Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

90 دن میں انتخابات سے متعلق آئین میں کوئی ابہام نہیں، سپریم کورٹ

غلام محمود ڈوگر ٹرانسفر کیس میں طلبی پر چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ میں پیش
اپ ڈیٹ 16 فروری 2023 12:37pm

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر کیس میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانےکا پابند کرتا ہے، 90 دن میں انتخابات سے متعلق آئین میں کوئی ابہام نہیں، شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر تبادلہ کیس کی سماعت کی۔

علام محمد ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی او کو تبدیل کیوں کیا گیا ؟ علام محمد ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟۔

جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے غلام محمود ڈوگر کو دوسری مرتبہ تبدیل کیا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے الیکشن کمیشن کے کردار کا سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردارہے؟۔

پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوئی ہو، جسٹس مظاہر علی اکبر

جسٹس مظاہرعلی اکبرنے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد ہوتا ہے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف دیا کہ پنجاب میں نگراں سیٹ اپ آنے کے باعث الیکشن کمیشن سے اجازت لی گئی ، آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات ہونا ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیے تو پھر بتائیں الیکشن ہیں کہاں ہے؟۔

جسٹس مظاہر علی نے ریمارکس دیے کہ آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کردیا گیا، کیا پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوئی ہو۔

الیکشن کمیشن اپنے کام کےعلاوہ باقی سارے کام کررہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کےعلاوہ باقی سارے کام کررہا ہے۔

عدالت نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد غلام محمد ڈوگر تبادلہ کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو ججز نے استفسار کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر پہنچ گئے ہیں؟ جس پر عدالتی عملے نے بتایا کہ ابھی تک سرکاری وکلاء واپس آئے نہ چیف الیکشن کمشنر۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معمول کے مقدمات ختم ہوچکے، چیف الیکشن کمشنر پہنچیں تو آگاہ کیا جائے، جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے پہنچنے تک سماعت ملتوی کی گئی۔

چیف الیکشن کمشنر کے عدالت پہنچنے کے بعد سماعت کا آغاز

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد سماعت دوبار شروع ہوئی۔

آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کروانے کا پابند کرتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کروانے کا پابند کرتا ہے اور انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں اور شفاف انتخابات کروانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی اور نگراں حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے گی، الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لیکر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔

عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے، چیف الیکشن کمشنر

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے، الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، مجھے موقع ملا ہے تو کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

سلندر سلطان راجہ نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، آرمی سے سیکیورٹی مانگی تو انکار کر دیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا اور انتخابات کے لیے پیسہ مانگا اس سے بھی انکار کر دیا گیا، میرے اختیارات کو کم کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں کس طرح فری فیئر الیکشن کروائے جائیں۔ اگر عدالت ٹرانسفرز کو فری الیکشن میں رکاوٹ سمجھتی ہے تو نہیں کریں گے۔

90 روز میں الیکشن آئین کی منشا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ تفصیلی رپورٹ دیں جائزہ لیں گے کہ کیا مشکلات ہیں لیکن 37 اضلاع ہیں سب میں ٹرانسفرز کردو یہ نہیں ہوگا، الیکشن کا اعلان کیا نہیں اور ٹرانسفرز کر دیں، 90 روز میں الیکشن آئین کی منشا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ مناسب ہوگا عدالت لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے کیونکہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ اپیل آنے پر انتخابات کا کیس سنے گی یا اسی کیس میں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبادلہ کیا گیا اور غلام محمود ڈوگر کا الیکشن کمیشن کے کہنے پر ہی تبادلہ ہوا، ایسے پیش نہیں ہوتے تو ہم نوٹس دیکر بھی طلب کر سکتے ہیں۔

وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ غلام محمود ڈوگر کو الیکشن کمیشن کے زبانی حکم پر تبدیل کیا گیا، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا زبانی احکامات پر تبادلے کی بات درست ہے؟

چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ چیف سیکریٹری نے 23 جنوری کو فون کرکے تبادلے کے متعلق کہا تھا اور تحریری درخواست آنے پر 6 فروری کو باضابطہ اجازت نامہ دیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو سپریم کورٹ کے احکامات کا علم نہیں تھا؟

چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ جو ریکارڈ ملا اس میں سپریم کورٹ احکامات کا ذکر نہیں تھا، تبادلوں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو گائیڈ لائنز جاری کی ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماریس دیے کہ آپ صرف آئین اور قانون کے پابند ہیں اپنی پالیسیوں کے نہیں۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن کی سرزنش

عدالت نے دوران سماعت بار بار سر ہلانے پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کی سرزنش کر دی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں اور کیوں روسٹم پر کھڑے ہو کر سر ہلا رہے ہیں؟۔

عمر حمید خان نے بتایا کہ میں سیکریٹری الیکشن کمیشن ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جو بھی ہیں نشست پر بیٹھیں۔

پنجاب میں تمام افسران کا ریکارڈ طلب

سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سمیت پنجاب میں تمام افسران کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو بھی کل پھر طلب کرلیا۔

Supreme Court

ECP

اسلام آباد

Justice Ijaz ul Ahsan

Sikander Sultan Raja