Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سفارت خانے پر حملہ: پاکستان داعش کے دعوے کی چھان بین کر رہا ہے، دفتر خارجہ

داعش خراسان نے پاکستانی سفارت خانے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2022 06:44pm
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ سے خطاب کر رہی ہیں۔ ریڈیو پاکستان
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ سے خطاب کر رہی ہیں۔ ریڈیو پاکستان
افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی۔ (تصویر بذریعہ ٹویٹر/پاکستان ایمبیسی افغانستان)
افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی۔ (تصویر بذریعہ ٹویٹر/پاکستان ایمبیسی افغانستان)
افغان سیکیورٹی اہلکار 10 مئی 2016 کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے پہرے پر کھڑے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)
افغان سیکیورٹی اہلکار 10 مئی 2016 کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے پہرے پر کھڑے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں ناظم الامور پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں داعش خراسان کے ملوث ہونے کی اطلاعات کی چھان بین کر رہا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ اتوار دو دسمبر کو افغانستان کے دہشتگرد گروہ داعش خراسان نے پاکستانی سفارت خانے کے احاطے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہم آزادانہ طور پر اور افغان حکام کی مشاورت سے ان رپورٹس کی سچائی کی تصدیق کر رہے ہیں۔“

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، اتوار کو ٹیلی گرام پر عسکریت پسند گروہ سے منسلک چینلز میں سے ایک کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کالعدم گروپ داعش نے جمعہ کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

حکام نے بتایا کہ پاکستانی سفارت خانے پر جمعہ کے روز گولیاں برسائی گئیں، حملے میں ایک پاکستانی سیکیورٹی گارڈ زخمی ہوا، اس حملے کو اسلام آباد نے پاکستانی مشن کے سربراہ کو قتل کرنے کی کوشش قرار دیا، تاہم وہ محفوظ رہے۔

داعش نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ اس کے دو ممبران نے کیا جو ”میڈیم اور سنائپر ہتھیاروں“ سے لیس تھے اور وہ سفیر اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنا رہے تھے جو سفارت خانے کے صحن میں موجود تھے۔ گروپ نے بتایا کہ حملے میں کم از کم ایک گارڈ زخمی ہوا اور عمارت کو نقصان پہنچا۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ “ مذکورہ دہشت گرد حملہ اس خطرے کی ایک اور یاد دہانی ہے جو دہشت گردی سے افغانستان اور خطے میں امن و استحکام کو لاحق ہے۔“

دفتر خارجہ نے اس خطرے کو شکست دینے کے لیے تمام اجتماعی طاقت کے ساتھ پختہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے۔“

پاکستان کی ابھی تک متاثرہ سفارت خانہ بند کرنے یا کابل سے سفارت کاروں کو واپس بلانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

زہرہ بلوچ نے جمعہ کو میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا، ”پاکستان افغانستان میں عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغانستان میں پاکستانی سفارتی عملے اور مشنز کی حفاظت کے لیے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔“

ہفتے کے روز موصولہ اطلاعات کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے حملے میں ملوث ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حملہ سفارت خانے کے قریب ایک تجارتی عمارت سے کیا گیا۔

ملزم کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ عمارت کی آٹھویں منزل پر رہتا تھا۔ ”جب سیکورٹی فورسز نے عمارت پر چھاپہ مارا تو اس نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن آخر کار اسے پکڑ لیا گیا۔ سیکورٹی فورسز نے فلیٹ سے ایک لانگ رینج رائفل اور دیگر ہتھیار بھی برآمد کئے ہیں۔“

ایک ٹویٹ میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے زخمی کمانڈو کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے لکھا، ”ہم SSG کمانڈو محمد اسرار کی بہادری اور جرات کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کابل میں پاکستان کے ہیڈ آف مشن عبید نظامانی کی حفاظت کے لیے اپنے جسم پر گولیاں کھائیں۔ اسرار کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے ہماری نیک خواہشات ہیں۔ اللہ ہمارے مشن اور اہلکاروں کو سلامت رکھے۔“

امریکہ نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”ہم اپنی ہمدردی پیش کرتے ہیں اور تشدد سے متاثر ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی خواہش کرتے ہیں۔“

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کو ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ کو ایک غیر ملکی سفارت کار پر حملے پر گہری تشویش ہے اور ہم اس کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

افغانستان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے واقعے کے بعد ایک فون کال میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو اس گھناؤنے حملے کے ذمہ داروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کی یقین دہانی کرائی۔

بلاول نے کہا کہ افغان حکومت دہشت گردوں کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے سے روکے۔

کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر مسلح حملے کی مذمت کرنے والوں میں امریکہ کے بعد سعودی عرب دوسرا ملک تھا۔

سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”سعودی عرب کی مملکت کی وزارت خارجہ افغان دارالحکومت کابل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفارت خانے پر مسلح حملے اور پاکستانی سفارت خانے کے ناظم الامور پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کی شدید مذمت کرتی ہے۔“

سعودی وزارت نے جہاں کہیں بھی تشدد اور دہشت گردی کو ترک کرنے کے لیے مملکت کے مضبوط موقف کی تصدیق کی۔ اس نے دہشت گردی کے مقابلے میں مملکت کی مکمل یکجہتی اور پاکستان اور اس کے برادر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھی اعادہ کیا۔

afghanistan

پاکستان

ISIS K

Foreign Ministry of Pakistan

Embassy Attack