اٹھارہ سال فرانس کے ائیرپورٹ پر گزارنے والے ایرانی انتقال کر گئے
پیرس کے چارلس ڈی گال ائیرپورٹ پر 18 سال تک مقیم رہنے والے ایرانی مہران کریمی ناصری انتقال کرگئے ہیں، ناصری وہ شخصیت ہیں جن کی زندگی سے متاثر ہو کر لیجنڈری ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ نے فلم ”دی ٹرمینل“ بنائی تھی۔
پیرس ایئرپورٹ اتھارٹی کے ایک اہلکار کے مطابق 76 سالہ مہران کریمی ناصری ہفتے کے روز دوپہر کے قریب ائیرپورٹ کے ٹرمینل ایف ٹو میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
پولیس اور میڈیکل ٹیم نے انہیں ابتدائی طبی امداد دی تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے۔
ناصری 1988 سے 2006 تک ہوائی اڈے کے ٹرمینل ون میں رہائش پذیر تھے، اولاً یہ رہائش ان کی مجبوری تھی کیونکہ ان کے پاس کاغذات کی کمی تھی، لیکن بعد میں انہوں نے اپنی مرضی سے اس قیام کو برقرار رکھا۔
ناصری اخبارات اور رسائل کے ڈبوں سے گھری پلاسٹک کی سرخ بینچ پر سوتے تھے اور ایمپلائی فیسیلٹی میں نہاتے تھے۔
انہوں نے اپنا وقت ڈائری لکھنے، رسالے پڑھنے، معاشیات کا مطالعہ کرنے اور گزرنے والے مسافروں کا سروے کرنے میں صرف کیا۔
ائیرپورٹ کا عملہ انہیں ”لارڈ الفریڈ“ پکارتا تھا، اور وہ مسافروں کیلئے ایک مشہور شخصیت بن گئے تھے۔
اپنی بینچ پر ایک پائپ سگریٹ پیتے ہوئے، لمبے پتلے بالوں، دھنسی ہوئی آنکھوں اور کھوکھلے گالوں کے ساتھ کمزور دکھائی دے رہے ناصری نے 1999 میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ”ایک دن میں اس ہوائی اڈے سے نکل جاؤں گا، لیکن میں ابھی تک پاسپورٹ یا ٹرانزٹ ویزا کا انتظار کر رہا ہوں۔“
ناصری 1945 میں ایران کے ایک حصے ”سلیمان“ میں پیدا ہوئے تھے جو اُس وقت برطانوی دائرہ اختیار میں تھا، ان کے والد ایرانی جبکہ والدہ برطانوی تھیں۔
انہوں نے 1974 میں انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایران کو خیرباد کہہ دیا۔
جب وہ واپس آئے تو ان کے مطابق انہیں شاہ ایران کے خلاف احتجاج کرنے پر قید کر دیا گیا اور پھر بغیر پاسپورٹ کے ملک بدر کردیا گیا۔
انہوں نے برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
بالآخر، بیلجیئم میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے انہیں پناہ گزینوں کی اسناد دیں، لیکن ناصری کے مطابق ان کا بریف کیس جس میں پناہ گزینوں کا سرٹیفکیٹ تھا، پیرس کے ٹرین اسٹیشن سے چوری ہو گیا تھا۔
بعد میں فرانسیسی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا، لیکن ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کہیں ڈی پورٹ نہیں کر سکے۔ وہ اگست 1988 میں چارلس ڈی گال ائیرپورٹ پہنچے اور تب سے وہیں مقیم تھے۔
بیوروکریٹک ہنگامہ آرائی اور بڑھتے ہوئے سخت یورپی امیگریشن قوانین نے انہیں سالوں تک ”نو مینز لینڈ“ پر پھنسائے رکھا۔
ائیر پورٹ اتھارٹی کے اہلکار نے بتایا کہ جب بالآخر ناصری کو پناہ گزینوں کے کاغذات موصول ہوئے، تو انہوں نے ہوائی اڈے سے نکلنے کے بارے میں اپنی حیرت اور اپنے عدم تحفظ کو بیان کیا۔
مبینہ طور پر انہوں نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور 2006 میں اسپتال میں داخل ہونے تک کئی سال اور وہاں رہنا پسند کیا، بعد میں وہ پیرس کی ایک پناہ گاہ میں رہے۔
ہوائی اڈے پر ان سے دوستی کرنے والوں نے بتایا کہ کھڑکی کے بغیر ایک جگہ پر برسوں رہنے سے ان ذہنی حالت متاثر ہوئی تھی۔
1990 کی دہائی میں ائیرپورٹ کے ڈاکٹر بھی ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے بارے میں فکر مند تھے۔
ٹکٹ ایجنٹ کے ایک دوست نے اس کا موازنہ ایک ایسے قیدی سے کیا جو ”باہر رہنے“ کے قابل نہیں تھا۔
اپنی موت سے چند ہفتوں قبل، ناصری واپس چارلس ڈی گال میں رہنے کے لیے چلا گئے تھے۔
ناصری کی اعصاب کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی نے اسٹیون اسپیلبرگ کو فلم ”دی ٹرمینل“ بنانے پر مجبور کیا، جس میں ٹام ہینکس نے اداکاری کی تھی، نیز ایک فرانسیسی فلم ”لوسٹ ان ٹرانزٹ“ اور ”فلائٹ“ نامی ایک اوپیرا بھی ناصری کی زندگی سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔
دی ٹرمینل میں ہینکس نے وکٹر نوورسکی کا کردار ادا کیا ہے، ایک ایسا شخص جو نیو یارک کے جے ایف کے ہوائی اڈے پر فرضی مشرقی یورپی ملک کراکوزیا سے آتا ہے اور اسے راتوں رات ایک سیاسی انقلاب کا پتہ چلتا ہے، جس کے باعث اس کے تمام سفری کاغذات معطل ہوجاتے ہیں۔
ناوورسکی کو ہوائی اڈے کے بین الاقوامی لاؤنج میں بھیج دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے اس وقت تک وہاں رہنا ہوگا جب تک کہ اس کی ملکی شناخت دوبارہ بحال نہیں ہوجاتی۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق، اسپیلبرگ نے اپنی پروڈکشن کمپنی ڈریم ورکس کے ذریعے ناصری کی زندگی کی کہانی کے حقوق تقریباً 250,000 ڈالر ادا کر کے خریدے۔
ناصری نے ایک سوانح عمری بھی لکھی جو ”The Terminal Man“ کے عنوان سے 2004 میں شائع ہوئی۔
Comments are closed on this story.