Aaj News

ہفتہ, نومبر 02, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے حکومت کو 2 ماہ کی مہلت

عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ منتخب وزیراعظم کو بلائے، جسٹس اطہر من اللہ
اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2022 07:31pm
آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی حالت میں بحال نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل
آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی حالت میں بحال نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد بازیابی کیس میں وفاقی حکومت کو2ماہ کی مہلت دے دی، چیف جسٹس ریمارکس دیے کہ اگر ریاست ہی کہہ دے کہ نہیں معلوم لوگ کیسے لاپتہ ہوئے تو پھر کیا کریں؟ آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی حالت میں بحال نہیں اور اگر یہ بات ہے تو پھر اس عدالت کو کسی اور کو بلانا پڑے گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین، لاپتہ صحافی مدثر نارو کا بیٹا اور آمنہ مسعود جنجوعہ بھی عدالت میں موجود تھے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے بلانے پر وزیر اعظم شہباز شریف روسٹرم پر آئے۔

‘ریاست کا وہ رسپانس نہیں آرہا جو اس کی ذمہ داری ہے’

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ کئی مہینوں سے زیر سماعت ہے، ریاست کا وہ رسپانس نہیں آرہا جو اس کی ذمہ داری ہے، 9 سال تک حکمرانی کرنے والے چیف ایگزیکٹو نے کتاب لکھی، کتاب میں فخریہ لکھاکہ لوگوں کو بیرون ملک بھیجا جارہا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ہمارے آئین کی بنیاد سول سپریمیسی ہے، لاپتہ افراد کیلئے کمیشن بنا مگراس کی پیشرفت بڑی مایوس کن ہے، جتنا نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے اتنا ہی شہری کا بھی ہے،شہری یہ کیوں محسوس کرے کہ ریاست تحفظ نہیں دے رہی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹو کا کام ہے کہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے، ٹارچر کی سب سے بڑی قسم لاپتہ افراد ہیں۔

‘کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون سے بالاتر ہیں؟’

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید ریمارکس دیئے کہ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون سے بالاتر ہیں؟ ادارے لوگوں کو اٹھاتے ہیں، یہ تاثر کتنا برا ہے، اگر ریاست ہی کہہ دے کہ نہیں معلوم لوگ کیسے لاپتہ ہوئے تو پھر کیا کریں؟آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی حالت میں بحال نہیں، اگر یہ بات ہے تو پھر اس عدالت کو کسی اور کو بلانا پڑے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ منتخب وزیراعظم کو بلائے، آپ سیلاب متاثرین کیلئے کام کررہے ہیں، عدالت سراہتی ہے، اس اہم مسئلے پر آپ عدالت میں پیش ہوئے،ان کا احتساب کیا جائے جو قانون سے بالاتر کام کرتے ہیں، گورننس کے مسائل تب حل ہوں گے جب آئین اپنی حالت میں بحال ہو،اس عدالت کا آپ پر اعتماد ہے کہ آپ اس کا حل بتائے۔

‘وزیراعظم صاحب آپ اس مسئلے کا حل بتائیں کہ یہ عدالت کیا کرے’

چیف جسٹس نے عدالت میں موجود مدثرنارو کے بیٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک چھوٹا بچہ اس عدالت میں آتا ہے، یہ عدالت اسے کیا دے، بدقسمتی سے اس بچے کو پچھلے وزیراعظم کے پاس بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا، وزیراعظم صاحب آپ اس مسئلے کا حل بتائیں کہ یہ عدالت کیا کرے۔

میں عدالت اور پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہوں، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے بتایا کہ پہلے ذمہ داری ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کراؤں، سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کیے اور متاثرین سے ملاقاتیں کیں، میری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان کی بات سنوں اور حل کرنے کی کوشش کروں، میں نہیں چاہتا کہ بلاوجہ معذرت کے بات گھماؤں۔

شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کا یہ معاملہ تقریباً 20 سالوں سے چل رہا ہے، میں اس چھوٹے بچے سے ملا، بچہ کہتا رہا کہ وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملوائیں، اس بچے کا سوال ہی بہت افسردہ ہے، میری ذمہ داری ہے کہ اس بچے کے والد کو ڈھونڈوں اور جہاں تک ممکن ہوا کوشش کروں گا، میں اس عدالت اور پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہوں۔

وزیراعظم نے لاپتہ افراد کیلئے کمیٹی کی تشکیل سے متعلق بتایاکہ کمیٹی کی رپورٹ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقائق پرمبنی ہوگی، میں اس قسم کے احمقانہ کام کوبرداشت نہیں کرسکتا ،لاپتہ افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا۔

عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے کو خود دیکھوں گا،شہباز شریف

وزیراعظم نے کہا کہ 4 سالوں میں 2 مرتبہ جیل گیا، میں وزیراعلیٰ پنجاب رہا، بہت سادہ انسان ہوں، میں سمجھ سکتا ہوں جہاں سے یہ متاثرہ خاندان آئے ہیں، لاپتہ افراد کا دکھ درد اور تکلیف سمجھ سکتا ہوں ، عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے کو خود دیکھوں گا، اگر اللہ نے چاہا تو کوئی بندہ لاپتہ نہیں رہے گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپ کا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کو آئین کا آرٹیکل 7 پڑھنے کی ہدایت کردی۔

‘ہم سب لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ذمہ دار ہیں’

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم سب لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ذمہ دار ہیں، ریاست اگر ذمہ دار ہوتی تو یہاں کوئی نہ آتا، اسلام آباد سے پولیس وردی میں 2 بھائیوں کو اٹھایا گیا، دونوں بھائیوں کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا، کوئی دہشت گرد ہے تو قانون کے مطابق پیش ہونا ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ایک ڈکٹیٹر آیا تو میں اور میرا بھائی بھی متاثرہ تھے، ہم نے ابھی بلوچ طلبہ کا معاملہ اٹھایا ہے، بطور وزیراعلیٰ ہر زبان بولنے والے کو پنجاب میں داخلے دیے، ہر زبان کے طلبہ کو دانش اسکولز میں فری داخلے دلوائے، بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی سارے پاکستانی ہیں۔

جس پر عدالت نے کہا کہ بلوچ طلبہ کیلئے عدالت نے اپریل میں کمیشن بنایا، کمیشن نے آج تک کوئی میٹنگ نہیں بلائی۔

‘عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ کسی کو بلاوجہ سمن کرے’

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ کسی کو بلاوجہ سمن کرے، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اندازہ ہے، آپ بلاوجہ کسی کو نہیں بلاتے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ یہ عدالت پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے، صوبائی چیف ایگزیکٹو بھی اس معاملے کے ذمہ دارہیں، عدالتی فیصلے سے پہلے ایگزیکٹو کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی لاپتہ نہیں ہو۔

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ روسڑم پر آگئے اور کہا کہ یہ مسئلہ 21 سال پرانا ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے لوگوں کو مطمئن کرے، وزیراعظم صاحب ابھی بھی اس قسم کی شکایات آرہی ہے، ابھی بھی بلوچ طلبہ کی شکایات آرہی ہیں۔

وزیرقانون نے کہا کہ مستقل حل سیاسی طور مذاکرات سے نکلے گا، جس پر عدالت نے کہا کہ سول سپریمیسی سے بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

شہباز شریف عدالت سے روانہ

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کوجانے کی اجازت دے دی ، جس پر شہباز شریف عدالت سے روانہ ہوگئے۔

وزیراعظم شہبازشریف کی عدالت سے روانگی کے بعد وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسئلے کے حل کیلئے کوشاں ہیں، مستقل حل سیاسی طور مذاکرات سے نکلے گا۔

‘جوعہدوں پر بیٹھے ہیں کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کیا’

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جوعہدوں پر بیٹھے ہیں کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کیا، پبلک آفس ہولڈراپنی ذمہ داری نبھائیں یا آفس چھوڑدیں، عدالت پارلیمان کی بے توقیری نہیں کررہی لیکن پارلیمان نے بھی کوئی زمہ داری پوری نہیں کی، پارلیمنٹ چیف ایگزیکٹوکو ہٹا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے معاملے کے حل کیلئے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وقت دیں مسئلہ کو حل کرکے دکھائیں گے ،2 ماہ کا وقت دیں تاکہ میں کام کرسکوں اور معاملے کو انجام تک پہنچائیں۔

‘آئین کی بحالی کیلئے قربانیاں دینے والوں نے بھی کچھ نہیں کیا،’

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریماکس دیے کہ گزشتہ حکم میں کہا تھا تمام چیف ایگزیکٹو ذمہ دار ہیں یہ عدالت آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی، عدالت ججمنٹ دے گی جو آپ کومدد فراہم کرے گی۔

فرحت اللہ بابر نے قانون سازی میں رکاوٹ کا شکوہ کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی بھی حکومت رہی ہے، مگر کسی بھی چیف ایگزیکٹو نے مسئلے کو نہیں دیکھا، اگر ہر ادارہ اپنا کام قانون کے مطابق کرے تو یہ حالات نہ ہوتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی بحالی کیلئے قربانیاں دینے والوں نے بھی کچھ نہیں کیا، اگر چیف ایگزیکٹو کہے ایجنسیاں میرے کنٹرول میں نہیں تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہا ہے، حلف کی پاسداری نہیں کرسکتا توعہدہ چھوڑنا چاہیئے ، پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت ہوگی تو یہی چیزیں ہوگیں۔

عدالت نے وزیرقانون کو مشورہ دیا کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے آسان رابطے کا فارم بنائیں ۔

آمنہ جنجوعہ نے لاپتہ افراد کمیشن بے کار قرار دیتے ہوئے جاوید اقبال کو چیئرمین کمیشن کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

عدالت کی وفاق کو 2ماہ کی مہلت

عدالت نے وفاق کو 2ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ، وزیرقانون، وزیرداخلہ اوراٹارنی جنرل پیش ہوئے تو کمیٹی کو وقت ملنا چاہیئے۔ بعدازاں سماعت 14 نومبرتک ملتوی کردی گئی۔

سیکیورٹی کے سخت انتظامات

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ آمد کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف تمام راستے بند کیےگئے جبکہ کمرہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بھی بند کردیا گیا۔

لاپتہ افراد کےعلاوہ دیگرکیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی۔ عدالتی عملے مطابق آج صرف لاپتہ افراد کےکیسز کی سماعت ہوگی۔

گزشہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ مذکورہ پیش رفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے لاپتہ افراد کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کی یقین دہانی پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے کوئٹہ میں 50 روز سے جاری دھرنا ختم کر دیا۔

وزیر قانون بیرسٹر اعظم نزیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان، شازیہ مری، آغا حسن بلوچ اور بیرسٹر کامران مرتضیٰ کمیٹی میں شامل تھے۔

پاکستان

missing person case

Islamabad High Court

PM Shehbaz Sharif