پروین رحمان قتل کیس: سندھ حکومت کا مبینہ ملزمان کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ
سندھ ہائیکورٹ پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کو بری کرچکی ہے، لیکن سندھ حکومت نے مبینہ ملزمان کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے ملزمان کو ایم پی او کے تحت تین ماہ نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو 2013 میں کراچی کے علاقے منگھو پیر میں موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جب وہ دفتر سے اپنے گھر واپس جا رہی تھیں۔
کیس آٹھ سال تک جاری رہا اور کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مذکورہ ملزمان کو بتاریخ 17 دسمبر 2021، دو دو بار بار عمر قید کی سزا سنائی۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ پروین رحمان کے اہلِ خانہ کو ملزمان سے خطرہ ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے 21 نومبر 2022 کو پروین رحمان قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف ملزمان کی اپیلوں پرفیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کی دو بار عمر قید کی سزائیں کالعدم قرار دی تھیں۔
سندھ ہائیکورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ ملزمان اگر دیگر مقدمات میں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔
عدالت نے پراسیکیوشن کی تفتیش میں ناکامی اورعدم شواہد کی بنیاد پر سزاؤں کے خلاف ملزمان کی اپیلیں منظور کی تھیں۔
ملزمان میں رحیم سواتی،امجد حسین، ایازسواتی اور احمد حسین شامل ہیں۔
مقتولہ پروین رحمان کی بہن سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کرچکی ہیں۔
پروین رحمان کیس کا پس منظر
ڈرائیورکے مطابق 13 مارچ 2013 کو وہ پروین رحمان کو دفتر سے گھر لے جارہا تھا کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی پروین رحمان کوقتل کردیا گیا۔
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او کا قیام 1980 میں عمل میں آیا، این جی اوکا مقصد اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات پرنظر رکھنا تھا۔
پروین رحمان کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید اسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکیں تھیں۔
مین منگھوپیر روڈ پختون مارکیٹ کے قریب اسپیڈ بریکر پرجب کارکی رفتارآہستہ کی،اچانک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کردی،فائرنگ کے نتیجے میں پروین رحمان کی موت واقع ہوئی۔
مدعی کی شکایت پر تھانہ پیر آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ایک روزبعد پولیس تحقیقات کے سلسلے میں کالعدم تنظیم کے مقامی رہنما قاری بلال کو گرفتارکرنے پہنچی تو وہ جعلی مقابلے میں مارا گیا تھا،جس کے بعد کیس کی فائل بند ہوگئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپریل 2015ء میں اس کیس کا از خود نوٹس لیااور تحقیقات دوبارہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ٹیم نے رحیم سواتی کو خیبرپختون خوا کے علاقے سے گرفتار کیا،رحیم سواتی اس نے تفتیش کے دوران پروین رحمان کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔
پروین رحمان کے قتل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا۔
گرفتار ملزم امجد حسین نے جے آئی ٹی کوبیان میں بتایاکہ ایک سیاسی جماعت کاعہدیدار پروین رحمان سے زمین مانگ رہے تھا، انکار پر کالعدم تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کروا دیا گیا۔
ملزم امجد حسین عرف امجد آفریدی نے بیان میں کہا تھا کہ اس کیس میں پہلے سے گرفتار ملزم رحیم سواتی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاقائی عہدیدار ایاز سواتی پروین رحمان سے علاقے میں جِم کھولنے کے لیے زمین مانگ رہے تھے۔
پروین رحمان کے انکار پر جنوری 2013 میں رحیم سواتی کے گھر پروین رحمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، امجد آفریدی جس میں ملزم امجد حسین، ایاز سواتی، رحیم سواتی اور احمد عرف پپو شامل تھے۔
ملزم کے مطابق قتل کے لئے رحیم سواتی نے کالعدم ٹی ٹی پی کے موسٰی اورمحفوظ اللہ عرف بھالو نامی دو علاقائی عہدیداروں سے رابطہ کیا۔
40لاکھ روپے کے عوض پروین رحمان کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگئے،امجد حسین اور دیگر ملزمان نے 2 ماہ تک پروین رحمان کی ریکی بھی کی، جس کی تفصیلات کالعدم تنظیم تک پہنچائی جاتی رہی۔موسیٰ اور بھالو نے 23 مارچ 2013 کو پروین رحمان کو قتل کردیا۔
ملزم امجد حسین نے دوران تفتیش جے آئی ٹی کو بتایا کہ رحیم سواتی نے 40 لاکھ روپے نہ دینے پر کالعدم تنظیم نے اس کےگھر دستی بم حملہ بھی کیا تھا۔
پولیس نے 18 مارچ 2015ء کو مانسہرہ سے قتل میں ملوث مرکزی ملزم احمد خان عرف پپو کشمیری کو گرفتار کیا جبکہ منگھوپیر سے رحیم سواتی کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔
یہ کیس 3 بار چلایا گیا تھا اور 5 جے آئی ٹیز تشکیل دی گئیں تھیں،پانچویں جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پربنائی گئی تھی۔
2021 میں اے ٹی نے جرم ثابت پر ملزمان کو 2,2 بار عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی ، جے آئی ٹی نے پروین رحمان کے انٹرویو کی فرانزک بھی کرائی تھی، پروین رحمان نے اپنی زندگی میں قتل کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
Comments are closed on this story.