Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  
Live
Politics 27 Feb 2023

’از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں‘، 3 ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے

جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ بھی اختلافی نوٹ لکھنے والوں میں شامل
اپ ڈیٹ 27 فروری 2023 06:41pm
آرٹ ورک: عبیر/آج نیوز
آرٹ ورک: عبیر/آج نیوز

پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس پر بننے والے 9 ججز میں سے 3 ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اوپن کورٹ میں دیاگیا حکم تحریری حکم نامےسےمطابقت نہیں رکھتا، ہمارےسامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا، اسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیا اسمبلیاں آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ قانونی حیثیت پرسوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سےمتعلق ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ میں لکھا کہ سامنے آنے والا معاملہ صوبائی عدالت کے سامنے موجودہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے معاملے پر سوالات مانگے، کیاوزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے؟ کیا کسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، اپنے خدشات کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں۔ نوٹ میں جسٹس منصورعلی شاہ نے بینچ میں شامل جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا اور لکھا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کیا، اور دیگر سینئر ججز کی بینچ میں عدم شمولیت پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کیلئے ضروری ہےکہ شفافیت برقرار رہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں، میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔

عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے وہ پھر بھی عدالت میں پیش ہوں گے، فواد چوہدری

آج سپریم کورٹ میں آئین پاکستان کا مقدمہ ہے، پی ٹی آئی رہنما
شائع 27 فروری 2023 03:48pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکرین گریب
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکرین گریب

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنا احترام کروانے کی کوشش کریں، عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے وہ پھر بھی عدالت میں پیش ہوں گے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف امجد شعیب کی گرفتاری کی مذمت کرتی ہے، تنقید کا مطلب یہ نہیں کہ جو تنقید کرے اس کو اٹھالیا جائے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ 12 جنوری کو پنجاب کی اسمبلی تحلیل ہوئی، اب تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی، آج سپریم کورٹ میں آئین پاکستان کا مقدمہ ہے، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، تمام فریقین سمجھتے ہیں کہ الیکشن 90 دن میں ہونا ہیں، کسی نے نہیں کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں نہیں ہونے، سوال یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ کون دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدرعارف علوی نے انتخابات کی تاریخ کے لئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا، حکومت الیکشن کروانے کے لئے تیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن کا کام ہی صرف الیکشن کروانا ہیں۔

سابق وزیراطلاعات نے کہا کہ امید ہے کہ آج زیادہ تر دلائل مکمل ہوجائیں گے، 9 میں سے 5 ججز پر سب کا اتفاق ہے، امید ہے کہ دونوں صوبے انتخابات کی طرف بڑھیں گے، کل جام پور میں الیکشن کے بعد انہوں نے الیکشن کی تاریخ نہیں دینی۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمران عوام کے سامنے نہیں جاسکتے، عمران خان عدالت میں پیش ہوں گے، حکومت میں موجود لوگ عدالتی حکم نہیں مانتے، عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، وہ پھر بھی پیش ہوں گے۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ہم چیف الیکشن کمشنر کا احترام کرنا چاہتے ہیں، چیف الیکشن کمشنر اپنا احترام کروانے کی کوشش کریں۔

پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات ازخود نوٹس: 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری

سپریم کورٹ نے 14 صحفات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا
شائع 27 فروری 2023 02:28pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی 23 فروری کو سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 14 صحفات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔

23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں۔

جن ججز کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں ان میں جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔

آرڈر کے مطابق بینچ کی از سرِ نو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ میں کہنا ہے کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔

تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ از سرِ نو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔

از خود نوٹس کی تیسری سماعت: الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس

4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، سپریم کورٹ
اپ ڈیٹ 28 فروری 2023 10:25am

سپریم کورٹ کا پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر پرازخود نوٹس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی تیسری سماعت آج صبح 10 کے لیے شیڈول تھی جو دوپہر ڈیڑھ بجے تک شروع نہ ہوسکی۔

دوپہر ایک بجے ذرائع سے خبر سامنے آئی تھی کہ سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے ججز کا غیر رسمی اجلاس جاری ہے، جس کے باعث ازخود نوٹس کی سماعت تاخیر کا شکار ہے۔

دوپہر 1 بجکر 35 منٹ پر خبر سامنے آئی کہ انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا۔ اور 4 ججز جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔

لارجر بینچ کے 9 میں سے الگ ہونے والے 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا، جس کے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کمرہ عدالت پہنچا اور کیس کی سماعت کی۔

5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چار ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، اور خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، اور معاملہ دوبارہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، اب عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، اور آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، پہلے بھی جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے سوشل میڈیا پر آگیا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں استدعا کی کہ ہم نے فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گورنرپنجاب نے نگراں وزیراعلی کیلئے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کرپولنگ کی تاریخ دینے کا کہا، گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی توتاریخ کیسے دیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، اور 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہونے میں فرق ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ توہین عدالت کی آپشن کیا استعمال کی گئی۔ وکیل اظہر صدیق نے جواب دیا کہ 14 فروری کو توہین عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا۔ انٹرا کورٹ اپیل بغیر تاریخ کے ملتوی کر دی گئی، اٹارنی جنرل ایڈوکیٹ جنرل نےتاریخ کیلئےکوشش کی، آج ہائیکورٹ نےکہامعاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتواہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے پہلے کتنے روز میں فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیا کہ سنگل بنچ نے تو بڑی تیزی سے کیس چلایا، یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں، کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدرمملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے، ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، صدرمملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کےمطابق تاریخ کیلٸےمشاورت آٸین میں نہیں، ہاٸیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن خود تاریخ دے دے تو کیا توہین عدالت ہوگی۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آٸینی عمل ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 10 سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 22 جنوری کے نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعلی کا تقرر کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 90 دن سے تاخیر کے حوالے سے آئین کی کوئی شق نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کون دیتا ہے، کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، گورنر نے کہا میں نے اسمبلی توڑنے کی سمری دستخط نہیں کی، اس وجہ سے الیکشن کی تاریخ نہیں دے سکتا، اور گورنر نے اپنے جواب میں الیکشن کمشنر کوتاریخ دینے کا کہہ دیا، لیکن تاریخ کی ذمہ داری نہ الیکشن کمیشن لے رہا ہے نہ گورنر۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کیس میں یہی استدعا نہیں جو آپ یہاں کر رہے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کروانے کیلئے سب سے پہلے تاریخ کا اعلان ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کی تاریخ الیکشن کا حصہ ہے۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ 14، 15 فروری کو الیکشن کمیشن نمائندوں نے گورنر پنجاب سے تاریخوں کیلئے ملاقات کی، لیکن رپورٹس کے مطابق ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے، عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، اور 4 بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی، تو جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔

جسٹس جمال نے استفسارکیا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے، آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں، آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں، اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے۔

گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں ”جی بالکل“، کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی ریمارکس دیئے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جہاں گورنر اسمبلی کی تحلیل میں کچھ نہیں کرتا وہاں تاریخ کون دے گا؟ جہاں وزیراعلی اسمبلی توڑتا ہے اورگورنرپیکچر میں نہیں آتا تو وہاں گورنر کا کیا اختیار ہوگا؟ ملک میں ایمرجنسی لگ جائے تو ان حالات میں الیکشن کے حوالے سے آٸین کیا کہتا ہے۔

انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ صرف جنگ اور سیلاب کی صورت میں ایمرجسنی لگاٸی جا سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا، انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ سمری آنے پراسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنرکی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112(3) کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 112 میں دو صورتیں ہیں کہ یا گورنراسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں دیتا۔

الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر مملکت بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس

عدالت نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنےحکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دےگا، گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن از خود انتخابات کرا سکتا ہے؟ جس پر دونوں اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر مملکت بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟

کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہے، جسٹس مظہر

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہے۔

عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ کیسے ہو سکتا ہےکہ پیسے نہ ہوں تو الیکشن نہ کرایا جائے، یہ عجیب نہیں، صدر مشاورت کرے اور گورنر مرضی سے تاریخ دے؟ گورنر ایک ہفتے کی تاریخ دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، الیکشن کے دن جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟ گورنر تاریخ دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔

علی ظفر نے اپنے جواب میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں، قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں، ایمرجنسی ہی لگائی جا سکتی ہے۔

ہمیں پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے

از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، صدر،گورنر کس قانون کے تحت الیکشن کی تاریخ دیں گے، ابھی ہائی کورٹ سے اسٹاف مانگا تو انکار کردیا گیا، البتہ کل کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اس دوران جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ملک میں کرکٹ ہو رہی ہے، انتخابات نہیں ہوسکتے؟ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ابھی صرف تاریخ کی بات ہو رہی ہے، رشتہ نہیں ہوا، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی۔ جسٹس منصور کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلاٸل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، ازخود کیس میں سپریم کورٹ کی رائے لاہور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنی تھی۔

سپریم کورٹ نے کیس میں وفاق، الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں کو نوٹس جاری کررکھے ہیں، جب کہ پاکستان بار، سپریم کورٹ بار، اسلام آباد بار اور ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی عدالتی کی معاونت کے لئے نوٹس جاری کئے گئے تھے۔

دوسری جانب حکمران اتحاد مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اورجے یوآئی نے 2 ججز پر اعتراض کرتے ہوئے مطالبہ کررکھا ہے کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی بینچ سےعلیحدہ ہوجائیں۔ جب کہ پاکستان بارکونسل سمیت حکمران اتحاد نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے از خود نوٹس لینے پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔

سپریم کورٹ کے9 رکنی لاجر بینچ نے فریقین کے سامنے 4 سوال رکھے ہیں۔

اسمبلی تحلیل کی صورت میں انتخاب کی تاریخ کااعلان کرناکس کی ذمہ داری ہے؟

نوے روزمیں انتخابات کی ذمہ داری کس نے اور کیسے نبھانی ہے؟

انتخابات کے حوالے سے وفاق اورصوبوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

کیا صوبائی اسمبلیاں آئینی طریقے سے تحلیل ہوئی ہیں یا نہیں؟

پس منظر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے16 فروری 2023 کو سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگرکیس کا معاملہ ازخودنوٹس کیلئےچیف جسٹس کوبھیجا تھا۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے پنجاب اورخیبرپختونخوااسمبلیوں کی تحلیل کےباوجود الیکشن کی تاریخ نہ دیے جانے پراز خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

سندھ اور پشاور ہائیکورٹ بار کا بھی ازخود نوٹس کیس کی بینچ پر تحفظات کا اظہار

ازخود نوٹس کیس میں سینئر ججز کو شامل کیا جائے، ہائی کورٹس بار
شائع 25 فروری 2023 07:09pm
جسٹس اعزالاحسن اور جسٹس مظاہر۔ فوٹو — فائل
جسٹس اعزالاحسن اور جسٹس مظاہر۔ فوٹو — فائل

سندھ اور پشاور ہائی کورٹ بار نے بھی پنجاب اور کے پی الیکشن پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس کی 9 رکنی بینچ پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

سندھ ہائی کورٹ بار نے سپریم کورٹ کے بینچ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ازخود نوتس کیس میں سینئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

اس کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ بار نے بینچ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس مظاہر کو بنچ سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک بیان میں پشاور ہوئی کورٹ بار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مقصود بینچ میں شامل نہیں ہیں، ازخود نوٹس کیس میں سینئر ججز کو شامل کیا جائے۔

دوسری مسیحی برادری نے سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کے معاملے میں فریق بننے کی درخواست کردی۔

واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں حکومت بھی بینچ میں 2 ججز کی شمولیت پر تحفظات اٹھا چکی ہے۔

انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس: ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا 2 ججز پر اعتراض

چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے
اپ ڈیٹ 24 فروری 2023 05:50pm
آرٹ ورک/ آج نیوز
آرٹ ورک/ آج نیوز

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے 2 ججز پر اعتراض اٹھا دیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

دوران سماعت ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی۔

مختلف فریقین کے وکلاء عدالت میں دیکھ کرخوشی ہوئی، چیف جسٹس

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہوجائے، مختلف فریقین کے وکلاء عدالت میں دیکھ کرخوشی ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس تو نہیں ملا، سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بینچ کی تشکیل میں ہمیں 2 ججز پر اعتراض ہے، دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے، پیر کو سب کو سنیں گے، 4 صوبائی وکلاء کی نمائندگی عدالت میں موجود ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس مظاہرنقوی پراعتراض ہے، فاروق نائیک

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس مظاہرنقوی پراعتراض ہے، نہایت احترام سے ججز کے بینچ میں شامل ہونے پراعتراض کررہا ہوں، اعتراض کرنے کا فیصلہ قائدین نے کیا ہے۔

 جسٹس مظاہر علی اکبر (دائیں) اور جسٹس اعجاز الاحسن (بائیں)
جسٹس مظاہر علی اکبر (دائیں) اور جسٹس اعجاز الاحسن (بائیں)

مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آٸی (ف) نے 2 ججز پر اعتراض کردیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بار کسی اور وکیل کے ذریعے اپنی نمائندگی عدالت میں کریں، صدر کی جانب سے ان کے سیکریٹری عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔

فاروق نائیک نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی کا مشترکہ بیان پڑھا

فاروق نائیک نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی کا مشترکہ بیان عدالت میں پڑھتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد دونوں ججز کو بینچ سے الگ کردیں، دونوں ججز ن لیگ اور جے یوآئی کے کسی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی کا متفقہ بیان پڑھ رہا ہوں، تینوں سیاسی جماعتیں احترام سے کہتی ہیں 2 رکنی بینچ کا ازخود نوٹس کا حکم سامنے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان بھی ہے، انصاف کی فراہمی اور فیی ٹرائل کے تناظر میں دونوں ججز صاحبان کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیئے۔

چیف جسٹس سے معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے، جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست ہے اس معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوموٹو کا نوٹ لکھا، گزشتہ روزجسٹس جمال مندوخیل نےایک نوٹ لکھا، جسٹس مندوخیل کا نوٹ انتہائی تشویشناک ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹ ہے، یہ نوٹ تو تحریری حکم نامے کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کا ازخود نوٹس کے 2 پیراگراف پڑھنا چاہتا ہوں، جسٹس جمال خان مندوخیل کاعدالت میں پڑھا گیا بیان الارمنگ ہے، اس کیس میں عوام عدالت کے سامنے نہیں آتی۔

وکیل پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ ازخود نوٹس 2 ممبر بینچ کی سفارش پر لیا گیا ہے، سوال یہ ہے کیا ایسے ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے، واضح کرتا ہوں کوئی ذاتی وجوہات نہیں۔

ہم پہلے کیس میں قابل سماعت ہونے پر بات کریں گے، چیف جسٹس

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق 184/3 سے متعلق سمجھتا ہوں کیوں نہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاوں گا، میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے کیس میں قابل سماعت ہونے پر بات کریں گے۔

عوامی مسلم لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس پرنوٹس لیا جائے، سیاسی لیڈروں کو عدلیہ کو بدنام کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے، یہ بہت ہی سنجیدہ ایشوہے۔

اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیئے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟۔

جس پر وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا، قابل سماعت سب سے اہم ایشو ہے، سب سے پہلے تشکیل کا معاملہ ہے، دیکھنا ہے کہ بینچ کی تشکیل کیسے ہوئی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین کی تشریح کا معاملہ پارلیمنٹ میں حل کیوں نہیں کرتے۔

ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، عمر عطا بندیال

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلی چیزکہ فاروق نائیک نے جو حکم پڑھا ہے وہ 16 فروری کا ہے جبکہ ازخود نوٹس 22 فروری کو لیا گیا، اسی دوران بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے، ایک صدر کی تاریخ دینا دوسرا اسپیکرز کی درخواست آنا، عام طور پر شہری انصاف کے لئے عدالت آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے اس بار آئین نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، آرٹیکل 184 تین کے ساتھ اسپیکرز کی درخواستیں بھی آج سماعت کے لئے مقرر ہی، عدالت اسپیکرز کی درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیرکی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

دوران سماعت سابق اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان اور گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے۔

اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری، فرحت اللہ بابر اور پی ٹی آئی رہنما عامر محمود کیانی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

گزشتہ روز کی سماعت

یاد رے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں، اٹارنی جنرل، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز، سپریم کورٹ بار کونسل اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کو نوٹس جاری کیے تھے۔

گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ آٸین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، ہم آٸین پرعملدرآمد چاہتے ہیں، سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، ‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا وقت بڑھ سکتا ہے، ہائیکورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، وقت گزرتا جا رہا ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ ازخود نوٹس پر تحفظات ہیں، کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا جو فریق نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ازخود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔

سائفر پر جج نے فیصلہ دیا، جسے اعتراض ہے چیلنج کرے، فیصل چوہدری

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ وکیلوں کا کام کورٹ جانا ہے جانا چاہیئے، بھوٹان بھی جانا پڑے تو جانا چاہیئے، ججز پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ ثابت بھی کرنا ہوں گے، فل بینچ بنتا ہے تو ضرور بننا چاہیئے۔

فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ اعتراض اٹھانا حق ہے مگرججز اورعدالت کا احترام ضروری ہے، سائفر معاملے پر جج صاحب نے فیصلہ دیا ہے جس کو اعتراض ہے چیلنج کر دے۔

سیاسی بحران پیدا کیا گیا، کیا وہ ملک کی بقاء کیلئے ٹھیک ہے، فاروق ایچ نائیک

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر دیکھیں گے، سیاسی بحران پیدا کیا گیا، کیا وہ ملک کی بقاء کے لئے ٹھیک ہے، ایک اجنبی کے کہنے پر اسمبلیاں تحلیل کیں، کیا وجوہات تھیں؟ اس کا نقصان بہت دور تک جائے گا، اس نقصان کو ملک اور قوم کو سنبھالنا پڑے گا۔

فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ مالی بحران کے اندر کیا الیکشن ہو سکتے ہیں؟ کیا الیکشن پر خرچ ہوسکتا ہے؟ ساری باتوں کا جواب ہوگا، ازخود نوٹس کی قابل سماعت ہونے پر بھی سوال اٹھیں گے، کیا رول آف لاء نہیں یے، کیا ملک ایسے ہی چلے گا ، رول آف دا گیم کوئی نہیں آپ اسمبلیاں توڑدیں، بینچ تشکیل پرعدالت میں اعتراض سامنے آجائیں گے، سپریم کورٹ میں جامع اسٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے۔

ازخود نوٹس: سپریم کورٹ میں‏ انتخابات کا وقت بڑھانے، اسمبلیوں کی تحلیل واپس کرنے کا ذکر

ارجر بینچ کے رکن جسٹس مندو خیل نے ازخود نوٹس پر تحفظات بھی ظاہر کردیئے - پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو نوٹس جاری
اپ ڈیٹ 24 فروری 2023 07:31am
سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد۔ فوٹو — رائٹرز
سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد۔ فوٹو — رائٹرز

سپریم کورٹ کے پنجاب وخیبرپختونخوا الیکشن میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔ جب کہ دو ججوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کی نوعیت پر سوالات اٹھائے جس سے امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختنوخوا انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل اوراسلام آباد ہائیکورٹ بارکےصدرشعیب شاہین سمیت سیاسی جماعتوں کےرہنماء بھی عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، وقت کم ہے اور صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔

بیرسٹرعلی ظفرروسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم آٸین پرعملدرآمد چاہتے ہیں، آٸین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ صدر نے سیکشن 57 کے تحت انتخابات کا اعلان کیا، ‏دیکھنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‏ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے، ہائیکورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے اور وقت گزر رہا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی بینچ میں تھے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا تاکہ یہ کیس چلایا جا سکے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں ہیں، کیس میں چیف الیکشن کمشنرکو بلایا گیا جو فریق نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏انتہائی سنگین حالات ہوں توانتخابات کاوقت بڑھ سکتا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے اگرچہ تین سوال ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ آیا صدر مملکت کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظر میں عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا ان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق کی گئی ہے یا کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر توڑی گئی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے بھی اسی قسم کی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر سماعت کے دوران عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق نہیں ہوئی تو ان دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان

اٹارنی جنرل نے کیس کیلئے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس جاری ہوگا تو کل تیاری مشکل ہو جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، ‏وقت جلدی سے گزررہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا، فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا، یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔

جسٹس جمال جان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جن میں کچھ ججز پر بات کی جارہی ہے، میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہئے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔

عدالت نے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں اور پاکستان بار کونسل کے واٸس چٸیرمین کو نوٹس جاری کردیے، عدالتی معاونت کیلئے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی 27-A نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

9 رکنی لارجر بینچ میں کون کون شامل ہے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، جو 3 سوالات کا جائزہ لے گا۔

لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہرعلی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی ، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

ازخود نوٹس

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن نہ کرانے کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

16 فروری کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کے تحریری فیصلے میں پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے چیف جسٹس کو بھجوایا تھا۔

فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بینچ کے سامنے نہیں، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لے کر سماعت کے لئے بینچ تشکیل دیں۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے۔ آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی، آئینی اور اخلاقی فرض ہے، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے بہترین کیس ہے۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا گیا

  • انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟
  • انتخابات کرانے کی آئینی ذمہ داری کس نے اور کب پوری کرنی ہے؟
  • فیڈریشن اور صوبوں کی آئینی ذمہ داری کیا ہے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور 17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224 (2) کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 روز میں ہونے چاہئیں۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین لازم قرار دیتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ بار، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکرز کی درخواستیں بھی آئیں۔

واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اپ کام کر رہے ہیں تاہم گورنرز کی جانب سے تاحاک انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی۔

اس معاملے پر دو بار صدر مملکت نے مشاورت کے لئے الیکشن کمیشن کو خط کر ایوان صدر میں مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت تھی مگر الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد صدر مملکت نے ازخود دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا۔

انتخابات پر از خود نوٹس: پاکستان بارکونسل نے لارجر بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا

جسٹس قاضی فائز اور جسٹس طارق مسعود کو بینچ میں شامل نہ کرنا غیر جانبداری پر حرف آئےگا، اعلامیہ
شائع 23 فروری 2023 02:34pm

سپریم کورٹ کے پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات پر ازخود نوٹس پر بننے والے لارجر بینچ پر پاکستان بار کونسل نے عدم اعتماد کا اطہار کردیا۔

16 فروری کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کے تحریری فیصلے میں پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے چیف جسٹس کو بھجوایا تھا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بینچ کے سامنے نہیں، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لے کر سماعت کے لئے بینچ تشکیل دیں۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے۔ آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی، آئینی اور اخلاقی فرض ہے، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے بہترین کیس ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن میں تاخیر: سپریم کورٹ کی سماعت

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

دوسری جانب پاکستان بارکونسل نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لئے لئے گئے ازخود نوٹس پر بننے والے لارجربنچ پرعدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے، اور اس حوالے سے اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔

اعلامیئے میں مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز اور جسٹس طارق مسعود کو بنچ شامل نہ کرنا غیرجانبداری پرحرف آئے گا، اور امید کرتے ہیں جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی رضا کارانہ بینچ سے الگ ہوجائیں گے۔

اعلامئے میں استدعا کی گئی ہے کہ سیریل نمبر ایک سے نو تک سینیئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیاجائے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس

سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا گیا ہے، ریفرنس میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا گیا ہے۔

ریفرنس میں سپریم کورٹ کے جج اور ان کے اہلخانہ کی جائیدادوں کی تحقیقات کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثے 3 ارب روپے سے زائد مالیت کے ہیں، اور ان کا فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے، گلبرگ تھری لاہور میں 2 کنال 4 مرلےکا پلاٹ ہے، سینٹ جون پارک لاہور کینٹ میں 4 کنال کا پلاٹ ہے، اثاثوں میں گوجرانوالا الائیڈ پارک میں غیر ظاہر شدہ پلازہ بھی شامل ہے۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہےکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مبینہ طور پر 2021 میں 3 بار سالانہ گوشواروں میں ترمیم کی، گوشواروں میں ترمیم گوجرانوالا ڈی ایچ اے میں گھر کی مالیت ایڈجسٹ کرنےکے لیےکی گئی، پہلےگھرکی مالیت47 لاکھ پھر 6 کروڑ اور پھر 72 کروڑ ظاہرکی گئی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

ریفرنس ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کیا گیا ہے
اپ ڈیٹ 23 فروری 2023 01:27pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل

سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا گیا۔

سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے بھجوایا گیا ہے۔

ریفرنس میں سپریم کورٹ کے جج اور ان کے اہلخانہ کی جائیدادوں کی تحقیقات کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

ریفرنس میں استدعا کی گئی ہےکہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثوں کی تحقیقات کرے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثے 3 ارب روپے سے زائد مالیت کے ہیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے، گلبرگ تھری لاہور میں 2 کنال 4 مرلےکا پلاٹ ہے، سینٹ جون پارک لاہورکینٹ میں 4 کنال کا پلاٹ ہے، اثاثوں میں گوجرانوالا الائیڈ پارک میں غیر ظاہر شدہ پلازہ بھی شامل ہے۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہےکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مبینہ طور پر 2021 میں 3 بار سالانہ گوشواروں میں ترمیم کی، گوشواروں میں ترمیم گوجرانوالا ڈی ایچ اے میں گھر کی مالیت ایڈجسٹ کرنےکے لیےکی گئی، پہلےگھرکی مالیت47 لاکھ پھر 6 کروڑ اور پھر 72 کروڑ ظاہرکی گئی۔

قبل ازیں آڈیو لیکس کے معاملے پر پاکستان بار کونسل کی زیر قیادت تمام بار کونسلز نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انتخابات میں تاخیر: سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد الیکشن کمیشن کا اجلاس منسوخ

الیکشن کمیشن صدر کے احکامات پر اب خود فیصلہ نہیں کرے گا، ذرائع
اپ ڈیٹ 23 فروری 2023 02:19pm
فوٹو۔۔۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔۔۔ فائل

صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے معاملے پر غور کے لئے الیکشن کمیشن کا آج ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا اجلاس ملتوی کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر مملکت کے احکامات پر اب خود فیصلہ نہیں کرے گا، الیکشن کمیشن صدارتی احکامات پر اپنا مؤقف سپریم کورٹ میں پیش کرے گا۔

الیکشن کمیشن نے آئینی ماہرین کی تحریری رائے ملنے پر آج صدارتی حکم نامے پر فیصلہ کرنا تھا۔

خیال رہےکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کے لیے 9 اپریل کی تاریخ دے رکھی ہے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اٹارنی جنرل اور آئینی و قانونی ماہرین سے مشاورت کی تھی اور ان سے تحریری رائے ملنے پر آج کے اجلاس میں صدر کے اعلان کے حوالے سے فیصلہ کرنا تھا تاہم انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد الیکشن کمیشن نے اجلاس منسوخ کردیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر از خود نوٹس لیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جو کہ آج کیس کی سماعت کرےگا۔

سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن نہ کرانے کے معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا

سپریم کورٹ سماعت میں 3 سوالات کاجائزہ لے گی
اپ ڈیٹ 23 فروری 2023 02:44pm
سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد۔ فوٹو — رائٹرز
سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد۔ فوٹو — رائٹرز

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن نہ کرانے کے معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ آج دوپہر 2 بجے کیس کی سماعت کرے گا۔

16 فروری کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کے تحریری فیصلے میں پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے چیف جسٹس کو بھجوایا تھا۔

فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بینچ کے سامنے نہیں، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لے کر سماعت کے لئے بینچ تشکیل دیں۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے۔ آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی، آئینی اور اخلاقی فرض ہے، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے بہترین کیس ہے۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا گیا۔

  • انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟
  • انتخابات کرانے کی آئینی ذمہ داری کس نے اور کب پوری کرنی ہے؟
  • فیڈریشن اور صوبوں کی آئینی ذمہ داری کیا ہے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور 17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224 (2) کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 روز میں ہونے چاہئیں۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین لازم قرار دیتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ بار، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکرز کی درخواستیں بھی آئیں۔

واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اپ کام کر رہے ہیں تاہم گورنرز کی جانب سے تاحاک انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی۔

اس معاملے پر دو بار صدر مملکت نے مشاورت کے لئے الیکشن کمیشن کو خط کر ایوان صدر میں مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت تھی مگر الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد صدر مملکت نے ازخود دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا۔

نواز لیگ نے سپریم کورٹ کے دو ججوں پر بڑا اعتراض کر دیا، بینچ سے الگ ہونے کا مطالبہ

دونوں ججز کو ن لیگ کے مقدمات سے خود کو الگ کر لینا چاہیے، خرم دستگیر
شائع 21 فروری 2023 07:01pm
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس۔ فوٹو — فائل
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس۔ فوٹو — فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے دو ججز کو پارٹی کے خلاف کیسز سے علیحدگی اختیار کرنے کا مطالبہ کردیا۔

اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ن لیگ کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو پارٹی کے خلاف مقدمات سےعلیحدہ ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔

ن لیگ کے مشاورتی اجلاس میں قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو بریفنگ مؤقف اپنایا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نواز شریف کے خلاف مقدمے میں نگران جج رہے، جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف آڈیو لیک کا ناقابل تردید ثبوت سامنے آچکا ہے۔

قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے نواز اور شہباز شریف سے متعلق درجنوں مقدمات میں مخالفانہ فیصلے دئیے ہیں۔ پانامہ، پارٹی لیڈرشپ، پاک پتن الاٹمنٹ کیس، رمضان شوگر ملز کے مقدمات اس فہرست میں شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق قانونی ٹیم نے کہا کہ دونوں جج مسلم لیگ ن کے بارے میں متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں کہا گیا قانون اور عدالتی روایت ہے کہ متنازعہ جج متعلقہ مقدمے کی سماعت سے خود کو رضاکارانہ طور پر الگ (ریکیوز) کر لیتے ہیں۔ متاثرہ فریق کی درخواست پر بھی متنازعہ جج بینچ سے الگ کر دئیے جانے کی روایت ہے۔

ذرائع کے مطابق ن لیگ کی قانونی ٹیم دونوں ججوں کو نواز شریف اورپارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچوں سے الگ ہونے کا کہے گی۔ دونوں ججوں سے کہا جائے گا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے مقدمات نہ سنیں۔

اجلاس میں قانونی ٹیم کی مشاورت سے حکمت عملی تیار کر لی گئی۔

دوسری جانب وزیر توانائی خرم دستگیر نے ایک بیان میں کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کو انصاف کی روایات پر چلنا چاہیے، فیصلوں سے ظاہر ہے کہ وہ متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔

خرم دستگیر نے کہا کہ آڈیو لیکس کا ٹھوس ثبوت بھی سامنےآچکا ہے، لہٰذا دونوں ججز کو ن لیگ کے مقدمات سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔