Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
الیکشن کمیشن نے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران کراچی کی 3 یونین کونسلز کے نتائج روک دیے، الیکشن کمیشن نے تین یونین کونسلز میں بے ضابطگیوں کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر حکم جاری کیا۔
الیکشن کمیشن میں کراچی کی 3 یونین کونسلز میں بے ضابطگیوں کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
الیکشن کمیشن نے صفورہ ٹاؤن کے 2 ، چنیسر ٹاؤن کی ایک یونین کونسل کے نتائج روک دیے، صفورہ ٹاؤن یوسی ایک اور آٹھ جبکہ چنیسر ٹاؤن کی یوسی چھ کے نتائج روکے گئے۔
وکیل حسن جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فارم 11 کے مطابق تینوں یونین کونسلز میں جماعت اسلامی کامیاب ہوئی تھی، آر او کے جاری نتائج میں مخالف امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا، آر او نے نتائج تبدیل کرکے 2 سیٹیں پیپلزپارٹی ایک پی ٹی آئی کو دے دی۔
الیکشن کمیشن کے ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے کہا کہ کراچی کی 6 یونین کونسلز کا کیس کل سنا تھا، بظاہر کل اور آج والے مقدمات ایک جیسے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے مقدمہ دیگر 6 یونین کونسلز والے کیس کے ساتھ منسلک کرتے ہوے صفورہ ٹاؤن یو سی 1 اور 8، چنیسر ٹاؤن کی یو سی 6 کے نتائج روک دیے۔
الیکشن کمیشن نے کراچی کی مجموعی طور پر 9 یونین کونسلز میں نتائج تبدیلی کے کیس کی آئندہ سماعت 2 فروری تک ملتوی کر دی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ پہلے ہی کہا تھا ہم نے حصہ نہ لیا تو الیکشن الیکشن نہیں کہلائے گا۔
خالد مقبول صدیقی نے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ہمراہ بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہوگئے، جو کامیاب نظر آرہے ہیں وہ شرمندہ بھی نظر آرہے ہیں، جو الیکشن میں شریک ہوئے تاریخ انہیں مجرم بھی ٹھہراسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں کیں، جس قانون کے تحت حلقہ بندیاں ہوئی وہ قانون واپس لے لیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ بلدیاتی انتخابات بغیر حلقہ بندیوں کے ہوئے، حلقہ بندیاں ہی نہیں تو بلدیاتی انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں، پہلے ہی کہا تھا کہ ہم نے حصہ نہ لیا تو الیکشن الیکشن نہیں کہلائے گا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ ہمیں آئینی، قانونی جواز بتایا جائے، ان انتخابات کی سیاسی حیثیت کیا ہے، اس الیکشن کا ٹرن اوٹ 4 سے 5 پرسینٹ سے زیادہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہاکہ انتخابات کے دن کراچی میں کوئی حلقہ بندیاں نہیں تھیں، جو لوگ رائے بناتے ہیں ہم ان کے پاس بھی جائے گے، ہم فروری کے پہلے ہفتے سے عوام میں جائیں گے، اب سڑکوں پر جا کر اب بات ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے پہلے سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن دوبارہ حلقہ بندیوں کا آغاز کرے۔
کراچی حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے 13الیکشن ٹربیونل قائم کردیے ۔
کراچی میں5 الیکشن ٹربیونل قائم کیے گئے ہیں، ڈسٹرک اینڈ سیشن جج ویسٹ، ڈسٹرک ویسٹ اور کیماڑی الیکشن ٹربیونل کے سربراہ ہوں گے، اے ڈی جے ایسٹ ڈسٹرک ایسٹ اور ڈسٹرک کورنگی کے سربراہ ہوں گے۔
ڈسڑک اینڈ سیشن جج ساؤتھ اور ڈسٹرک اینڈ سیشن جج سینٹرل اپنے اپنے ڈسٹرک کے ٹربیونل کے سربراہ تعینات جبکہ ڈسٹرک اینڈ سیشن جج ملیر ڈسٹرک ملیر اپنے ڈسٹرک کے ٹربیونل کے سربراہ تعینات کیے گئے ہیں۔
مذکورہ الیکشن ٹربیونل چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی مشاورت سے تعینات کیے گئے ہیں۔
ٹربیونل بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی بے ظابطگیوں اورخلاف قانون معاملات کو چیلنج کیا جاسکتا ہے، ان ڈسٹرکس میں کسی بھی قسم کی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سماعت کریں گے ۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے میئر کا انتخاب کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہے۔
ایک جانب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد میئر کیلئےسیاسی جماعتوں میں رابطے جاری ہیں تو دوسری جانب الیکشن کمیشن کی نئی شرط نے سیاسی جماعتوں کو پریشان کردیا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ جب تک ہاؤس مکمل نہیں ہوتا، میئر کا انتخاب ممکن نہیں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پہلے کراچی میں 11 حلقوں میں ملتوی شدہ بلدیاتی انتخابات کرانے ہوں گے، انتخابات ہوجانے کے بعد نمبر مکمل ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق تمام حلقوں میں انتخابات ہوجانے کے بعد ہی میئر کا انتخاب ممکن ہو سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینئیر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ غلط مردم شماری کرنے والوں کو سزا تو ملی لیکن اس غلط مردم شماری کو صحیح نہیں کیا گیا۔
کراچی میں دوبارہ سے متحد ہونے والی ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی جس سے خطاب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مردم شماری میں 50 سال سے دھاندلی ہو رہی ہے۔
ایم کیو ایم کنوینئیر کا کہنا تھا کہ کراچی حیدرآباد میں سب سے زیادہ اربنائزیشن ہوئی اور اس کی آبادی کی رفتار کو سب سے کم دکھایا گیا، جس طرح کی حلقہ بندیاں کراچی حیدرآباد میں کی گئیں ویسی ہی میرپورخاص، سکھر، نوابشاہ میں بھی کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ، ہائیکورٹ، الیکشن کمیشن کسی نے نہیں کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں، ہمیں ہر جگہ کہا گیا کہ آپ غلط وقت پر آئے ہیں، غلط جگہ پر آئے ہیں، آپ کو پہلے یہاں جانا چاہئیے تھا وہاں جانا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا کیس مضبوط تھا تو سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہئیے تھا۔
خالد مقبول نے کہا کہ ہم نے انتخابات سے دستبردار ہوکر سازش کو ناکام بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ہی علاقوں میں مصروف رکھا جاتا ہے تاکہ ہماری آواز سندھ کے شہری علاقوں سے نکل کر دیہی علاقوں میں نہ پہنچ سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگ عوام دشمن ہوتے ہیں اور کچھ نظام دشمن، نظام دشمن لوگوں کے خلاف آپریشن ہوتے ہیں اور الحمداللہ جو آج آپ کے سامنے بیٹھے ہیں اس بوسیدہ، گلے سڑھے جاگیردارانہ نظام کو جمہوریت ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے ایوانوں، عدالتوں ، سیاسی میدانوں میں اپنی آواز بلند کرچکے ہیں، حجت تمام کرچکے ہیں، اب واحد راستہ ہے کہ جس عوام کیلئے لڑ رہے ہیں اسے ساتھ لے کر سڑکوں پر اس جدوجہد کو آخرے مرحلے میں داخل کیا جائے۔ ہم نے اپنا پروگرام ترتیب دے دیا ہے جو آنے والے وقتوں میں آپ کے سامنے پیش کریں گے۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ انتخابات کے تین مراحل ہیں، ایک الیکشن سے پہلے، ایک الیکشن کے دوران اور ایک الیکشن کے بعد کا مرحلہ۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے لوگوں کو گنا جاتا ہے، پھر حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔
کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو گنا گیا تو پورا ہی نہیں گنا گیا، کراچی کی تین کروڑ کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ بتا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایکشن کے تینوں مراحل میں دھاندلی ہوئی ہے۔
مصطفیٰ کمال نے طنزیہ کہا کہ صوبائی اور وفاق حکومت ہماری ہو نہیں سکتی، لے دے کر کراچی اور حیدرآباد میں سڑکوں گٹروں اور پانی کا نظام ہمارے پاس آتا تھا، اب وہ بھی ہم سے لینے کیلئے جیریمینڈرنگ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان بنایا آج پاکستان بچا رہے ہیں، اس شہر کے نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے ہتھیار جمع کرائے، کل جب امن تباہ ہوگا، غیر آئینی بات ہوگی، تو سب بندوقیں اٹھا کر آجائیں گے گرفتار کرنے لاپتا کرنے کیلئے۔
انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں کے ساتھ آج جو پیپلز پارٹی کا سلوک ہے اس میں اور مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے سلوک میں کیا فرق ہے، وہ بھی یہی کررہا ہے کہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کررہا ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہم خاموش نہیں بیٹھے گے، ہم امن کے ساتھ، آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنا حق لینا جانتے ہیں، پاکستان میں دھرنوں کا رواج ہے نا؟ ابھی گیم ختم نہیں ہوا شروع ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تو خون میں پاکستان ہے، ہم نے اس پاکستان کو بنانے اور چلانے کیلئے قربانیاں دی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں پاکستان کو چلانے والی قوتیں اس مسئلے کو توجہ دیں گی اور رکوائیں گی، الیکشن ہو گئے کوئی مسئلہ نہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کی 53 یونین کونسلز جن کا لیٹر 10 ون اے جاری ہو چکا ہے، وہ شامل کی جائیں، اس سے الیکشن کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر وہ یونین کونسل شامل ہوگئیں ہم الیکشن سے باہر رہ کر بھی الیکشن جیت جائیں گے۔
اس موقع پر وسیم اختر نے کہا کہ حیدرآباد اور کراچی دونوں شہروں نے ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے فیصلے پر لبیک کہا ہے، دونوں جماعتوں نے قبول کیا کہ حلقہ بندیاں غلط ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے وہ دیہی علاقوں کی سیٹیں شہری علاقوں میں ڈال کر کامیاب ہوگئی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر کی آنے والی نسلیں پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالیں گی کیونکہ 1971 کے بعد سے ان کی صورت حال سامنے ہے۔
خالد مقبول مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے جانتے ہوئے کہ پری پول رگنگ ہوئی ہے اپنی خاطر الیکشن لڑا اور ہم نے آپ سب کی خاطر الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اعوان اور اقتدار ہماری ٹھوکروں پر رہا ہے، اگر ہم نے آپ کو حیدرآباد اور کراچی کی خیرات دے بھی دی ہے تو اس سے پہلے وقت گزر جائے آپ 73 یا 53 یوسیز کو کراچی اور حیدرآباد میں شامل کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے ان دوشہروں پر قبضہ کرنے کا جو پلان بنایا ہے اس کو لوٹنے کی خاطر بنایا ہے، کہ کچرے کا پیسہ، نکاسی آب، فراہمی آب کا پیسہ اور گلیوں کا پیسہ بھی لوٹ کر لے جا سکیں، کیوںکہ آپ کو پتا ہے آپ کا اقتدار اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم حکومت بنانے کے مرحلے میں شامل نہ ہوں تو یہ حکومت ہی نہیں جموریت بھی نہ بچے، اس جمہوریت کو بچانا ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، وزارتوں میں رہنا ہماری نہیں حکومت کی ضرورت ہے، لیکن ہم دوسروں کی ضرورت پوری کرتے ہوئے اپنی قوم کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما و وزیر جامعات اسماعیل راہو نے کہا کہ حالات سندھ کے خراب نہیں آپکے ذہن کے ہیں چئیرمین بلاول بھٹو کی کارکردگی اور پی پی پی کی مقبولیت سے عمران خان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔
صوبائی وزیراسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کوعبرتناک شکست عمران خان کے زوال کی نشانی ہے، خان صاحب کراچی کے لوگوں میں شعور تھا اسی لئے ہی تو آپ کو مسترد کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے باشعور لوگوں نے تیر پر ٹھپہ لگایا اور بلے کو توڑ دیا اورعمران خان کی پارٹی امپائر کی انگلی کے بغیر ضلع کاؤنسل کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتی۔
اسماعیل راہو نے اپنے بیان میں کہا کہ کراچی کی عوام نے پی ٹی آئی کو 2018 کےعام انتخابات میں ہی مسترد کردیا تھا مگر انہیں جعلی ووٹوں کےذریعے زبردستی جتوایا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ بلدیاتی انتخابات میں کوئی دھاندھلی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی سے کراچی کے لوگوں نے جھوٹے وعدوں کا بدلہ لیا ہے۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی سندھ کے صدرعلی زیدی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو 28 جنوری تک گرفتاری سے روک دیا۔
عدالت نے بلدیاتی الیکشن میں ڈی سی کیماڑی آفس میں توڑ پھوڑ کے مقدمے میں پی ٹی آئی رہنما علی زیدی کی درخواست ضمانت منظور کی ہے۔
مقدمے میں ایم پی اے سعید آفری، بلال غفار،عطااللہ، داوا خان سمیت 200 تک نامعلوم کارکنان کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو میں علی زیدی نے کہا بلدیاتی حکومت سازی کیلیے امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے رابطے میں ہیں، وہ کل ہمارے پاس آ رہے ہیں۔
مزید کہا کہ ملاقات کے بعد معاملات کوحتمی شکل دی جائے گی، پیپلزپارٹی زرداری مافیا ہے ان سے بات نہیں ہوگی ۔
کراچی: سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے متعلق فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے اپنی رپورٹ جاری کردی۔
رپورٹ کے مطابق الیکشن میں ووٹرز کی نمایاں تعداد نے حق رائے دہی استعمال کیا، اندرون سندھ بشمول بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان سمیت ٹھٹھہ اور ٹنڈو اللہ یار میں نمایاں تعداد میں ووٹ کاسٹ ہوئے۔
فافن نے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ کراچی کے دیگر 6 اضلاع میں ٹرن آوٹ کم رہا، ضلع ملیر کے علاوہ دیگر اضلاع میں ٹرن آوٹ 20 فیصد سے کم رہا جب کہ حیدرآباد ڈویژن میں ووٹنگ ٹرن آوٹ 40 فیصد سے زیادہ رہا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن میں پولنگ کے دوران تلخ کلامی کے 14 واقعات ہوئے، نتائج کی تیاری اور فارم 11 میں کئی طرح کی خامیاں تھیں۔
فافن نے رپورٹ میں لکھا کہ فارم میں مرد، خواتین ووٹرز کی تعداد میں تضاد تھا اور فارم 11 میں اہم معلومات بھی درج نہیں کی گئیں۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات پرہمیں شدید تحفظات ہیں۔
کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سعید غنی اور حافظ نعیم الرحمان نے ادارہ نورِ حق میں ہونے والی بات چیت کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
میڈیا سے گفتگو میں حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا وفد ادارہ نورِ حق آیا، ملاقات میں بلدیاتی انتخابات میں تحفظات پر بات چیت ہوئی ہے، پیپلزپارٹی کے وفد نے کہا ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھیں گے۔
حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ اگر لگا حکومت اثر انداز نہیں ہورہی تو آگاہ کریں گے۔
زمیر کراچی جماعت اسلامی نے کہا کہ الیکشن میں جو کچھ ہوا اس کی شکایات الیکشن کمیشن کو دیں، فارم 11،12 کے حصول کیلئے جدوجہد کرنی پڑی، الیکشن کمیشن شکایات کی سماعت 23 جنوری کو کرے گا۔
اس موقع پر سعد غنی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے جماعت اسلامی کو مبارکباد دیتا ہوں، جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات میں اچھی نشستیں حاصل کیں۔
پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی مل کرمسائل حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی کچھ شکایات ہیں، حافظ نعیم نے کل وزیراعلیٰ سے بھی گفتگو کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سی چیزیں حکومت کے اختیار میں نہیں ہوتیں، پھر بھی جماعت اسلامی کے اعتراضات دور کرنے میں کردار ادا کریں گے۔
سعید غنی نے کہا کہ الیکشن کمیشن 23جنوری کو شکایات کی سماعت کرے گا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کریں گے، دونوں جماعتیں بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ آر او، ڈی آر او حکومت فراہم کرتی ہے، جو جیت گیا ہے اس کی فتح تسلیم کی جائے، کوشش ہے کہ اختلافات کا اثر شہر کی فضا پر نہ پڑے، کوشش ہے کہ ساتھ مل کر چلیں، سیاسی جماعتوں میں کشیدگی نہیں ہونی چاہئے۔
میئر کراچی کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں دو فارمولوں پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ایک پارٹی کا میئر ہوگا اور دوسری پارٹی کے پاس ٹاؤنز ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی مشروط طور پر میئر کراچی سے دستبردار ہوسکتی ہے، اس کی پوری توجہ ٹاؤنز میں بلدیاتی حکومتیں بنانے پر ہے۔
جماعت اسلامی میئر اپنا بناتی ہے تو ٹاؤنز پیپلز پارٹی کو دے گی، پیپلز پارٹی میئر اپنا لاتی ہے تو ٹاؤنزجماعت اسلامی کو دے گی۔
پیپلز پارٹی ٹاؤنز اپنے پاس رکھ کر نچلی سطح پر کام کرنے کی خواہش مند ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں میں پی ٹی آئی کو بلدیاتی ادارہ سازی سے دور رکھنے پر اتفاق ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ ”سندھ حکومت سے سعید غنی، امتیاز شیخ اور نجمی عالم صاحبان ادارہ نورِ حق آئے،الیکشن کے بعد نتائج تبدیل کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوئی، انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ معاملات کو درست کریں گے۔“
حافظ نعیم نے مزید کہا کہ ”ہمارا موقف اب بھی واضح ہے کہ عملی اقدامات کے بعد ہی مزید بات چیت ہوسکتی ہے۔“
کراچی کے سات اضلاع میں 246 یوسیز کے سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی 91 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے، جبکہ جماعت اسلامی 88 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور تحریک انصاف 40 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
اب تک کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں میئر کے انتخاب کے لیے سیاسی اتحاد ضروری ہوگا۔
پیپلزپارٹی نے چیئرمین کی 91 نشستیں جیتیں، جس کے تحت پی پی خواتین کی 32 شستیں، نوجوانوں، لیبر، اقلیت کی 5،5 نشستیں جب کہ خواجہ سرا اور معزور کی ایک، ایک نشست حاصل کرے گی، پیپلزپارٹی کی مجموعی نشستیں 140ہو جائیں گی۔
جماعت اسلامی نے چیئرمین کی 88 نشستیں حاصل کیں، جماعت اسلامی کوخواتین کی 30 سیٹیں ملیں گی، لیبر، اقلیت، نوجوانوں کی 5،5 جب کہ معذوراور خواجہ سرا کی ایک، ایک سیٹ ملے گی، جس کے تحت جماعت اسلامی کو مجموعی طور پر 135 نشستیں ملیں گی۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی کو چیئرمین کی 40نشستیں جیتنے پر خواتین کی 14 نشستیں نوجوان، لیبر، اقلیت کی دو، دو نشستیں ملیں گی، جس کے بعد پی ٹی آئی کی مجموعی نشستیں 60 ہوجائیں گی۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات پر سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں پر اب تک 11 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔
پولیس کے مطابق 15 جنوری الیکشن کے روز 8 مقدمات درج کیے جبکہ 10 مقدمات پی ٹی آئی اور ایک مقدمہ جماعت اسلامی کے خلاف درج ہوا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ عزیز بھٹی میں جماعت اسلامی کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف سعیدآباد، اتحاد ٹاؤن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مزید بتایا کہ شاہ فیصل میں پی ٹی آئی رہنما عدیل احمد کے خلاف مقدمہ درج ہوا، گلشن معمارمیں پی ٹی آئی رہنما رابستان محمود کے خلاف درج ہے اس کے ساتھ ہی سولجربازار میں فردوس شمیم نقوی کے خلاف بھی مقدمہ درج ہے۔
اس کے علاوہ الفلاح، مدینہ کالونی، جمشید ٹاون، سمن آباد، سائٹ میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف مقدمہ درج ہے جس میں میں پی ٹی آئی رہنماؤں اورکارکنان کونامزد کیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما عاجز دھامرا نے کہا کہ جماعت اسلامی شہرکی سیاست کو کہیں اور لے جانا چاہتی ہے لیکن ہمارے مینڈیٹ کوتسلیم نہ کیا تو دما دم مست قلندرہوگا۔
عاجزدھامرا نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بڑی تعداد میں اردو بولنے والے پیپلز پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں اور ماضی میں کراچی میں ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی خدمت سے ہاتھ نہیں اٹھایا پیپلزپارٹی نے کراچی میں ترقیاتی کام کروائے اورصحت اورتعلیم پر بہت کام کیا، 2015 میں بھی پیپلزپارٹی نے کراچی سے بہت ووٹ لئے تھے۔
عاجزدھامرا کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی شہرکی سیاست کو کہیں اور لے جانا چاہتی ہے کراچی میں امن کیلئے پیپلزپارٹی نے بہت کچھ کیا ہے اور پیپلزپارٹی کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیاری سے جماعت اسلامی جیتی توہم نے سوال نہیں کیا ہم سے سوال کیا گیا توہم بھی سوال کرنے میں حق بجانب ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ہوا، جو جماعت اسلامی کیلئے چوری ہوا ہمارے مینڈیٹ کوتسلیم نہ کیا تودم دما دم مست قلندرہوگا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کرانے کے لئے مکمل تیارہے جبکہ الیکشن کمیشن نے اپریل کے پہلے ہفتے میں عام انتخابات کرانے کی تجویز دے دی۔
آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعدالیکشن کمیشن 90 روزمیں عام انتخابات کرانے کاپابند ہے، الیکشن کمیشن نے اپریل کے پہلے ہفتے میں عام انتخابات کرانے کی تجویزدی ہے تاہم حتمی فیصلہ دونوں صوبوں کے گورنرزکریں گے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوااسمبلی کے عام انتخابات میں کوئی قانونی رکاوٹ آڑے نہیں آ سکتی، وفاقی حکومت کی جانب سے نئی مردم شماری کرانے پر بھی الیکشن مقررہ دنوں میں ہی کروائیں گے۔
الیکشن کمیشن 2017 کی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے مطابق ہی انتخابات کروائے گا۔
الیکشن کمیشن نے آئندہ 2ہفتوں میں مشاورت کے بعد عام انتخابات کا انتخابی شیڈول جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن حکام کی اتوار کے روزپولنگ کرانے کی تجویز ہے کیونکہ چھٹی کے روزٹرن آوٹ زیادہ ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن ایک سے زائد پولنگ ڈے کی تجاویز گورنرز کو ارسال کرے گا،عام انتخابات کے لئے پولنگ کب ہو گی، حتمی فیصلہ گورنرز کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ ظلم کے خلاف کراچی والے کھڑے ہوگئے تو کہا جائےگا دہشت گرد آگئے۔
اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا کہ 15جنوری کو صبح پولنگ اسٹیشنز میں عملہ بھی نہیں تھا، پولنگ کے بعد پورے کراچی میں تماشا کیا گیا، کراچی جیسے شہر میں نتائج میں تاخیر کی گئی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں مینڈیٹ چوری کرنے کی کوشش کی گئی، کئی پولنگ اسٹیشنز پر پہلے سے ہی ٹھپے لگائے گئے تھے، ہمارے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، حیدرآباد میں بھی دھاندلی کی گئی، ہمارے جیتنے والے امیدوار کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ بے بس نظر آرہے ہیں، کراچی والوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، ہمیں مردم شماری ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، ظلم کے خلاف کراچی والے کھڑے ہوگئے تو کہا جائے گا دہشت گرد آگئے۔
اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی نشستیں بھی چھینی گئی ہیں، یہ لوگ عمران خان سے خوفزدہ ہیں، بلدیاتی انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کرتےہیں۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروانے میں ناکام رہا ہے، بلدیاتی الیکشن کالعدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کروایا جائے، یہ جتنا بھی ظلم کرلیں، کراچی کی آواز نہیں دبائی جاسکتی، الیکشن چوری کرنے والے کو چور ہی کہیں گے۔
امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ سندھ حکومت ریٹرننگ آفیسر(آراو)، ڈپٹی ریٹرننگ آفیسر(ڈی آراوز) کے ذریعے پوسٹ پول دھاندلی کررہی ہے جو حکومت کے تقررکردہ لوگ ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ الیکشن سے قبل اپنے تحفظات کا اظہارکیا تھا آئینی حق کیلئےعدالتوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں، حکومتیں اورپارٹیاں بلدیاتی انتخاب سے فرار اختیار کرناچاہتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے آراوز کو تعینات کیا گیا، دھرنے دیئے پھرکہیں جاکرڈھائی سال بعد بلدیاتی انتخابات ہوئے حکومت اختیارعوام کو نہیں دینا چاہتی 4 بارتو بلدیاتی الیکشن ملتوی کئے گئے۔
امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ نام نہاد جمہوری جماعتیں بھی الیکشن نہیں کرانا چاہتیں، آخری وقت تک ابہام تھا کہ الیکشن ہوگا یا نہیں مگر الیکشن کمیشن کے انتظامات درست نہیں تھے صوبائی الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود عملے نے فارم نہیں دیا۔
مزید پڑھیں:: الیکشن میں دھاندلی کیخلاف پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے دھرنے، متعدد کارکنان گرفتار
مزید کہا کہ متعدد جگہوں پربیلٹ باکس کےسیل کھلے تھے، فارم 11 دینا آراو کی ذمہ داری تھی لیکن سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی نے اپنے بندے جتوا دئیے ہیں۔
کنوینئر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات لڑنے والوں کو تاریخ مجرم قرار دے گی۔
پی آئی بی کالونی میں جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سندھ حکومت نے 53 یونین کونسلز کے مطالبے کو تسلیم کیا، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو بھی حلقہ بندیاں تسلیم نہیں تھیں تو الیکشن میں کیوں حصہ لیا۔
اس موقع پر ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہمیں قربانیوں کے بدلے دھوکے ملے، اب اعتماد کا ووٹ لینے آؤگے تو کرارا سوال ملے گا کہ اب ہم آپ کو کیوں ووٹ دیں، ہم اعتماد کا ووٹ سنبھال کر رکھیں گے۔
فاروق ستار نے کہا کہ انگریزوں نے وڈیروں کو زمینوں سے نوازا، جاگیرداروں، وڈیروں کا مقابلہ پاکستان بنانے والوں کی نسل سے ہے، تقسیم و انتشار اب ہماری ڈکشنری میں نہیں، البتہ ہم نے پاکستان بنایا تھا اور پاکستان کو بچائیں گے۔
امیرِجماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ مینڈیٹ تسلیم کریں ہم بات چیت سے انکارنہیں کرتے، آصف زرداری مقامی پیپلزپارٹی کو ہدایت دیں کہ وہ عوامی مینڈیٹ تسلیم کرے۔
سراج الحق نے پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ہمیشہ سے بدامنی کاشکار رہا ہے کراچی پورےملک کیلئےانجن کاکام کرتا ہے اورجب بھی جماعت اسلامی کوموقع ملاکراچی کوخوشحال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے جماعت اسلامی نے طویل جدوجہد کی جبکہ جماعت اسلامی کوووٹ دینے پر کراچی والوں کے شکرگزار ہیں، ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے صوبائی حکومت کو ریٹرننگ آفیسرز پراثرانداز نہیں ہونا چاہئے۔
سراج الحق نے کہا کہ خود کو جمہوری جماعت کہنے والوں کوعوام کا فیصلہ تسلیم کرناچاہئے،آصف زرداری کراچی کے لوگوں کا مینڈیٹ تسلیم کریں ہم بات چیت سے انکار نہیں کرتے پہلے مرحلےمیں صوبائی حکومت حقیقت تسلیم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم امن وترقی چاہتے ہیں، ہم جذباتی نہیں، ہمیں کراچی میں پرسکون ماحول کی ضرورت ہے آصف زرداری مقامی پیپلزپارٹی کو ہدایت دیں کہ وہ عوامی مینڈیٹ تسلیم کرے۔
بلدیاتی الیکشن کے معرکے میں ہر سیاسی جماعت کی کوشش تھی کہ وہ بغیر کسی اتحاد کے کراچی میں اپنا مئیر لے آئے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی جماعت کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔
الیکشن کے نتائج آنے کے بعد کراچی سٹی کونسل میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس واضح 50 فیصد اکثریت نہیں ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کو مئیرشپ حاصل کرنے کے لیے اتحاد لازمی بنانا ہوگا۔
کیا آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کراچی کے میئر کے انتخاب کے لیے ممکنہ اتحاد کیسے تشکیل پاسکے گا، اس کے لئے آپ ہمارے انٹرایکٹو گرافک کا استعمال کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ بروز اتوار 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کراچی ڈویژن میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔
بلدیاتی الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کہا ہے کہ وہ جماعت اسلامی (جے آئی) کے ساتھ اتحاد کرنے کا جائزہ لے گی، جو الیکشن میں دوسری سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کو میئر شپ کی پیشکش نہیں کریں گے، جبکہ دوسرا امکان جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان اتحاد کا ہے، جو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
اس بات کا خیال رہے کہ پیپلز پارٹی اپنے میئر کے امیدوار کو پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) جیسی چھوٹی جماعتوں کی مدد سے بھی منتخب کروانا چاہتی ہے، جوان کے ساتھ وفاقی حکومت میں اتحادی ہیں۔
لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا تمام چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار مل کر 50 فیصد یا 178 نشستوں کی دہلیز تک پہنچ سکتے ہیں، جو انہیں کراچی کے میئر کا انتخاب جیتنے کے لیے درکار ہے؟
آپ کی اسی مشکل کو آسان کرنے کے لئے اوپر دیے گئے انٹرایکٹو گرافک میں سیاست جماعتوں کے ناموں پر کلک کر کے آپشنز کو تلاش کر سکتے ہیں، ایک کلک اس جماعت کو گرافک سے خارج کر دے گا اور دوسرا کلک اسے واپس لے آئے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کی میئرشپ کے معاملے پر جماعت اسلامی سے بات کو ترجیح قراردیتے ہوئے درخواست کی ہے کہ ایسے اقدامات نہ کریں جن سے شہرکا ماحول خراب ہو۔ دونوں جماعتوں کو مل کر کراچی سے نفرت، بدتمیزی ، دہشتگردی کی سیاست ختم کرنی ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ جماعت اسلامی سے بات کرنا ہماری ترجیح ہے۔ جن نشستوں کے نتائج پراعتراض ہے ان اعتراضات کو قانون کے مطابق آگے بڑھاسکتے ہیں اور ایسا ہوبھی رہا ہے۔
اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ ہمارے کچھ امیدواروں نے بھی کامیابی کے باوجود دوبارہ گنتی کی درخواست دے رکھی ہے۔ جہاں جہاں جماعت اسلامی کی درخواست پر دوبارہ گنتی ہوئی ہم نے کوئی طوفان نہیں اٹھایا بلکہ جمہوری عمل کاحصہ بنے۔ اخترکالونی میں دوبارہ گنتی پر پی پی جیتی اور جماعت اسلامی کو جب اندازہ ہوا کہ نشست ہاتھ سے جارہی ہے تو ہنگامہ آرائی کی کوشش کی گئی جو کہ غیر جمہوری عمل ہے۔ ہم قانونی راستہ اختیار کریں تو آپ رکاوٹ ڈال رہے ہیں جبکہ ہم قانون کے مطابق چل رہے ہیں توایسا دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔
سعید غنی نے جماعت اسلامی سے درخواست کی کہ جو نتیجہ آئے اسے تسلیم کریں ، اعتراض ہے تو اس کے لیے فورم موجود ہیں، کل جماعت اسلامی کے دوستوں نے ویسٹ میں آفس کو یرغمال بنالیا، کمشنر سے بات کرتے ہوئے انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ سرکاری افسران اور عملے کو ہراساں کرنا مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نےاپنے لوگوں کو تسلی دی کہ ہار جیت انتخابی عمل کاحصہ ہے، جذباتی کارکنوں کو ہم سمجھاتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ بات کہی گئی کہ سب احتجا ج کریں۔ ڈٖسٹرکٹ ویسٹ میں پی پی کارکنان بہت غصے میں ہیں، ایسےمیں تو سب نکل آئیں گے۔ جماعت اسلامی سے درخواست ہے ایسے اقدام نہ کریں کہ شہر کا ماحول خراب ہو، ہم آپ کے اعتراضات کا احترام کرتے ہیں اورآپ بھی ایسا ہی کریں۔ آپ کی نشستیں توقع سے زیادہ ہیں، ہماری نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کو مل کر کراچی سے نفرت، بدتمیزی ، دہشتگردی کی سیاست ختم کرنی ہے ، کچھ مسائل کو بنیاد بنا کر پورا ماحول خراب نہ کریں۔ ہم ساتھ بیٹھ کر کراچی میں بلدیاتی اداروں کے اندر سیٹ اپ بنانے کے لیے تیار ہیں ۔ بیٹھ کر بات کریں راستی نکالنے کی پوری کوشش کریں گے، یہ طے ہوسکتا ہے کہ میئر پی پی کا ہو گا یا جماعت اسلامی کا۔ یہی کراچی کے حق میں بہتر ہوگا اور آگے چل کر ترقیاتی کام کرنے والے نمائندوں کے حق میں بھی۔
سعید غنی نے مزید کہا کہ مخصوص نشستوں کے خواہشمند 22 جنوری تک درخواست دے سکتے ہیں، مزید کہا کہ ہمیں کہو تو سہی کہ میئر چاہئے، بات تو کرو، آپ بات بھی نہ کریں اور کہیں ہمیں رشتہ چاہئے حافظ صاحب شاید خود کو میئر سمجھ بیٹھے اسی لئے پرابلم ہورہی ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد نتائج میں مبینہ دھاندلی پر بلدیہ کے 3 جنرل کونسلرز کے 3امیدواروں نے مخالفین کی کامیابی کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ۔
میر محمد رفیق ایڈووکیٹ نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سجاد الرحمان نے یوسی 2 وارڈ کیماڑی ٹاؤن سے الیکشن لڑا ،الیکشن کمیشن نے نتائج تبدیل کرکے پی پی امیدوار عبدالرؤوف کو جتوا دیا، سجاد الرحمان نے 245 جبکہ عبدالروف نے 202 ووٹ لیے ۔
سید شیر علی شاہ نے وارڈ 4 یوسی ٹو بلدیہ ٹاؤن سے الیکشن لڑا، جماعت اسلامی کے سید شیرنے107جبکہ پی پی امیدوار وزیر محمد نے 102 ووٹ لیے ،نعمت خان نے یوسی 2 وارڈ 2 اتحاد ٹاؤن سے الیکشن لڑا اور 443 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی پی سے تعلق رکھنے والے مخالف امیدوار شمیراحمد نے377 ووٹ لیے۔
میر محمد رفیق ایڈووکیٹ نے تینوں درخواستیں آج سننے کی استدعا کی جسے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے سماعت کے لئے انکار کردیا اور حکم دیا کہ ہمارا بینچ سروس کیسز دیکھ رہا ہے متعلقہ بینچ سے رجوع کیا جائے۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما نجمی عالم نے کہا ہے کہ کراچی کا اگلا میئر پیپلز پارٹی کا ہو، تو وہ اختیارات نہ ہونے شکایت نہیں کرے گا۔
جیسا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے میئرز نے اختیارات کی منتقلی میں صوبائی حکومت کی ناکامی کو اپنے لیے ایک بڑی رکاوٹ کے طور پردیکھا تھا۔
آج نیوز کے مارننگ شو ”آج پاکستان“ میں شریک نجمی عالم کا کہنا تھا کہ کہا کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات سب سے زیادہ پرامن تھے، جو انہوں نے شہرمیں کبھی نہیں دیکھے، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کم تھا لیکن اس کا ذمہ دار انتخابات کے ارد گرد پیدا ہونے والی الجھن کو قرار دیا، جو جولائی 2022 کے بعد سے متعدد بار ری شیڈول کیے گئے تھے۔
نجمی عالم نے کہا کہ کسی کو یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہونے والا ہے لیکن پی پی پی اور جماعت اسلامی نے زیادہ نشستیں حاصل کیں کیونکہ انہوں نے اپنا ’ہوم ورک‘ کیا تھا اور اس کی وجہ سے وہ اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں کامیاب ہوئیں۔
پی پی پی رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہوم ورک نہیں کیا اور وہ زیادہ خوش فہمی میں مبتلا تھے، انہیں یقین تھا کہ وہ عمران خان کی تصویر لے کر جائیں گے اور لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔
نجمی عالم نے کہا کہ پی پی پی نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ 100 کے قریب UCs جیت لے گی اور جماعت اسلامی 90 کے قریب حاصل کرنے والی ہےِ جبکہ پی ٹی آئی کے لیے اندازہ تھا کہ 35 سے 40 UCs حاصل کرپائی گی لیکن پی ٹی آئی نے 40 نشستیں حاصل کیں۔ اگر ایم کیو ایم پی الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتی، تو پی ٹی آئی صرف 10-12 UCs جیت پاتی۔
نجمی عالم نے کہا کہ خرم شیر زمان اس لئے ہارے کہ انہوں نے ایک کام نہیں کیا جبکہ جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کا احترام ہے لیکن کراچی والوں نے جماعت کوجعلی ووٹ نہیں ڈالے۔
مزید پڑھیں: بلدیاتی انتخابات:خرم شیرزمان کی شکست سے پی ٹی آئی کو بڑا دھچکا
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کراچی کے میئر کیلئے فیورٹ امیدوار خرم شیرزمان کو پاکستان پیپلزپارٹی کے نجمی عالم سے شکست کاسامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں کوئی اچھی بات آئی ہم نے بڑھ کر سپورٹ کی، ہمارے بہت سے اعتراض قبول ہوئے اور بہت سے مسترد ہوئے، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کوئی بھی میئر آئے ہم اس سے تعاون کریں گے، ہمیں شہر کی بہتری دیکھنی ہے اور کراچی پاکستان کیلئے اہم شہر ہے۔
سینئرصحافی مظہرعباس نے بھی مارننگ شو ”آج پاکستان“ میں بذریعہ ٹیلیفون بات کرتے ہوئے کہا کہ سن 1970 اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جب جماعت اسلامی کےعبدالستار افغانی کراچی کے میئر تھے اور پیپلز پارٹی کے عمر یوسف دیدہ اور عبدالخالق اللہ والا نے افغانی کے ساتھ بطور ڈپٹی میئر کام کیا، پھرسن 2000 کی دہائی میں جب نعمت اللہ میئر تھے، تو نجمی عالم کراچی سٹی کونسل میں اپوزیشن لیڈر تھے۔
نجمی عالم کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ انہوں نے نعمت اللہ کی قیادت میں ’مثبت اپوزیشن‘ کی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے کبھی ’ٹانگ کھینچنے‘ کا کام نہیں کیا اور بجٹ بھی ایک گھنٹے میں منظور کرلیا گیا تھا تاہم پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس طرح کا خوشگوار اور دوستانہ تعلقات نہیں دیکھے گئے۔
مظہرعباس نے کہا کہ ایم کیو ایم پی اور پیپلز پارٹی میں مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے محبت اور نفرت کے تعلقات ہیں، جب آپ کے مفادات مشترک ہوتے ہیں تو تنازعہ بھی عام ہوجاتا ہے، اگر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان تعلقات اچھے نہ رہے تو کراچی کو نقصان ہوگا۔
نجمی عالم نےحلقہ بندیوں کے تنازع سے متعلق کچھ سخت سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پی نے پیپلز پارٹی پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب حلقہ بندیاں ہو رہی تھیں، تواعتراض اٹھانا چاہیے تھا، حلقہ بندیوں کے عمل کے دوران پیپلزپارٹی نے ضلع جنوبی میں 52 اعتراضات جمع کرائے، جہاں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پاکستان نے ایک ایک اعتراض دائر کیا تھا جبکہ جماعت اسلامی نے کوئی اعتراض درج نہیں کیا اور یہ صرف ایک ضلع تھا۔
مزید کہا کہ پورے شہر میں ایم کیوایم والوں کی جانب سے صرف 8 سے 10 اعتراضات داخل کیے گئے ان کو اس وقت اعتراضات دائر کرنا چاہیے تھا۔
اس کے علاوہ نجمی عالم کی امیدواری کوعدالت میں چیلنج کیا گیا تھا کیونکہ وہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے وائس چیئرمین تھے، جب انتخابی عمل شروع ہوا تھا لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے قبل ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہےکہ کراچی کے لوگوں نے جماعت اسلامی کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا ، نتائج آنے لگے تو لوگوں کو پریشانی لاحق ہوگئی، ہمارے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی۔
حافظ نعیم الرحمان نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر دھاندلی کی، ایم کیوایم نے جعلی مردم شماری کو منظور کیا، حلقہ بندیوں اور اختیارات کے لئے تحریک چلائی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی نے مل کرحکومت چلائی، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ادارےسندھ حکومت نے لے لیے ۔
امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ ہم نے ووٹرلسٹوں پر بھی اعتراض کیا،کراچی کےبلدیاتی انتخابات 4 بار ملتوی ہوئے، ہم نے کراچی کے عوام کی نمائندگی کی، کراچی کےعوام نے جماعت اسلامی پر اعتماد کیا۔
حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ آخری وقت کو غیریقینی کی صورتحال رکھی گئی، شاید ہمارا مینڈیٹ 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوتا ان حالات میں 25 فیصد سے زائد افراد نے ووٹ کاسٹ کیا، کئی پولنگ اسٹیشنز پر گھنٹوں تاخیر سے پولنگ شروع ہوئی۔
کراچی بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں تاخیر اور ردوبدل کے خلاف امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے آج ملک بھر میں احتجاج کی کال دے دی۔
سراج الحق نے آج دوپہر 2بجے منصورہ میں مرکزی قیادت کا اہم اجلاس طلب کر لیا ۔
کراچی کے انتخابات کے حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔
سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کراچی بلدیاتی الیکشن میں بڑی پارٹی بن کر سرفہرست آچکی ہے ،پولنگ ایجنٹوں کے نتائج واضح ہیں کہ جماعت اسلامی اکثریت میں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بلدیاتی انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر دھاندلی میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کردیا۔
پی ٹی آئی رہنما علی زیدی نے پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ پولیٹیکل انجینئرنگ کےذریعے پیپلزپارٹی کو جتوانے کی کوشش کی جارہی ہے، پیپلزپارٹی بی بی شہید کےساتھ دفن ہوچکی ہے اور موجودہ پارٹی زرداری مافیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج پرشدید تحفظات کا اظہارکرنے والے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ کچھ جماعتیں الیکشن سے بھاگتی رہیں۔ ہم الیکشن کےانعقاد کیلئےڈٹ کرکھڑے رہے لیکن کل جوہوا اسے الیکشن کہنے والے سےبڑا احمق نہیں دیکھا۔
علی زیدی نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کرانےمیں ناکام ہوگیا، وہ دھاندلی میں براہ راست ملوث ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دھاندلی کےباوجودپی ٹی آئی نے70 سے زائد نشستوں پرکامیابی حاصل کی، ہمارے پاس پولیٹیکل انجینئرنگ کےذریعےدھاندلی کے ثبوت موجود ہیں جنہیں عدالت لےکرجائیں گے۔ ڈی کمشنرز اور ریٹرننگ آفیسرز جوکررہےہیں ہمیں سب علم ہے۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمشنرجانبدار ہے۔ ملک میں بدمعاشوں کاٹولہ حکومت کررہاہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ہمارےایم پی ایزکے پیچھے پولیس کولگا دیا گیا، ان کے خلاف ایف آئی آرز کاٹی گئیں۔ فارم 11پرجعلی دستخط کےثبوت موجودہیں، یہ مینڈیٹ چوری کرنےوالےملک کونقصان پہنچاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کےنتائج کومسترد کرنے کا اعلان کرنے والے علی زیدی نے مزید کہا کہ کراچی میں کوئی بھی انتخابات اورنتائج کوتسلیم نہیں کررہا، نتائج کیلئے امیدوار اور کارکنان آراوز کے آفس بیٹھے ہیں ۔