غیرقانونی ہجرت: خیبر پختوا کے بے روزگار نوجوان موت کے شکنجے میں جانے کے خواہش مند کیوں؟
لنڈی کوتل کے رہائشی 24 سالہ اجیراللہ کے بوڑھے والد کمبل اوڑھے ہمارے سامنے چارپائی پر لیٹے مسلسل کمرے کی چھت گھورے جا رہے تھے۔
نومبر میں بیٹے کی لاش کو قبر میں دفنانے والے امیر اللہ کے بارے میں گھر والوں نے بتایا کہ وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔
اجیر اللہ کی چار بہنیں ہیں جن میں سے تین شادی شدہ اور ایک آٹھ سال کی ہے، جبکہ ان کا ایک بھائی 11 سال کا ہے۔
اجیر اللہ گھر کا واحد کفیل تھا۔ اس کی شادی شدہ بہن کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہہ رہے تھے اس نے بمشکل بات کرتے ہوئے بتایا کہ اجیر قرض لے کر چار سال قبل ترکی گیا، لیکن وہاں پر کم آمدنی ہونے کی وجہ سے اُس نے گذشتہ اکتوبر اٹلی جانے کا فیصلہ کیا، جس کے لیے اس کے گھر والوں نے دس لاکھ روپے کا قرضہ بھی لیا۔ لیکن اچھے حالات کی خواہش اُسے قبر میں لے گئی۔
اجیر اللہ کے دوست اور کزن لیاقت آج بھی اس لمحے کو یاد کرتے ہیں، جب آخری بار اجیر اللہ سے فون پر ان کی بات ہوئی، اس وقت تک وہ بوسنیا کا بارڈر کراس کر چکا تھا۔
لیاقت نے بتایا کہ وہ بہت خوش تھا کہ وہ اپنی منزل کے قریب ہے، لیکن پھر تین چار روز تک اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تو سب پریشان ہو گئے۔ چار روز بعد اس کے ایک ساتھی نے فون کر کے بتایا کہ اجیر اللہ سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔ جب ہم نے لاش کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی تلاش جاری ہے۔
لیاقت نے بتایا کہ لاش ملنے کے بعد اسے پاکستان پہنچانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، لیکن سینیٹر الحاج تاج محمد آفریدی نے اس سلسلے میں ان کی مدد کی اور وہ لاش لانے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس پر بھی لاکھوں روپے خرچ ہوگئے جس سے اس غریب خاندان کے قرض میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
اجیر اللہ تو اپنے ادھورے خوابوں کے ساتھ منوں مٹی کی نذر ہو گیا، لیکن 2011 میں اپنی قسمت آزمانے یونان سے ترکی اور پھر سربیا جانے والا اپر دیر کے علاقے داڑوڑہ کا ہدایت خان آج تک لاپتہ ہے۔
پاکستان سے ایران اور ترکی اور پھر یونان کے سفر کے دوران وہ اپنے گھر والوں سے رابطے میں تھا، لیکن سربیا کے بعد اس کا رابطہ منقطع ہو گیا اور پھر آج تک گھر والے اس کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
ہدایت نے پشاور کے ایک ایجنٹ کے زریعے اپنے سفر کا آغازکیا۔ سفر کے آغاز میں اس نے ایجنٹ کو 3 لاکھ روپے ادا کئے، پھر یونان کے بعد گھر والوں نے 5 لاکھ اور بھیجے کیونکہ ہدایت فرانس جانا چاہتا تھا۔ لیکن قسمت نا جانے اُسے کہاں لے گئی یہ سوال 11 سال بعد بھی ادھورا ہے۔
ہدایت کے بوڑھے والد اور چھوٹے بہن بھائی آج بھی اُس کی راہ تک رہے ہیں، لیکن انہیں نہ ہدایت کی کوئی خبر مل رہی ہے نہ ہی ایجنٹ کا پتہ۔
جو چلے گئے وہ کیا کیا ارمان اپنے دلوں میں لے گئے، یہ کہانی تو شاید کبھی منظر عام پر نہ آسکے، لیکن خیبر پختونخوا کے کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ہر ماہ سینکڑوں نوجوان اپنی قسمت آزمانے یورپ کی تلاش میں بلوچستان کے راستے ایران، ترکی اور پھر یونان پہنچنے کے لئے اپنی جان داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
انہی میں سے ایک لنڈی کوتل کا احسان بھی ہے جو غربت سے تنگ آکر اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے نکل پڑا۔
آج ڈیجیٹل سے بات چیت کے دوران احسان نے بتایا کہ لنڈی کوتل سے ہر سال درجنوں نوجوان غیر قانونی راستوں سے یورپی ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ جن راستوں پر انہیں سفر کرنا پڑتا ہے وہ نہ صرف دشوار گزار ہیں بلکہ موت کا ایک ایسا شکنجہ لئے ہوتے ہیں جن میں پھنسنے والے کی بعض اوقات لاش تک نہیں ملتی۔
جب آج ڈیجیٹل نے احسان سے پوچھا کہ سب کچھ جانتے بوجھتے آپ نے موت کی اس وادی کے سفر کا انتخاب کیوں کیا؟ تو اس کا کہنا تھا کہ غربت کی چکی میں مسلسل پستے پستے تنگ آگیا تھا۔ اپنے مستقبل سے ڈر رہا تھا کہ جو ملتا ہے اس میں بامشکل گزارا ہو رہا تھا۔ ایک خواہش بھی تھی کہ یورپ جاؤں اس لئے سوچا ایک بار قسمت آزما لوں۔
یہی کہانی رشید اللہ شنواری کی بھی ہے جو یونان کی سرحد پار کرتے ہوئے پکڑا گیا اور اُسے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
رشید کے مطابق یورپ سے ماہانہ دو ڈھائی لاکھ (روپوں میں) کمایا جاسکتا ہے، لیکن یہاں تو 30 لوگ مل کر بھی اتنی رقم نہیں کما سکتے۔ اس لئے میں نے یورپ جانے کی ٹھانی۔
رشید غیر قانونی تارکین وطن کی طرح ترکی میں رہائش پذیر تھے اور جوتوں کی فیکڑی میں کام کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھی پکڑے جاتے تو پولیس 4 یا 5 دن بعد چھوڑ دیتی تھی، لیکن جس کی قسمت خراب ہو تو اسے ڈی پورٹ کر دیا جاتا تھا۔
رشید اللہ چھ بار گرفتار ہوئے اور ساتویں بار جب انہوں نے ترکی سے یورپ جانے کی کوشش کی تو گرفتار کر کے ڈی پورٹ کر دئے گئے۔
موت کو چھونا کیسا لگتا ہے
احسان نے بتایا کہ وہ گھر سے بغیر بتائے نکلے تھے، لیکن جب ایران کی سرحد پار کرنے والے تھے تو والد کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں ہو، کیونکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم ترکی جا رہے ہو۔ تو میں نے بتایا کہ ہاں میں ایران بارڈر پر ہوں۔
احسان کے مطابق ان کے والد بہت روئے اور امنت کی کہ مت جاؤ۔ وہ ان کے لئے اور محنت کریں گے اور ان کو اچھی زندگی دیں گے، لیکن میں نہیں مانا اور چلا گیا۔
احسان پشاور سے کوئٹہ، کوئٹہ سے پنجگور، وہاں سے شاہ مصر بندر اور پھر ترکی کی سرحد پر پہنچا۔
احسان کے مطابق یہ سفر مشکل ضرور تھا لیکن اصل کہانی ترکی کی بارڈر پر شروع ہوئی کہ جب رات کے اندھیرے میں بارڈر کراس کرنی تھی۔ ایک طرف ایجنٹ جو آگے دھکیل رہے تھے دوسری طرف فورسز جو پیچھے جانے کا کہہ رہی تھیں اور فائرنگ بھی کی جارہی تھی۔
احسان کے گروپ نے رات کو بارڈر کراس کیا اور 45 منٹ تک سرحد کے پار سفر کرتے رہے، لیکن پہاڑوں پر موجود فورسز نے دیکھ لیا اور ڈائریکٹ فائر کر دیا، جس پر ہمارا ساتھی گر گیا اور اس نے مزید بھاگنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران فورسز والے پہنچ گئے اور خوب مار پڑی اور پھر زخمی حالت میں ہمیں واپس ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
رشید اللہ کے تجربات احسان سے بھی زیادہ تلخ تھے کیونکہ اس نے راستے میں لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا۔ زخموں سے چور چور لوگ اپنی جان بچانے کے لئے دوڑ رہے ہوتے تھے اور ایجنٹ کے ڈنڈے بھی پڑتے تھے۔
رشید نے بتایا کہ جب وہ ایران اور ترکی کا بارڈر کراس کر رہے تھے تو اس نے وہاں ایک افغان خاتون کو مردہ حالت میں دیکھا۔
رشید اور احسان کے مطابق یہ بلکل ایسا تھا کہ جیسے آپ موت کو چھو کر واپس آئے ہوں۔ کئی کئی روز تک بھوکا پیدل صحراؤں اور بیابانوں میں چلنا پڑتا ہے۔ اگر پِک اپ یا ڈاٹسن مل بھی جائے تو اس میں درجنوں لوگ گھسائے ہوتے ہیں۔ ایک پناہ گاہ میں بھی درجنوں لوگ رکھے جاتے ہیں جبکہ بعض اوقات پناہ گاہ صحرا میں ہوتی تھی۔ سخت سردی، بھوک اور پیاس آپ کو نڈھال کر دیتی ہے اور اس پر ایجنٹوں کا رویہ، جو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ایجنٹ کہاں سے ملا
یہ وہ سوال تھا جس کا جواب دینے سے کئی لوگ گریزاں نظر آئے۔ احسان نے بھی ایجنٹ کا پتہ بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں ایک حجرے میں ملا تھا اور بات یہ طے ہوئی تھی کہ ایک لاکھ 80 ہزار ترکی پہنچنے پر دیں گے۔
ایجنٹ نے اسے کوئٹہ سے ایران اور پھر ترکی پہنچانے کی ذمہ داری لی اور پھر سمندر کے راستے یورپ کی طرف بھیجنے پر مزید پیسے دینے پڑتے ہیں۔
رشید اللہ اور احسان دونوں نے بتایا کہ لنڈی کوتل سے ایران کی سرحد تک ہر شہر میں ایک اور ایجنٹ سے پالا پڑتا تھا جو اکثر فون پرہی ہوتا تھا، لیکن ایران کی سرحد کراس کرنے کے بعد کچھ سامنے بھی آئے جو ترکی کی سرحد تک ساتھ رہے۔ آدمی بدل جاتا تھا لیکن کام ایک ہی تھا۔۔۔ انسانوں کی سمگلنگ۔۔۔
احسان کے مطابق وہ لمحے اسے نہیں بھولتے کہ جب رات کی تاریکی میں ترکی کی سرحد پر ایک طرف ایجنٹ آگے بڑھنے کے لئے چیخیں لگا رہے تھے اور دوسری طرف پہاڑوں سے فورسز کے اہلکار فائرنگ کر کے روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مجھے دونوں طرف موت ہی نظر آرہی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ اب تو آگیا ہوں تو آگے ہی جاؤں گا، لیکن ساتھی کے گرنے کی وجہ سے پکڑا گیا۔
رشید اللہ کو بھی راستے میں پڑی ہوئی لاشیں اور زخموں سے کراہتے لوگ اب بھی نہیں بھولتے۔
انسانی سمگلنگ کے خلاف ادارے کیا کر رہے ہیں
پشاور میں اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر انوسٹیگیشن محمد آفتاب بٹ نے بتایا کہ 18 سے 22 سال کے کم پڑھے لکھے اور غیر تربیت یافتہ نوجوان جو اور کچھ کر نہیں سکتے وہ ان ایجنٹوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا سیل انسانی سمگلنگ کے خلاف مسلسل کام کر رہا ہے اور رواں سال انہوں نے 300 سے زائد ایف آئی آر درج کیں اور 170 کیسز مکمل کر کے چالان دیا، 334 سمگلرز گرفتار کئے جس میں سے 254 ملزمان کو عدالتوں سے سزا ہوئی۔
آفتاب بٹ نے کہا کہ 17 اشتہاری مجرم اس سال گرفتار ہوئے۔ موسٹ وانٹڈ 29 انسانی سمگلرز گرفتار کئے گئے اور 17 ریڈ بھی کئے گئے۔
مجرم سر عام پھر رہا ہے
محمد آفتاب بٹ نے بتایا کہ شکایت کنندہ کے کیس سے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے ایجنٹس تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ جب تک کوئی شکایت درج نہیں کرائے گا ملزم کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہو سکتی یا پھر کوئی ایسی صورت ہو کہ جائے وقوعہ پر چھاپہ مار کر دستاویزات یا ثبوت کے ساتھ کوئی ہتھے لگے۔ لیکن چونکہ یہ ایجنٹس مقامی ہوتے ہیں اور گاؤں ، محلے کی سطح پر لوگوں سے واقف ہوتے ہیں تو وہ غریب اور مجبور لوگوں کو بہلا پھسلا کر یا رقم کا لالچ دے کر اپنے بس میں کر لیتے ہیں۔
محمد آفتاب بٹ نے صوابی کے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک پاکستانی نوجوان کو ایران سے زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا اور پھر وہ ایرانی ایمبیسی کی اطلاع پر پاکستان میں ہمارے زریعے ان کے والدین تک پہنچے چونکہ ایسے نوجوانوں کو رولز کے مطابق مجرم کی بجائے متاثرہ (Victim)تصور کیا جاتا ہے. اس لئے اس نوجوان کو علاج کے بعد واپس لایا گیا۔
بعد میں اس کے والد کو ہم نے ایجنٹ کے خلاف شکایت درج کرانے کا کہا تو شروع میں انہوں نے شکایت بھی درج کی اور کیس کو عدالت تک بھی لے کر گئے لیکن عین ضمانت والے دن وہ پیچھ ہٹ گئے اور ملزم بچ گیا۔
محمد آفتاب بٹ کے مطابق یہ وہ مسئلہ ہے جو ہمارے ہاتھ باندھ دیتا ہے اور مجرم سرعام نہ صرف پھر رہے ہیں بلکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.