Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت مسلم لیگ کی قانونی ٹیم اور پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں صدر کو بھجوائے گئے مجوزہ بل پر مشاورت کی گئی ۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم آفس اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت مسلم لیگ کی قانونی ٹیم اور پارٹی رہنماؤں کا رات گئے اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزراء وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، احمد خان، اٹارنی جنرل، لیگل ٹیم اور دیگر شامل تھے۔
اجلاس میں آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت جاری رہی اور آج نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
اجلاس کے دوران قومی اسمبلی کی قرارداد اور مختلف قانونی آپشنز پر بھی غور کیا گیا اور صدر کو بھجوائے گئے مجوزہ بل سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس نے قوم اور حکومت سے مل کر دہشت گردی کے خلاف ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے دی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا 41واں اجلاس پی ایم ہاﺅس میں منعقد ہوا جس میں وفاقی وزراء، چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور متعلقہ اداروں کے اعلی حکام نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس 2 جنوری 2023 کو پشاورپولیس لائنز میں دہشت گردی کے حملے کے بعد منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے تسلسل میں ہوا۔اجلاس کے آغاز میں 7 اپریل 2012 کو سانحہ گیاری سیکٹر کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے جامع قومی سلامتی پر زور دیا جس میں عوام کے ریلیف کو مرکزی حیثیت قرار دیا گیا اور فورم کو بتایا گیا کہ حکومت اس ضمن میں اقدامات کر رہی ہے۔
اجلاس نے قوم کو پائیدار امن کی فراہمی کے لئے سکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور کاوشوں کا اعتراف کیا۔ فورم نے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اجلاس کے اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہر، کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جو کہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے، جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کیا گیا۔
واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے کے نتیجے میں ملک میں امن واستحکام منتشر ہوا جو بے شمار قربانیوں اور مسلسل کاوشوں کا ثمر تھا۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس نے پوری قوم اور حکومت کے ساتھ مل کر ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی جو ایک نئے جذبے اور نئی عزم و ہمت کے ساتھ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرے گا۔
پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمے کے لئے اِس مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی سیکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پرکوششیں بھی شامل ہوں گی۔
اجلاس نے اس سلسلے میں اعلی سطح کی ایک کمیٹی تشکیل بھی دی گئی جودو ہفتوں میں اس پر عمل درآمد اور اس کی حدود و قیود سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔
اس کے علاوہ نیشنل سکیورٹی اجلاس میں مقتدر انٹیلیجنس ایجنسی کے کامیاب آپریشن کوبہت سراہا گیا جس میں انہوں نے انتہائی مطلوب دہشت گرد گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا جو دہشت گرد بلوچ نیشنل آرمی اور ’براس‘ کے بانی و رہنما اور ایک عرصے سے مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔
کمیٹی نے بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں ،ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف بیرونی سپانسرڈ زہریلا پراپیگنڈا سوشل میڈیا پرپھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہاکہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے ملک دشمنوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کی عظیم قربانیوں اور مسلسل کاوشوں سے حاصل ہونے والے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کو یقینی بنایا جائے گا۔
دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا نیشنل سکیورٹی اجلاس کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’انتخابات کو التواء میں ڈالنے کی کوشش کرنے اور سیکیورٹی کو اس کے ایک جواز کے طور پر استعمال کرنے کیلئے کل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام مسلح افواج کو عدلیہ ہی نہیں بلکہ براہِ راست قوم کے سامنے لاکھڑا کرے گا۔‘
ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا کہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سے فرار ہی چاہتی ہے۔
عمران خان نے لکھا کہ یہ سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک غیرآئینی قانون لے کر آئے اور انہوں نے عدلیہ کے خلاف قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کی۔
خیال رہے کہ حکومت نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جو منظور بھی کر لی گئی۔
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہایت ہی اہم ہے، آئندہ چار سے پانچ روز بہت اہم ہیں۔ دس اپریل کو حکومت نے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے ہیں۔ حکومت ایسا نہیں کرتی تو یہ فیصلہ توہین عدالت شمار ہوگا۔
اسد عمر نے نجی ٹی وی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنا آئینی حق ہے، فیصلے کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے خلاف قرارداد لانا غیرآئینی ہے۔ ہم نےالیکشن ہی نہیں کرانے ملک کو بحران سے بھی نکالنا ہے۔ مارشل لاء کے نفاذ سے ملک کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
حالیہ مقدمے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل، سابق اٹارنی جنرل اور وفاقی کابینہ کا حصہ رہ چکے عرفان قادر کا سپریم کورٹ کے پنجاب انتخابات فیصلے کے خلاف قرارداد کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پارلیمان کی آواز ہے، پارلیمان کا یہ احتجاج سڑکوں پر احتجاج سے بہتر ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا اس نے آئین کی توہین کی ہے، اس قانون کی توہین کی ہے جو پارلیمان نے بنایا، اس بینچ نے سپریم کورٹ کے ان ججز کی توہین کی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ چار تین سے ہوچکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو اگر آپ میرٹ پر دیکھیں تو پہلے ایک تاریخ دی گئی جو صدر پاکستان نے دی، جبکہ صدر پاکستان تاریخ دے ہی نہیں سکتے تھے، اس کے بعد سپریم کورٹ نے احکامات جاری کردئے اور اس کے تحت صدر پاکستان نے پنجاب اسمبلی کی تاریخ دے دی، وہ بھی صدر پاکستان نہیں دے سکتے تھے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے بھی یہ اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی، سپریم کورٹ انہیں بھی کہہ رہا تھا کہ وہ تاریخ دیں، اور میں نے سپریم کورٹ کو بتا دیا تھا کہ ایک ہی صورت میں گورنر یا صدر تاریخ دیتے ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل انہوں نے اپنی صوابدید پر کی ہو، صدر پاکستان بھی جب اسمبلی کی تحلیل اپنی صوابدید پر کرتے تھے تو وہ آرٹیکل 58 (2 بی) کے تحت دیا کرتے تھے، اب تو وہ آرٹیکل بھی ختم ہوگیا۔
عرفان قادر کے مطابق سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو صریحاً آئین کی بھی سمجھ نہیں آئی، قانون کی بھی سمجھ نہیں آئی، اور تمام خلاف ورزیاں کرکے انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو کہ کالعدم ہے۔ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، اور سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے ہیں کہ ایسے فیصلوں کو نظر انداز کردینا چاہئیے۔
دورانِ سماعت وکلاء کو نہ سنے جانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت زیادتی ہے کہ تین دن تک جج صاحبان بولتے رہے، بلاوجہ بال کی کھال اتارتے رہے اور بڑے بڑے سینئیر وکلاء کو نہیں سنا۔ مجھے تو انہوں نے مہربانی فرما کر 25 منٹ یا آدھا گھنٹہ سن لیا۔ میں جب نوجوان تھا تو تین چار گھنٹے ججز سے مخاطب ہوتا تھا اور وہ میری بات بڑے آرام سے سنتے تھے، آج جبکہ میں ایک زندگی اس پیشے میں گزار چکا ہوں یہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کررہے تھے جیسے کہ میں ایک بھکاری ہوں اور ان سے بھیک مانگ رہا ہوں کہ مجھے سن لیں، اور جیسے کہ وہ لوگ بہت اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے فریڈم آف اسپیچ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق نہیں ہیں، صرف ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق ہیں اور ہم انہیں ہی دیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب جو صدر پاکستان بھی رہ چکے ہیں ، چئیرمین سینیٹ بھی رہ چکے ہیں ، کیا تھا اگر آپ انہیں سن لیتے۔
عرفان قادر نے کہا کہ میں یہ ساری باتیں نہیں کرتا لیکن آج میں مجبور ہوگیا ہوں، کیونکہ اگر یہ باتیں نہ کی گئیں تو ساری عدلیہ اوور ریچ (حد سے تجاوز) کا شکار رہے گی اور فرد واحد سارے ادارے کی تفرید کردے گا۔
دس اپریل کو وزیراعظم اور پوری کابینہ کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آرٹیکل 248 میں صاف طور پر لکھا ہے کہ کابینہ اور وزیراعظم اپنے فرائض منصبی میں کسی بھی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔‘ یوسف رضا گیلانی صاحب کے خلاف ایک غلط فیصلہ آیا تھا، میں اٹارنی جنرل تھا وہ فیصلہ تو میں نے بھی نہیں مانا تھا نہ گیلانی صاحب نے مانا تھا۔ گیلانی صاحب نے خود استعفا دیا تھا کیونکہ اس وقت ایک انتشار کی کیفیت پیدا کردی گئی تھی اور دنیا کو بتایا جارہا تھا کہ کوئی انسٹیٹیوشنل تصادم ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم بالکل گھر نہیں جائیں گے‘۔
انتخابات نہ ہوئے تو کسی نہ کسی کو تو گھر جانا پڑے گا، وہ کون ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جتنا مس کنڈکٹ چیف جسٹس کرچکے ہیں، بہتر تو یہ ہوگا کہ وہ استعفا دے دیں، اگر انہوں نے استعفا نہ دیا تو مجھے افسوس سے کہنا یہ پڑ رہا ہے کہ مجھے لگ رہا ہے پھر چیف جسٹس صاحب کو غالباً گھر جانا پڑے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 184(3) کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جو سپریم کورٹ کو کمزور کرے، اس قانون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک فرد واحد کے بجائے سپریم کورٹ کو مضبوط کر رہے ہیں، یہ سپریم کورٹ میں فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ کا قلع قمع کرنے کیلئے ہے ، اس لئے اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکے گا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد سے محاز آرائی مزید بڑھے گی، آج منظور ہونے والی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننا آئین میں لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 97ء میں جو کچھ ہوا اس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ 1997 جیسی صورتحال ہوئی تو بہت افسوسناک ہوگا۔ 97 واقعہ ایک بدنما داغ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں فل کورٹ یا کسی بینچ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ آئین کا آرٹیکل 224 بہت زیادہ واضح ہے، کوئی بھی آرٹیکل کے خلاف جانے کا تصور نہیں کرسکتا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم صرف رائے دے سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانا تمام اداروں کا فرض ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین اجازت دیتا ہے کہ الگ الگ الیکشن ہوں، تین اسمبلیاں مدت پوری کرنے جارہی ہیں، اس کے بعد اگر عمل ڈی ریل ہو تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو تصادم کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات کا ضابطہ اخلاق جاری کردیا، سیاسی جماعتیں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گی اور الیکشن کمیشن کی کسی بھی شکل میں تضحیک سے اجتناب کیا جائے گا۔
ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ پولنگ ڈے پر سیکیورٹی اداروں سے تعاون کیا جائے، امیدوار کو رشوت سے دستبردار کروانے سے گریز کیا جائے۔
ضابطہ اخلاق میں مزید کہا گیا ہے کہ عام نشستوں کے لئے خواتین کو پانچ فیصد نمائندگی دی جائے، امیدوار انتخابی اخراجات کیلئے مخصوص اکاؤنٹ کھلوانے کا مجاز ہوگا۔
جلسے، جلوسوں میں اسلحے کی نمائش پر پابندی ہوگی۔ صدر، وزیراعظم ، وزراء سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔
ضابطہ اخلاق میں ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی بھی مخالف سیاسی جماعت کے بینرز نہ اتارے، جبکہ جلسے سے قبل انتظامیہ سے اجازت لازم ہوگی۔
سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو پشاور ہاٸی کورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔
علی امین گنڈاپور نے گرفتاری سے بچنے کیلئے ہائی کورٹ کے احاطہ میں پناہ لے رکھی تھی۔ پولیس کی بھاری نفری آج صبح سے ہائی کورٹ کے باہر موجود تھی۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ میں نے تمام ایف آئی آرز میں ضمانت کروائی ہوئی ہے، میرے خلاف پولیس کے پاس نہ کوئی وارنٹ ہے اور نہ مجھ پر کوئی ایف آئی آر ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ مجھے پولیس نے نامعلوم ایف آئی آرز میں نامزد کیا ہوا ہے، ہم نے امپورٹیڈ حکومت کا آخری دم تک مقابلہ کرنا ہے۔
تحریک انصاف کے شعلہ بیان رہنما کے خلاف تھانہ گولڑہ اسلام آباد میں مقدمہ درج ہے جبکہ پنجاب کے شہر بھکر کی پولیس نے بھی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت علی امین پر مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ عدالت نے پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی رہنما عامر مغل کو سی ٹی ڈی اسلام آباد نے گرفتار کر لیا۔
سی ٹی ڈی نے مئیر شپ کے سابق امیدوار سید توقیر شاہ کو بھی گرفتار کیا، سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پنجاب میں الیکشن کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لائرزکمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے پنجاب میں الیکشن کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت فیصلہ پر نظرثانی کرکے فل کورٹ بنائے، غلطی سے رجوع کرنا بڑے پن کا ثبوت ہوتا ہے، ملک کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرنے کا وقت ہے۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ججز کا احترام کرنا چاہئے لیکن وہ قانون کسی کے لیے بنائیں تو خود اپنے اوپر بھی لاگو کریں، 9 رکنی بینچ آخر میں 3 رکنی رہ گیا، اگر فل کورٹ کا مطالبہ تسلیم کرلیا جاتا تو پاکستان میں کوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت الیکشن سے بھاگ نہیں سکتی، اسٹیک ہولڈرز کے لیے فیصلہ کرنے کا وقت آگیا، 63 اے کے قانون کو ری رائیٹ کیا گیا۔ کالے کوٹ والے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد آج تک اپنے کردار سے فلاح کی جنگ لڑی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فوج کی سیکیورٹی اور دیگر ضروری لوازمات پورے کیے بغیر الیکشن کرانا ایسا ہے جیسے ملک کو خون میں نہلانے والی بات۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں رانا ثناء اللہ نے سپریم کورٹ کے الیکشن کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فرد واحد کی ضد پر اڑے رہنے کی بات درست نہیں، بڑی عاجزی سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کی ضد پر ضد نہ کریں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ وکلاء نے قانون اورآئین کی حکمرانی میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت متنازع الیکشن کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، ن لیگ ہمیشہ عوام کے مینڈیٹ سے اقتدار میں آئی ہے، فرد واحد کی ضد کیلئے الیکشن کروایا جارہا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹی نہیں بلکہ توڑی گئی ہیں، کوشش کی جارہی ہے کہ متنازع الیکشن کروایا جائے، الیکشن کی شفافیت پر مجھے بات کرنے کی ضرورت نہیں، الیکشن کمیشن پیسے اور سیکیورٹی مانگ رہا ہے، ریٹرننگ آفسر نہ ہوں تو ملک بھر میں عذر مچے گا، پولنگ والے دن فوج کی سیکیورٹی بھی ضروری ہے، فوج کی سیکیورٹی اور دیگر ضروری لوازمات پورے کیے بغیر الیکشن کرانا ایسا ہے جیسے ملک کو خون میں نہلانے والی بات۔
انھوں نے کہا کہ ملک کو سب سے بڑا نقصان دو متنازعہ الیکشن سے پہنچا ، ایک انیس سو ستر اکہتر کے انتخابات تھے جس کے بعد ملک دو لخت ہوا اور دوسرا الیکشن1977 کا تھا جس نے ملک کو آمریت میں دھکیلا۔ ان دونوں الیکشن سے ملک کو جو نقصان ہوا ہم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم نہ کیا تو بڑی تحریک چلائیں گے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے سپریم کورٹ فیصلے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قرار داد کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرار داد پر صرف 42 افراد نے دستخط کیے، حکومتی لوگوں نے سپریم کورٹ پرعدم اعتماد کا اظہار کیا، پہلے بائیکاٹ کیا پھرعدالت میں دلائل کیلئے منتیں کیں۔
انھوں نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کیا جاسکتا ہے ورنہ عمل کرنا لازمی ہوگا، پاکستان میں کوئی ایسی صورتحال نہیں کہ ایمرجنسی نافذ کی جائے، آئین پاکستان ملک کی موجودہ صورتحال کا جامع جواب دیتا ہے، اسمبلی ٹوٹنے پر90 دن میں انتخابات کا حکم آئین دیتا ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ حکومتی بل بدنیتی پر مبنی ہے، بل میں نوازشریف کو اہل ہونے کا اختیار دیا جارہا ہے، نوازشریف پاکستانیوں کے پیسے دے دیں اورجہاں چاہیں جائیں، اگرآئین کو نہیں مانا تو ہم ایک بڑی تحریک کیلئے تیار ہیں، تمام ادارے آئین کا پہرہ دیں گے اور ملک بحرانوں سے نکلے گا، کوئی بھی الیکشن کو نہیں ٹال سکتا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آگنائزیشن کے حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ مریم نواز، آصف زرداری کی شاگرد ہونے کا ثبوت دے رہی ہیں، مریم اپنے چچا کو نااہل کروانے کیلئے سرگرم ہیں، کسی کوعدالتی فیصلے پر اعتراض ہے تو نظرثانی اپیل دائر کرے، سپریم کورٹ کے ججز نے آئین پاکستان کا تحفظ کیا ہے، آئین، چیف جسٹس اور وکلاء سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ ہے، امید ہے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آئین کے تحفظ پر زور دیا جائے گا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ بلاول بھٹو مارشل لاء کی دھمکیاں دے رہا ہے، پاکستان میں ایمرجنسی جیسی کوئی صورتحال نہیں ہے، ہم کسی ادارے کے تصادم کے حق میں نہیں ہیں۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فرخ حبیب نے سیکرٹری کیبنٹ کو خط لکھا ہے، جس میں کابینہ اجلاس میں شریک افراد کے نام مانگے ہیں، 22 اپریل کے بعد جس وزیر نے دستخط کیے اس پر آرٹیکل 6 لگے لگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی 8 مقدمات کی ضمانت میں 18اپریل تک توسیع کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف جوڈیشل کمپلیکس ہنگامہ آرائی اور دیگر مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں دائر کی گئیں۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تمام مقدمات میں آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی، جس میں مؤقف پیش کیا کہ 140 سے زائد بے بنیاد جعلی مقدمات درج کئے گئے، میری پیشی پر سخت سیکیورٹی انتظامات ہوتے ہیں، آج میری حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔
عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان صفدرنے 8 درخواستیں دائر کیں، جس پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹرسلمان صفدر اور فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کی حاضری سے استثنا کی درخواست جمع کرائی ہے، آج وزیراعظم نے آنا ہے اور سیکیورٹی وہاں ضروری ہے۔
وکیل عمران خان بیرسٹرسلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ حتمی طور پر تو ہم نے ٹرائل کورٹ ہی جانا ہے، عید کے بعد دوسرے یا تیسرے ورکنگ ڈےتک ریلیف دے دیں، اتنے کیسز ہیں اور تفتیش بھی جوائن کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماتحت عدالتوں میں بھی ڈیکورم برقرار رکھنا چاہئے۔
عمران خان کے وکیل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ابھی تک جے آئی ٹی نے تفتیش کیلئے بھی نہیں بلایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تو 15واں رمضان ہے اورعید میں آدھا مہینہ ہے، ضمانت قبل ازگرفتاری میں 2 ہفتے کی تاریخ کیسے دیں۔
وکیل عمران خان نے مؤقف پیش کیا کہ عام حالات میں تھانےجاکرتفتیش میں شامل ہوتے ہیں، سوالنامہ دے دیں، ہم جواب دے دیتے ہیں، الزامات کے جواب میں تحریری بیان جمع کرا دیتے ہیں۔
عدالت نے عمران خان کی آج کی حاضری سے استثنا کی درخواست منظور کرتے ہوئے 8 مقدمات کی ضمانت میں 18 اپریل تک توسیع کردی، اور کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت انتخابات میں شکست کےخوف سے آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابات ہارنے سے گھبرا رہی ہے، رائےعامہ کے تمام جائزوں سے حکومتی شکست ظاہر ہے، اس لیے وہ الیکشن سے خوفزدہ ہیں، اور آئین کی خلاف ورزی پر بھی آمادہ ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا الیکشن سےمتعلق فیصلہ خوش آئند ہے،پاکستان کے ہر وکیل نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، لیکن پی ڈی ایم ٹولہ الیکشن سے فرار چاہتا ہے، حکمران خوفزدہ اور ڈرے ہوئے ہیں، ان کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن سے فرار اختیار کرنے والے توہین عدالت کریں گے، سپریم کورٹ کاحکم نہ مانا گیا اور الیکشن روکنے کی کوشش کی گئی تو قوم سڑکوں پر نکلے گی۔
عمران خا کا کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ پرحملے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی صرف یہ کوشش ہے کہ الیکشن نہ ہوں، یہ عدالت عظمیٰ میں بھی تقسیم پیدا کررہے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ الیکشن ان کی تباہی ہے، خود کو بچانے کیلئے یہ پاکستان کے آئین کے خلاف جارہے ہیں۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی، جو منظور بھی ہوگئی۔
اسپیکرراجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں حکومت نے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار داد پیش کی، اور قرار داد اتفاق رائے سے منظور بھی کرلی گئی۔
قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں، وزیر اعظم اور کابینہ عدالتی حکم پرعملدرآمد نہ کرے، سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ فیصلے پرنظرثانی کرے۔
قرارداد کا متن
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ یہ ایوان از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے 4 جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتا ہے۔ ایوان نے اس پر عمل درآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی وانتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا تھا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا لیکن اِسے منظور نہیں کیا گیا، نہ ہی ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا مؤقف سنا گیا۔
متن میں ہے کہ پارلیمنٹ کی اس واضح قرارداد اور سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی اپنی روایات، نظریے اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اکثریت پر اقلیت کو مسلط کردیا گیا ہے، تین رکنی اقلیتی بینچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین وقانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذالعمل قرار دیتی ہے۔
قرار داد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ میٹنگ کے فیصلوں تک سماعت کے لئے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے۔
قرارداد کے متن میں ہے کہ ایوان ایگزیکٹو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے اقدام کوگہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اورمتنازعہ بینچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کرنے اورچند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہارکرتا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحاً خلاف ہے، لہذا یہ ناقابل قبول ہے، ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
قرارداد میں ہے کہ حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے، اس فیصلے نے وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی گئی ہے، ایوان ملک بھر میں ایک ہی وقت پرعام انتخابات کرانے کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کاحل سمجھتا ہے، اور تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کوپابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔
قرارداد کے متن میں بتایا گیا کہ ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اور اسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسر نو تحریر کئے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس کل گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
وزیراعظم شہبازشریف
وزیراعظم شہبازشریف بھی قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوئے، تاہم اجلاس ملتوی ہونے کے باعث وہ خطاب نہیں کرسکے۔
محسن لغاری کی قرارداد کی مخالفت
پی ٹی آئی کے رکن محسن لغاری نے نے قرارداد کی مخالفت کی۔ بعدازاں انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ایوان میں دو ارکان نے قرارداد کی مخالفت کی، قرارداد کی مخالفت میں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، ایوان میں کچھ تو جمہوریت رہنے دیں، ہمیں کم ازکم جمہوریت کی اداکاری توکرنے دیں۔
محسن لغاری نے کہا کہ ایوان کو ایوان رہنے دیں،اس کوجلسہ گاہ نہیں بنائیں، عمران خان ایوان میں نہیں، مگرسب کے اعصاب پر چھائے ہوئے ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عدلیہ کےمعاملات میں مداخلت کرنا درست نہیں، کیا ہم عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان جنگ چاہ رہے ہیں، عدالتی معاملات میں مداخلت کرنی ہےتوآئین میں ترمیم کریں، آئین میں لکھیں کہ عدالتی معاملات پارلیمنٹ سےچلائیں گے، ہم آئین کے تابع ہیں،آئین کو نہیں توڑ سکتے۔
محسن لغاری نے مزید کہا کہ ہمیں جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہے، یہ راستہ ہمیں تباہی کی طرف لے جائے گا، پارلیمنٹ سےسپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، یہ قرارداد بھی پارلیمانی معیار کےمطابق نہیں ہے۔
چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے پنجاب میں الیکشن کے لیے آج سے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے انٹرویوز شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ٹکٹ دینے سے قبل انٹرویو کے لیے عمران خان نے حلقہ پی پی ون سے 50 تک کے امیدواروں کو طلب کرلیا۔
پنجاب میں صوبائی حلقوں کے امیدواروں سے براہ راست انٹرویو کرنے والے عمران خان کو پہلے روز راولپنڈی ، اٹک ،بھکر،چکوال جہلم خوشاب اور دیگر اضلاع کے امیدوارانٹرویوز دیں گے۔
انٹرویو کے دوران عمران خان امیدوار کی اہلیت کا خود جائزہ لیں گے اور اس حوالے سے پارٹی اورکارکنوں کا فیڈ بیک بھی لیا جائے گا۔
تمام اضلاع کے انٹرویوز کا سلسلہ مکمل ہوتے ہی ٹکٹوں کا حتمی اعلان بھی کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پارٹی تمام حلقوں بارے شارٹ لسٹڈ امیدواروں سے قیادت کو پہلے ہی آگاہ کرچکی ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کیخلاف سابق صدر آصف زرداری پرعمران خان کی قتل کی سازش کے الزام سے متعلق معاملے کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ بتایا جائے ’غلیظ اور غیر اخلاقی‘ الفاظ کے استعمال پرکون سی دفعہ لگتی ہے۔
آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کے الزام میں شیخ رشید کیخلاف سندھ ،بلوچستان میں درج مقدمات کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی ۔
دوران سماعت جسٹس طارق محمود نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آٓئندہ سماعت پر بتائیں کہ’غلیظ اور غیر اخلاقی’ الفاظ کے استعمال پر کیا دفعہ لگتی ہے؟ اور پولی کلینک اسلام آباد میں کی گئی بات پر سندھ میں مقدمہ کیسے درج ہو سکتا ہے؟
عدالت نے شیخ رشید کیخلاف ایف آئی آر پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر میں دھمکی کا لفظ نہیں بلکہ دو الفاظ غلیظ اور غیر اخلاقی کا ذکر ہے، اس پر کیا دفعہ لگتی ہے؟۔
مدعی مقدمہ کے وکیل نے کہا کہ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو ابھی تک سامنے نہیں آئیں۔ یہ معاملہ سندھ ہائیکورٹ کا بنتا ہے اس عدالت کا دائرہ اختیارنہیں۔
اس پر جسٹس طارق محمودنے کہا کہ آپ سے جو سوال ہو رہا ہے اسی کا جواب دیں، ایف آئی آر میں درج ہے کہ شیخ رشید نے پولی کلینک اسلام آباد میں میڈیا سے بات کی ہے، کیا اسلام آباد میں کی گئی بات پر اتھانہ موچکو سندھ میں یف آئی آردرج ہو سکتی ہے؟۔
جواب میں مدعی کے وکیل نے جواب دیا کہ سیاسی شخصیات کے کارکن ملک بھرمیں ہوتے ہیں ، اسلیے مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔
عدالت نے مدعی کے وکیل کی عدالت کو معاونت کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے ہدایت کی کہ لسبیلہ بلوچستان میں درج مقدمہ کے مدعی عدالتی نوٹس کے باوجود پیش نہیں ہوئے، آئی جی بلوچستان اور آر پی او آئندہ سماعت کے لیے مدعی کو نوٹس بھجوائیں۔
کیس کی مزید سماعت مئی کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے پر سپریم کورٹ میں باقاعدہ درخواست دائرکر دی۔
درخواست میں الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ گورنرکو انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دے،۔
پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ گورنریکم مارچ کےعدالتی حکم پرعمل نہیں کررہے، انہوں میڈیاپر28مئی کو انتخابات کی تاریخ کااعلان کیا اور بعد میں مکرگئے جبکہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد 90 دن میں انتخابات ضروری ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ گورنرخیبرپختونخوا غلام علی عدالتی حکم کی خلاف ورزی کررہےہیں، عدالت انہیں انتخابات کی تاریخ دینےکاحکم دے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ گورنر کوم 90 دن کی مدت کےقریب ترین تاریخ دینےکی ہدایت کی جائے۔
اس سے قبل خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے ترجمان شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ گورنر نے الیکشن کے لیے 28 مئی کی تاریخ دی اور پھر بغیر کسی وجہ کے تبدیل کرکے8 اکتوبر کردی جبکہ عدالت نے اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد 90 روز میں انتخابات کروانے کا فیصلہ دیا تھا۔
شوکت یوسفزئی نے بتایا تھا کہ پپی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے آج سپریم کورٹ میں کیس دائر کرے گی۔ اس حوالے سے بیرسٹرعلی ظفر اور بیرسٹر گوہر خان سپریم میں پٹیشن دائر کریں گے۔ درخواست دائرکیے جانے کے موقع پر پرویز خٹک،اسد قیصر،شاہ فرمان، محمود خان ودیگر بھی سپریم کورٹ میں موجود ہوں گے۔
ترجمان صوبائی حکومت کامزید کہنا تھا کہ ان کا موقف ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی مئی میں انتخابات کرائے جائیں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا کہ حکومت کی بے وقوفیوں سےعمران خان مزید مقبول ہوگیا ہے ملک میں الیکشن کی تیاری ہے اور حکومت فراری ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسمبلی قرارداد پاس کرنے جارہی ہےکل قومی اسمبلی میں صرف 5 ارکان بیٹھے تھے اور قومی اسمبلی بھی سپریم کورٹ کےماتحت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ادارےآئین وقانون کے تابع ہیں یہ الیکشن میں جانے،عوام کوشکل دینے کے قابل نہیں الیکشن کاشیڈول آگیا ہے، اگرہمت ہے تو 3 ججز کےخلاف ریفرنس لائیں جبکہ مریم نواز،بلاول بھٹوریفرنس لاناچاہتے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ان کی پارٹی کےلوگ ریفرنس لانانہیں چاہتے پوری قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے اور ن لیگ کےعلاوہ کسی نےکاغذات جمع نہیں کرائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 13 میں سے10 پارٹیزکے پاس امیدوارہی نہیں ہیں، حکومت کی بے وقوفیوں سےعمران خان مزیدمقبول ہوگیا اورملک میں الیکشن کی تیاری ہے، حکومت فراری ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی سیکیورٹی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کو دی جانے والی سیکیورٹی کے رُولز طلب کرلیے۔
عمران خان کی سیکیورٹی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعظم کی کیا سیکیورٹی ہوتی ہے؟رولزپیش کریں پھرآرڈرجاری کریں گے۔
جستس عامرفاروق نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس میں تو عمران خان کی حاضری بنتی ہی نہیں،یہ توسیکیورٹی کی فراہمی کا کیس ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منوراقبال نے کہا کہ وزیراعظم کی سیکیورٹی سےمتعلق سیکشن 17ہے، سابق وزیراعظم کو مناسب سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔
اس پرچیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ابھی سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے؟جواب میں منور اقبال نے بتایا کہ عمران خان کوایک بلٹ پروف گاڑی فراہم کی گئی ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد سیکیورٹی صوبائی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ میں بلٹ پروف گاڑی پرنہیں آیا ابھی ، معذرت کےساتھ شاید میری انگریزی کمزورہے۔ آپ دوبارہ پڑھ لیں جونوٹیفکیشن ہوا تھا اور یہ ہدایات آپ دفترسےلےکے آیا کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی سے متعلق فیصلہ اسسمنٹ کمیٹی کرتی ہے، جواب میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ میں کوئی پڑھا لکھا بندہ ہے؟۔
وزارت داخلہ کے نمائندے نے عدالت میں پیش ہوکربتایا کہ وزیراعظم کولائف ٹائم سیکیورٹی دی جاتی ہے، اس کا نوٹیفکیشن جاری ہوناتھا جو ابھی تک نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت اسلام آباد کی حد تک دیکھتی ہے جبکہ پنجاب میں آئی جی پنجاب معاملہ دیکھیں گے۔
نمائندہ وزارت داخلہ نےمزید کہا کہ عمران خان کواسلام آباد میں فول پروف سیکیورٹی دی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فول یا اپریل فول کوچھوڑیں پھرکیا ہوااب کیا صورتحال ہے، نمائندہ وزرات داخلہ نےکہا کہ عمران خان کوسیکیورٹی فراہم کررکھی ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرلائزسکیورٹی کا آرڈر ہے تووہ توکرنا ہوتا ہے ،درخواست گزار کے لیے کیا آرڈر ہے ؟ اور سابق وزیراعظم کواسلام آباد میں کون سیکیورٹی دے گا؟۔ عدالت نے عمران خان کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی کے رولز طلب کرلیے۔
اتحادی حکومت چیف جسٹس سمیت تین ججز کیخلاف جوڈیشل مس کنڈکٹ پر ریفرنس دائر کرنے پرغورکررہی ہے۔
اتحادی جماعتوں کا مشاورتی عمل آج دوسرے دن بھی جاری رہے گا،گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں نوازشریف کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کروانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے کابینہ کے فیصلے کی توثیق قومی اسمبلی سے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے اس حوالے سے قانونی ٹیم کو قرارداد کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کردی۔ اس حوالے سے اہم امور پر درکار قانون سازی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کرانے پر غور کیا گی جبکہ قومی اسمبلی میں قرارداد کے ذریعے توثیق کرانے کی تجویز دی گئی۔
اتحادی رہنماؤں نے شہباز شریف کو حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اتحادی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الیکشن سےمتعلق سماعت فل کورٹ میں ہونی چاہیےتھی، 3 رکنی بینچ کا فیصلہ ادھورا اور اقلیتی ہے جسے مستردکیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ الیکشن نہ کرانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو ہم سب باہر نکلیں گے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کارکنان اور قیادت کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی سے تیاری کریں، ہم باہر نہ نکلے تو اللہ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ اللہ نے انصاف اور آزادی کے لیے جدوجہد فرض کی ہے، اگر ہم نے اس سازش کو کامیاب ہونے دیا تو اللہ اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے، 10 دن میں تمام ٹکٹس کا فیصلہ کرلیں گے، قوم انہیں الیکشن سے بھاگنے نہیں دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں شروع سے ہی انصاف نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میرا کام ہے آپ کی تربیت کرنا ہے، میں ساری دنیا دیکھ چکا ہوں، امیر ملکوں میں انصاف ہے اور غریب ملکوں میں جنگل کا قانون ہے۔
پی ٹی آئی چئیرمین نے کہا کہ ججز صاحبان کو ڈرایا گیا، بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، کوشش کی گئی کہ وہ طاقتور کا ساتھ دے دیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن بعد الیکش ہونا چاہئیں، ہم نے ماہرین سے پوچھ کر اسمبلیاں تحلیل کیں، یہ الیکشن سے خوفزدہ ہیں، انہیں پتہ ہے کہ الیکشن میں تباہی ہے، الیکشن کمیشن اور حکومتیں ان کے ساتھ ہیں، خود کو بچانے کے لیے یہ الیکشن میں نہیں جارہے۔
عمران خان نے کہا کہ انہی ججز نے شہباز شریف کو بحال کرایا، آج یہ اسی سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے، کابینہ کہہ رہی ہے کہ فیصلہ قبول نہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ ان کو ایک جج نے بالکل ٹھیک کہا تھا، سسیلین مافیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے تکلیف یہ تھی رات کے 12 بجے عدالتیں کھلیں، ہم نے سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ قبول کیا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہم قانون کی حکمرانی کی طرف جارہے ہیں، مافیا کہتے ہیں فیصلہ نہیں مانیں گے، آئیں پر نہیں چلیں گے۔
انہوں نے نواز شہرف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مفرور جھوٹ بول کر علاج کے لیے پاکستان سے باہر گیا، بھائی نے ایفی ڈیوٹ دیا کہ واپس آجائے گا۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اس ملک کے فیصلے کر رہے ہیں، جن بچوں نے زندگی میں ایک گھنٹہ کام نہیں کیا انہیں بٹھایا ہوا ہے، ایک کہتا ہے کہ مارشل لا لگ جائے گا، جس نانے پر سیاست کررہا ہے اسے مارشل لا کی وجہ سے تو پھانسی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ملکی مفاد سے سمجھوتا کریں گے، یہ کوشش کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں دراڑیں پڑ جائیں،1999 میں بھی انہوں نے سپریم کورٹ کو تقسیم کیا۔
دوسری جانب خیلجی ٹی وی کو دئے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، الیکشن کمشنر کا اکتوبر میں انتخابات کا اعلان آئین کی خلاف ورزی تھا، دیکھیں گے کہ انتخابات میں کیاہوتا ہے، یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نتیجہ قبول کریں گے یا نہیں، مجھےنہیں معلوم کہ انتخابات میں کیا ہوگا اور الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ کیسا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد سے ایک سبق میں نے اور ایک پاکستانی عوام نےسیکھا ہے، میرا سبق یہ ہے کہ میں نے آرمی چیف پر بھروسہ کیا، میں نے سمجھا احتساب کے معاملے میں آرمی چیف اور میں ایک پیج پر ہیں لیکن ایسا نہیں تھا، آرمی چیف احتساب پریقین نہیں رکھتے تھے، وہ نہیں مانتے تھےکہ بدعنوانی ایک بری چیز ہے، میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، اگرآپ کے پاس قانون کی حکمرانی نہیں ہے تو پھر آپ کے پاس بدعنوانی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ فاروق ایچ نائیک کا یہ کہنا کہ ہم مانیں گے نہیں یہ کردیں گے وہ کردیں گے، یہ صرف بڑھکیں ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ یہ ایک قانون بنارہے ہیں جس میں اپیل کا حق پیدا کریں گے، جس کے تحت حکومت اپیل کردے گی، یہ ان کا اپنا ایک قانونی نکتہ نظر ہے جس کی تکمیل میں قانونی رکاوٹیں حائل ہوں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں پتا صدر صاحب پہلے اس بل کو سپریم کورٹ بھیجیں، اور بہتر سمجھیں کہ سپریم کورٹ پہلے اس بل کی قانونی حیثیت پر اپنی رائے دے اور پھر وہ اپنی رائے دیں۔ یا چیلنج ہوتا ہے تو سپریم کورٹ اس پر کیسے ردعمل دے دے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو ان کے پاس اپیل کا حق ہے، اگر نہیں بنتا تو ان کے پاس نظر ثانی کا حق ہے۔ میرے خیال میں حکومت کو ہم مانیں گے نہیں اور یہ کردیں گے وہ کردیں گے کے بجائے لیگل آپشن اپنانے چاہئیں۔
فواد چوہدری نے زور دیا کہ قانون بن جاتا ہے اور سپریم کورٹ اسے رکھتی ہے تو وہ قانون ہے، اس میں کوئی دور رائے نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج الیکشن کمیشن نے درست سمت میں اقدامات اٹھائے ہیں، پنجاب حکومت سیکیورٹی پلان دے رہی ہے، یہ وہ ضروریات تھیں جن کا سپریم کورٹ نے کہا تھا، اور ان پر عملدرآمد ہورہا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ ہم کسی جج کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کریں گے، ہم نے پہلے بھی نہیں کیا تھا۔ ہم کسی ریفرنس میں نہیں پڑنا چاہتے ، ہمارے لئے سپریم کورٹ کے سارے ججز محترم ہیں۔
عمران خان کے اسٹبلشمنٹ سے رابطوں اور مذکرات پر انہوں نے کہا کہ ’آئیڈیل سچویشن تو یہ ہے کہ مذاکرات حکومت اور اسٹبلشمنٹ دونوں کے ساتھ ہوں‘، ساری پارٹیز ایک دوسرے کو کچھ اسپیس دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کو تیار ہے، ہم اس میں شامل ہوں گے۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو کے جنرل (ر) فیض کے فوج میں تاحال اثر رسوخ کے بیانات پر ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرایا کیونکہ وہ ذرا اپنے قد سے بڑے ہوگئے تھے، مریم اس طرح شہباز شریف کو نااہل کرانا چاہتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ ایک سیاسی شہید بھی مل جائے اور چچا سے جان بھی چھوٹ جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز اور بلاول غیرسنجیدہ کھلاڑی ہیں۔ زرداری ، نواز شریف اور فضل الرحمان فیصلے کرتے ہیں، مریم اور بلاول کا کوئی قد نہیں ہے اور نہ ان کی اپنی پارٹی میں ایسی کوئی حیثیت ہے کہ لوگ ان کی بات سنیں۔ نہ ان کو سمجھ ہے، دونوں کے والدین نے شو پیس کیلئے انہیں رکھا ہوا ہے۔‘
فواد چوہدری نے کہا کہ ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ فوج کیسے کام کرتی ہے، انہوں نے ایسے ہی جنرل فیض صاحب کو اپنے اوپر فوبیا بنا لیا ہے، ریٹائر ہوکر کسی کے اثرورسوخ فوج میں نہیں ہوتے۔ فوج میں ہر آرمی چیف کی اپنی پالیسی ہوتی ہے اور وہی فوج کی پالیسی ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے افراد کے لاپتہ ہونے اور پی ٹی آئی دور میں بھی اس طرح کے واقعات سامنے آنے کی بات پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکوت میں کسی کو اس طرح نہیں اٹھایا گیا، ہماری حکومت اب تک کی سب سے جمہوری حکومت تھی، ہمارے کسی بندے نے سینے پر ہاتھ مار کر نہیں کہا کہ ہاں جی ہم نے اٹھایا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے چئیرمین حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسی لئے بار کونسل نے پروسیڈنگز کے دوران اور پروسیڈنگز سے پہلے فل بینچ کی بات کی تھی۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پی ٹی آئی کے دوست اسے کیوں غلط رنگ دیتے رہے، یہ ان کی بھی بہتری کیلئے تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے حسن رضا پاشا نے کہا کہ یہ سیاسی مقدمہ تھا آئینی معاملہ تھا، ہم دیکھ رہے تھے کہ یہ گڑبڑ ہو گی اور آج یہ ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب دس تاریخ کے بعد پھر سپریم کورٹ میں یہ میدان سجے گا، ملکی قیادت وہاں آئے گی، وکلاء آئیں گے اور قانونی مباحثے اور دلائل ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کے فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، وہ نافذ بھی ہوگیا۔ یکطرفہ طور پر الیکشن کمیشن نے اپنا سارا شیڈول واپس لے لیا اور چھ مہینے بعدکی آٹھ اکتوبر تاریخ دیدی۔ اس پر نئی آئینی پٹیشن آگئی۔ جس میں الیکشن کمیشن نے تین سوال اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود تاریخ دے یا تاریخ تبدیل کردے۔ جس پر کسی ایک وکیل نے نہیں کہا کہ اسے ایسا کرنے کا اختیار طاقت حاصل ہے، نہ آئین کے مطابق اور نہ الیکشن کمیشن کے مطابق۔
ان کے مطابق دوسرا سوال تھا کہ کیا نوے دن میں انتخابات ممکن ہیں؟ سب نے کہا کہ جی نہیں ہوسکتے۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے جو توجیہہ پیش کی اس کی کوئی حیثیت ہے؟ سیکریٹری دفاع و خزانہ سے بریفنگ لینے کے بعد کوئی ایک نکتہ ان کے پاس نہیں تھا کہ وہ کیوں الیکشن میں نہیں جانا چاہتے ، سوائے اس کے کہ ان کی نیت نہیں ہے۔
فل کورٹ کیوں نہیں بنایا جارہا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فل کورٹ اس وقت درکار ہوتی ہے جب آئین کی شق کی تشریح کرنا ہو، یہ حقائق کا تنازعہ تھا جس پر تین رکنی بینچ بھی کافی تھا۔
پروگرام میں وزیر مملکت برائے توانائی سینیٹر مصدق ملک نے میزبان عاصمہ شیرازی کے سوال ”کیا حکومت فیصلے کے خلاف ڈٹ گئی ہے؟“ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان اور کابینہ کا فیصلہ دیکھیں تو بحران سا پیدا ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شق آئین میں موجود ہے وہ صرف پنجاب کیلئے تو نہیں ہے ، وہ خیبرپختونخوا کیلئے بھی ہے، خیبرپختونخوا کیا سویڈن کا حصہ ہے؟ یا فن لینڈ میں ہے؟
مصدق ملک نے طنزیہ کہا کہ ’پنجاب میں تو نوے دن میں ہم نے سوموٹو لے کر فیصلہ کردیا، اور دوسرا صوبہ؟ ارے اس کو چھوڑیں یار دوسرے صوبے کی کیا بات کرنی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں لیجیٹمیسی (قانونی حیثیت) کی کمی ہے، جس فیصلے میں لیجیٹمیسی کی کمی ہو اس پر کسی کو اعتماد نہیں ہوتا، عدالتی فیصلوں کو لیجیٹیمیٹ فیصلے کے طور پر سامنے آنا چاہئیے۔
حسن رضا پاشا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا عدالتی بل دو ایوانوں سے منظوری کے بعد اب صدر کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی جگہ عمران خان فل کورٹ بنانے کا کہتے اور ان کی بات بار بار مسترد کی جاتی تو ان کے پاس کیا راستہ تھا؟ جب کوئی بار بار انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو اور اس کی بات نہ سنی جائے تو وہ کیا کرے گا، وہ خود کو تیل چھڑک کر آگ ہی لگائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا متعصبانہ فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک اور قرار داد لانے کا اعلان کردیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز اتحادی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ آئین اور قانون کے خلاف مذاق کیا جا رہا ہے، اس پر اتحادیوں کے فیصلے کی ایک ٹھوس شکل آنی چاہیے۔
پی ایم ہاؤس میں اتحادیوں کے مشاورتی اجلاس میں مریم نواز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ رانان ثناء اللہ، خالد مقبول، مولانا فضل الرحمان، نوید قمر، اعظم تارڑ اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور علی اعوان نے بھی اجلاس میں شرکت کی جب کہ قائد ن لیگ نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شریک ہوئے۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے ہفتے اتحادیوں کی جامع نشست ہوئی تھی، کابینہ کی بھی 2 میٹنگز ہوئیں، نیشنل اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اجلاس ہوئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی سب کے سامنے ہے، قاضی فائزعیسیٰ کے فیصلے کو پہلے سرکلر سے ختم کیا گیا، پھر کل 6 رکنی بینچ بیٹھا، وزیر قانون نے بڑے احسن طریقے سے کابینہ اور قومی اسمبلی میں حکمت سے یہ ساری باتیں کیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک قراداد منظور ہو چکی ہے اور کل (آج ) قومی اسمبلی میں ایک اور قرارداد پیش کی جائے گی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ یہ قرارداد ایوان میں پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا کھلواڑ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، پارٹی بنانے کی سیاسی جماعتوں کی درخواست مسترد کی گئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ کل 3 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق 10 تاریخ کو حکومت پاکستان نے الیکشن کے حوالے سے فنڈز مہیا کرنے ہیں اور الیکشن کمیشن نے 11 تاریخ کو سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرنی ہے۔
تین رکنی بینچ کے فیصلے کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے مطابق 17 اپریل تک پنجاب میں سیکیورٹی مہیا کرنی ہے، وفاق نے فوج اور رینجرز مہیا کرنی ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے حوالے سے کہا گیا کہ ہائی کورٹ بھی جاسکتے ہیں۔
وزیراعطم نے کہا کہ کل بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں دیگر رہنماؤں نے اچھی گفتگو کی، آج پھر اجلاس ہے اور کل بھی قومی اسمبلی میں اجلاس ہوگا، اتحادیوں کا اجلاس اس لئے بلایا ہے تاکہ مشاورت کے بعد فیصلہ کریں، آئین اور قانون کے خلاف جو مذاق کیا جارہا ہے اس پر اتحادیوں کے فیصلے کی ایک ٹھوس شکل آنی چاہئے۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر 14 مئی کو پنجاب میں عام انتخابات کروانے کا فیصلہ کرلیا۔
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پر من وعن عمل کیا جائے گا، نگراں حکومت سے انتظامی اور سکیورٹی معاملات جب کہ فنڈز کے حصول کے لئے وزارت خزانہ سے رابطہ کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کا نیا شیڈول جاری کردیا جس کے مطابق کاغذات نامزدگی پر اعتراضات 10 اپریل تک فائل کیے جا سکیں گے، الیکشن ٹربیونلز17 اپریل تک اعتراضات پر فیصلہ کریں گے جب کہ امیدوار 19 اپریل کو اپنے کاغذات واپس لے سکیں گے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق امیدواروں کو انتخابی نشان 20 اپریل کو الاٹ کیے جائیں گے، پنجاب میں انتخابات 14 مئی کوکرائے جائیں گے، اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی یہی شیڈول لاگو ہوگا۔
اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن میں اہم اجلاس ہوا، جس میں ممبران، سیکرٹری و لاء ونگ کے حکام نے شرکت کی۔
ذرائع نے بتایا کہ پنجاب انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تحریری فیصلہ الیکشن کمیشن کو موصول ہوا اور چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں عدالتی فیصلے پر مشاورت کی گئی۔
ذرائع کا کہنا تھا الیکشن کمیشن کے لاء ونگ نے اجلاس کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بریفنگ دی، جب کہ فیصلے کی روشنی میں انتخابات کے انعقاد پر بھی مشاورت کی گئی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کا شیڈول جاری کیا تھا جس کے مطابق صوبے میں عام انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، تاہم الیکشن مؤخر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔