Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دئے جانے پر قومی اسمبلی کے حلقہ 95 ”میانوالی“ سے عمران خان کی نشست کو بھی خالی قرار دے دیا تھا، جس کے بعد اب اس نشست پر اب دوبارہ ضمنی الیکشن ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اس خالی نشست پر انتخابی شیڈول جاری کیا جائے گا اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 224 (4) کے تحت خالی ہونے والی اس سیٹ پر اب دو مہینوں (60 دن) کے اندر الیکشن کروانے کا پابند ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں 63 ون کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
توشہ خانہ ریفرنس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نا اہلی سے متعلق الیکشن کمیشن نے 36 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ۔
تفصیلی فیصلے پر چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سمیت 5 ارکان کے دستخط موجود ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس میں7سوالات ترتیب دیئےگئے،رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کامعاملہ سنناالیکشن کمیشن کااختیارہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے مطابق عمران خان نے 4 تحائف بیچنےکا اعتراف کیا، چیئرمین پی ٹی آئی نے 10 کروڑ کے تحائف 2 کروڑ 15 ہزار میں خریدے، فروخت کی رقم بذریعہ بینک اکاؤنٹ موصول ہوئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کےاکاؤنٹ میں 5 کروڑ کے قریب رقم موجود تھی، رقم تحائف کی اصل قیمت کے نصف سے بھی کم تھی، تحائف 8 کروڑ 66 لاکھ میں فروخت ہوئے، رقم بینک میں موجود نہیں۔
تفصیلی فیصلے میں مزیدکہا گیا کہ عمران خان نےتفصیلات جمع نہ کرانےکی غلطی تسلیم کی،تفصیلات بینک اسٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
یاد رہے کہ 21 اکتوبر بروز جمعے کو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو 5سال کے لئے نااہل قراردیا تھا۔
عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے فیصلہ سنایا جس نے عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز یعنی بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور کار سرکار میں مداخلت کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت 31 اکتوبرتک منظورکرلی جبکہ مقامی عدالت نے اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت درج مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت میں 12 نومبرتک توسیع کر دی۔
چیئرمین تحریک انصاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں شامل تفتیش ہونے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے ۔
نااہلی کے خلاف احتجاج پردفعہ 144کی خلاف ورزی، توڑ پھوڑ اور کار سرکار میں مداخلت کے خلاف مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد حسن عباس نے کی۔
عدالت نے 1 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے عمران خان کی 31 اکتوبرتک عبوری ضمانت منظور کرلی۔
عمران خان جوڈیشل کمپلیکس کے بعد تھانہ سیکرٹریٹ میں اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت درج مقدمہ میں عبوری ضمانت کے لئے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ سیشن عدالت پہنچے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 10ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت 12 نومبر تک منظور کر لی۔
جج راجہ جواد عباس حسن نے پی ٹی آئی رہنماؤں اسد عمر، فیصل جاوید، علی نواز اعوان اور راجہ خرم نواز کی درخوستوں کو یکجا کرتے ہوئے پراسیکیوشن کونوٹس جاری کیے۔
کیس کی سماعت 28 اکتوبرتک ملتوی کردی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی اورچیف جسٹس سے تشدد اور غیرانسانی سلوک پر نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
سینیٹراعظم سواتی گرفتاری اورزیرِحراست تشدد کی تحقیقات کے لئے درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچے، وسیم شہزاد،اعجاز چوہدری اورفوزیہ ارشد بھی ان کے ہمراہ تھے۔
مزید پڑھیں: سینیٹر اعظم سواتی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا
درخواست میں مؤقف اپنایاگیا کہ گرفتاری کےدوران سینیٹر اعظم سواتی کو برہنہ کرکے تشدداورناروا سلوک کیا گیا، گرفتاری کے دوران رکھا گیا سلوک آئین اورانسان کے وقارکے برخلاف تھا ۔
میڈیا سے گفتگو میں اعظم سواتی نے کہاکہ آرٹیکل 171 بہت واضح ہیں، انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ کی زمہ داری سپریم کورٹ کی ہے، گرفتاری ، تشدد اور غیرانسانی سلوک پرعملی طورپرمرچکے ہیں ۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی سینیٹر اعظم سواتی کی ضمانت منظور
سینیٹر اعظم سواتی نے چیف جسٹس سے تشدد اور غیرانسانی سلوک پر نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔
سابق وزیر ریلوے اعظم سواتی کو 13 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اسلام آباد چک شہزاد کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا۔
خاندنی ذرائع نے اعظم سواتی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ رات 3 بجے کچھ افراد فارم ہاؤس پر آئے اور اعظم سواتی کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
خاندانی ذرائع نے مزید بتایا کہ سینیٹر اعظم سواتی کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے گرفتار کیا جبکہ ایف آئی نے فوری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
جس کے بعد ایف آئی اے نے اعظم سواتی کے خلاف پیکا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، مقدمے میں 20،131،500 اور 505 کی دفعات شامل تھیں۔
مقدمے میں شامل تعزیت پاکستان کی دفعہ میں بتایا گیا کہ اعظم سواتی نے بد نیتی پرمبنی ٹویٹ کیا جو کہ مقاصد کی تکمیل کے لئے انتہائی تضحیک آمیز تھا، اعظم سواتی نے ریاستی اداروں کو براہ راست نشانہ بنایا۔
ایف آئی اے کے مقدمے میں متنازع ٹویٹ کا متن بھی شامل ہے، جس میں کہا گیا کہ ٹویٹ اداروں میں تقسیم پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہے۔
یاد رہے کہ اعظم سواتی منی لانڈرنگ اور فارن فنڈنگ کیس میں نامزد تھے، ایف آئی اے نےفارن فنڈنگ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سمیت کل 11عہدیدارون کونامزد کیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کے اہلخانہ کومعاوضے کی ادائیگی پرایڈیشنل ایڈدوکیٹ جنرل نے بتایا چیک تیار ہوچکے ہیں لیکن دستاویزات کی کمی کے باعث مزید چیک تیارنہیں ہوپائے۔
سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کومعاوضے کی ادائیگی کے مقدمے میں کمشنر کراچی محمد اقبال میمن پیش ہوئے۔
عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق معاوضہ ادا کیا جارہا ہے، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے رپورٹ میں بتایا 12 افراد کے جبری گمشدگی ثابت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چارخانوانوں کے چیک تیارہوچکے، دستاویزات کی کمی کے باعث مزید چیکس تیارنہیں ہوسکے، ایک ہفتہ کی مہلت مل جائے تو مزید چیک تیارہوجائیں گے۔
عدالت نے ایک ہفتہ میں کارروائی مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت دوہفتے کے لئے ملتوی کردی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک ہفتے میں انسانی حقوق کی خصوصی عدالت قائم کرنے اور سیکرٹری انسانی حقوق کو اڈیالہ جیل سے متعلق رپورٹس پبلک کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے آئی جی جیل خانہ جات اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ترجیحات عام لوگوں کیلئے نہیں ہیں، بےآواز لوگوں کی کوئی آواز نہیں بنتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی،سیکرٹری انسانی حقوق عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر لگتا ہے اڈیالہ جیل حراستی مرکز ہے۔
عدالت نے اڈیالہ جیل میں شکایت سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یقینی بنائیں معلومات دینے والے قیدیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 2020 میں اپنا فیصلہ آپ کی حکومت کو بھیجا تھا، جو رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں خوفناک ہیں۔
اسد عمر نے انتظامیہ سے بات کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اسے کمزور طبقے کی پرواہ ہی نہیں ہوتی، ایک غریب عورت کی درخواست پر عدالت نے یہ معاملہ اٹھایا، خاتون کے بیٹے کے پاس 5 ہزار روپے نہ ہونے پر اسے بری طرح مارا گیا،جیل میں ملاقاتی کھانا لے کر جاتے ہیں جیل عملہ آدھا کھا جاتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن جو بھی کیس بھیجے ٹرائل خصوصی عدالت میں چلے گا، جس پر سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے مؤقف اپنایا کہ ہمارے پاس افسران موجود نہیں۔
عدالت نے کہا کہ عملہ نہیں تو ڈیپوٹیشن پر افسران فراہم کئے جائیں۔
سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے کم عمر بچوں کے لئے ری ہیبلی ٹیشن سینٹرز موجود نہ ہونے کا بتایا تو عدالت نے کہا کہ کوئی انتظام نہیں تو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہاؤس میں رکھیں، یقینی بنایا جائے کہ قیدیوں یا ان کی فیملیز کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ آج ہی معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے توشہ خان ریفرنس میں عمران خان کی نااہلی کے خلاف درخواست پرسماعت کی، عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کوآڈرکی کاپی مل گئی ہے،جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ 2 صفحات ملے ہیں ۔
اسلام آبادہائیکورٹ نے استفسار کیاکہ آپ کو اتنی ایمرجنسی کیا ہے؟ آپ کی درخواست پر اعتراضات کیا ہیں؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ بائیومیٹرک اور مصدقہ نقول سےمتعلق اعتراضات ہیں، ہمیں مصدقہ فیصلے کی نقول نہیں فراہم کی جا رہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس میں جلدی کیا ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ چند دن بعد الیکشن لڑنا ہے، نااہلی کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کون سے سیکشن کے تحت الیکشن کمیشن نے کارروائی کی، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ 63 ون پی کے تحت الیکشن کمیشن نے کارروائی کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ نااہلی تواس حد تک ہی ہے جس کے لئے وہ پہلے منتخب ہوئے تھے، وکیل کا الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا فیصلہ نہیں ہے تو یہ عدالت کس فیصلے کو معطل کرے گی؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ 30 تاریخ کو کرم ایجنسی میں الیکشن ہونے جارہا ہے، یہ عدالت شارٹ آرڈر کو معطل کرے۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل سے پھر استفسار کیا کہ اس آرڈر کی سرٹیفائیڈ کاپی موجود ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن سرٹیفائیڈ کاپی فراہم نہیں کررہا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مؤکل پارلیمنٹ واپس تو نہیں جارہا جس پرڈی سیٹ ہوا؟ دیگرحلقوں پر تو یہ نااہلی ہوتی نہیں، یہ صرف اس ایک سیٹ کی حد تک ہے۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ 6 حلقوں سے ہم الیکشن جیتے اور اب پھر الیکشن لڑنا ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ یہ عدالت کوئی نئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہمیں سیاسی طور پر بہت نقصان ہوا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت لکھ دے گی توقع ہے الیکشن کمیشن مصدقہ کاپی دے دے گا۔
وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا سر پیر ہی نہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک ہفتہ دیتے ہیں اعتراضات ختم کردیں، اگر کچھ ہوا تو یہ عدالت دیکھے گی، مصدقہ فیصلے کی کاپی چاہیئے، مصدقہ فیصلہ آنے سے پہلے حکم امتناع جاری نہیں کرسکتے۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے الیکشن کمیشن فیصلہ تبدیل کردے گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے فیصلہ کیسے تبدیل ہوسکتا ہے؟ پہلے بھی نااہلی ہوتی رہی کوئی سیاسی طوفان نہیں آتا، آپ نے جو آرڈر لگایا ہے اس پر تو دستخط ہی نہیں ہوئے، عدالتی تاریخ سے بتادیں کہ کوئی عدالت بغیر دستخط والا آرڈر معطل کردے؟
عدالت نے عمران خان کی الیکشن کمیشن کا فیصلہ آج ہی معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کو رجسٹرارآفس کے اعتراضات 3 روزمیں دور کرنے کا حکم دے دیا۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ قوم کا بیٹا اور سچ کا سپاہی ارشدشریف شہید ہوگیا ہے، بلاول وضو کرکے گیٹ نمبر 4 کا نام لیا کرے ۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں شیخ رشید نے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلاول کا نانا بھی گیٹ نمبر 4 کی پیداوار تھا، بلاول وضو کرکے گیٹ نمبر 4 کا نام لیا کرے۔
سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ قوم کا بیٹا اور سچ کا سپاہی ارشد شریف شہید ہوگیا، میں آج کا ٹویٹ ارشد شریف کے نام کررہا ہوں اور اس کے گھر جارہا ہوں۔
شیخ رشید نے مزید کہاکہ گرہن سورج کو نہیں کل سے حکومت کو لگے گا، 30 نومبر تک آرپار ہوجائے گا، سامراجی ایجنٹوں کو کہیں سے مدد نہیں ملے گی۔
پاکستان مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی کی کوئی صورتِ حال نہیں، اگر کسی کے درمیان بات چیت جاری ہے تو وہ جاری رہنی چاہئیے۔
آج نیوز کے پروگرام “ آج رانا مبشر کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات اور آرمی چیف کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد ایمرجنسی لگتی نظر نہیں آرہی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے تو وہ جاری رہنی چاہئیے، کیونکہ گفت و شنید سے ہی راستہ نکل پائے گا۔
عدالتی حکم پر ایمرجنسی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں عدالت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرکے ایک نگراں حکومت لا کر اس کی مدت میں توسیع کرکے سپورٹ تو کرسکتی ہے، لیکن ایمرجنسی لگانا ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے بغلوں میں دس دس بیساکھیاں دی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک بھی کھینچ لی گئی کو حکومت گر جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں نگراں حکومت ہی سب کیلئے بہتر ہے۔
کیونکہ موجودہ حکومت کی کریڈیبلٹی صفر ہے، تو اگر نگراں حکومت آجاتی ہے تو خرابی اور بہتری دونوں ہی اس کے کھاتے میں چلی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان سے کہا بات چیت جاری رکھیں، معاملات طے ہوجائیں تو اچھی بات ہے، انہیں چاہئے کہ ابھی معاملات طے کروالیں تاکہ آئندہ یہ ان کے بھی کام آسکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ عمران خان پہلے وزیراعظم تھے جنہیں جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا۔ انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے آئینی طریقے سے ہٹایا گیا۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ماضی میں گیٹ نمبر 4 اور عدلیہ کے ذریعے وزراعظم گھر بھیجے گئے۔ ہمیں اس طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاسی تاریخ بہت سے نشیب و فراز سے گزری ہے، آج کی پارلیمنٹ ماضی کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ مستقبل میں کسی وزیراعظم کا احتساب کرنا ہو تو وہ جمہوری طریقے سے ہونا چاہئے۔
بلاول نے کہا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم ملکی معیشت پر خودکش حملہ کیا، انہوں نے اپنے دور میں عام آدمی کیلئے مشکلات پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا، عمران خان کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ آج عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، ان کی ناقص پالیسیوں سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غیرمعمولی سیلاب نے سندھ، بلوچستان سمیت ملک بھرمیں تباہی پھیلائی، سیلاب متاثرین کی بحالی، مشکلات کا ازالہ ہم سب کی ترجیح ہونی چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء کیلئے رول ماڈل تھیں، عاصمہ جہانگیر بنیادی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کیلئے مشعل راہ تھیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عاصمہ آج ہوتیں تو پوچھتیں کہ ڈیل کرکے وزیرخارجہ تو نہیں بنے؟ میں انہیں جواب دیتا کہ بالکل نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور آئی جی اسلام آباد کیخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کردیا۔
پی ٹی آئی رہنما و سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کے نام کھلے خط میں کہا کہ وفاقی پولیس نے بیہودہ الزام میں صالح محمد کو گرفتار کیا ااور پھر نہایت توہین آمیز طریقے سے ان کے گلے میں تختی لٹکا کر ان کی تصویر بنائی اور سوشل میڈیا پر جاری کردیا۔
اسد قیصر نے خط میں مزید کہا کہ پارلیمان کو اپنے کردار اور حیثیت کے اعتباز سے ملکی سیاسی نظام میں غیرمعمولی تقدیس اور مرکزیت حاصل ہے، آئین شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے شرف انسانی اور تکریم آدم کے مکمل تحفظ کا ضامن ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ رکن قومی اسمبلی صالح محمد کے ساتھ وفاقی پولیس نے یہ مذموم حرکت کی، پشتون قوم باالخصوص مانسہرہ کے عوام اپنے نمائندے کے ساتھ اس شرمناک سلوک پر سخت رنجیدہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایوان کے سربراہ کے طور پر آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ پولیس کے اس شرمناک اقدام کا فوری نوٹس لیں، جامع تحقیقات کے ذریعے ذمہ داروں کے تعین کے ساتھ ان کے خلاف سخت کارروائی کا اہتمام کریں، رانا ثنااللہ کو استحقاق کمیٹی میں طلب، آئی جی اسلام آباد کو ذمہ داروں سمیت فوری معطل کیا جائے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کی منظوری سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
اس سے قبل، پرویز الٰہی کے صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد مسلم لیگ ن حکومت پنجاب میں اپنے اقتدار سے محروم ہوگئی تھی۔
یاد رہے کہ پنجاب حکومت کی تبدیلی کے بعد سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ خالی تھا۔