فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں کیا فرق ہے؟
فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں کیا فرق ہے؟ کیا سیاسی جماعت کو بیرون ملک سے ملنے والی تمام فنڈنگ ممنوعہ ہے ؟۔
منگل کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا اور عمران خان کے بیان حلفی کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے ‘متفقہ’ فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پر ممنوعہ فنڈز لینا ثابت ہوگیا ہے، کمیشن اس بات پر مطمئن ہے کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
الیکشن کمیشن نے68 صفحات پر مبنی فیصلے میں قراردیا کہ پی ٹی آئی نے امریکا سے ایل ایل سی فنڈنگ لی ہے۔ عمران خان نےالیکشن کمیشن میں غلط بیان حلفی جمع کرایا، چیئرمین پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلیریشن دیے۔
سنہ 1962 میں پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ سے روک دیا گیا۔ الیکشن ایکٹ سنہ 2017 میں بھی اس قانون کو برقرار رکھا گیا۔
الیکشن کمیشن ایکٹ کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔
قانون کے تحت صرف اندرون ملک یا بیرون ملک مقیم ایسے افراد سے ہی چندہ یا فنڈز لیے جا سکتے ہیں جو کہ پاکستانی شہریت کے حامل ہوں۔
الیکشن ایکٹ کے تحت ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن کے پاس ایسی جماعت کی رجسٹریشن کو منسوخ کرنے اور ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کو سفارشات بھیجنے کا اختیار ہے۔
اس کے علاوہ اس جماعت کو دیا جانے والا انتخابی نشان بھی واپس لیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن اس جماعت کے سربراہ کو بھی غلط بیان حلفی دینے پر چارج شیٹ کرسکتا ہے۔
تاہم ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کی صورت میں کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
الیکشن ایکٹ سنہ 2017 کے سیکشن کے سب سیکشن ون کے تحت وفاقی حکومت 15 روز میں سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوائے گی اور عدالت عظمیٰ اس ریفرنس پر فیصلہ کرے گی۔
Comments are closed on this story.