Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زمان پارک آپریشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے لئے مقرر کردی گئی۔
ایک ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا کہ لاہور ہائی کورٹ ہماری توہین عدالت کی درخواست پر کل سماعت کرے گا، یہ بہت اہم کیس ہے کیونکہ جو فیصلہ آئے گا اس پر منحصر ہوگا کہ طاقتور لوگوں کی جانب سے عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے یا نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہم ہمیشہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کھڑے رہیں گے تاکہ ہمت سے ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کریں۔
رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جستس طارق سلیم شیخ پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کل سماعت کریں گے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل پی ٹی آئی نے زمان پارک میں پولیس آپریشن کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست فواد چوہدری نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی وساطت سے دائر کی۔ درخواست میں آئی جی پنجاب، ڈی آئی جی آپریشن اور چیف سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں ذمہ داران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں عدالتی پیشی کے دوران قتل اور اہلیہ کی تنہا موجودگی میں زمان پارک رہائش گاہ پر حملے کے حوالے سے تفصیلات چیف جسٹس کو بھجوا دیں۔
عمران خان نے چیف جسٹس کے نام خط میں قتل کی سازش، بربریت اور ریاستی دہشتگردی کے واقعات کی جامع تحقیقات کی استدعا کی ہے۔
خط میں عمران خان نے لکھا کہ مجھ پر 90 سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں، ویڈیو لنک سے مقدمات کی پیروی کی درخواست کر رہا ہوں، حکومت مجھے سیکیورٹی کی فراہمی سے مسلسل گریزاں ہے۔
عمران خان نے لکھا کہ وزیرآباد میں ایک مہلک قاتلانہ حملےکا شکار ہوچکا ہوں، پیشیوں کی صورت میں زندگی مسلسل خطرات کی زد میں ہے، میرے مؤقف کی حساسیت اور سنجیدگی کو سمجھا جائے۔
خط میں عمران خان نے بتایا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی پر راستوں کو کنٹینرز لگا کر بلاک کیا گیا، جان بوجھ کرعدم پیشی کےحالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اظہارِ یکجہتی کیلئے آنے والے لوگوں کو اشتعال دلوانے کیلئے پولیس اور رینجرز نے کارکنان اور قائدین پر آنسو گیس، لاٹھیوں کا بے دریغ استعمال کیا، اس بھی بدتر تو یہ کہ عدالتی کمپلیکس کی چھت پر تعینات پولیس اہلکاروں نے نہتے لوگوں پر پتھر برسائے، پولیس کی وحشت و سنگ باری کی ویڈیوز موجود ہیں۔
سربراہ پی ٹی آئی نے کہا کہ عدالت کے رستے میں پولیس نے میرے ساتھ چلنے والے شہریوں کو بلااشتعال تشدد کا نشانہ بنایا، مجھے رستے میں ہی احساس ہوگیا کہ میری گرفتاری نہیں بلکہ قتل مقصود تھا، میرے اس تاثر کو تقویت اس سے ملی کہ ہمارے وکلاء کو تو مار پیٹ کر باہر نکال دیا گیا مگر کم و بیش 20 نامعلوم افراد کمپلیکس میں موجود رہے، ان لوگوں نے ورڈیاں پہن رکھی تھیں نہ ہی کسی قسم کی کوئی شناخت ظاہر کررکھی تھی، یقینی طور پر انہیں میرا خون کرنے کیلئے وہاں کھڑا کیا گیا تھا مگر رب العزت نے میری حفاظت کی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ میں اسلام آباد کے رستے میں تھا جب پولیس نے ہائیکورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے میری رہائش گاہ پر دھاوا بولا، پولیس کے حملے کے وقت میری اہلیہ چند گھریلو ملازمین کے ہمراہ گھر میں اکیلی تھیں، میری اہلیہ مکمل طور پر گھر کی چاردیواری تک محدود اور غیرسیاسی خاتون ہیں، میری رہائش گاہ کا مرکزی دروازہ توڑنا اور پولیس کا میرے گھر پر یوں دھاوا بولنا چادر و چاردیواری کے تقدس کے اسلامی اصول کی بھی خلاف ورزی ہے۔
خط میں عمران خان نے استدعا کی کہ میری زندگی کو لاحق خطرات اور میری رہائش گاہ پر حملے کی روشنی میں ان واقعات کی جامع تحقیقات کا اہتمام کیجئے، سابق وزیراعظم اور وفاقِ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے قائد سے تو درکنار ایسا سلوک تو کبھی کسی سے بھی نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں افراتفری پھیلانے والے عناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا، اجلاس نے قرار دیا کہ پوری قوم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کا جتھہ ہے جس کے تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں لہذا فیصلہ کیاگیا کہ قانون کے مطابق اس ضمن میں کارروائی کی جائے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پی ایم ہاؤس میں تقریباً چھ گھنٹہ جاری رہنے والے اجلاس میں سیاسی و امن و امان کی صورتحال اور انتخابات کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔
اتحادیوں کے اجلاس میں مقبول صدیقی، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، چوہدری سالک حسین سمیت خالد مگسی، اعظم نذیر تارڑ اور ایاز صادق بھی شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق حساس اداروں کے سربراہان بھی مشاورتی عمل کا حصہ بنے جب کہ سی سی پی او لاہور نے بھی اجلاس میں شرکاء کو تفصیلی بریفنگ دی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس نے عدالتی احکامات پرعمل درآمد کرنے والی پولیس، رینجرز پرعمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ پیٹرول بم، ڈنڈوں، غلیلوں، اسلحہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک اور ناقابل قبول ہے۔
اجلاس نے 22 مارچ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا جس میں ریاستی عمل داری کو یقینی بنانے کے لئے اہم فیصلے ہوں گے۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس نے سوشل میڈیا اوربیرون ملک اداروں بالخصوص آرمی چیف کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی شدید مذمت کی اورکہا کہ لسبیلہ کے شہداء کے خلاف غلیظ مہم چلانے والے عناصر بیرون ملک بیٹھ کر سوشل میڈیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں مظاہروں کے ذریعے یہ مذموم مہم چلا رہے ہیں۔
اجلاس نے ان تمام عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا اور قرار دیا کہ کسی بھی معاشرے میں یہ رویہ قابل قبول نہیں ہوتا اور یہ آزادی اظہار نہیں، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک سے ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے کا تاثرمزید گہرا ہورہا ہے، ایک ملک میں انصاف کے دو معیار قبول نہیں۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ اجلاس نے جوڈیشل کمپلیکس پر حملے میں پولیس افسران اور اہلکاروں کو زخمی کرنے، املاک کی توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
اجلاس نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اورپی ٹی آئی وکیل خواجہ طارق رحیم کی آڈیو لیک کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے مریم نوازشریف کے بارے میں گھٹیا گفتگو کی مذمت کی۔
سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اجلاس میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں، شرکاء نے رائے دی کہ عمران خان سے متعلق دو ٹوک پالیسی اپنائی جائے اور حکومتی رٹ کی عملداری کے لئے عمران خان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں شرکاء نے عدلیہ کے کردار پر نظر ثانی کو بھی ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی جانب سے جو سہولت عمران خان کے لئے ہے وہ عام آدمی کو بھی ملنی چاہئے، قانون سب کے لئے برابر ہے تو عمران خان اسے بالاتر کیوں ہیں۔
حکام نے لاہور اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان کی پرتشدد کارروائیوں پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ انتشار پھیلانے والے کارکن دیہاڑی پر بلائے گئے تھے، گرفتار افراد سے دوران تفتیش اہم انکشافات ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ملک میں افراتفری پھیلانے والے عناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے، شرپسندی سے باز نہ آنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے سکیورٹی اداروں کو فری ہینڈ دینے کا عندیہ ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما حماد اظہر کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر آج مجھے ضمانت ملنے کے باوجود گرفتار کرنے کا پورا بندوبست تھا لیکن میں بچ نکلا۔
پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے ٹویٹ میں لکھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر آج مجھے ضمانت ملنے کے باوجود گرفتار کرنے کا پورا بندوبست تھا۔ گیٹ کے دونوں اطراف پولیس کی بڑی تعداد میں نفری تھی۔ آنسو گیس کے شیل پھینکنے والا دستہ بھی جمع تھا۔ لاٹھی چارج اور باڈی آرمر والے اہلکار بھی تھے۔ اس لئے ہم دوسرے گیٹ سے نکل گئے اور لذیذ ناشتہ کیا۔
حماد اظہر نے ناشتہ میں کیا کھایا یہ بھی بذریعہ ٹویٹ بتایا کہ ناشتے میں اسلام آباد کے مشہور و معروف سری پائے کھائے اور لسی پی۔
تحریک انصاف کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ کمنٹ میں سب لوگ ناشتے کا بہت پوچھ رہیں ہیں اس لئے وضاحت دینا ضروری سمجھا۔
گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی کا کہنا ہے کہ شروع سے کوشش تھی ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہوں۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غلام علی نے کہا کہ ہم منصفانہ، غیر جانبدار انتخابات کرانے کے خواہشمند ہیں، شروع سے ہی کوشش ہے پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہوں۔
گورنر کے پی نے کہا کہ صوبائی حکومت کا لیٹر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے، الیکش کمیشن کے ساتھ تفصیلی مشاورت ہوئی، ادارے نے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو بھی بلایا، البتہ جلد الیکشن کمیشن جا رہا ہوں تاکہ انتخابات کا صحیح فیصلہ ہو۔
غلام علی کا کہنا تھا کہ ایف آر اور قبائلی اضلاع کے لوگ احتجاج پر ہیں، آج بھی اسلام آباد میں احتجاج ہو رہا ہے، صوبے کی نصف آبادی بغاوت پر ہے، لہٰذا سیاسی جماعتیں اس کا حل نکالیں۔
نگراں وزیراعلیٰ کے استعفے سے متعلق گورنر کے پی نے کہا کہ میڈیا سے سنا وزیر اعلیٰ کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے لیکن ایسی کوئی بات نہیں، آج بھی اعظم خان سے مکمل رابطے میں ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہا اعظم خان مکمل با اختیار ہیں، اب بھی ان کے پاس جانے کے لئے تیار ہوں، وزیر اعلیٰ کا فون آیا تھا کہ یہ کیا خبریں چل رہی ہیں، زیراعلیٰ نے کہا میں گورنر ہاؤس آجاؤں تاکہ لوگوں کے منہ بند ہوجائیں۔
پولیس کے مطابق تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں میں مالی معاونت کرنے والے 88 افراد ہیں۔
لاہور پولیس کی جانب سے تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں میں مالی معاونت کرنے والوں کا ریکارڈ اکٹھا کرلیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو فنانس کرنے والوں میں 88 افراد شامل ہیں، جن میں سے 22 افرد کا تعلق سٹی ڈویژن سے اور کینٹ ڈویژن میں 16 فنانسر ہیں۔
پولیس کے مطابق سول لائن میں 19، اقبال ٹاؤن ڈویژن میں 12 افراد پی ٹی آئی کی مالی معاونت کرتے ہیں، جب کہ ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں فنانس کرنے والے 17 افراد کی نشاندہی کی گئی ہے۔
پولیس کا الزام ہے کہ فنڈز ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کو رہائش و کھانا دینے پر صرف ہوتے ہیں، مالی معاونت کرنے والوں کے کوائف اکٹھے کرلیے ہیں، ان افراد کی گرفتاریوں کیلئے کریک ڈاؤن جلد شروع کیا جائے گا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے سرفہرست 10 لوگوں میں اور کارکنان کو جمع کرنے والوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن منشا پرنس کا نام بھی شامل کرلیا گیا ہے۔
منشا پرنس نے اپنے بیان میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا اور میرے خاندان کا پی ٹی آئی سے دور کا بھی واسطہ نہیں، پولیس اپنی کارکردگی ثابت کرنے کیلئے مجھے تنگ کر رہی ہے۔
منشا پرنس کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت کو روا رکھی جانے والی پولیس گردی سے آگاہ کر دیا ہے، آئی جی پنجاب اور سی سی پی او جعلی فہرست بنانیوالے افسران کا احتساب کریں۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پولیس کے علاوہ سادہ لباس میں نامعلوم افراد بھی موجود تھے۔
کارکنوں سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ مجھےعلم تھا کہ قتل یا گرفتار ہو جاؤں گا لیکن اس کے باوجود بھی میں عدالت کے احترام میں پیشی کے لئے گیا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ فاشٹ حکومت نے جو کیا وہ تاریخ میں کسی کے ساتھ نہیں ہوا، حکمرانوں نےپوری موٹروے بند کردی، اسلام آبادتک راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، ٹول پلازہ سے جوڈیشل کمپلیکس تک پہنچنے میں ساڑھے 4 گھنٹے لگے اور عدالت پہنچتے ہی ہم پر آنسو گیس کی شیلنگ چروع ہوگئی۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ 40 منٹ تک جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑا رہا، جوڈیشل کمپلیکس کے اندر گیا تو پولیس بھری ہوئی تھی اور ان کے علاوہ سادہ کپڑوں میں نامعلوم لوگ بھی تھے، چیف جسٹس میری پیشی پر جوڈیشل کمپلیکس کی ویڈیو دیکھیں اور اس معاملے پر نوٹس لیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، حکمران میری مقبولیت سے ڈرے ہوئے ہیں، یہ مجھے دینی انتہا پسندی کے نام پر قتل کرنا چاہتے ہیں، میری زندگی کو خطرہ ہے، تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔
یہ مجھے دینی انتہا پسندی کے نام پر قتل کرنا چاہتے ہیں
اپنے کیسز پر عمران خان نے کہا کہ مجھ پر اب تک 100 کیسز ہو چکے ہیں، ایسا کیا کیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں، مجھ پر بنائے گئے کیسز میں سے ایک بھی درست نہیں، جب کہ انہیں معلوم ہے میں نے کبھی قانون نہیں توڑا۔
انہوں ںے کہا کہ پی ٹی آئی کو اور فوج کو آمنا سامنا کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، پی ڈی ایم کی پوری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی اور فوج کو لڑوا دیا جائے، یہ لوگ الیکشن تو جیت نہیں سکتے تو چاہتے ہیں پی ٹی آئی کو ختم کردیں اور یہ ممکن نہیں تو انہیں کچھ تو کرنا ہے۔ تو یہ چاہتے ہیں فوج سے انہیں لڑادو اور فوج کو تحریک انصاف کے خلاف کردو۔
فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے
عمران خان نے واضح کیا کہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے مجھے اس ملک سے بوریا بستر لے کر باہر نہیں بھاگنا مجھے یہیں مرنا ہے، ج
نگراں وزیراعلیٰ پنجاب پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ محسن نقوی گھٹیا آدمی ہے، اس کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، یہ آج ارب پتی بن چکا ہے، یہ لوگ الیکشن کروانے نہیں آئے۔
یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں مینار پاکستان پر جلسہ نہ ہو
پارٹی رہنماؤں کے خلاف مقدمات پر انہوں نے کہا کہ جمشید چیمہ اور مسرت چیمہ کے گھر رات 3 بجے چھاپا مارا گیا، جمشید اقبال چیمہ کے گھر سے پولیس نے چوری کی، ان لوگوں کی وجہ سے پولیس بھی بدنام ہو رہی ہے، حسان نیازی کو ضمانت منظور ہونے کے بعد اٹھا لیا گیا اور علی امین پر چیک پوسٹ پر گولیاں چلائی گئیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں مینار پاکستان پر جلسہ نہ ہو، جلسہ ہوا تو پتا لگ جائے گا قوم کہاں کھڑی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ٹویٹر پر اپنی پوسٹ کی گئی ویڈیو چند منٹوں بعد ہی ڈیلیٹ کردی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شخص ہمارے ورکرز کو اشتعال دلا رہا ہے اور بے نقاب ہو رہا ہے، میں کارکنان سے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی اشتعال انگیزی کی کوشش ہو آپ پرامن رہیں، ہم نے آئین کے دائرے میں پرامن احتجاج کرنا ہے، ورنہ ان فاشسٹ لوگوں کو مزید تشدد کا موقع ملے گا۔
عمران خان نے چند منٹوں بعد ہی اپنی پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا، تاہم ان کی اس ٹویٹ کو تقریباً 45 ہزار لوگ دیکھ چکے تھے۔
عمران خان کی ڈیلیٹ کردہ ٹویٹ کے جواب میں مسلم لیگ ن کی چیف آگنائزر مریم نواز نے کہا کہ اب اس دہشت گرد کو پتہ چل گیا ہے کہ اس کی دہشت گردی پر قانون حرکت میں آئے گا تو اب اکسانا یاد آ گیا۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ ریاست پر حملہ کرنے، درجنوں پولیس والوں کے سر پھاڑنے، پولیس کی گاڑیاں جلانے، پٹرول بم چلانے اور ضمانت پارک سے تربیت یافتہ دہشت گرد برآمد ہونے کے بعد اس کو امن کا بھاشن یاد آ گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی چھپانے کے کیس میں نااہلی کی درخواست پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ اور عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ابوزر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست کے قابل سماعت سے متعلق عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کا سوال ہے۔
سلمان اکرم راجا نے مؤقف پیش کیا کہ عدالت نے آخری سماعت پر مزید دستاویزات جمع کرنے کیلئے مہلت دی تھی، نوٹسسز جاری ہوتے ہیں تو پھر فریق کو جواب جمع کرنا ہوتا ہے، فریق کی جانب سے مختلف اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے یا میرٹ پر دلائل دینے ہیں یہ آپ پر ہے، ہم ابھی نہیں کہہ رہے کہ آپ میرٹ پردلائل دیں، اگر میرٹ پر جائیں تو یہ دو منٹ کا کیس ہے ویسے۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف پیش کیا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو میانوالی سے ڈی سیٹ کیا گیا تھا۔
عدالت نے وکیل درخواستگزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ان کو ابھی بھی اس ایک حلقے کے نمائندہ کے طور پرمانتے ہیں، عمران خان اس وقت تومیانوالی کی نشست پر سے ممبر قومی اسمبلی ہی نہیں، اگر ایک شخص رکن منتخب ہوتا اور وہ حلف نہیں لیتا تب کیاہوگا؟، کیا حلف نہ لینے کی صورت میں عمران خان پبلک آفس ہولڈر ہوں گے۔
وکیل درخواست گزار نے بھارتی سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواستگزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پہلے اس کیس کے قابل سماعت ہونے کو دیکھیں گے، قابل سماعت ہوا تو ہی آگے چلیں گے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ قابل سماعت کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کس عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر ہیں، وہ جب الیکشن لڑے کوئی ٹریبونل جا سکتا تھا، اس کیس میں تو کوئی ٹریبونل میں نہیں گیا، عمران خان ابھی بھی الیکشن لڑ کر جیتے، کیا کوئی کرپٹ پریکٹس میں ان کیخلاف ٹریبونل گیا، اس وقت انہوں نے نئی نشست پرحلف بھی نہیں لیا، کیا محض نشستوں پر کامیاب ہونا پبلک آفس ہولڈر بنا دیتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پارٹی سربراہ سے متعلق پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو الیکشن جیت لینے پر پبلک آفس ہولڈر کہا جا سکتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس نکتے پر آپ نے مطمئن کرنا ہے، یہ کیس اصل میں تھا کیا۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں میں اُس کیس میں بھی وکیل تھا، میں اُس کیس میں دراصل نوازشریف کا وکیل تھا، ہم تو وکیل ہیں، آفیسر آف کورٹ ہیں کسی پارٹی سے تعلق نہیں، اس کیس میں پہلے سے 62 ون ایف کا فیصلہ موجود تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر قومی اسمبلی آج تحلیل ہو جاتی ہے تو پھر اس پٹیشن کا کیا بنے گا، فیصل واوڈا کا کیس بھی غلط بیان حلفی کی بنیاد پر تھا۔
وکیل نے جواب دیا کہ فیصل واوڈا کیس میں حالات و واقعات مختلف تھے، انہوں نے سپریم کورٹ میں جاکرمعافی مانگ لی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مطلب اس کیس میں بھی اگر آکرمعافی مانگ لی جائے تو پھر، ایسے تو کوئی بھی آکر کہہ دے میں پہلے یہ ڈکلیئر نہیں کر سکا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ درخواست گزار کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ کارکنان پرامن رہیں ورنہ فاشسٹ لوگوں کو مزید تشدد کا موقع ملے گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ مجرموں کی اس حکومت نے ہمارے کارکنان کو جیلوں میں ڈالا ہے، ہم اس کے خلاف ناصرف عدالتوں میں جائیں گے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کریں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سے کہیں گے وہ اپنے مقامی منتخب نمائندوں اور سیاستدانوں سے رابطہ کریں اور انہیں پاکستان میں جاری فاشزم سے آگاہ کریں۔
عمران خان نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص ہمارے ورکرز کو اشتعال دلا رہا ہے اور بے نقاب ہو رہا ہے، میں کارکنان سے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی اشتعال انگیزی کی کوشش ہو آپ پرامن رہیں، ہم نے آئین کے دائرے میں پرامن احتجاج کرنا ہے، ورنہ ان فاشسٹ لوگوں کو مزید تشدد کا موقع ملے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جلد ہی بتاؤں گا کہ کس طرح میں موت کے جال میں تقریبا پھنس گیا تھا، بتاؤں گا جوڈیشل کمپلیکس میں میرے قتل کا کیا پلان تھا، اور کس طرح اللہ نے عین وقت پر میری زندگی بچائی۔
تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنماؤں اور کارکنوں کی مختلف شہریوں میں ضمانتیں منظور کرلی گئی ہیں جبکہ لاہور میں 102 کارکنوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات درج ہیں۔ عدالتوں میں رہنما اور کارکنان پیش ہوئے۔ جس کے بعد فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، اعظم سواتی، اسد عمر، زلفی بخاری، شہزاد وسیم ، راجہ خرم، علی نواز، مراد سعید کی ضمانتیں منظور ہوگئیں، جبکہ لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے تحریک انصاف کے 102 کارکنوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔
فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور اعظم سواتی کی حفاظتی ضمانت منظور
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور اعظم سواتی کی 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے پولیس کو شاہ محمود قریشی کی گرفتاری سے روکتے ہوئے ان کی 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
دوسری طرف لاہورہائیکورٹ میں جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے پولیس کو اعظم سواتی کو گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے سابق وفاقی وزیر کی 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کے خلاف تھانہ گولڑہ میں مقدمہ درج ہے ۔
اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، پولیس نے بے بنیاد مقدمہ درج کیا، شامل تفتیش ہوکر بے گناہی ثابت کرنا چاہتا ہوں۔
پی ٹی آئی رہنما نے عدالت سے استدعا کی کہ متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کیلئے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔
انتشار انگیز تقاریر اور سٹرک بلاک کرنے کے مقدمے میں لاہور کی سیشن عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کی عبوری ضمانت میں یکم اپریل تک توسیع کردی۔
سیشن کورٹ لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ پولیس نے عدالت کے روبرو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری شامل تفتیش نہیں ہوئے، عدالت نے دونوں رہنماؤں کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے سماعت یکم اپریل تک ملتوی کر دی۔
ریس کورس پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری سمیت دیگر کیخلاف مقدمہ درج کررکھا ہے۔
اسد عمر، زلفی بخاری، شہزاد وسیم ، راجہ خرم، علی نواز، مراد سعید کی ضمانت
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں اسد عمر ، شہزاد وسیم ، راجہ خرم،علی نواز اور مراد سعید کی جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں عبوری ضمانتیں منظور کرلیں
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس کی سماعت کی، وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے اسدعمر، راجہ خرم ،علی نواز مراد سعید، شہزاد وسیم اور زلفی بخاری کی بھی عبوری ضمانتیں منظور کرلیں۔
مزید پڑھیں: توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کا کیس: سینیٹر شہزاد وسیم اور راجہ خرم نواز شامل تفتیش
جج نے ریمارکس دیے کہ 2 ہفتوں تک کی عبوری ضمانتیں اس لیے دے رہے ہیں تاکہ شیلنگ سے بچا جائے اور روزے سکون سے رکھے جائیں، اس بار تو پولیس نے آپ پر ڈکیتی کی دفعہ بھی لگا دی ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ نئے مقدمات کی نئی ضمانتیں دائر کر رہے ہیں۔
جج راجہ جواد نے کہا کہ پرانی سے تو نپٹ لینے دیں پھر نئی کو بھی دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کا مقدمہ عمران خان کے خلاف درج کرنے کا فیصلہ
عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے جبکہ زلفی بخاری کی تھانہ گولڑہ میں درج مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کیں۔
علی امین گنڈہ پور اور مسرت جمشید کی ضمانت
پولیس چیک پوسٹ پر ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کے مقدمہ میں پشاور ہائی کورٹ ڈی آئی خان بینچ نے تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈہ پور کی 8 اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
پی ٹی آئی رہنما علی آمین کے خلاف جھنگ، بھکر شاہراہ پر قائم داجل چیک پوسٹ پر ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس پر انھوں نے پشاور ہائی کورٹ ڈی آئی خان بینچ سے رجوع کیا ہے۔ مقدمے میں عدالت نے علی آمین گنڈا پور کو 8 اپریل تک حفاظتی ضمانت دیدی۔
لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور جمشید چیمہ کی عبوری ضمانت چار اپریل تک منظور کرلی ہے۔
توڑ پھوڑ اور کارسرکار میں مداخلت میں درج 3 مقدمات میں انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید اور جمشید چیمہ کی عبوری ضمانت 4 اپریل تک منظور کر لی، عدالت نے دونوں کو شامل تفتیش ہونے کا حکم بھی دیا۔ تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ اور جمشید چیمہ نے گرفتاری کے خوف سے عبوری ضمانت کروائی۔
دوسری طرف کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے تحریک انصاف کے گرفتار رکن سندھ اسمبلی ارسلان تاج کی دونوں درخواستوں پر سماعت 22 تک ملتوی کردی
عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے مقدمات میں گرفتار رکن سندھ اسمبلی ارسلان تاج نے دوسرے مقدمے میں بھی درخواست ضمانت دائر کردی، عدالت نے دونوں درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے تفتیشی افسر اور پراسیکوٹر سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی۔ دوسری جانب رکن سندھ اسمبلی راجا اظہر نے بھی ٹرائل کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے رجوع کرلیا۔
راولپنڈی اور اٹک سے گرفتار کارکنان کی فوری رہائی کا حکم
عدالت نے راولپنڈی اور اٹک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران گرفتار اور نظر بند کئے گئے کارکنوں کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے جج چوہدری عبدالعزیز نے راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران گرفتار اور نظر بند کئے گئے کارکنوں کی فوری رہائی کا حکم دے دیا ہے، راولپنڈی بنچ نے عامر کیانی کی پٹیشن پر حکم جاری کیا ہے۔
عامر کیانی کے وکیل رؤف صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ راولپنڈی سے 57 اور اٹک سے 4 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، تحریک انصاف کے کارکنوں کو تین ایم پی او کے تحت اٹک اور راولپنڈی جیل میں نظربند کیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اللہ اس ملک پر رحم کرے ہم سیاسی مستی میں ہر چیز کو تباہ کر رہے ہیں، جو نئی حکومت آتی ہے وہ پچھلوں پر چڑھ دوڑتی ہے، جب سے ہوش سنبھالا ہے اس ملک میں یہی کچھ دیکھتے آرہے ہیں۔
عدالت نے وکلاء دلائل سننے کے بعد راولپنڈی اور اٹک کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری تین ایم پی او کے تحت نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا، اور کارکنان کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد پولیس کی پی ٹی آئی کے 198 کارکنان کی گرفتاری کی تصدیق
اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے
ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے مطابق عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے موقع پر توڑ پھوڑ کے واقعات پر مزید گرفتاریوں کے لئے پولیس ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے
پولیس کے مطابق واقعے میں ملوث تمام ملزمان کی کیمروں کی مدد سے شناخت کا عمل بھی جاری ہے، اب تک 198 ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے پرتشدد واقعات پر تھانہ سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج کئے ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
پولیس کے مطابق مظاہروں میں شامل شرپسندوں کے پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ سے پولیس کے 58 افسران و جوان زخمی ہوئے۔ جلاؤ گھیراؤ میں پولیس کی 04 گاڑیاں جل گئیں، 09 گاڑیاں توڑ دی گئیں جبکہ 25 موٹر سائیکل جلائی گئیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق پرتشدد کارروائیوں میں ملوث تمام شرپسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، پولیس پرحملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان گرفتار
تحریک انصاف کے 102 کارکنان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے زمان پارک ہنگامہ آرائی کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف کے 102 کارکنوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے زمان پارک لاہور میں ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس پر تشدد، پولیس گاڑیوں کو جلانے اور کار سرکار میں مداخلت سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے پی ٹی آٸی کے 102 کارکنوں کو شناخت پریڈ کے لئے کارکنوں کو جیل بھجوایا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو 3 اپریل کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
دوران سماعت پراسیکیوشن نے استدعا کی کہ ملزمان سے اسلحہ، پیٹرول بم اور ڈنڈے برآمد کیے گیے لہٰذا عدالت ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے۔
وکیل ملزمان نے کہا کہ ملزمان کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، مقدمے میں شامل دفعات دیکھیں اور یہ ثابت ہی نہیں ہوتا، کسی بھی مضروب کا میڈیکل موجود نہیں ہے، میرا ملزم دل کا مریض ہے اور کارڈیالوجی میں چیک اَپ کے لئے گیا تھا، میرے ملزم کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔
ملزمان کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت میرے ملزم کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دے اور ایف آئی آر میں درج مقدمے کے ملزمان کو ڈسچارج کیا جائے۔
یاد رہے کہ ملزمان کے خلاف تھانہ ریس کورس میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔
اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور میں پولیس نے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا، رہنماؤں اور کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔
اسلام آباد میں پولیس نے عمران خان کے چیف آف اسٹاف سینیٹر شبلی فراز کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے گھر تلاشی لی۔
پولیس نے سینیٹر شبلی فراز کے اہلخانہ اور ملازمین کو ہراساں کیا، چھاپے کے وقت پی ٹی آئی رہنما اسلام آباد میں موجود نہیں تھے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹر شبلی فراز کے گھر پولیس کے چھاپے پر اظہار تشویش کیا ہے۔
مزید پڑھیں: توڑ پھوڑ کیس: ’ضمانتیں دے رہے ہیں تاکہ شیلنگ سے بچیں اور روزے سکون سے رکھیں‘
صادق سنجرانی نے کہا کہ پولیس نے چادر اور چار دیواری کا احترام کرے، شبلی فراز رکن سینیٹ ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے ہدایت کی ہے کہ آئی جی اسلام آباد فوری طور پر اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ دیں۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی میں احتجاج کے دوران گرفتار ونظر بند کارکنوں کی فوری رہائی کا حکم
اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کے سابق ایم این اے راجہ خرم نواز کے گھر پر بھی چھاپہ مارا، چھاپے کے وقت راجہ خرم گھر پر موجود نہیں تھے۔
راجہ خرم نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے ان کے گھر میں کارروائی کے دوران توڑ پھوڑ بھی کی، ان اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
تحریک انصاف اسلام آباد ریجن کے صدر علی نواز اعوان اور یوتھ کوآرڈینٹر چوہدری اظہر جاوید گجر کے گھروں پر بھی پولیس نے چھاپے مارے،علی نوازا عوان بھی اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔
پولیس نے پی ٹی آئی حلقہ 53 کے کوآرڈی نیٹر کے گھر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر لیا۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، پولیس پرحملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان گرفتار
شہزاد ٹاؤن میں بھی پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں میں چھاپے مارے گئے۔
پی ٹی آئی یوتھ ونگ اسلام آباد ریجن کے صدر عبدالقدوس خان سواتی کے گھر پربھی پولیس کا چھاپہ مارا گیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما راجہ شاہد سمیت مزید 8 کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
مزید پڑھیں: دفعہ 144کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی قیادت کیخلاف ایک اور مقدمہ درج
ترجمان پولیس کے مطابق گزشتہ روز ہنگامہ آرائی کرنے والے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے، تمام تھانوں کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر تھوڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو گرفتار کرنے احکامات جاری کیے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے مینار پاکستان میں جلسے کے اعلان کے بعد پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔
لاہور کے علاقے ڈیفنس میں پولیس نے پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود کے گھر چھاپہ مارا۔
ذرائع کے مطابق شفقت محمود روپوش ہونے کی وجہ سے گرفتاری سے بچ گئے۔
پولیس نے تحریک انصاف کے رہنما ملک عثمان حمزہ کے گھر پر چھاپہ مارا۔
ملک عثمان حمزہ کا کہنا ہے کہ کارکنان اوچھے ہتھکنڈوں سے گھبرانے والے نہیں، اپنے قائد عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں، شہباز سرکار عمران خان سے سیاسی طور پر خوفزدہ ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما ملک ظہیر عباس کھوکھر کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا لیکن وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔
پولیس کارروائی کے ردعمل میں ملک ظہیرعباس کا کہنا ہے کہ گھروں پر چھاپوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما سلمان شعیب کے گھر پر بھی پولیس نے چھاپہ مارا اور گھر کا پچھلا دروازہ توڑ دیا۔ پولیس نے میاں سلمان شعیب کے بہنوئی کو گرفتار کر لیا۔
میاں اسلم اقبال کے ڈیرہ پر بھی پولیس نے چھاپہ مارا۔ اس کے علاوہ میاں افضل اقبال اور میاں امجد اقبال کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔
رہنما پی ٹی آئی چوہدری عمر طالب کے گھر بھی پولیس پہنچی، ان کے بھائی عميرطالب اور ملازم حافظ سليم کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کی جانب سے متحرک رہنماؤں اور کارکنوں کی فہرستیں تھانوں میں پہنچا دی گئیں۔ فہرستوں میں نامزد رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی ہے۔
پولیس کی جانب سے 84 افراد کے کوائف تھانوں میں مہیا کیے گئے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر، محمود الرشید، شفقت محمود اور شاہ محمود کے نام بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سابق وفاقی وزیر اور رہنما تحریک انصاف شبلی فراز کو پولیس نے عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے بعد حراست میں لے لیا تھا۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شبلی فراز کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا ہے، جس پر جج نے پی ٹی آئی رہنما کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالتی حکم پر شبلی فراز کو عدالت میں پیش کیا گیا، شبلی فراز نے عدالت میں بیان دیا کہ مجھے ایس پی نے پکڑا اور گالیاں دیں۔
عدالت نے ڈی آئی جی کو بھی کمرہ عدالت میں طلب کیا، ایف سی کے زخمی اہلکار بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت میں پیش کئے جانے کے بعد شبلی فراز کو پولیس کی جانب سے چھوڑ دیا گیا تھا۔
دوسری طرف اسلام آباد پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام تھانوں کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو گرفتار کرنے احکامات جاری کیے۔
اسلام آباد پولیس ترجمان کے مطابق ہنگامہ آرائی کرنے والے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے، اسلام آباد پولیس قانون کی عملداری پر یقین رکھتی ہے۔
عدالت نے راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران گرفتار اور نظر بند کئے گئے کارکنوں کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے جج چوہدری عبدالعزیز نے راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران گرفتار اور نظر بند کئے گئے کارکنوں کی فوری رہائی کا حکم دے دیا ہے، راولپنڈی بنچ نے عامر کیانی کی پٹیشن پر حکم جاری کیا ہے۔
عامر کیانی کے وکیل رؤف صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ راولپنڈی سے 57 اور اٹک سے 4 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، تحریک انصاف کے کارکنوں کو تین ایم پی او کے تحت اٹک اور راولپنڈی جیل میں نظربند کیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اللہ اس ملک پر رحم کرے ہم سیاسی مستی میں ہر چیز کو تباہ کر رہے ہیں، جو نئی حکومت آتی ہے وہ پچھلوں پر چڑھ دوڑتی ہے، جب سے ہوش سنبھالا ہے اس ملک میں یہی کچھ دیکھتے آرہے ہیں۔
عدالت نے وکلاء دلائل سننے کے بعد راولپنڈی اور اٹک کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری تین ایم پی او کے تحت نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا، اور کارکنان کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
راولپنڈی پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
مقدمے میں غلام سرور خان، فیاض الحسن چوہان، واثق قیوم، عمر تنویر اور راجہ بشارت کو نامزد کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
اس کے علاوہ مقدمے میں علی امین گنڈا پور اور سیمبایہ طاہر سمیت 200 کارکنان شامل ہیں۔
مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ موٹروے ٹول پلازہ پر پی ٹی آئی رہنما اور کارکن جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، پولیس پرحملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان گرفتار
مقدمہ میں غلام سرورخان،فیاض چوہان،واثق قیوم،عمرتنویر،راجابشارت شامل اسلام آباد:مقدمہ میں علی امین گنڈاپور،سیمبایہ طاہرسمیت200 کارکنان شامل
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہمارے اداروں میں انسانیت ختم ہو گئی ہے، آپ نے پالیسی تبدیل نہ کی تو اسکی قیمت چکانی پڑے گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم کے بیان پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کے بیان کا مقصد عوام اور فوج میں فاصلے پیدا کرنا ہے، اور اس کا مقصد یہ پی ڈی ایم اس آڑ میں لوٹ مار جاری رکھ سکیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی موجودہ آرمی چیف کیلئے نیک خواہشات رکھتی ہے، ہم چاہتے ہیں چیف الیکشن کروانے میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔
اس سے قبل کاغذات اسکروٹنی کے بعد جہلم میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور لاہور میں کارکنان کی گرفتاریوں کی مذمت کرتا ہوں، پولیس کم عمر بچوں کو بھی اٹھا لیا، کچھ انسانیت اور اخلاق کے تقاضے ہوتے ہیں، لیکن ہمارے اداروں میں انسانیت ہی ختم ہو گئی ہے۔
آرمی چیف کے خلاف عمران خان کی ایما پر گھناؤنی مہم قابل مذمت ہے، وزیراعظم
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارے پر روز نئے پرچے درج ہوتے ہیں، عمران خان پر اب تک 96 مقدمات درج ہوچکے ہیں، اوچھے ہتھکنڈوں سے ہماری تحریک پر اثر نہیں پڑے گا، آپ نے پالیسی تبدیل نہ کی تو اسکی قیمت چکانی پڑے گی، مطالبہ کرتا ہوں اپنی پالیسیز کو تبدیل کریں پاکستان کو بحران سے نکالنے کا واحد حل الیکشن ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ خیبر پختون خواہ کے گورنر نے سپریم کورٹ کے الیکشن کروانے کے احکامات کو مذاق بنایا ہوا ہے، پنجاب میں جو حالات ہیں الیکشن کمیشن کہتا ہے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، یہاں کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، واحد امید چیف جسٹس پاکستان ہیں، دیکھتے ہیں وہ کیا نوٹس لیتے ہیں۔
نیب نے فارن فنڈنگ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو آج کو طلب کرلیا۔
نیب نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس میں طلب کرلیا ہے اور نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹس کے مطابق نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو فارن فنڈنگ کیس میں آج 21 مارچ کو طلب کیا ہے۔
نیب ٹیم کی کیس میں نوٹس کی تعمیل کرانے زمان پارک پہنچی، جہاں نیب کا نوٹس اویس نیازی نے وصول کیا اور ٹیم نوٹس کی تعمیل کے بعد زمان پارک سے روانہ ہوگئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں نیب راولپنڈی عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف تحقیقات کر رہا ہے، اور دونوں کو کل نیب میں طلب کیا گیا ہے، جس کے لئے نیب کی 2 رکنی ٹیم نوٹس لے کر عمران خان کے گھر زمان پارک پہنچی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب ٹیم کی جانب سے عمران خان سے رابطہ کیا گیا، جس کے بعد عمران خان کے سیکیورٹی اسٹاف نے ٹیم کو اندر جانے کی اجازت دے دی، اور گھر کے اندر نوٹس اویس نیازی نے وصول کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے بھانجے اور رہنما پی ٹی آئی حسان نیازی کا میڈیکل کرانے اور انہیں اگلے 24 گھنٹوں میں متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عمر فاروق نے حسان نیازی کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت، اس دوران آئی جی آفس کے لا آفیسر اور ایس ایچ او عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کس کیس میں حسان نیازی کو اٹھایا ہے؟ پولیس نے ایف آئی آر کی کاپی عدالت میں پیش کی جس پر حسان نیازی کے وکیل فیصل چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ ایف آئی آر کا متن ہی بتاتا ہےکہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
چیف جسٹس نے فیصل چوہدری کو جواب دیا کہ آپ کی درخواست حبس بے جا کےخلاف تھی، لہٰذا قاعدے قانون کے مطابق ہی چلتے ہیں۔
فاضل جج نے سوال کیا کہ کیا حسان نیازی کو کسی عدالت پیش کیا گیا؟ ریمانڈ کے لئے پیش کریں گے تو وہاں دفاع میں بات کرلیں، البتہ حسان نیازی پر کوئی تشدد نہیں ہونا چاہئے اور تفتیش قانون کے مطابق ہونی چاہئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زاکر جعفر کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کیا زاکر جعفر کو کہتی کہ جو کرنا ہےکرلو صبح گرفتار کریں گے، ملزم ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ حقوق چھینے جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے حکام کو حسان نیازی کی وکلا ٹیم، اہلخانہ سے ملاقات کرانے جب کہ ملزم کا میڈیکل کراکر اسے اگلے 24 گھنٹوں میں متعلقہ کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پولیس ناکے پر مزاحمت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے مطابق عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے موقع پر توڑ پھوڑ کے واقعات پر مزید گرفتاریوں کے لئے پولیس ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے
پولیس کے مطابق واقعے میں ملوث تمام ملزمان کی کیمروں کی مدد سے شناخت کا عمل بھی جاری ہے، اب تک 198 ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے پرتشدد واقعات پر تھانہ سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج کئے ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
پولیس کے مطابق مظاہروں میں شامل شرپسندوں کے پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ سے پولیس کے 58 افسران و جوان زخمی ہوئے۔ جلاؤ گھیراؤ میں پولیس کی 04 گاڑیاں جل گئیں، 09 گاڑیاں توڑ دی گئیں جبکہ 25 موٹر سائیکل جلائی گئیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق پرتشدد کارروائیوں میں ملوث تمام شرپسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، پولیس پرحملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان گرفتار
نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ اب اگر کسی نے کوئی حرکت کی تو ایسا جواب دیں گے کہ پتا چل جائے گا، پولیس کی طرف بڑھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کا کہنا تھا کہ صوبے میں ایک کروڑ 58 لاکھ خاندانوں کو مفت آٹا دیا جائے گا، اور 4 کروڑ 74 لاکھ آٹے کے تھیلے تقسیم کیے جائیں گے، عوام سے اپیل ہے کہ ترتیب اور صبر سے آٹا وصول کریں۔
لاہور کی کشیدہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت اور ریاست کی رٹ بہت ضروری ہے، پولیس نے زمان پارک کو کلیئر کرا کے ٹریفک رواں کی، نہیں چاہتا کہ کوئی ہنگامہ ہو،پولیس کو واپس بلایا۔
پنجاب حکومت کا پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ماحول خراب نہ ہو، پولیس اہلکاروں سے بہت دنوں سے صبر کا کہہ رہا تھا، لیکن پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پولیس پر تشدد کیا گیا، پولیس کی گاڑی کو آگ لگائی گئی، اس سیاسی جماعت کے ساتھ دہشتگردی میں ملوث بہت سے لوگ ہیں، سیاسی جماعت اس طرح کی کارروائی نہیں کرتی۔
نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ 7 دن میں ہونے والی دہشتگردی کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنا رہے ہیں، جس کا نوٹی فکیشن آج جاری ہوجائے گا، الیکشن کمیشن کو بھی خط لکھیں گے، سیاسی عمل سے ہٹ کر جو کچھ ہوا اس کی تفصیل الیکشن کمیشن کو بھجوارہے ہیں۔
اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے
نگران وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کے دوران پولیس پرتشدد کی ویڈیوبھی دکھائی، اور کہا کہ اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس مار کھاتی رہے، ہم نے ہر صورت میں حکومت کی رٹ قائم کرنی ہے، رٹ چیلنج کر کے پولیس کی طرف بڑھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا، پولیس پر اب تشدد ہوا تو سخت ترین جواب دیا جائے گا، اب اگر کسی نے کوئی حرکت کی تو ایسا جواب دیں گے کہ پتا چل جائے گا۔
محسن نقوی نے کہا کہ زمان پارک میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کو 5 لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے، کم زخمی اہلکاروں کو فی کس ایک لاکھ روپےدیئے جائیں گے۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی نگراں حکومت نے پولیس کو فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو مسلسل مارا جارہا ہے، اہلکاروں کو کہہ دیا کوئی انگلی اٹھائے تو جواب اسی طرح دینا ہے۔
پنجاب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران کو جلسے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کی نگراں حکومت نے عمران خان کو 22 مارچ کو جلسے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: دفعہ 144کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی قیادت کیخلاف ایک اور مقدمہ درج
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی، جلاؤ گھیراؤ ہوا تو جوابی کارروائی زمان پارک میں ہوگی۔
پنجاب حکومت پولیس پر تشدد کے باعث جلسے کو سیکیورٹی نہ دیے جانے پر غور کررہی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بھی صرف سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، پولیس پرحملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان گرفتار
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹانے کے لئے الیکشن کمیشن نوٹس کے خلاف درخواست لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے لئے مقرر کرلی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ کا 5 رکنی فل بینچ 21 مارچ کو درخواست پر سماعت کرے گا۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی درخواست خارج
5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس شاہد بلال حسن ہوں گے جبکہ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس شمس محمود مرزا، جسٹس شاہد کریم، جسٹس شہرام سرور چوہدری اور جسٹس جواد حسن بھی شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کے نوٹسز کو چلینج کیا ہے۔
مزید پڑھیں: پارٹی سربراہی کیس: عمران خان کو جواب جمع کرانے کی ہدایت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف اسلام آباد کی حد تک تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق نے عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل دیئے کہ ہمارے پاس عدالتوں کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ہے۔
دوران سماعت جوڈیشل کمپلیکس معاملے کا بھی ذکر ہوا تو چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں ہفتے کو بھی کچھ مناسب بات نہیں ہوئی، میں بھی غلطی کروں اور آپ بھی پھر کیا فرق رہ جائے گا۔
وکیل نے کہا کہ عمران خان کے خلاف 47 مقدمات اسلام آباد میں ہوگئے ہیں، پولیس نے کچھ ایف آئی آر چھپا کر رکھی ہوئی ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ شاید آپ کو معلوم نہیں اس کے بارے میں ایف آئی آر سیل نہیں ہوتی ہے، ایف آئی آر پبلک دستاویزات ہے وہ سیل نہیں ہوسکتی، پولیس تحقیقات کے لئے بلا لیتی ہے، میں اپنی حدود کی حد تک نوٹس کردیتا ہوں۔
عدالت نے فریقین کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس میں عمران خان کی پیشی کے موقع پرعدالتی آرڈرشیٹ گم ہونے کے بعد نئی آرڈر شیٹ تیار کرلی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو گاڑی سے حاضری لگوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس: عمران خان کی حاضری والی فائل غائب، وارنٹ منسوخی کے بعد سماعت 30 مارچ تک ملتوی
عدالت نے سابق وزیراعظم کو 30 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 18مارچ کی 3 دفعہ کی سماعتوں کا 3 صفحات پر مشتمل الگ الگ حکم نامہ جاری کیا ہے۔
مزید پڑھیں: جج کی ہدایت پر عمران خان کی دروازے پر ہی حاضری لگوالی گئی، واپس جانے کی اجازت
ایس پی سمیع ملک، عمران خان کے وکلاء خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر کے بیانات حکم نامے کا حصہ ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سماعت پر فوجداری کارروائی کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہوں گے، عدالت کو بتایا گیا گمشدہ آرڈر شیٹ کمپیوٹر میں محفوظ ہے، فائل گم ہونے کے تنازعے کے حل کے لئے فائل دوبارہ بنائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس: جوڈیشل کمپلیکس میں کون کون داخل ہوسکتا ہے، فہرست جاری
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ دن ساڑھے 3 بجےعدالت کو بتایا گیا عمران خان عدالت پہنچنے والے ہیں ، عدالت نے ہدایت کی کہ عمران خان 4 بجے پیش ہوں، وکلاء اور میڈیا کے باقی لوگوں نے بتایا عمران خان 4 بجے سے گیٹ کے باہر موجود ہیں۔
تحریری حکم نامے کے مطابق عدالت کو مطلع کیا گیا امن وامان کی صورتحال پتھراؤ کی وجہ سے عمران خان کا عدالت پہنچنا مشکل ہے، ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے گاڑی سے حاضری لگوانے کی ہدایت کی، شبلی فراز ، بیرسٹر گوہر اور ایس پی سمیع ملک کو دستخط کرانے بھیجا ، عدالت کو بعد میں بتایا گیا آرڈر شیٹ گم ہوگئی ہے، جس پربیرسٹر گوہر ، خواجہ حارث اور ایس پی نے بیان قلم بند کروایا۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس : عمران خان کا قافلہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر روک دیا گیا
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ میں خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطلی میں 24 مارچ تک توسیع کردی گئی۔
عمران خان کی جانب سے جونیئر وکیل عدالت میں پیش ہوئے اوربتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی وکیل لاہور سے آرہے ہیں، اس لیے کیس کی سماعت میں وقفہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں: چیئرمین پی ٹی آئی کو 20 مارچ تک متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم
عدالتی عملہ نے سماعت میں 11 بجے تک کے لئے وقفہ کردیا۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی آج رخصت پر ہیں، فریقین کے وکلا پیش نہ ہونے اور جج کی رخصتی کے باعث کیس کی سماعت بغیر کارروائی ملتوی کردی گئی، اور عدالت نے عمران خان کے وارنٹ معطلی میں 24 مارچ تک توسیع کر دی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 14 مارچ کو خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے 16 مارچ تک سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل
اس کے بعد 16 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے دلائل سننے کے بعد ایک بار پھر چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری معطل کیے تھے۔
عدالت نے عمران خان کو 20 مارچ تک متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں 13 مارچ کو سول جج ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ رانا مجاہد رحیم نے عمران خان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے عدم پیشی پر عمران خان کو 29 مارچ تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
عمران خان نے 20 اگست کو ایف نائن پارک میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر مبینہ تشدد کیخلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر دھمکی بھی دی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ، ”آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پرتشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا“۔
اس بیان کے بعد پیمرا نے 21 اگست کو عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ٹی وی چینلزکو ہدایات جاری کی تھیں۔ 6 صفحات پرمشتمل اعلامیے میں کہا گیا تھاکہ عمران کی براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینل ریکارڈڈ تقریر چلا سکتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں، اداروں اور افسران کے خلاف بیانات آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔
جاری کردہ نوٹیفکیشن میں عمران خان کے ایف نائن پارک میں خطاب کا حوالہ بھی شامل تھا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز کے گھر پر چھاپے کا نوٹس لے لیا۔
صادق سنجرانی نے پولیس چھاپے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر سے فوری رپورٹ طلب کرلی۔
چیئرمین سینیٹ نے پولیس چھاپے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس چادر اور چار دیواری کا احترام کرے۔
پی ٹی آئی کے 22 مارچ کو مینار پاکستان پر جلسے کے اعلان کے بعد گزشتہ روز پولیس نے کریک ڈاؤن کیا۔
اسلام آباد میں عمران خان کے چیف آف اسٹاف سینیٹر شبلی فراز اور علی نواز اعوان کے گھرچھاپہ مارا گیا، چھاپے کے وقت دونوں رہنما گھر پر موجود نہیں تھے۔
پی ٹی آئی کے رہنما راجہ شاہد سمیت مزید 8 کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہنگامہ آرائی کرنے والے کارکنان اوررہنماؤں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے ، تمام تھانوں کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر تھوڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو گرفتار کرنے احکامات جاری کیے، اب تک پی ٹی آئی کے 20 سے زیادہ کارکن گرفتار کرلیے گیے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کارکنوں اور بچوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے فاشزم کی مثال نہیں ملتی، پولیس پی ٹی آئی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارہی ہے۔ پولیس کارکنوں کو اغواء کرنے کے لئے بغیر وارنٹ چھاپے ماررہی ہے۔
عمران خان نے مزید کہاکہ کارکن موجود نہ ہو تو 10 سال تک کے بچوں کو اٹھایا جاتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کارکنوں اور بچوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔
دوسری جانب لاہور میں پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ کے گھر پر پولیس کی جانب سے چھاپہ مارا گیا۔
مسرت جمشید چیمہ نے سوشل میڈیا پر پولیس چھاپے کی ویڈیو شئیر کردی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ بغیر کسی وارنٹ کے خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے درجنوں پولیس والے ہمارے گھر کے باہر موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے گھر پر موجود اسٹاف کو پولیس بغیر کسی وارنٹ کے اغواء کر کے لے گئی ہے، کیمرے بھی توڑے اور سامان بھی ساتھ لے گئے ہیں، ایسے لگتا ہے بلوائیوں نے ہلہ بولا ہو۔