Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
زمان پارک لاہور میں ہنگامہ آرائی اور کار سرکار میں مداخلت پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 4 مقدمات درج کرلیے گئے۔
عمران خان کے خلاف تھانہ ریس کورس میں 4 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: ظل شاہ کی موت کے حقائق چھپانے پر عمران خان و دیگر کیخلاف مقدمہ
پولیس وین کو توڑنے کا مقدمہ ایلیٹ پولیس اہلکار شبیر حسین کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
ٹریفک پولیس آفس جلانے کا مقدمہ ٹریفک آفیسر ظفر القدوس کی مدعیت میں درج ہوا جبکہ دیگر 2 مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ایس ایچ او ریس کورس ریحان انور کی مدعیت میں درج مقدمے میں دہشت گردی سمیت 20 دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف ایک اور مقدمہ درج
مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین اور سیکڑوں کارکنان نے عمران خان کی ایما پر سنگین جرائم کیے، عمران خان اور ساتھیوں پر مجرمانہ سازش کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے۔
مقدمے میں بلوہ، مسلح افراد کا غیرقانونی اکٹھ، سمن وصولی سے انکار، کار سرکار میں مداخلت اور مجرموں کو پناہ دینے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمے کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان عوام کیلئے مشکلات اور پریشانی پیدا کرنے کے موجب بنے، کارکنوں نے پیٹرول بم استعمال کیے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، پی ٹی آئی کارکنوں کے حملوں میں ڈی آئی جی اسلام آباد سمیت 63 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
دوسری جانب زمان پارک میں پی ٹی آئی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے، کارکنوں کا جوش و خروش عروج پر ہے۔
کارکنان کی جانب سے زمان پارک کا محاصرہ بھی برقرار ہے، کارکن کپتان کی گرفتاری کی کوشش کا مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کا پولیس کو آج صبح 10 بجے تک زمان پارک آپریشن روکنے کا حکم
پولیس اور کارکنان کے درمیان جھڑپیں گزشتہ روز سے معطل ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کو آج صبح 10 بجے تک زمان پارک آپریشن روکنے کا حکم دیا تھا۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے آج نیوز کے پروگرام “فیصلہ آپ کا “ میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) گلگت بلتستان (جی بی) کو عہدے سے ہٹانے کی وجوہات بیان کی ہیں ۔
خصوصی گفتگو میں پروگرام کی میزبان عاصمہ شیرازی کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے خالد خورشید نے کہا کہ کسی صوبے کا وزیراعلیٰ جب کسی دوسرے صوبے میں جاتا ہے تو اس صوبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو سیکیورٹی دیں، روٹ کلئیر کرائیں اور بتائیں کہ یہاں جاسکتے ہیں اور یہاں نہیں۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ میں جب پنجاب جاتا ہوں تو میرے ساتھ پنجاب پولیس ہوتی ہے، خیبرپختونخوا جاتا ہوں تو کے پی پولیس ہوتی ہے۔ ایک میری اپنی چیف منسٹر سیکیورٹی ہوتی ہے، وہ جی بی پولیس نہیں ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ چار پانچ دن سے میں لاہور میں تھا اور چئیرمین پی ٹی آئی سے بجٹ کے حوالے سے ہمارے کچھ ایشوز تھے اور تنظیمی معاملات پر کچھ ڈسکشنز تھیں، خان صاحب نے مجھے ایک دو دن کیلئے وہاں روکا تھا۔
خالد خورشید نے کہا کہ بدقسمتی جس دن ہم وہاں گئے تو ظل شاہ کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا، جب ہم وہاں صبح جارہے تھے تو پائلٹ پنجاب پولیس نے کہا کہ سر آپ کا روٹ کلئیر نہیں ہے، تو ہم نہیں گئے، جب بتایا گیا کہ روٹ کلئیر ہے تو ہم گئے۔
انہوں نے بتایا کہ کل میں چیک آؤٹ کرکے اسلام آباد کی طرف جارہا تھا تو خان صاحب نے اس مسئلے پر بات کرنے کیلئے 10، 15 منٹ کیلئے زمان پارک بلالیا، مال روڈ سے جب ہم نکلے تو سامنے پولیس کھڑی تھی، راستہ بند کیا ہوا تھا، ہمیں کہا گیا کہ آگے روٹ کلئیر نہیں ہے، ہم نے کہا کہ بہت لیٹ ہورہا ہے، پیدل جانے کا کہا تو انہوں نے پیدل جانے سے بھی منع کردیا۔
خالد خورشید کے مطابق، ’پھر پنجاب پولیس کا جو پائلٹ ایسکارٹ تھا اس نے کہا کہ دوسرا جو روٹ ہے ادھر سے لے کر جاتے ہیں، دوسرے روٹ سے لے کر مجھے گئے، میں اندر گیا تو اندر حالات ہی اور تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر حالات ایسے ہوتے ہیں تو میرا روٹ کیوں کلئیر کیا جاتا ہے؟ ان کو پتا ہونا چاہئیے کہ وہ کونسا ایکشن کرنے جارہے ہیں۔‘
وزیراعلیٰ جی بی نے کہا کہ پھر ایک دو چینلز نے شاہ محمود قریشی صاحب اور میرا انٹرویو کیا، ہم واپس خان صاحب کے پاس گئے، پندرہ منٹ نہیں ہوئے تھے کہ پتھراؤ اور شیلنگ شروع ہوگئی، ’اس کے بعد میرے آئی جی اور سی ایس (چیف سیکیورٹی) پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ مجھے پتا بھی نہیں اور میری سیکیورٹی مجھ سے ہٹا کر آٹھ کلومیٹر دور کر دی گئی۔ اگلے دن صبح تک میرے ساتھ میری سیکیورٹی نہیں تھی۔ اندر مسلسل پتھراؤ ہوتا رہا شیلنگ ہوتی رہی ، انٹرنیٹ بند رہا، کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے۔‘
جی بی پولیس کی جانب سے ڈی آئی جی اور پنجاب پولیس پر بندوقیں تانے جانے مین کتنی صداقت ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، بالکل جھوٹ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اتنا میڈیا ادھر ہے کہیں سے ایک فوٹیج دکھا دیں، میں سیاست چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ دعویٰ کون کر رہی ہے مریم اورنگزیب؟ جس نے چار فیصد پر توشہ خانہ سے گھڑی لی ہوئی ہے۔
آئی جی گلگت بلتستان کو عہدے سے ہٹانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ میرے آئی جی کو کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سے پوری سیکیورٹی واپس لو، وزیر داخلہ سے پوری سیکیورٹی واپس لو، یہ کس حیثیت سے کہہ رہے ہیں؟ میں بطور وزیراعلیٰ یہ سوال کرتا ہوں کہ مریم نواز کو کس کیپیسٹی میں ایف سی کے جوان دیتے ہیں اور چیف منسٹر کو انکار کرتے ہیں؟’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک حد تک تو وہ (آئی جی جی بی) بھی گیا نا، اس سے آگے تو وہ بھی نہیں جا سکتا‘، اس بات پر اس کو ٹرانسفر کیا گیا، اس کو ہم بالکل قبول نہیں کریں گے اور اس پر احتجاج کریں گے، جو بھی قانونی چارہ جوئی ہوئی وہ کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری سکیورٹی نے کسی پولیس والے کو نہیں روکا، رانا ثناء اللہ اور پرائم منسٹر آفس پچھلے آٹھ مہینے سے کوشش کر رہا ہے کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی سیکیورٹی واپس لے لی جائے۔ رانا ثناء نے ہمیں لیٹر بھیجے کہ عمران خان کو تھریٹ الرٹ ہیں، ہم نے کابینہ میں فیصلہ کیا کہ عمران خان کو سیکیورٹی دیتے ہیں ، ہم نے سیکیورٹی بھیجی تو رانا ثناء نے کہا کہ سیکیورٹی واپس لیں، میں نے کہا کہ لکھ کر دیں تو انہوں نے انکار کردیا کہ لکھ کر نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آصف زرداری صاحب گلگت بلتستان میں ہوں، انہیں یہاں کی پولیس سے خطرہ ہو تو کیا مراد علی شاہ سندھ پولیس کے اہلکار سیکیورٹی کیلئے نہیں بھیج سکتے؟ بلاول جب الیکشن کے دنوں میں آئے تو ان کے ساتھ 75 سندھ پولیس کے جوان تھے۔
خالد خورشید نے کہا کہ حقیقت یہ ہے اسلام آباد پولیس سے پبلک سنبھالی نہیں گئی اور ان کو اب ایک بندہ چاہئیے جس پر الزام رکھا جاسکے۔
اس وقت زمان پارک میں جی بی پولیس کے کتنے اہلکار موجود ہیں؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ زمان پارک میں اس وقت جی بی کے دو منسٹرز موجود ہیں ان کی سیکیورٹی ہے۔
سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ عدالتوں کے رویے سے ریاست کمزور ہو رہی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری پر کہا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، کسی کو استثنیٰ نہیں، اب دیکھنا ہوگا کونسی ایسی قوتیں ہیں جو عمران خان جیسے فتنے کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ عمران خان خود کو قانون کے حوالے کریں، کارکنان کو ڈھال بنانے کی بجائے انہیں مقدمات کا سامنا کرنا چاہئے، یہ کہتے ہیں ریاست مدینہ میں قانون سب کے لئے برابر تھا اور اب خود عدالتوں سے بھاگ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک کو کمزور کرنے کا کلچر دیا، انہیں سیاست کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، البتہ عدالتوں کے رویے سے ریاست کمزور ہو رہی ہے۔
پی ڈی ایم سربراہ نے سابق امریکی نمائندہ خصوصی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ زلمے خلیل زاد عمران خان کے مؤقف کی تائید کر رہے ہیں، یہ ہمارے مؤقف کی توثیق ہے کہ عمران خان غیر ملکی ایجنٹ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شبلی فراز کا کہنا ہے کہ عمران خان تمام عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ ملک میں خوشحالی کاراستہ آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، 18 مارچ تک کیلئے عمران خان ضمانت منظور ہوئی تھی، لیکن انہوں نے 14مارچ کو زمان پارک پر چڑھائی کردی۔ 24 گھنٹے تک ظلم و تشدد کا بازار گرم رہا۔
شبلی فراز نے دعویٰ کیا کہ یہ عمران خان کوقتل کرنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی ان کیلئے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹولہ غریب عوام کا خون چوس رہا ہے، پی ٹی آئی کے خلاف تمام چور اکٹھے ہوگئے ہیں۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں، کارکن چٹان کی طرح اپنے کپتان کے دفاع کیلئے کھڑے رہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ زمان پارک کراچی میں ہوتا تو عمران خان کب کے گرفتار ہوچکے ہوتے، زمان پارک لاہور میں ہے اس لیے وہ اب تک گرفتار نہ ہوسکے۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ملک میں اس وقت ایک انتشار کی کیفیت موجود ہے، کراچی کو اس کا حق کیسے ملے گا کوئی حکمران اس پر بات نہیں کرتا، کراچی بااختیار ہوگا تو پاکستان مستحکم ہوگا۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مردم شُماری منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے، سندھ کے کئی دیہاتوں اور قصبوں میں زبردستی آبادی کو بڑھایا جارہا ہے، ہمارا بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ درست ثابت ہوا، سندھ حکومت نے تریپن یوسیز میں اضافہ کردیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہا کہ جن جماعتوں کے پاس شہر کا پندرہ فیصد بھی مینڈیٹ نہیں ان کا میئر کیسے آسکتا ہے، اٹھارہ مارچ کو باغ جناح کا جلسہ شہری سندھ کی سیاست میں ایک نئی روح پھونکے گا۔
پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کی صدر مملکت سے بات کی آڈیو سامنے آگئی ہے جس میں وہ بتارہی ہیں کہ لوگوں نے پیٹرول بم پھینکنے شروع کردیئے ہیں۔
تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد کی ایک اور مبینہ آڈیو سامنے آگئی ہے، جس میں وہ صدر مملکت عارف علوی سے بات کررہی ہیں۔
کارکن زمان پارک نہ لانے والوں کو ٹکٹ نہیں ملے گا، ایک اور آڈیو لیک
یاسمین راشد صدر مملکت کو بتارہی ہیں کہ ان کے کارکنان نے پٹرول بم پھینکنے شروع کر دیئے ہیں، اس سے پہلے کہ خون خرابہ ہو، آپ کو کسی سے بات کرنے کی ضرورت ہے، آپ ان سے کہہ دیں کہ میں خان صاحب سے بات کر لیتا ہوں۔
عارف علوی جواب میں یاسمین راشد سے کہتے ہیں کہ میں بات کرتا ہوں، لیکن میں سمجھ نہیں رہا کہ کس سے بات کرنی ہے۔
یاسمین راشد پھر کہتی ہیں کہ دیکھیں کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی مر جائے گا، صورتحال اتنی بری ہو جائے گی کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں گے، جو ہمارا مقصد تھا۔
یاسمین راشد کہتی ہیں کہ آپ خان صاحب سے کہیں کہ یہ کام کسی اور دن کرلینا، میرا تو یہ خیال ہے باقی آپ کی مرضی ہے، انہوں نے تو باز نہیں آنا، ایک طرف رینجرز ہے اور یہاں سے پیٹرول بم چل رہے ہیں، ایک واٹر کینن کو بھی آگ لگ گئی ہے۔
یاسمین راشد بتاتی ہیں کہ میں تو شروع سے ہی زمان پارک سے باہر ہوں کیوں کہ میرے اور کام تھے لوگوں کو بلانا اور کچھ اور۔ بس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب ہمارے لئے برا ہورہا ہے۔
صدر مملکت کہتے ہیں کہ چلیں میں دیکھتا ہوں اور اسد عمر سے بات کرتا ہوں۔
یاسمین راشد کہتی ہیں کہ اسد عمر سے تو میری بات ہوئی ہے لیکن وہ کہہ رہا ہے کہ آپ نے کچھ نہیں کہنا، میں اور اسد دنوں باہر ہیں۔ آپ شاہ صاحب سے بات کرلیں وہ اندر ہی ہیں۔
اسد عمر کی صدر مملکت سے بات کی تصدیق
دوسری جانب اسد عمر نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر ایک سے زیادہ رائے آجاتی ہیں، صدر سے بات کی تھی، مداخلت کا نہیں کہا تھا، سپریم کورٹ کو آڈیو لیکس کا نوٹس لینا چاہئے۔
اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو جیل میں ڈلوا کر ہمیں مزید مقبولیت کی ضرورت نہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو اقوام متحدہ میں اپنے نبی ﷺ کا مقدمہ لڑنے پر سزا دی جارہی ہے۔
زمان پارک کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں پاکستان سمیت پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ لاہور میں پولیس کی جانب سے کس طرح فسطایت کا مظاہرہ کیا گیا، بے گناہ اور نہتے لوگوں پر شیلنگ کی جارہی ہے، لاٹھی چارج کیا جارہا ہے، واٹر کینن سے حملے کئے جارہے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسی حوالے سے کیس زیر سماعت ہے، کچھ اعتراضات تھے جو ختم ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ میں بیٹھا ہوں اور فیصلہ کرکے جاؤں گا۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی عمران خان کی حفاطتی ضمانت کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔ اس تمام عدالتی کارروائی کے دوران اتنی بربریت اور تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پولیس اور رینجرز کے ہزاروں اہلکار زمان پارک پہنچے ہوئے ہیں جیسے انہوں نے کسی بہت بڑے دہشت گرد کو گرفتار کرنا ہے، یہ صرف توشہ خانہ کا مقدمہ ہے، جس کی حقیقت سب کو پہلے ہی پتہ تھی اور گزشتہ 3 دن میں ہر چیز کھل کر سامنے آگئی ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اسی توشہ خانہ سے پی ڈی ایم کی حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے تحائف لئے، اور اس سے بہت ہی کم قیمت میں تحائف لئے گئے جس قیمت میں عمران خان نے لئے تھے، ماضی کے حکمرانوں نے بڑی بڑی گاڑیاں لیں، گھڑیاں بھی لیں اور انناس تک نہیں چھوڑے۔ دنیا سوچ رہی ہوگی کہ اس ملک کا قانون اور آئین کہاں ہے، کیا کوئی یقین کرے گا کہ یہ صرف توشہ خانہ کیس کی وجہ سے اتنا طوفان برپا کیا گیااور عوام پر ظلم و ستم کیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ زمان پارک میں آپریشن 15 مارچ کو ہو رہا ہے، دو سال قبل اسی دن اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف دن منایا جائے گا، اور ایسے لوگوں کا ہاتھ روکا جائے گا جو ہمارے نبیﷺ کی گستاخی کرتے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس ساری جدو جہد اور کاوش کے پیچھے جس کا نام ہے وہ عمران خان ہے، جس نے پہلے اسلامی ممالک کو اپنے مؤقف پر راضی کیا اور پھر اس معاملے کو اقوام متحدہ لے کر گیا، عمران خان کے جہاد کی بدولت آج پوری دنیا میں اسلام دشمنی کے خلاف دن منایا جارہا ہے، اور آج اسی عاشق رسولﷺ کے گھر پر شیلنگ ہورہی ہے، وہاں لاٹھی چارج ہورہا ہے، یہ سوال ہے کہ کیا یہ اتفاق ہے یا اسی بات کی سزا دی جارہی ہے کہ عمران خان نے اپنے نبیﷺ کا مقدمہ کیوں لڑا۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ عمران خان کو کسی صورت اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا، پوری قوم اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑی ہے، عدالتوں سے بھی امید ہے کہ انصاف کی بنیاد پر فیصلہ سنائیں گی، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس غیر قانون آپریشن کو روکا جائے، اور عوام پر ہونے والے ظلم کو ختم کیا جائے۔
وفاقی اورصوبائی حکومت کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری مؤخرکرتے ہوئے آپریشن روک دینے کا فیصلہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پولیس اوررینجرزکی ٹیمیں تقریباً 24 گھنٹے بعد زمان پارک سے پیچھے ہٹ گئیں جس کی وجہ پاکستان سُپرلیگ میں لاہورکے قذافی اسٹیڈیم میں ملتان سلطانزاورلاہور قلندرکے مابین آج کھیلا جانے والا میچ ہے۔
سیکیورٹی خدشات کے پش نظروفاقی اورصوبائی حکومت نے فی الحال عمران خان کوگرفتارنہ کرنے کا فیصلہ کیا جس پرسوشل میڈیا پرفوری ردعمل دیکھنے میں آیا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی اور سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان شاہ اویس نورانی نے عدم گرفتاری پرطنزیہ ٹویٹ میں لکھا، ’فرض کریں !رینجرزپرحملہ کرنے والے دینی جماعتوں کے کارکنان ہوتے۔پولیس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش دینی جماعت کرتی۔اوراگرپولیس کو مذہبی رہنما گرفتار کرنے کا حکم ہوتا۔‘
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے مابین دھینگا مشتی کی تصویرشیئرکرتے ہوئے پولیس اور رینجرز کی جانب سے فائرنگ نہ کرنے کے اقدام کوسراہا۔
نعیم الرحمان نے بھی امتیازی سلوک پرشکوہ کناں ہوتے ہوئے لکھا، ’یہ سوال بہرحال اہمیت رکھتا ہےکہ کراچی والوں کو یہ سہولت کب حاصل ہوگی۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما عطاتارڑ نے پولیس اہلکاروں پرپیٹرول بم پھینکے جانے کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان خود کو جیل جانے سے بچانے کے لیے ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں۔
لیگی رہنما کے مطابق ، ’عدلیہ کا کردارغیرجانبدار رہنا چاہیے۔‘
راجا کبیرنامی ٹوئٹرصارف نے رینجرز کے ایک سپاہی کو درجن بھربلوائیوں پربھاری قراردیتے ہوئے طنزاً لکھا کہ، ’یہ سہولت کراچی کوئٹہ وزیرستان اور دورافتادہ علاقوں میں میسرتھی ، آج اسی رینجرز پرپٹرول بمب برسا کر دوڑا دیا گیا ہے۔‘
وفاقی اور صوبائی حکومت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
لاہور میں پی ایس ایل کے میچ میں سکیورٹی خدشات کے پش نظر وفاقی اور صوبائی حکومت کا عمران خان گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ زمان پارک سے عمران خان کی گرفتاری نہیں ہوگی، عمران خان کی گرفتاری سے کارکنان مشتعل ہو سکتے ہیں، اور کارکنان لا اینڈ آرڈر کے حلات مشکل بنا کر سڑکیں بند کر سکتے ہیں۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کے گھر کا محاصرہ کیا جائے گا، اور عمران خان کے گھر کا محاصرہ پی ایس ایل میچ تک جاری رہے گا۔
دوسری جانب پولیس اور رینجرز کی ٹیمیں زمان پارک اور کینال روڑ سے واپس روانہ ہوگئی ہیں، اور پی ٹی آئی کارکنان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں کارکنان سجدہ شکر کررہے ہیں۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کولاہورمیں ان کی رہائشگاہ زمان پارک سے گرفتارکرنے کی کوششوں کو 20 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔
گرفتاری کی اس ہائی پروفائل کوشش کی کوریج پاکستانی میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا پربھی بھرپور طریقے سے کی گئی۔
معاملے کا آغازمنگل 14مارچ کو دوپہر 2 بجے کے قریب ہوا جب پولیس کی بھاری نفری توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائشگاہ زمان پارک پہنچی۔ عدالت نے گرفتاری کے وارنٹ بارباریقین دہانی کے باوجود پی ٹی آئی چیئرمین کی عدم پیشی پرجاری کیے تھے۔
پولیس کے پہنچنے پرپی ٹی آئی کارکنوں کی بڑی تعداد زمان پارک کے باہر پہنچ گئی اور شدید مزاحمت کرتے ہوئے عمران خان کی گرفتاری کی تمام کوششیں ناکام بنادیں۔ اس حوالے سے ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے اور ٹائرجلاکرسڑکین بند کردی گئیں۔
بین الاقوامی میڈیا نے اب تک اس واقعے کی کوریج کچھ اس طرح سے کی ہے۔
الجزیرہ
پاکستان: عمران خان کی رہائش گاہ کے باہرجمود برقرار
اے ایف پی
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں اورپولیس کے درمیان جھڑپ
این ڈی ٹی وی
”اغوا اور قتل کا ارادہ“: عمران خان کے حامیوں نے پولیس کو روک دیا
روئٹرز
پاکستان پولیس کی سابق وزیراعظم عمران خان کوگرفتارکرنے کی کوشش، جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی
بلومبرگ
عمران خان کی گرفتاری کی کوششوں پران کے حامیوں کی پاکستانی پولیس سے جنگ
نکی ایشیا
پاکستان پولیس کی سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش
دی انڈین ایکسپریس
لائیواپ ڈیٹس: عمران خان کی رہائش گاہ میں پولیس کی دوبارہ گھسنے کی کوشش، لاہور میں حامیوں سے جھڑپیں
بی بی سی
عمران خان: پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی پُرتشدد گرفتاری کی کوشش کی مذمت
عمران خان کی ماسک پہنے ہوئے کارکنان میں آنے کی پہلی ویڈیو سامنے آگئی ہے۔
گزشتہ دو روز سے زمان پارک میں محصور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اچانک ماسک پہن کر کارکنان میں آگئے، جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی ہے۔
عمران خان نے آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک لگایا ہوا تھا، اور اسی حالت میں انہوں نے گھر کے لان میں موجود کارکنان سے ملاقات کی، اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے محتاط رہنے کی تلقین کی۔
عمران خان نے کارکنوں کے حوصلے کی بھرپور تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا حوصلہ میرے لیے قابل فخر ہے۔
عمران خان کو دیکھتے ہی کارکنان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، اور سب پی ٹی آئی چیئرمین کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ پر دعویٰ کیا گیا کہ کارکنان نےپولیس اور رینجرز کو پیچھے دھکیل دیا ہے، اور کارکنان کی بڑی تعداد زمان پارک پہنچ رہی ہے، اس امپورٹڈ حکومت کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
زمان پارک آپریشن رکوانے کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے عبوری تحریری حکم جاری کر دیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آبادہائی کورٹ نے توشہ خانہ پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے، لہٰذا زمان پارک سے پولیس کو ہٹا لیا جائے اور فورس کو مال روڈ، کینال برج، دھرم پورہ برج پر رکھیں۔
عدالت نے عمران خان کی گرفتاری کے لئے ان کی رہائشگاہ زمان پارک پر فورس آپریشن رکوانے کی درخواست پر سماعت آج صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں، لاہور ہائیکورٹ میں زمان پارک پولیس آپریشن کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے کی۔
سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ کے کوئی احکامات نہیں آتے اس وقت تک زمان پارک آپریشن روک دیا جائے، عدالت کل اس کیس کی سماعت کرے گی، عدالت کے نزدیک شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ اہم ہے، عدالت نے املاک اور شہر کا امن وامان بھی دیکھنا ہے۔
لاہورہائی کورٹ کی جانب سے طلبی کے حکم پر آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ کسی کی زندگی جانے کے حق میں نہیں۔
عدالتی حکم پر چیف سیکریٹری پنجاب زاہد اختر زمان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل عدالت ہیش ہوئے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے چیف سیکریٹری سے استفسار آپ کیا کہتے ہیں۔ جس پر چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ میں تو اسپتالوں میں رہا ہوں مجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ وارنٹ گرفتاری کے لئے اسلام آباد پولیس کے کہنے پر نفری فراہم کی، میں اسلام آباد الیکشن کمیشن کے اجلاس میں تھا، پولیس کی نفری جانے پر پتھراؤ کیا گیا، پولیس کی گاڑیوں کو جلایا گیا اورہمارے کئی جوان زخمی ہوئے، پولیس اہلکاروں پر ہیٹرول بم گرائے گئے جس پری نجرز طلب کی، یہ عدالتی حکم کی تعمیل کے لئے کیا گیا کوئی ایکشن نہیں کیا جاریا ہے۔
عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب ، آئی جی پنجاب اور اسلام آباد پولیس کی طرف سے آپریشن کی سربراہی کرنے والے افسر ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری کو فوری پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ مجھے شہر میں امن چاہیے، آپ ابھی اپنا آپریشن روک دیں، شہر میں پی ایس ایل بھی ہو رہا ہے۔
آئی جی پنجاب نے عدالت سے استدعا کی کہ ہم پولیس کی موجودگی وہاں رکھنا چاہتے ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ پولیس مال کنال پل، دھرم پورہ تک محدود رہے گی، ہم نےسیز فائر کروایا، حتمی فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہوگا، اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک آپریشن روک دیں تو اعتراض ہے؟
عدالت نے مزید کہا کہ اگر آپ 200 فٹ پیچھے بھی ہوجائیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم عدالت کے ہر حکم پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
اس سے قبل عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو سوا 3 بجے تک عدالت پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔
لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد زمان پارک اور اطراف میں صورتِ حال معمول پر آ گئی۔
پولیس کی نفری مال روڈ چوک اور زمان پارک کے اطراف سے روانہ ہو گئی۔
راستے کھلنے کے بعد کارکنوں کی بڑی تعداد دوبارہ زمان پارک پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔
اس سے قبل عمران خان کی گرفتاری کے لئے پولیس آپریشن کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔
درخواست فواد چوہدری نے اپنے وکیل خواجہ طارق رحیم کے توسط سے داٸر کی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آنسو گیس شیل سے انسانی بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، زمان پارک کے لوگ شیلنگ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ کی تعمیل میں قانون کی خلاف ورزی کی گٸی۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ جیسا فلموں میں دیکھا زمان پارک ویسا وار زون بن چکا ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست ہے۔ جس پر وکیل خواجہ طارق نے جواب دیا کہ وہ درخواست وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کے لیے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حفاظتی ضمانت کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔
عمران خان کی ہائیکورٹ پیشی کے لئے حفاظتی ضمانت کی درخواست پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لئے عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما یاسمین راش اور اعجاز شاہ کی مبینہ آڈیو لیک میں کہا جارہا ہے کہ جو زمان پارک میں کارکن نہیں لائے گا اسے ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔
تحریک انصاف کی رہنما اور سابق صوبائی وزیر یاسمین راشد کی ایک اور مبینہ آڈیو لیک سامنے آگئی ہے، جس میں وہ سابق وزیرداخلہ اعجاز شاہ کو ہدایت دے رہی ہیں کہ کارکنان کو زمان پارک لے کر آئیں۔
مبینہ آڈیو میں یاسمین راشد کہہ رہی ہیں کہ میں نے عمران خان سے بات کرلی ہے، اور وہ کہہ رہے زمان پارک کارکن لائیں، جو کارکن نہیں لائے گا اسے ٹکٹ نہیں دوں گا۔
اس سے قبل یاسمین راشد کی سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر سے بات کرنے کی آڈیو لیک ہوئی تھی، جس میں سنا جاسکتا ہے کہ یاسمین راشد غلام محمود ڈوگر سے عدالتی فیصلے کے حوالے سے اچھی خبر کے بارے میں معلوم کررہی ہیں اور انہیں بتارہی ہیں کہ خان صاحب کو اس حوالے سے تشویش ہے۔
سپریم کورٹ سے بحال شدہ لاہور پولیس چیف ڈوگر کی آڈیو لیک
یاسمین راشد نے کہا کہ کوئی اچھی خبر بتائیں آرڈر ہوگئے، جس پر سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگر نے کہا کہ نہیں ابھی تک نہیں ملے آرڈر، تو یاسمن راشد کہتی ہیں ارادہ کیا ہے۔
غلام محمود ڈوگر نے کہا کہ نہیں نہیں وہ تو سپریم کورٹ سے آرڈر ہونے ہیں وہ تو جیسے ہوں گے مل جائیں گے ہمارے بندے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ڈاک ساتھ جاتی ہےنہ جج صاحبان دستخط کرتے ہیں، جس کے جواب میں یاسمین راشد کہتی ہیں اچھا ہے۔
غلام محمود ڈوگر نے مزید کہا وہ کورٹ ٹائم پر تو نہیں کرتے کورٹ ٹائم کے بعد کرتے ہیں اس کے بعد یاسمین راشد نے کہا کہ اچھا وہ خان صاحب کافی کنسرن تھے، میری خبر کے مطابق ان کو ابھی تک نہیں ملے ہیں، توغلام محمود ڈوگر نے کہا کہ ابھی تک نہیں وہ آجائیں گے رات کو، ڈاک دستخط ہو کرآجاتی ہوتی ہے۔
یاسمین راشد نے غلام محمود ڈوگرسے پوچھا کہ رات خاموشی سے گذر جائے گی ہماری؟ ویسے ہی پوچھ رہی ہوں جس انہوں نے جواب دیا کے اللہ خیر کرے، تو یاسمین راشد کہتی ہیں میں نے مشکل سوال ڈال دیا آپ کے آتے ساتھ ہی، توغلام محمود ڈوگر کہتے ہیں اللہ تعالی کرم کرے۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویزالہیٰ کا کہنا ہے کہ راناثنا اور محسن نقوی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔
لاہور میں چوہدری شوکت علی کی قیادت میں وفد سے ملاقات کے موقع پر بات کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ پرویزالہی نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وزیرداخلہ رانا ثنا اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔
پرویزالہی کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب میں الیکشن کے خوف سے پاگل ہو چکے ہیں، عدلیہ نے عمران خان کو 18 مارچ کو حاضر ہونے کا کہا تھا، اور انہوں نے پہلے ہی آپریشن شروع کردیا۔ محسن نقوی نے لاقانونیت کی ساری حدیں پار کر دی ہیں، ملکی تاریخ میں کبھی کسی سیاسی رہنما کے گھر پر پولیس فورس نے ایسے وحشیانہ حملہ نہیں کیا، رانا ثنا اللہ پولیس فورس کے سربراہ ہیں۔
مزید پڑھیں : زمان پارک کے باہر کشیدگی بدستور برقرار
واضح رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے لئے 22 گھنٹے سے جاری آپریشن کے دوران زمان پارک کا علاقہ آج بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے، اور پولیس اور کارکنان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری مشکل نہیں، پولیس صبر سے کام لے رہی ہے، وزیردفاع
عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے، اور رینجرز کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے ربر گن کا استعمال کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے پولیس اور رینجرز کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، کارکنان نے پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر شدید پتھراؤ کر کے پیچھے دھکیل دیا، جب کہ کارکنان نے پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں، توہین عدالت کا مجرم پولیس سے بھاگ رہا ہے، یہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ٹولہ ہے، عمران خان کو اپنے کیسز میں جواب دینا ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان خواتین اور بچوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، حکومت کا ان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا، عمران خان انسانی مورچے میں چھپ کر بیٹھا ہے، عمران خان کے خلاف توہین جج کا کیس ہے جس پر وارنٹ جاری ہوئے، عمران خان مجرم ہیں، عدالت نے طلب کیا ہے، عدالت نے پولیس کو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ توہین عدالت کا مجرم پولیس سے بھاگ رہا ہے، تاثر دے رہا ہے کہ میں بزرگ ہوں، جان کو خطرہ ہے، عمران خان منافق، بزدل اور جھوٹا شخص ہے، جو سیاسی جماعت کے نام کو استعمال کرکے ملک میں خانہ جنگی چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے جتھے کے ساتھ عدالتوں پر دھاوا بولا، عدالت کا حکم ہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا جائے، عمران خان کی سیاسی موت ہوچکی ہے، جوعمران خان کررہے ہیں وہ سیاسی لیڈر نہیں کرتا۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ نوازشریف بیٹی سمیت آئے اور گرفتاری دی تھی، عمران خان چارپائی کے نیچے چھپ کر بیٹھے ہیں، کیا ان کوعدالت سے جان کا خطرہ ہے؟ عمران اپنے نام کے ساتھ خان نہ لگائیں، خان بہادر ہوتا ہے، خان دروازے پر بچے کو نہیں بھیجتا کہ جاکر دیکھو۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان عدالتی احکامات پر عملدرآمد کروانے والوں پر حملہ کرتا ہے، عدالتی حکم پر عملدرآمد کے لئے 65 اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، پولیس کے پاس کوئی اسلحہ نہیں، نہتے اہلکاروں پر پی ٹی آئی کے غنڈے حملہ آور ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل تباہ ہوچکا ہے، جو بیٹی کا نام نہ دے سکا وہ کارکنان کو کیا نام دے گا، میڈیا پر جو میراتھن ٹرانسمیشن دکھائی جارہی ہے اس کا جواب دیا جائے، عمران خان کو اپنے کیسز پر جواب دینا ہوگا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ٹیریان کے حوالے سے عمران خان صاف جواب کیوں نہیں دیتے؟ توشہ خانہ کے تحائف کو ڈکلیئرنہیں کیا گیا، اس کا جواب کون دے گا؟ اگر عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے تو ہر شہری اس کا حق رکھتا ہے، یہ شخص افراتفری چاہتا ہے، یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ حکومت اسے گرفتار کررہی ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے گرفتاری دی، عمران خان فارن فنڈنگ، ٹیریان کیس، توشہ خانہ ، جج زیبا چوہدری کی توہین کے کیسز میں مطلوب ہے، سیاسی لیڈر چھپنا نہیں سینہ تان کر گرفتاری دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان چور ہے، سازشی ہے، عدلیہ کو گالیاں دیتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، ایک طرف پولیس اہلکار عدالتی حکم پر کارروائی کرتے ہوئے زخمی ہوں، دوسری طرف ریلیف ملے، یہ نہیں ہوسکتا۔
وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری مشکل نہیں، پولیس صبر سے کام لے رہی کہ جانی نقصان نہ ہو۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر زمان پارک میں کشیدگی کے حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پولیس صبر سے کام لے رہی کہ جانی نقصان نہ ہو، ورنہ عمران خان کی گرفتاری مشکل نہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ جانی نقصان ہو تاکہ سیاست کرے، اگر یہ عزت آبرو والا شخص ہو تو جرات کرے اور گرفتاری دے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ عمران خان ہمت اور دلیری نواز شریف سے ادھار مانگ لے، جو لندن سے گرفتار دینے آگیا تھا۔
واضح رہے کہ آج صبح سے ہی زمان پارک لاہور میں کشیدگی برقرار ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے لئے 22 گھنٹے سے جاری آپریشن کے دوران زمان پارک کا علاقہ آج بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے، اور پولیس اور کارکنان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے، اور رینجرز کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے ربر گن کا استعمال کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے پولیس اور رینجرز کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، کارکنان نے پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر شدید پتھراؤ کر کے پیچھے دھکیل دیا، جب کہ کارکنان نے پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان کی کارروائیوں پر دہشتگردی کا پرچہ ہوتا ہے، ہماری پالیسی یہی ہے کہ کسی کا نقصان نہ ہو۔
آج نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا کہ زمان پارک میں آپریشن نہیں وارنٹ کی تکمیل ہورہی ہے، ڈی آئی جی اسلام آباد کی قانون کے مطابق مدد کی، قانون سب کے لیے برابر ہے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ لے کر گئے تو پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، اور اب تک 54 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، پھر بھی پولیس والے سینہ تان کر کھڑے ہیں، ہم مسلح ہوکر زمان پارک نہیں جارہے، ہماری پالیسی یہی ہے کہ کسی کا نقصان نہ ہو۔
آئی جی عثمان انور کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس کو پیٹرول بم مارے، پولیس گاڑی، واٹر باؤزر کو آگ لگائی، ڈی جی پی آر کی گاڑی کو تباہ کیا، رینجرز اور ایلیٹ کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا، ایسی کارروائیوں پر دہشتگردی کا پرچہ ہوتا ہے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ پی ایس ایل پاکستان کا برانڈ ہے، پی ایس ایل کا میچ شیڈول کے مطابق ہوگا، پولیس کی تازہ کمک پہنچا دی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کا کہنا ہے کہ عمران خان گرفتاری نہیں دیں گے، جب تک رانا ثناء کا دل نہیں بھرتا ہم ادھرہی کھڑے ہیں۔ ججز کو بھی خوفزدہ نہ ہونے کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے جج ہیں اور ہم آپ کےساتھ کھڑے ہیں۔
زمان پارک کے باہرنمائندہ آج نیوز ہما بٹ سے بات کرتے ہوئے جاری صورتحال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی آزادی اور اسے دہشتگردوں سے بچانے کی جنگ ہے۔ انہوں نے گھروں کے اندر عورتوں اور بچوں پر شیلنگ کروائی ہے۔ لیکن اچھا ہے کہ قوم سب سے بڑا امتحان پاس کر کے ایک مضبوط قوم بن گئی ہے۔
ہمارے کارکن ڈٹ کر کھڑے ہیں، انہیں عادت ہے کہ 10 ہزار اہلکار کھڑے کردو تو ڈر کربھاگ جائیں گے۔ ہمارے کارکن قانون کےسامنے نہیں کھڑے، یہ فوجی اور سپاہی ہمارے بچے ہیں، حکومت انہیں استعمال کر رہی ہے کہ جا کر عورتوں اور بچوں پر شیلنگ کرو۔
عمران خان کی گرفتاری سے متعلق سوال پرانہوں نے کہا کہ یہ گرفتاری لینے نہیں آ رہے، یہ عمران خان کو مارنا چاہتے ہیں، اندر گھس کردکھائیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگرعمران بھی باہر نکلنے کا کہیں تو ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔
علیمہ خان نے وزیرداخلہ رانا ثناء کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ رانا ثناء دہشتگرد ہے ہم نے کیسے مان لیا کہ وہ ہماری حفاظت کریں گے۔ ہم اپنا ملک خود بچائیں گے۔
اور آنسو گیس اور گولیاں چلائیں، لیکن کیس تو بتادیں کہ 80 مقدمات میں کون سے میں عمران خان کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ چور کون ہے۔
علیمہ خان نے ججز کو پیغام دیا کہ ان لوگوں سے خوفزدہ مت ہوں ، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ ان (حکومت) کی فکرمت کریں، آپ ہمارے جج ہیں اور ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نئے کہا کہ پولیس والے ہمارے ہیں اور فوج بھی ہماری ہیں، بس ہپیچھے ہاتھ کی انگلیوں برابر دہشتگرد بیٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک رانا ثناء کا دل نہیں بھرتا ہم ادھرہی کھڑے ہوئے ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھے آرمی چیف کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیوں پی ڈی ایم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتا جیل میں کیا ہوگا لیکن میں جیل جانے کے لئے تیار ہوں، انسان کو ہر چیز کے لیے تیار ہونا چاہیے، میری گرفتاری کی صورت میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو پارٹی بھی چلائے گی اور روزانہ کی بنیاد پر فیصلے کرے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میری گرفتاری سے مجھے یا میری سیاست کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، لیکن ہمارے کارکنان زمان پارک کے باہر موجود ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ماضی میں ہماری جماعت کے رہنماؤں کو رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے گرفتار کرکے وہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں جو موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نواز شریف سے کیے گئے تھے، حکومت کے تمام اقدامات اسٹیبلمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، آج اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہی چھوڑ دے تو یہ ایک دن بھی نہیں رہیں گے، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر موجودہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آرمی چیف پی ڈی ایم کی پشت پناہی کیوں کررہے ہیں، کیا انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ ادارے کو نقصان پہنچ رہا ہے، عجیب ماحول بن گیا ہے، افسوس ہے کہ فوج کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سامنے جارہا ہے، وہ کون سا ملک ہے جہاں عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کئے جاتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے اب اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں ہیں، لیکن ہم موجودہ آرمی چیف کو بھی یہی پیغام بھجوا رہے ہیں، جو جنرل باجوہ کو کہا تھا کہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے الیکشن کروا لیں، ملک اور معیشت کو بچا لیں، جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا، تب تک ملکی معاشی حالت بہتر نہیں ہوگی، کیا موجودہ آرمی چیف کو سمجھ نہیں آرہی یا انہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میرا کوئی جرم نہیں ہے، لیکن مجھ پر 80 مقدمات ہیں، جن میں ایک بھی کیس ایسا نہیں جو ثابت ہوجائے اور مجھے جیل جانا پڑے، جب کہ نواز شریف پاناما کیس میں جیل گئے تھے، جب آپ ملک کا پیسہ منی لانڈرنگ کرکے باہر بھیجیں، بڑے مہنگے فلیٹ میں رہیں اور ایک رسید نہ دکھا سکیں، تو قوم ایسے شخص کی حمایت نہیں کرتی، مجھے قوم 50 سال سے جانتی ہے، قوم مجھ پر بنائے کیسز نہیں مانتی، اس لئے میرے جیل جانے سے مجھے نہیں حکومت کو نقصان ہوگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، اور ریمارکس دیئے کہ عمران خان کےناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بحال رہیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کےوارنٹ کیس کا فیصلہ سنادیا ہے، جس میں عمران خان کو بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی وارنٹ معطل کرنے کی درخواست نمٹا دی ہے، اور حکم دیا ہے کہ عمران خان اپنی درخواست سیشن کورٹ میں دائر کریں، اور ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق بیان حلفی کو دیکھے۔
گزشتہ روز عمران خان کی لیگل ٹیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں وارنٹ منسوخ کرنے اور فوری سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔
رجسٹرار آفس نے عمران خان کی درخواست پر اعتراض عائد کیا تھا کہ عمران خان کا بائیومیٹرک نہیں کرایا گیا۔
آج صبح پھر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے اور عدالت سے کیس کی سماعت آج ہی کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت نے درخواست سنی تھی اور ڈائرکشن دی تھی مگر افسوس کہ کیا ہوا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کی درخواست پر اعتراض تھے، وہ ابھی فکس کروں گا تو پھر سماعت ہوگی، میں اس کیس کو مقرر کرکے سنتا ہوں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ ہمیں سن لیں ہم قانون کے تحت عدالت کو مطمئن کریں گے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس عدالت نے آپ کو ریلیف دیا پھر بھی صورتحال آپ کے سامنے ہے، پہلے ریلیف دیا تھا مگر اس عدالتی احکامات کا کیا بنا، احکامات پرعملدر آمد نہیں ہوا، کیا نتائج ہوسکتے ہیں دیکھیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وکلاء کو اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کردی۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہیں۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ منسوخی کی درخواست منظور
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو ہورہا ہے وہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے، عدالت نے ایک باعزت راستہ دیا تھا، اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست پر اعتراضات ختم کرتے ہوئے سماعت کے لئے مقرر کرنے کی ہدایت کی، جس پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے درخواست پر اعتراضات دور کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو ٹکٹس نہیں لگے یا باقی چھوٹے چھوٹے اعتراضات ہیں وہ دور کر لیں جبکہ بائیو میٹرک اور دستخط والے اعتراضات میں دور کر رہا ہوں، آدھے گھنٹے میں بھی اعتراضات دور ہو جائیں تو میں ادھر ہی ہوں، آرڈر میں تین روز میں اعتراضات دور کرنے کا لکھ رہا ہوں لیکن آپ اگر ابھی اعتراضات دور کروا لیں تو میں ادھر ہی ہوں۔
عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست پر تمام اعتراضات دور کیے گئے۔
سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکلا خواجہ حارث، بیرسٹرگوہر، علی بخاری اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 13 مارچ کے آرڈر کو چیلنج کیا ہے، اس سے پہلے عدالت نے ٹرائل کورٹ سے وارنٹ کے اجراء کو معطل کیا تھا، عدالت نے عمران خان کو 13 مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی، 13 مارچ کو پٹیشنر عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوسکے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر خواجہ حارث نے بتایا کہ عمران خان اس روز گھر پر تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وارنٹ دوبارہ جاری ہونے کا ایشو نہیں، عدالت نے کہا تھا 13 مارچ کو پیش ہوں ورنہ وارنٹ بحال ہوجائےگا۔
وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ شکایت غلط طریقے سے دائر کی گئی، متعلقہ افسر شکایت دائرکرنے کا مجاز نہ تھا، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن شکایت دائر کرسکتا ہے، قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اس صورت میں وارنٹ جاری کرنےکی کارروائی بھی درست نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی کریمنل کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟ عدالت میں پیش ہونا پھر بھی ضروری تھا۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت افسوسناک ہے، عمران خان نے انڈر ٹیکنگ دی ہے کہ آئندہ سماعت پر پیش ہوجائیں گے، وارنٹ کا اجراء بھی صرف عدالت میں حاضری کے لیے ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں کی عزت اور وقار بہت اہم ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ قانون سب کے لیے برابر نہ ہو، ہمارے لیے بہت ضروری ہےکہ قانون سب کے لیے یکساں ہو، اگر ایک آرڈر ہوگیا تو وہ کالعدم ہونے تک موجود رہتا ہے،عمل ہونا چاہیے، لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم کیا چہرہ دکھا رہے ہیں؟ ہم تو سنتے تھےکہ قبائلی علاقوں میں ایسا ہوتا ہے، ہم دنیا کو کیا بتا رہے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں کریں گے؟ اس کیس میں تو ریمانڈ بھی نہیں ہونا، صرف گرفتار کرکے پیش کرنا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ مگر چار دن پہلے گرفتار کرکے کہاں رکھیں گے؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نےکہا کہ اگر 18 مارچ کو بھی عمران خان نہیں آئے تو خواجہ صاحب پر تو چارج فریم نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نےکہا کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن پولیس پرحملے کر رہے ہیں، یہ ریاست پر حملہ ہے، پولیس والے لاہور میں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں، حملہ کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں، کیا یوکے میں کوئی پولیس والے کی وردی کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گزشتہ انڈر ٹیکنگ پر عمل ہوجاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔
چیف جسٹس عامرفاروق نےکہا کہ میں اس کا قابل عمل حل نکالوں گا، سوسائٹی میں اگر ایجوکیشن اور قانون سے واقفیت ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے عمران خان کا بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ عمران خان اپنی درخواست سیشن کورٹ میں دائر کریں، اور ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق بیان حلفی کو دیکھے۔
واضح رہے کہ 7 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کیے تھے اور 13 مارچ کو ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاہم عمران خان پیش نہیں ہوئے تھے جس کےبعد ان کے دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ گزشتہ روز سے زمان پارک پر موجود ہے جہاں اسے پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت نے مشترکہ طور پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے فیصلے کو مؤخر کردیا ہے۔
گزشتہ روزکی طرح آج (بدھ 15 مارچ ) صبح سے زمان پارک لاہور میں کشیدگی جاری رہی، پولیس کی جانب سے قصور سمیت دیگر اضلاع سے مزید نفری طلب کرلی گئی، جب کہ رینجرز کے تازہ دم دستے بھی عمران خان کی رہائشگاہ کے قریب پہنچ گئے، اور پی ٹی آئی کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع کردی گئیں۔
زمان پارک کا علاقہ آج بھی میدان جنگ بنا رہا، اور سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں، عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر شیلنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، اور رینجرز کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے ربر گن کا استعمال کیا جاتا رہا۔
اس دوران پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے پولیس اور رینجرز کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، کارکنان نے پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر شدید پتھراؤ کر کے پیچھے دھکیل دیا، جب کہ کارکنان نے پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی۔
لاہور ہائی کورٹ کے وکلا بھی زمان پارک میں پولیس آپریشن کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور وکلا ریلی کی صورت میں زمان پارک پہنچ گئے۔
آخری اطلاعات تک پولیس اور کارکنان میں جھڑپوں کے دوران مجموعی طور پر 64 افراد زخمی ہوئے، اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی سمیت 54 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے 51 ہلکارسروسز اسپتال اور 3 میو ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے 8 کارکن بھی زخمی ہوئے۔
دوپہر ڈھائی بجے کے قریب پولیس اور رینجرز کی ٹیمیں زمان پارک سے پیچھے ہٹ گئیں، اور اطلاع ملی کہ لاہور میں پی ایس ایل کے میچ میں سکیورٹی خدشات کے پش نظر وفاقی اور صوبائی حکومت کا عمران خان گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ زمان پارک سے عمران خان کی گرفتاری نہیں ہوگی، عمران خان کی گرفتاری سے کارکنان مشتعل ہو سکتے ہیں، اور کارکنان لا اینڈ آرڈر کے حلات مشکل بنا کر سڑکیں بند کر سکتے ہیں۔
حکومت نے فیصلہ کیا کہ عمران خان کے گھر کا محاصرہ کیا جائے گا، اور عمران خان کے گھر کا محاصرہ پی ایس ایل میچ تک جاری رہے گا۔
حکومتی حکمت عملی کے تحت پولیس اور رینجرز کی ٹیمیں زمان پارک اور کینال روڑ سے واپس روانہ ہوگئیں، اور پی ٹی آئی کارکنان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں کارکنان سجدہ شکر کررہے ہیں۔
عمران خان کی کارکنان سے ملاقات
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں آنسو گیس کے شیل اور پولیس و رینجرز کی پیش قدمی رکنے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنے گھر کے صحن میں موجود کارکنان سے ملاقات کررہے ہیں۔
عمران خان نے آنسو گیس کے اثرات سے بچنے کے لئے ماسک بھی پہن رکھا تھا، اور انہوں نے کارکنان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ پر فخر ہے۔
شیل اور گولیوں کی تصویر
اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنی میز پر رکھے شیل اور گولیوں کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز سے میری رہائشگاہ حملے کی زد میں ہے، سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ زمان پارک میں رینجرز معصوم اور نہتے شہریوں پر یوں سیدھی گولیاں برسا رہے ہیں جیسے میدانِ جنگ میں ایک دشمن ان کے نشانے پر ہو۔
آئی جی پنجاب کی ”آج نیوز“ سے گفتگو
دوسری جانب آج نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن نہیں وارنٹ کی تکمیل ہے، ڈی آئی جی اسلام آباد کی قانون کے مطابق مدد کی، قانون سب کے لیے برابر ہے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ لے کر گئے تو پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، اور اب تک 54 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، ہم مسلح ہوکر زمان پارک نہیں جارہے، پولیس والے سینہ تان کر کھڑے ہیں، ہماری پالیسی یہی ہے کہ کسی کا نقصان نہ ہو۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس اہلکاروں کو پیٹرول بم مارے، پولیس گاڑی، واٹر باؤزر کو آگ لگائی، ڈی جی پی آر کی گاڑی تباہ کردی، رینجرز اور ایلیٹ کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا، ایسی کارروائیوں پر دہشتگردی کا پرچہ ہوتا ہے۔
آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ پی ایس ایل پاکستان کا برانڈ ہے،پی ایس ایل کا میچ شیڈول کے مطابق ہوگا، پولیس کی تازہ کمک پہنچا دی ہے۔
گزشتہ رات کا آپریشن اور کارکنان کی مزاحمت
رات گئے اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کے ہمراہ پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت کے بعد عمران خان کی رہائشگاہ سے پیچھے ہٹ گئی تھی، رات کو پولیس زمان پارک کے گیٹ نمبر ایک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی تاہم کارکنوں کے شدید پتھراؤ نے پولیس کو پیچھے ہٹنے پرمجبور کردیا۔
خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے وارنٹ معطل ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری
گزشتہ رات پی ٹی آئی کارکنوں نے واٹر کینن کو جلا دیا تھا جبکہ پولیس کی گاڑی اور کئی موٹرسائیکلوں کو بھی آگ لگانے کی اطلاعات ہیں۔ اس دوران ڈی جی آئی آپریشن سمیت 30 سے زیادہ اہلکارزخمی ہیں، پولیس نے متعدد کارکنان کو حراست میں بھی لے رکھا ہے۔
کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے پولیس کی شیلنگ پر کارکن پیچھے ہٹ کرپولیس پر جوابی پتھراؤ کرتے رہے۔ کل سہ پہر سے زمان پارک کی فضا شیلنگ اور آگ کے دھویں سے آلودہ ہے، اور علاقہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے آج ایک بار پھر پولیس آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا، سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ اور ڈی آئی جی افضال کوثر بھاری نفری کے ساتھ زمان پارک پہنچے، ان کے ہمراہ 400 اہلکاروں پر مشتمل رینجرز کے 4 دستے بھی تھے، جب کہ شیخوپورہ اور گوجرانوالہ پولیس کے علاوہ آرپی او گوجرانوالہ ڈاکٹرحیدر اشرف بھی آپریشن میں شریک رہے۔
لاہور میں زمان پارک کے اطراف کے علاقوں میں اسکول اورکالج آج بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، کمشنر لاہور کے مطابق مال روڈ، دھرم پورہ، جیل روڈ، گڑھی شاہو، مغل پورہ کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
پی ٹی آئی نے آج صبح اپنے آفیشل ہینڈل سے ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان صبح 7 بجے کے قریب اپنے کارکنوں سے ملاقات کیلئے گھر سے باہر نکلے تھے۔
ویڈیو میں آڈیو موجود نہیں تاہم عمران خان اپنے حامیوں سے بات کرتے نظرآرہے ہیں۔ اس ویڈیو میں پارٹی کا کوئی سینئر لیڈر نظر نہیں آرہا ہے۔
احتجاج پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف اسلام آباد ، راولپنڈی اور کراچی میں 3 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں کارسرکار میں مداخلت، راستہ روکنے سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔
عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کیخلاف پارٹی کارکنوں نے اسلام آباد ، راولپنڈی ، کراچی ، کوئٹہ ، مری، عیسیٰ خیل ، پشاور، لکی مروت سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے ٹائرجلا کر متعدد سڑکیں بھی بند کردیں جس کے باعث ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوگئی۔
بعض اطلاعات میں بتایا گیا کہ انتظامیہ نے زمان پارک کے فون اورانٹرنیٹ کنکشن منقطع کر دیے ہیں لیکن عمران خان مسلسل بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دیتے رہے۔ عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ پولیس مجھے جیل لے جانے کیلئے آئی ہے، میری گرفتاری کی صورت میں بھی قوم جدوجہد جاری رکھے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویومیں کہا کہ صبح کا انتظارکررہے ہیں، وکلاء وارنٹ عدالت میں چیلنج کریں گے، آئین وقانون پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ مجھے تمام سیاستدانوں کی طرح عمران خان کی بھی برابرفکر ہے۔
ڈاکٹرعارف علوی نے ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ کیا ہم بڑے خطرناک سیاسی منظر نامے کی طرف جارہے ہیں۔آج کے واقعات سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے، غیر ضروری انتقامی سیاست۔ ایسے ملک کی حکومت کی ناقص ترجیحات جس کو عوام کی معاشی بدحالی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی نے چیف جسٹس پاکستان سے عمران خان کی گرفتاری رکوانے کےلئے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
فواد چوہدری نےٹویٹرپرلکھا کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال پارٹی چیئرمین کی گرفتاری کے معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عمران خان کو جانی نقصان ہوا تو حکمرانوں کو بھاری قیمت اداکرنی ہوگی، رانا ثناء اللہ کو عمران خان چارپائی کے نیچے نظر آرہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر شیخ رشید نے کہا کہ کیا لاہور میں پولیس نہیں جو ہر روز اسلام آباد سے زمان پارک پولیس بھیجی جاتی ہے، حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ زلمے خلیل زادہ ہی نہیں بولے بلکہ امریکی خصوصی ایلچی مونیکا مدینا آج 3 دن کے لئے پاکستان پہنچ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے 7 کے بجائے 6 ارب ڈالر بیرونی فنانسنگ پر اتفاق تو کیا ہے لیکن ملکی حالات کسی اور طرف جا رہے ہیں۔
شیخ رشید اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ ساراملک جام ہوچکا ہے لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں، عمران خان کی جان کو نقصان ہوا تو حکمرانوں کو بھاری قیمت اداکرنی ہوگی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے الیکشن کا فیصلہ آخری ہے ورنہ دمادم مست قلندر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کو عمران خان چارپائی کے نیچے نظر آرہا ہے، اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیر لے وقت تھوڑا ہے اور مقابلہ سخت۔
پنجاب حکومت نے زمان پارک میں اہلکاروں کی جانب سے اسلحہ استعمال ہونے کی تردید کردی ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ میری گرفتاری کا دعویٰ صرف ڈرامہ ہے، اصل نیت اغوا اور قتل کی ہے، آنسوگیس اور واٹر کینن کے بعد اب سیدھی فائرنگ کی جارہی ہے۔
دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے فائرنگ کے الزام کی تردید کی ہے، اور کہا ہے کہ زمان پارک پولیس آپریشن کے دوران آئی جی پنجاب کی ہدایت پر کوئی بھی پولیس جوان یا افسر اسلحہ ساتھ لے کر نہیں گیا۔
ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے 100 سے زائد جوانوں اور افسران کو زخمی کرنے کے بعد اب فائرنگ کرنے کے جعلی خبریں چلائی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز دوپہر 2 بجے سے اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کے ہمراہ زمان پارک لاہور میں عمران خان کی گرفتاری کے لئے کوشاں ہے، تاہم انہیں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے مابین جھڑپیں بھی جاری ہیں، اس دوران متعدد پی ٹی آئی کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جب کہ پتھراؤ کے نتیجے میں 100 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوکر اسپتالوں میں پہنچ چکے ہیں۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بار بار عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی، جس کا جواب دینا ہوگا، آخرکار عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ عمران خان کو پیش کریں لیکن انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ آئیں اور پولیس کا مقابلہ کریں۔
امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں ان پر ملک کا آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، ان کو عدالتوں میں بلایا جاتا ہے وہ پیش نہیں ہوتے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میرے خاندان اور پارٹی نے ڈکٹیٹر شپ کا سامنا کیا، عمران خان مسلسل قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں، جس پر انہیں جواب دینا ہوگا، عمران خان سمجھے ہیں ان کے لئے کوئی قانون نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے خود کو بچانے کے لئے اپنے کارکنوں کو پولیس کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، نہیں چاہتا کہ کوئی سیاسی بنیاد پر جیل جائے، کچھ ماہ سے عدالتی احکامات کا مذاق بنادیا گیا ہے،
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کو معاشی، سیاسی اور سیکیورٹی سے متعلق چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی، ہمیں موسمیاتی تبدیلی، غربت، معاشی حالات سے متعلق سوچ بچارکرنی ہے ،افغانستان اور خطے کی سکیورٹی سے متعلق اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
صبح ہوتے ہی لاہورمیں عمران خان کی رہائشگاہ زمان پارک کے باہر پولیس اور رینجرز کے ساتھ کارکنوں کی جھڑپوں پرپی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک سوال رکھا ہے۔
اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ ہمارے کارکنوں اور لیڈرشپ کو گذشتہ روز سے پولیس کے حملوں کا سامنا ہے۔ آج صبح سے آنسو گیس اورکارکنوں کو منتشرکرنے کیلئےکیمیکل والا پانی استعمال کیا گیا، ہمارا مقابلہ اب براہ راست رینجرزسے ہے۔
عمران خان نے مزید لکھا کہ ، ’میرااسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے جونیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔کیا یہ آپ کا غیرجانبداری کا نظریہ ہے؟ رینجرز سب سے بڑی سیاسی جماعت کے نہتے کارکنوں اور رہنماؤں سے لڑ رہی ہے جبکہ ان کے لیڈرکوغیرقانونی وارنٹ گرفتاری اورمقدمےکا سامنا ہے
عمران خان نے الزام عائد کیا کہ بدمعاشوں کی حکومت انہیں اغوا اورممکنہ طور پرقتل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں عمران خان نے الزام عائد کیا کہ واضح طور پر“گرفتاری“ کا دعویٰ ایک ڈرامہ تھاجبکہ اصل نیت اغواء اورقتل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل شام میں نے ضمانتی بانڈ مہیا کیا تھا جسے ڈی آئی جی نے وصول کرنے سے انکار کردیا۔