نے کہا کہ پنجاب نے بھی مختلف علاقوں میں جاری آپریشن کا ذکر کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو علم ہے کچے کےعلاقوں میں ہر3 روز بعد آپریشن ہوتا ہے، پنجاب میں کچےکا آپریشن کب مکمل ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچے آپریشن مکمل ہونے میں 6 ماہ تک لگ سکتے ہیں، کمیشن کو بتایا گیا تھا فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن ناممکن ہوگا، رپورٹس میں بتایا گیا مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، رپورٹس کےمطابق خطرات سے نکلنے میں 7 ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثربھی زیادہ ہے، خیبر پختونخوا کے 80 فیصد علاقوں میں سیکیورٹی خطرات زیادہ ہیں۔

چیف جسٹس نے سنجیل سواتی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے صدر مملکت کو حقاٸق بتائے بغیر ہی تاریخیں تجویز کر دی۔ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا، بلکہ انہوں ںے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں دہشتگردی کے 5 واقعات ہوئے، آخری واقعہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، اور اس کا مسٸلہ فنڈز کی دستیابی کا ہے۔

جہاں مسئلہ زیادہ ہے وہاں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کوچلنے رہنے دینا ہے، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لے کر آگاہ کرنے کا کہا تھا، ان کے مطابق سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پرامن نہیں ہوسکتے، لیکن کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات مؤخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے آپریشن کیوجہ سے انتخابات ملتوی کردیا، کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دے کرواپس لی گئی، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کون سا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا، عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتحابات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔

وقفے کے بعد ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل شروع کئے اور کہا کہ عدالتی سوالات پر ہدایات لی ہیں، الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبرکی تاریخ عارضی نہیں، ایجنسیوں کی رپورٹ کےمطابق تھریٹس لیول بڑھ گیا، پرامن اورشفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کوئی بھی حکم جاری کرسکتا، ورکرزپارٹی فیصلہ کے تحت انتخابات کیلئے وسیع اختیارات ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں اداروں سے معاونت نہیں مل رہی، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے، صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہوگیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی توعدالت آجاتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشنز 6 ماہ آگے کیوں کر دئیے؟ کیا ایسے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پورے کرے گا، کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کرانے کا اختیارکس دن سے شروع ہوتاہے، انتخابی تاریخ مقرر ہونے سے اختیار شروع ہوتا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر ہو جائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام مؤخر کیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے تاریخ نہیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ گورنراورصدرکی دی گئی تاریخ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں، آئین میں واضح ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دے گا، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آٸین سے بالاتر ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرکے قائل کرنا چاہئے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبرکوٸی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہو جائے گا، 8 اکتوبرکی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پولنگ کی تاریخ الیکشن پروگرام کا حصہ ہوتی ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پولنگ کی تاریخ الیکشن شیڈول کا حصہ ہوتی ہے۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ صدر کو تجویز تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا۔ جسٹس امین الدین خان نے پھر استفسار کیا کہ عدالت نے صدر کو آگاہ کرنے سے نہیں روکا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں، انتخابات کی طرح زندگی کا تحفظ بھی عوام کا بنیادی حق ہے، عدالت صرف الیکشن کمیشن کا حکم بدنیتی پر مبنی ہونے پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا بدنیتی کا نقطہ درخواست گزارنے اٹھایا ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ درخواست میں بدنیتی کا نقطہ نہیں اٹھایا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ بنیادی طور پر مدد کی پکارہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آزادنہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن حکومت پرانحصارکرتا ہے، حکومت نے بتانا ہے وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پرمطمئن ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پیسےاور سیکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہوسکتے ہیں۔ جس پرسجیل سواتی نے جواب دیا کہ حکومتی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کرواسکتےہیں۔ الیکشن کمیشن حقیقت پسندانہ فیصلہ کرے گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے توعدالت کو بتاتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، بنیادی حقوق کومدنظررکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہوگئی، آرٹیکل 218-3 آرٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہوسکتا ہے۔

سجیل سواتی نے کہا کہ آرٹیکل218-3شفاف منصفانہ انتحابات کی بات کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شفاف انتحابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن شفاف نہ ہوں توجہموریت نہیں چلے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سازگار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ کا استعمال نہ ہو، سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سمندر پار پاکستانیوں کیلئےکچھ نہیں کیا، حکومت سے پوچھتے ہیں کہ 6 ماہ کا عرصہ کم ہوسکتا ہے یا نہیں۔

پی ٹی آئی سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی کا مطالبہ

بدھ کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیئے اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی مانگتے ہوئے کہا کہ سیاسی قوتوں کے درمیان تناؤ سے دیگر ریاستی ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے اس لیے خاموش رہ کر سنتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا، فیئر پلے ہو تو اسپورٹس مین سامنے آتے ہیں، جنگجو نہیں، غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کروائے گا یہ بتائیں، کوئی سینئرعہدیدار یقین دہانی کروائے تو مناسب ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کامقصدریاستی کام کو آئین کے مطابق رکھنا ہے، عدالتی کارروائی کسی کو فائدہ دینے کے لیے نہیں، الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں، 2 وزرائےاعلی نے اپنا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا، آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھانا پڑتے ہیں، وزارت داخلہ اور دفاع سے کم سےکم وقت پوچھ کر بتائیں۔

اٹارنی جنرل سے کہا کہ رواں سال 412 سیکیورٹی اہلکار اور سو سے زائد سویلین شہید ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات2 دن میں بھی ہوسکتے ہیں، اگر ایک دن ممکن نہ ہوں۔

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ ایران میں جنگ کے دوران بھی الیکشن ہوئےتھے۔

واضح رہے کہ 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ۔

خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

عمران خان کی آج حاضری سے استثنا کی درخواست خارج کردی گئی
اپ ڈیٹ 29 مارچ 2023 12:46pm
فوٹو۔۔۔۔۔ اے ایف پی
فوٹو۔۔۔۔۔ اے ایف پی

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے خاتون جج دھمکی کیس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی آج حاضری سے استثنا کی درخواست خارج کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے، اور عدالت نے عمران خان کو 18 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: جج دھمکی کیس: عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری قابلِ ضمانت وارنٹ میں تبدیل

عمران خان کے وکلاء نے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بحال رکھنے کی استدعا کردی۔

وکلاء نے کہا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے، سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق ہائیکورٹ نے بھی نوٹس جاری کیے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ سرکار کی طرف سے ابھی کوئی پیش نہیں ہوا، ان کی طرف سے دیکھتے ہیں کیا کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے وارنٹ معطلی میں 24 مارچ تک توسیع

وکیل عمران خان نے کہا کہ میں ابھی ہائیکورٹ جارہا ہوں، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آپ بے شک چلے جائیں آپ کے دلائل تو آگئے ہیں۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہر تاریخ پر عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی گئی، گزشتہ سماعت پر جج نے کہا کہ بہت بار استثنیٰ دیا جاچکا۔

پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کا کہنا ہے کہ پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پران کے دستخط ہی نہیں، صرف ان کے وکلاء کے دستخط ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے حاضری سے استثنا کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

فاضل جج نے وکلا اور پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی جانب سے استثنا کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 14 مارچ کو خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے 16 مارچ تک سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اس کے بعد 16 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے دلائل سننے کے بعد ایک بار پھر چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری معطل کیے تھے۔

عدالت نے عمران خان کو 20 مارچ تک متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں 13 مارچ کو سول جج ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ رانا مجاہد رحیم نے عمران خان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت نے عدم پیشی پر عمران خان کو 29 مارچ تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

خاتون جج دھمکی کیس کا پس منظر

عمران خان نے 20 اگست کو ایف نائن پارک میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر مبینہ تشدد کیخلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر دھمکی بھی دی تھی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ، ”آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پرتشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا“۔

اس بیان کے بعد پیمرا نے 21 اگست کو عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ٹی وی چینلزکو ہدایات جاری کی تھیں۔ 6 صفحات پرمشتمل اعلامیے میں کہا گیا تھاکہ عمران کی براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینل ریکارڈڈ تقریر چلا سکتے ہیں۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں، اداروں اور افسران کے خلاف بیانات آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔

جاری کردہ نوٹیفکیشن میں عمران خان کے ایف نائن پارک میں خطاب کا حوالہ بھی شامل تھا۔