‘مطمئن کیا جائے نفرت انگیز بیانات سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے؟’
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ مطمئن کیا جائے نفرت انگیز بیانات سے کون سے بنیادی حقوق متاثرہوئے؟۔
سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے درخواست گزار قوسین فیصل کو اہم سوالات پر تیاری کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ مطمئن کیا جائے کہ نفرت انگیز بیانات سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے؟ ایک نجی شخص کی خاطر مفاد عامہ کی شق 184/3 کا اختیار کیسے استعمال ہو سکتا ہے؟ جن قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے ان سے متعلقہ فورم سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟ ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ اس کیس کو کیوں سنے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان نے اعلیٰ عدلیہ، الیکشن کمیشن اورافواج کے خلاف تضحیک آمیز بیانات دیے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا مدعا کیا ہے؟ کیا کسی کے بیانات دینے سے اعلیٰ عدلیہ کمزور پڑ گئی ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے پاس آرٹیکل 204 میں توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار موجود ہے، عدالت کو جب مناسب لگا تو خود نوٹس لے کر کارروائی کر لے گی، آپ کا کام عدالت کو آگاہ کرنا تھا آپ نے کر دیا بات ختم ، مناسب ہوتا اگر آپ کسی اور فورم پر دادرسی کے لیے جاتے۔
وکیل نے کہا کہ درخواست گزار پاکستانی شہری ہے،اداروں کے خلاف بیانات سے جذبات مجروح ہوئے۔
جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی شخص کے جذبات مجروح ہونے پر بھی عدالت کارروائی کرے گی؟ آپ نے بیانات کی سی ڈی دی ہے، ٹرانسکرپٹ کیوں جمع نہیں کرایا؟ بیانات کی میڈیا پر رپورٹنگ ہوئی ہو گی، رپورٹنگ بھی آج کل بس کچھ ہی لوگ ٹھیک کر رہے ہیں، آگاہ کیا جائے کہ اس طرح کے معاملات میں عدالت مداخلت کیوں کرے؟
عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر جواب کا وقت دیتے ہوئے سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed on this story.