Aaj News

بدھ, دسمبر 25, 2024  
22 Jumada Al-Akhirah 1446  

فوج پر موقف زیادہ تبدیل نہیں ہوا، ایسا کوئی کیس نہیں جس میں مجھے نااہل کیا جاسکے، عمران خان

اگرسویلین حکومت کے پاس ذمہ داری ہے تو اختیار بھی انہی کا ہونا چاہیے
شائع 20 جنوری 2023 10:28am
تصویر: بی بی سی
تصویر: بی بی سی

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ سویلین حکومت کے پاس اگر ذمہ داری ہے تو اختیار بھی انہی کے پاس ہی ہونا چاہیے، ذمہ داری جمہوری حکومت کی ہو اور اختیارفوج کے پاس رہے، تو کوئی سسٹم نہیں چل سکتا۔

بی بی سی پاکستان کی نمائندہ کیرولین ڈیویز کو انٹرویومیں فوج کے حوالے سے گزشتہ برسوں میں تبدیل ہونے والے موقف اور موجودہ موقف سے متعلق سوال پرعمران خان کا کہنا تھا کہ آرمی کے حوالے سے مؤقف زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔

عمران خان کے مطابق ، ’پاکستان کی تاریخ میں آدھا وقت فوج نے براہ راست حکومت کی جبکہ آدھا وقت بھٹو اورشریف خاندانوں کا اقتداررہا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے فوج کا سیاسی کردار راتوں رات ختم کرنا ممکن نہیں۔ لیکن شروعات ایسے ہو سکتی ہے کہ سویلین حکومت کے پاس اگر ذمہ داری ہے تو اختیار بھی ان کے پاس ہی ہونا چاہیے‘۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد اب وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ہیں مگرتھوڑی بہت احتیاط برتیں گے، ریلیوں میں خطاب کے دوران بلٹ پروف اسکرین استعمال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ، ’ایسا نہیں ہو گا کہ میں (خوف سے) اندر بیٹھ جاؤں، میں باہرجاؤں گا اور کیمپین کروں گا۔‘

نااہلی سے متعلق سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ، ’میرے خلاف ایسا کوئی کیس نہیں، جس میں مجھے نااہل کیا جا سکے مگر وہ مجھے نااہل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، میرے خلاف بہت سے کورٹ کیسز ہیں۔ آئے روز وہ میرے خلاف ایک نیا کیس بنا دیتے ہیں ۔‘

عمران خان کے مطابق اگرانہیں نااہل کر بھی دیا گیا تو الیکشن تو ہونے ہیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ ایسی صورتحال میں پارٹی کے لیے کوئی لائحہ عمل سوچا ہے اور ان کی غیر موجودگی میں پارٹی سربراہ کون ہو گا تو عمران خان نے کہا کہ، ’اس بارے میں وقت آنے پرسوچا جائے گا‘۔

مطالبات نہ ماننے یا نااہل کر دینے کی صورت میں لائحہ عمل سے متعلق سوال پرعمران خان نے کہا کہ، ’ ہم مظاہروں کا انعقاد کریں گے۔ ہم پہلے ہی الیکشن کے سال میں ہیں، چنانچہ ہم عوامی مظاہرے کریں گے جیسا کے سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ ہم ماضی میں بھی احتجاج کرتے رہے ہیں اور ہماری تاریخ ہے کہ ہمارے مظاہرے کبھی پرتشدد نہیں ہوئے۔’

انہوں نے معاشی عدم استحکام کو پاکستان کیلئے سب سے بڑا خطرہ قراردیتے ہوئے سیاسی استحکام کو جلد از جلد شفاف انتخابات سے مشروط قراردیا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنے اقدامات کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ نہیں بن رہے تواُن کا جواب تھا کہ، سیاسی عدم استحکام کا آغاز اس وقت ہوا جب معاشی طور پر بہترین کارکردگی دکھانے والی حکومت (تحریک انصاف) سازش کے ذریعے گرائی گئی جس (سازش) کی قیادت ایک آرمی جنرل کررہے تھے۔’

معاشی منصوبے سے متعلق سوال پرچیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے سیاسی استحکام لایا جائے جو جلد ازجلد انتخابات ہی سے ممکن ہے، دوسرے نمبر پرسخت فیصلے کیے جائیں جیسا کہ قانون کی مکمل حکمرانی۔ سرمایہ کار گڈ گورننس کی وجہ سے آتے ہیں جو قانون کی حکمرانی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اس وقت طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں، ایسی صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آسکتی۔ پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے سرمایہ کاری لانا ضروری ہے‘۔

مغرب پرکبھی خود کو مارنے کی سازش کا الزام عائد نہیں کیا

عمران خان نے کہا کہ میں نے ہمیشہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی پالیسی پر تنقید کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں امریکہ مخالف ہوں۔ میرا ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ پاکستان کے تمام مغربی ممالک خصوصاً امریکہ سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں۔

ماضی میں امریکہ پر خود کومارنے کی کوشش کے الزام سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ، ’میں نے کبھی مغرب پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔‘

آئی ایم ایف کے بارے میں سوال پرعمران خان کا کہنا تھا کہ ، ’اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، ورنہ ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ ڈیفالٹ کی صورت میں ملک کو بہت نقصان ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس حکومت میں اتنی صلاحیت ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔‘

’کراچی میں اچھی تنظیم نہیں تھی‘

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے غیرمتوقع نتائج پرعمران خان کا کہنا تھا کہ ، ’یہ لوکل الیکشن تھا۔بلدیاتی انتخابات میں مقامی سطح پر اچھی تنظیم سازی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں بہت ہی بنیادی معاملات ہوتے ہیں، قومی سطح کا ایجنڈا نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کے پاس کراچی میں مضبوط تنظیم نہیں تھی، ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ پیپلز پارٹی صرف دھاندلی کے نتیجے ہی میں جیت سکتی ہے۔

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی 40ہزار کے قریب جنگجو اور ان کے خاندانوں کو پاکستان واپس جانے کا کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ، ’ان جنگجوؤں اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ کیا کرنا ہے اس معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سویلین گورنمنٹ اور آرمی متفق تھی۔ پلان یہ تھا کہ ان کو پاکستان میں ری ہیبیلیٹیٹ کریں گے مگر بدقسمتی سے اس وقت کے آرمی چیف پولیٹیکل انجینیئرنگ میں مصروف ہو گئے اور کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مجوزہ ری ہیبلیٹیشن اب تک نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ سے شدت پسندی کا خطرہ بڑھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں 50 فیصد سے زیادہ بڑھی ہیں۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو یہ صورتحال نہیں ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی میں مختلف دھڑے ہیں، حکومت کو چاہیےان میں تفریق کرے کہ کون سے دھڑے تشدد ترک کرسکتے ہیں اورری ہیبیلیٹ ہو سکتے ہیں۔ کچھ کی بحالی ممکن ہے اور باقی رہ جانے والوں کے خلاف ریاست طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن طاقت کا استعمال آخری راستہ ہونا چاہیے۔’

pti

Pak army

imran khan

TTP