Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ارشد شریف قتل کیس کی ایف آئی آر درج، تین افراد نامزد

سپریم کورٹ نےارشد شریف قتل کا ازخود نوٹس لیا تھا
اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2022 08:47am

سپریم کورٹ کے حکم پر ارشد شریف قتل کیس کی ایف آئی آر تھانہ رمنا میں درج کردی گئی۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی آر میں تین افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جس میں خرم ، وقار احمد اور طارق احمد عرف طارق وصی شامل ہیں۔

خرم اور وقار دونوں بھائی ہیں اور کینیا میں ارشد شریف کے میزبان تھے۔ طارق وصی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اس نجی ٹی وی چینل سے ہے جہاں ارشد شریف کام کرتے تھے۔

سینیئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر 43 دن بعد سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اور ایف آئی کے اندارج کے حکم پردرج کر لی گئی ہے۔

اس سے قبل، سپریم کورٹ نے کینیا میں قتل ہونے والے سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ کو آج ہی مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ۔ چیف جسٹس نے مقتول کی میڈیکل رپورٹ بھی غیر تسلی بخش قرار دی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ارشد شریف قتل کیس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات ،سیکرٹری خارجہ ،ڈی جی ایف آئی اے،ڈی جی آئی بی اورصدر پی ایف یو جی کونوٹس جاری کیے تھے ۔

ازخود نوٹس کے مطابق ملک بھرمیں صحافیوں اورعوام میں ارشد شریف کے قتل پرشدید تشویش اورغم وغصہ تھا ،ملک بھر کے عوام ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ارشد شریف قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگرارکان میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ! ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنی تھی، ارشد شریف کی والدہ کا خط آنے کے بعد سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل تحقیقات کررہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ نے پچھلے جمعہ کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ جمع کرانی تھی جو کہ وزارت داخلہ نے اب تک جمع نہیں کرائی، کیا وزیرداخلہ کو بلالیں؟ کہاں ہیں وزیرداخلہ ؟

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کہاں ہیں سیکرٹری خارجہ؟ اسد مجید صاحب تو پہلے سے ہی کافی مقبول ہیں، سوشل میڈیا پر کیا کیا نہیں کہا جارہا، سوشل میڈیا پر جو کہا جارہا وہ اب نہیں دیکھتے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ کل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ پیش کردیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی کی یقین دہانی پر چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے معاملات میں وقت ضائع کرنا سپریم کورٹ کاکام نہیں سرکارکا ہے،ارشد شریف نامور صحافی تھے، ان کو کیوں قتل کیا گیا اور بیرون ملک ہی کیوں؟ پاکستان کے پاس وسیع وسائل ہیں کہ بیرون ملک معاملات پرتحقیقات کرسکیں، پاکستان کو بیرون ملک تک رسائی حاصل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو واپس آئے کافی عرصہ ہوگیا ہے، حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال سپریم کورٹ کو کیوں نہیں ملی؟ یہ کیا ہورہا ہے، رپورٹ کیوں نہیں آرہی؟ جو میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی وہ بھی غیرتسلی بخش ہے، سینیئر ڈاکٹرز نے میڈیکل رپورٹ تیارکی لیکن وہ تسلی بخش نہیں، ہر انسانی جان کو سنجیدگی سے لینا ہوتا ہے، صحافیوں کےساتھ کسی صورت بدسلوکی برداشت نہیں کی جاسکتی، پاکستان میں صحافی سچائی کی آواز ہیں، اگرصحافی جھوٹ بولیں توحکومت کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے ۔

عدالت کے پوچھنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیرداخلہ فیصل آباد میں تھے جب رپورٹ آئی، رانا ثنااللہ کے دیکھنے کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ کو دی جائے گی، رپورٹ میں کچھ حساس چیزیں ہوسکتی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ وزیرِداخلہ کو رپورٹ تبدیل کرنی ہے؟

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پاکستان میں ارشد شریف کے قتل کا فوجداری مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟ اس پر سیکرٹری داخلہ نے مؤقف اپنایا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لے کر مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ہوگا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا مقدمہ درج کرنے کا یہ قانونی طریقہ ہے؟۔

جسٹس اعجازالاحسن نے بھی استفسار کیا کہ مقدمہ درج کیے بغیر تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانچ رکنی بینچ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہی تشکیل دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آج ہی جمع کرائیں تاکہ کل اس پر سماعت ہوسکے، 43 دن سے رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں،معاملہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ آج ہی درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ سینئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کو 24 اکتوبر کو کینیا کے شہر نیروبی میں میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

ارشد شریف کی میت پاکستان لائے جانے کے بعد پمز اسپتال کے 8 رکنی میڈیکل بورڈ نے ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے، ان کو گولی انتہائی قریب سے ماری گئی تھی۔

پمز ذرائع کے مطابق ارشد شریف کا کینیا میں بھی پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا جس کی وجہ سے موت کے وقت پہنے کپڑے ساتھ نہیں دیے گئے۔

ارشد شریف کون تھے

ارشد شریف کی عمر 49 برس تھی اور ان کا تعلق ایک فوجی خاندان سے تھا۔ ارشد شریف کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے۔

ارشد 1973 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 1993 میں صحافتی کیرئیر شروع کیا۔ وہ پہلے انگریزی اخبارات اور پھر مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔ تاہم ان کی ایک اہم پہچان اے آر وائی نیوز کا پروگرام پاور پلے بنا۔ 2012 میں انہوں نے آگاہی ایوارڈ جیتا۔

ان کے ایک بھائی اشرف شریف پاکستان فوج میں میجر تھے۔ 2011 میں ارشد شریف کے والد کا انتقال ہوا تو وہ بنوں میں تعینات تھے وہاں سے راولپنڈی جاتے ہوئے کار حادثے میں اشرف شریف جاں بحق ہوگئے۔

صدر عارف علوی نے 2019 میں ارشد شریف کو پرائڈ آف پرفارمنس اعزاز سے نوازا۔

پاکستان سے روانگی

ارشد شریف حالیہ چند ماہ میں خبروں میں اس وقت آئے جب 13اگست کو پولیس نے ارشد شریف سمیت اے آر وائی کے صحافیوں اور سی ای او کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ یہ مقدمہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی جانب سے اس ٹی وی چینل پر دیئے گئے ایک بیان کے بعد درج ہوا تھا اور گل پر مسلح افواج کے اراکین کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

مقدمے کے اندراج کے بعد ارشد شریف نے پاکستان چھوڑ دیا اگرچہ دیگر صحافی ملک میں ہی رہے۔

اس کے کچھ ہی دن بعد ارشد شریف کے بیانات کے ردعمل میں اے آر وائی نے اعلان کیا کہ چینل ان کے ساتھ اپنی 8 سالہ رفاقت ختم کر رہا ہے۔

اگست میں پاکستان چھوڑنے کے بعد ارشد شریف لندن میں دیکھے گئے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ وہ کینیا کے شہر نیروبی کیوں گئے تھے۔

Supreme Court

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

Murder

arshad sharif