Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
بٹگرام کی چئیرلفٹ میں پھنسے افراد کو اندھیرے میں ریسکیو کرنے والے صاحب خان نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ ادارے انہیں آپریشن کی اجازت نہیں دے رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں کو ہی ہم پر اعتماد نہیں تھا۔
منگل، 22 اگست کو خیبرپختونخواہ کے ضلع بٹگرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے پھنسنے والی چئیر لفٹ سے لوگوں کو 15 گھنٹے بعد ریسکیو کیا گیا۔
دریا کے اوپر بلندی پر پھنسی ہوئی چئیر لفٹ میں نویں جماعت کے 8 طلباء سوار تھے، جن میں سے دن بھر کی مشقت کے بعد صرف ایک کو ہیلی کاپٹر کے زریعے بچایا گیا، لیکن اندھیرا ہوتے ہی مقامی افراد باقیوں کو ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اندھیرے میں کئے گئے اس ریسکیو آپریشن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خوب افواہیں پھیلائی گئیں اور کہا گیا کہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو بچایا اور یہ بھی کہ اداروں نے مقامیوں کو آپریشن سے روک دیا تھا۔
لیکن بعد میں بچوں کو بچانے والے ریسکیوئرز محمد علی اور الیاس نے ان باتوں کی تردید کی اور کہا کہ فوج کے ان کی بھرپور مدد کی اور تعاون بھی کیا۔
محمد علی اور الیاس کو آج نگراں وزیراعظم نے ان کی بہادری کیلئے اعزازات سے بھی نوازا۔
اس ریسکیو مشن میں صاحب کان کا بھی ایک اہم کردار تھا۔ جنہوں نے چارپائی نما ڈولی بنائی اور اس سے بچوں کو بچایا گیا۔
صاحب خان نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ’میرے پاس سارا سامان موجود تھا، میری ٹیم ساتھ تھی لیکن ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کا عمل جاری تھا تو مقامی لوگوں اور والدین کو ہم پر اعتماد نہیں تھا، اس لیے ہمیں اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے ہیلی ریسکیو آپریشن کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے میں اس دوران اپنے ریسکیو آپریشن کی تیاری کرتا گیا۔ میں نے چارپائی نما ریسکیو چیئر لفٹ بنائی اور وہاں بیٹھا رہا۔ اتنے میں ہوا کا رخ تبدیل ہوگیا اور اندھیرا بھی چھا گیا۔ لیکن لوگ ہم پر بھروسہ نہیں کر پا رہے تھے۔‘
جب لوگ مایوس ہونے لگے تو صاحب خان نے ایک بار پھر مقامی لوگوں سے درخواست کی کہ انہیں ایک موقع دیا جائے وہ دو گھنٹوں میں تمام افراد کو ریسکیو کر لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’مسلسل اصرار کے بعد ہمیں اجازت ملی، میں نے اپنی ریسکیو چیئر لفٹ کیبل پر باندھ دی اور چیئر لفٹ میں پھنسے سات افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے آگے بڑھتا گیا۔‘
صاحب خان کے مطابق تب تک مغرب کی اذانیں ہو چکی تھیں اور اندھیرا چھا گیا تھا۔ ہر سو اندھیرا تھا، میں اپنے ریسکیو چیئر لفٹ کو لیے اندھیرے میں آگے بڑھتا گیا۔ میرا ہاتھ اب بھی دکھ رہے ہیں، میری کوشش تھی کہ مجھ سے جتنا جلدی ہو سکے میں ان افراد تک پہنچ جاؤں۔’ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گلگت، شانگلہ، کوہستان، سکردو، بٹگرام اور دیگر علاقوں میں ریسکیو آپریشن سرانجام دے چکے تھے۔
صاحب خان کے مطابق یہ آپریشن اُن کے لیے مشکل تو تھا ہی لیکن ساتھ ہی مقامی لوگوں کا اعتماد بحال کرنا بھی ایک چیلنج تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے بٹگرام میں اپنا پہلا آپریشن ہر صورت کامیاب بنانا تھا۔ کیونکہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ جب ہیلی کاپٹر کے ذریعے نہیں ہو رہا تو یہ دو تین بندے معمولی رسی اور چار پائی نما ریسکیو چیئر لفٹ سے کیا کارنامہ انجام دے دیں گے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’میں نے متاثرہ چیئر لفٹ سے ایک بچے کو بحفاظت اپنی ریسکیو چیئر لفٹ میں بٹھایا اور واپس روانہ ہوگیا۔ یہ بچہ رو رہا تھا اور بار بار بے ہوش ہو رہا تھا اس لیے ہم نے اسے سب سے پہلے ریسکیو کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘ وہ جب ایک بچے کو ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوگئے تو لوگوں کو بھی ان پر یقین آگیا اور ان کا ساتھ دینے لگے۔
دوسری بار جب صاحب خان اور ان کی ٹیم چیئر لفٹ تک پہنچی تو انہوں نے مزید تین بچوں کو ریسکیو کر لیا اور اس کے بعد اسکول ٹیچر اور دیگر افراد کو ریسکیو کیا گیا۔
آپریشن کی کامیابی کے بعد وہاں موجود لوگوں نے صاحب خان کی ٹیم کو نقد انعام بھی دیا اور انہیں خوب سراہا۔
تحصیل الائی کے علاقے پاشتو بٹنگی میں چئیر لفٹ حادثے کے بعد خیبر پختونخوا میں چئیر لفٹ بند ہونے سے مقامی لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، متاثرہ علاقوں میں آج دوسرے روز بھی بچے اسکول جانے سے قاصر رہے۔
نگراں وزیراعظم انورالحق کاکڑ کی ہدایت پر ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی کی چار ڈولیاں بشام ٹو کنڈیرا، پاشتو بٹنگی ٹو جھنگڑی ، سبز دیہات ٹو بشام، سیر ولی ٹو شلئی سمیت ضلع کی 7 چئیر لفٹس سیل کردی گئیں۔
محکمہ بلدیات خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ پورے صوبے میں 64 ڈولی چئیر لفٹ موجود ہیں۔ تمام چئیر لفٹ مالکان سے ضلع انتظامیہ نے تمام ضروری دستاویزات حاصل کرنے تک چئیر لفٹ بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بٹگرام چیئر لفٹ واقعے کے بعد اپر اور لوئر دیر، سوات اور ہزاہ ڈویژن میں چیئر لفٹ چلانے کے لئے مقامی انتظامیہ سے این او سی لینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
شمالی علاقہ جات کے دور آفتادہ علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ چئیر لفٹ شہری آبادی اور بازار سے منسلک ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
بٹگرام حادثہ: بالاکوٹ میں مختلف مقامات پر نصب 9 چیئر لفٹس سیل
شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ چئیرلفٹس کے لئے این او سی کے حصول میں سرکاری دستاویز مکمل کرنے کے طریقہ کار میں معاونت کریں تاکہ متاثرہ علاقوں میں معمولات زندگی بحال ہوسکے۔
لوئر دیر ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تیمرگرہ میں دو مختلف مقامات پر چئیر لفٹ ملکان کو جلد از جلد این او سی لینے کی ہدایت جاری کی ہے۔
شمالی علاقہ جات میں متعدد چیئر لفٹس موجود ہیں یہاں کے مقامی افراد اشیا خور و نوش سمیت دیگر ضرورت کے سامان کے لئے شہریوں علاقوں تک نہ پہنچ سکے۔
متاثرہ علاقوں میں آج دوسرے روز بھی بچے اسکول جانے سے قاصر رہے، تحصیل چیئرمین الائی مفتی غلام اللہ کا کہنا ہے کہ ڈولیاں سیل کرنے سے نظام زندگی متاثر ہورہا ہے۔ ہم تحصیل سے ڈولیوں کا جنازہ نکالیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کو مزید کسی آزمائش میں نہیں ڈالیں گے ، تحصیل آلائی میں ترقیاتی منصوبوں اور پلوں کا کام شروع کیا جائے۔
’کچھ بچے بہت مایوس تھے اور نیچے کودنے کا سوچ رہے تھے، لیکن بڑوں نے ہمیں حوصلہ دیا۔‘
یہ کہنا ہے بٹگرام واقعے میں بچائے گئے 15 سالہ رضوان اللہ کا، جو 15 گھنٹوں تک زندگی اور موت کے درمیان دیگر 7 افراد کے ہمراہ جھولتے رہے۔
چئیریلفٹ میں سوار 15 سالہ رضوان اللہ نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب کیبل کار جھول رہی تھی تو ہم گھبرا گئے تھے، ہم نے قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی اور ایک دوسرے کو یقین دلایا کہ وہ نیچے نہیں کودیں گے۔‘
منگل کی صبح چھ بچے اور دو بالغوں کے ساتھ اسکول جانے کیلئے چیئر لفٹ پر سوار ہوئے جس کی کیبلز بیچ راستے میں ٹوٹ گئیں اور ڈولی سیکڑوں فٹ بلندی پر پھنس گئی۔
بالآخر 15 گھنٹے تک جاری ایک جرات مندانہ ریسکیو آپریشن میں، فوجی ہیلی کاپٹروں نے پہلے بچے کو چیئر لفٹ سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا۔
مزید پڑھیں
بٹگرام حادثہ: بالاکوٹ میں مختلف مقامات پر نصب 9 چیئر لفٹس سیل
بٹگرام چیئر لفٹ میں بچہ دل کا مریض اور 3 گھنٹے سے بے ہوش
بٹ گرام میں چیئرلفٹ سے بچوں کو کس نےبچایا، ریسکیو کرنے والے سامنے آگئے
اس کے بعد مقامی امدادی کارکنوں نے کیبل کا استعمال کرتے ہوئے ڈولی کو وادی میں گرنے سے روکا، تاکہ سات دیگر افراد کو زپ لائن کے زریعے نکالا جا سکے، اور تمام افراد کو ریسکیو کیا۔
بٹغرام واقعے کے بعد نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے پہاڑی علاقوں میں تمام چیئر لفٹوں کا معائنہ کرنے اور جو ”حفاظتی معیار“ کے مطابق نہیں انہیں فوری طور پر بند کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
جس کے بعد پولیس نے گزشتہ روز حادثے کا شکار کیبل کار کے مالک اور آپریٹر کو گرفتار کرلیا۔
شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک سینئر پولیس اہلکار طاہر ایوب خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’استعمال کی جانے والی تاریں کم معیار کی تھیں، اور مشینوں کو بھی اوور ہالنگ کی ضرورت تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مالک کو ابتدائی نوٹس جون میں جاری کیا گیا تھا، اس کے بعد اگست میں دوسرا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔‘
طاہر ایوب کے مطابق مالک کو مشینری کی درستگی، زنجیروں کے معیار کو بڑھانے اور مقامی انتظامیہ سے حفاظتی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ہدایات کی گئی تھیں۔
ایک اور پولیس اہلکار امجد علی نے تصدیق کی کہ یہ گرفتاریاں بدھ کو کی گئیں۔
قبل ازیں، 2017 میں دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ایک پہاڑی بستی میں چیئر لفٹ کی کیبل ٹوٹنے سے 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بٹگرام ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والوں کے اعزاز میں تقریب جاری ہے، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آپریشن میں حصہ لینے والوں کو تعریفی اسناد دیں۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور قومی ترانے سے ہوا۔ جس کے بعد نگراں وزیراعظم نے ایس ایس جی کمانڈرز اور مقامی افراد میں اسناد تقسیم کیں۔
وزیراعظم نے لفٹ میں پھنسے بچوں کو رات کے اندھیرے میں ریسکیو کرنے والے محمد علی کو سیلوٹ کیا اور الیاس کو گلے لگاتے ہوئے انہیں تعریفی اسناد پیش کیں۔
نگراں وزیراعظم نے لفٹ میں پھنسنے والے بہادر طالب علموں کو بھی اعزازات سے نوازا۔
خیبرپختوںخواہ کے ضلع بٹگرام کے آلائی جھنگڑئے پاشتو علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے پھنسنے والی چئیر لفٹ سے 15 گھنٹے کی مشقت کے بعد 8 لوگوں کو نکال لیا گیا تھا۔
اس آپریشن میں پاک فوج اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی افراد نے بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بٹگرام چئیرلفٹ میں پھنسے 3 بچے نمایاں نمبر لے کر نویں جماعت میں کامیاب
اسناد کی تقسیم کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ واقعہ پر ہر پاکستانی دعا گو تھا، ہمارے مستقبل کے معمار لفٹ میں پھنسے ہوئے تھے، بار بار دل بیٹھ رہا تھا۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ لفٹ میں پھنسے بچے میرے بیٹے نور کی طرح ہیں، پوری دنیا کی نظریں واقعہ پر لگی ہوئی تھیں، آپریشن کو کامیاب کرنے میں بہترین حکمت عملی اپنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، بٹگرام چیئرلفٹ میں پھنسے بچے قوم کا مستقبل ہیں۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی تھی کہ پاکستان اس مشکل سے کیسے نمٹے گا، تلخ واقعات ہماری زندگیوں کا حصہ ہیں اور مادر وطن کیلئے جان قربان کرنے والے ہمارے ہیرو ہیں۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہر شعبہ زندگی میں ملک کیلئے خدمات انجام دینے والوں پر فخر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم، صحت کی سہولتیں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، پاکستان ہمارا گھر ہے اس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے، ہمارے جوانوں کی شہادتیں قومی عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں، ہم شہداء کے مقدس لہو کے مقروض ہیں، شہداء کے لواحقین ہماری ذمہ داری ہیں۔
بٹگرام میں چیئرلفٹ کی کیبل ٹوٹنے سے گہری کھائی کے سیکڑوں میٹر اوپر پھنسنے والے 8 افراد کا کہنا ہے کہ انہیں بچنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔
طلباء میں سے ایک 16 سالہ عطااللہ بھی ہیں جو اپنا امتحانی نتیجہ لینے اسکول جارہے تھے۔
اس حادثے کے بعد عطاللہ کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کی کوئی امید نہیں تھی کہ وہ بچ جائیں گے۔
گاؤں الائی سے برطانوی اخبار گارڈین سے بات کرنے والے عطاء اللہ نے کہا کہ، ’میں ڈر گیا تھا ، تمام بچے چیخ رہے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو پکڑنا شروع کر دیا کیونکہ چیئرلفٹ لٹک رہی تھی۔ مجھے لگا کہ میں اب مر چکا ہوں‘۔
16 گھنٹے سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے اس ریسکیو آپریشن میں تیز ہواؤں اور دھیمی روشنی میں بچاؤ کی متعدد ناکام کوششیں بھی شامل رہیں۔
پہاڑی بٹگرام ضلع کے اس گاؤں میں ایک دشوار گزار علاقہ ہے، جہاں ایک تنگ سڑک ندی اور معاون ندیوں سے گزرتی ہے، جس کی وجہ سے بچاؤ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ریسکیو کی ویڈیوز سوشل میڈیا پرتیزی سے وائرل ہوئیں۔ ایک ویڈیو میں مقامی شخص کیبل سے نیچے اترکر ایک بچے کو بچانے کے لیے اسے اپنے ساتھ باندھتا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے کے گرد بیلٹ بندھی ہے اور پاک فوج اسے ہیلی کاپٹر میں کھینچ رہی ہے۔
بقیہ مسافروں کو بستر کے فریم سے تیار کردہ چیئر لفٹ کا استعمال کرتے ہوئے بچایا گیا: مقامی ماہرین فوجیوں کے ساتھ بقیہ کیبل کو زپ لائن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے چیئرلفٹ میں گئے۔
بچوں کو بچانے کے بعد ہزاروں افراد آدھی رات تک امدادی مقام پر جمع رہے اور ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
بدھ 23 اگست کو پولیس نے کیبل کار کے مالک گل زرین کو حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔
کیبل کار نے طلباء سے فی کس 10 روپے اور دیگر سے 20 روپے وصول کیے تھے۔
دی گارڈین نے پانچ بچوں سے بات کی جن میں بالغ اور چھٹے بچے کے والد عرفان اللہ شامل ہیں جنہیں اسپتال لے جایا گیا تھا اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہیں۔
سب سے چھوٹے بچے 13 سالہ ابرار احمد نے کہا کہ وہ کئی بار امید کھو چکے ہیں۔
ابرار کیا کہنا تھا کہ، ’میں نے سوچا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں اور میں پہلے مر جاؤں گا۔ مجھے کوئی امید نہیں تھی جب مجھے کوئی مدد نظر نہیں آئی اور شام 4 بجے تک کوشش ناکام رہی لیکن ب فوج نے عرفان اللہ کو بچایا تو میں پرامید ہو گیا اور جب اندھیرا ہو گیا اور فوج نے ہیلی آپریشن روک دیا تو میں نے دوبارہ امید کھو دی۔ مجھے اس وقت امید ملی جب ایک مقامی شخص نے دوسرے لڑکے کو بچایا‘۔
عطاء اللہ نے بتایا کہ گروپ صبح ساڑھے سات بجے اسکول کے لیے روانہ ہوا لیکن جلد ہی کیبل کار ٹوٹ گئی۔چار گھنٹے بعد پہلا فوجی ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پر منڈلاتا رہا اور اس نے اپنی پوری کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔ دوسرا ہیلی بھی بغیر کسی کامیابی کے واپس گیا اور اس بات نے مجھے بہت پریشان کیا کہ ہیلی کاپٹرہمیں بچانے میں کامیاب نہیں ہورہے اور ہم جلد ہی مر جائیں گے۔
15 سالہ رضوان اللہ نے کہا، ’میں اپنی آنکھوں کے سامنے موت دیکھ سکتا تھا۔ ہوا کا دباؤ بہت تیز تھا اور کیبل کار لٹک رہی تھی اور اس میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایک طرف سے کوئی دروازہ نہیں تھا۔ سب رو رہے تھے‘۔
بچوں نے بتایا کہ کیبل کار میں ان کے ساتھ ایک مقامی شخص گل فراز تھا جس نے انہیں بتایا کہ وہ بچ جائیں گے۔
24 سالہ گلفراز کے مطابق، ’سچ کہوں تو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں بچوں کو پرسکون کر رہا تھا اور ان سے کہہ رہا تھا کہ ہم زندہ رہیں گے، مجھے کوئی موقع نظر نہیں آرہا تھا کہ ہم بچ پائیں گے، یہ ایک افراتفری کی صورتحال تھی۔ لیکن میں راستے تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا اور میرے فون نے ہمیں بچا لیا‘۔
گلفراز نے کیبل کار کے واقعے کے بارے میں اپنے بڑے بھائی، مقامی علماء اور دوستوں کو مطلع کرتے ہوئے کئی فون کالز کیں۔
انہوں نے بتایا کہ، ’ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک کیبل کار میں موبائل سروس نہیں تھی۔ جیسے موبائل نیٹ ورکس دیکھے، میں نے ہراس شخص کو فون کیا جسے میں جانتا تھا لیکن صبح سے میں نے اپنا فون بند کر دیا ہے کیونکہ مجھے لامحدود کالز مل رہی ہیں‘۔
خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل آلائی کی ایک یونین کونسل پاشتو کا گاؤں جنگڑائی 22 اگست کی صبح اچانک پہلے سوشل میڈیا پھر نیشنل اور دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیشنل میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بن گیا۔
حالانکہ ان بچوں کو 15 گھنٹے کی مشقت کے بعد ریسکیو کرلیا گیا، لیکن اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک پروپیگنڈا شروع ہوا، جس میں کہا گیا کہ بچوں کو پاک فوج نے نہیں بلکہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت بچایا۔
علاقہ جنگڑائی کے سر سبز پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہنے والے گھرانوں کے لئے یہ صبح بھی معمول کی طرح تھی کہ جب ان کے بچے خوڑ کے اس پار دوسرے پہاڑ پر قائم اسکولوں میں تعلیم کے حصول اور کچھ افراد اپنے کام کاج کے لیے گھر سے نکلے اور معمول کے مطابق دونوں پہاڑی علاقوں کو ملانے والے ٹرانسپورٹ کے واحد زریعے کیبل لفٹ جسے مقامی زبان میں ڈولی کہا جاتا ہے میں بیٹھے۔
پہاڑوں کے ان سپوتوں کے لیے 600 سے 900 فٹ نیچے گہرائی میں موجود سٹریم یا مقامی زبان میں خوڑ کو شاید انھوں نے کھبی جھک کر دیکھا بھی ہو تو ان کے لئے کچھ نیا نہیں تھا، لیکن آج ڈولی میں بیٹھنے والے 8 افراد کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سورج اُن کے لئے 15 گھنٹے کا ایک ایسا خطرناک اور تکلیف دہ سفر لے کر آیا ہے جو انھیں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دے گا۔
سات طالب علموں سمیت 8 مسافر صبح 7 بجکر 45 منٹ پر ڈولی میں سوار ہوئے اور ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ ڈولی کے چار کونوں میں سے ایک طرف کی کیبل ٹوٹی اور ڈولی وہیں رک کر لٹک گئی۔
دونوں طرف اونچے پہاڑ، نیچے گہرائی اور اس میں خوڑ، جبکہ ہوا میں معلق ڈولی میں لٹکتی آٹھ انسانی جانیں۔
آلائی، بٹگرام اور پھر مانسہرہ، ہر دفتر کے ٹیلیفون بج اٹھے۔
ساڑھے آٹھ بجے تک کمشنر ہزارہ نے وزارت داخلہ سمیت تمام اہم متعلقہ اداروں کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکو آپریشن ممکن نہیں۔
اب ہیلی کے لیے رابطوں کا مسئلہ تھا۔
موبائل نیٹ ورک کھبی کام کرتا اور کھبی رابطہ منقطع ہو جاتا، ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کی جگہ کا تعین بھی انتہائی اہم تھا، تاہم صبح 11 بجے کی سلاٹ میں پہلا ہیلی کاپٹر آیا۔
ہیلی کاپٹر نے سب سے پہلے علاقے کی ریکی کی، صورتحال کو سمجھا اور ریسکیو کی پہلی کوششش کا آغاز کیا۔
لیکن جیسے ہی ہیلی قریب آتا تھا تو ڈولی ہلتی اور اندر موجود بچے خوف سے چلانا شروع کر دیتے۔
دوسری طرف کنارے پر کھڑے والدین اور رشتہ دار بھی چیختے جس کی وجہ سے انتظامیہ کے افراد کو انھیں سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا۔
انتظامیہ اور ہیلی کے عملے نے جب یہ ساری صورتحال دیکھی تو وہ پہلا ہیلی واپس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد تھوڑے ہیوی ہیلی کی مدد سے دوسری کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی ہوا کا پریشر بڑھتا اور ڈولی کے قریب جانے سے مسئلہ ہوتا، ڈولی کو جھٹکے لگتے اور بچے پھر ڈر کر چیخنا شروع کر دیتے۔
تیسری بار ائر فورس کا ہیلی منگوایا گیا اس نے پہلے بچے کو ریسکو کیا لیکن اس کوشش میں وہ اوپر والی تار میں لگا، جس سے ہیلی کے کریش ہونے اور ڈولی کو بھی نقصان پہنچنے یا گرنے کا خطرہ پیدا ہوا۔
اس کے بعد انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اب ریسکو کے لیے کوئی اور طریقہ استعمال کیا جائے۔
مختلف آپشنز پر غو رہوا اور شام کے سائے تیزی سے ڈھلنے لگے۔
ہر فیصلہ دھیان لیکن مستعدی سے کرنا تھا کیونکہ معاملہ 8 قیمتی جانوں کو بچانے کا تھا۔
تب زپ لائن استعمال کرنے والے تربیت یافتہ افراد کو لانے کا فیصلہ کیا گیا، کیونکہ انہیں تربیت دی جاتی ہے کہ اگر زپ لائن میں بندہ پھنس جائے یا اٹک جائے تو اسے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
اس لیے فیصلہ کے تحت مانسہرہ سے دو اور بشام سے ایک زپ لائن کے تربیت یافتہ تین افراد کو پاک آرمی کے ہیلی کاپٹر میں جائے وقوعہ پر پہنچایا گیا۔
ڈی سی مانسہرہ نے اس سارے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
سب سے پہلے متاثرہ افراد کے والدین کو اعتماد میں لیا گیا اور یوں ریسکو کے کام کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔
زپ لائن عملے کے تین تربیت یافتہ افراد اپنا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے ڈولی تک پہنچے اور بچوں کو ہارنس (بیلٹ) پہنا کر سب سے پہلے انہیں کیبل پر شفٹ کیا کہ خدانخواستہ ڈولی گر بھی جائے تو بچے کیبل پر محفوظ ہو جائیں۔
پھر ایک ریسکوئر بچوں کو وہاں سے کنارے کی طرف شفٹ کرتا تھا اور کنارے پر کھڑا سٹاف رسی کھینچتا تھا۔
جو بھی فرد ریسکو ہونے کے کنارے پر پہنچایا جاتا سب سے پہلے انھیں طبی امداد دی جاتی تھی، ضروری چیک اپ اور طبی امداد کے بعد انہیں والدین کے حوالے کر دیا جاتا۔
اس پورے عمل کے دوران پاک آرمی، اے ڈی سی جی، اے ڈی سی ریلیف بٹگرام، تحصیلدار آلائی ڈی سی آفس، ڈی ایچ او ہیلتھ، ریسکو 1122، مقامی افراد، پولیس سب وہاں موجود رہے۔
جبکہ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف سمیت ضلع کمشنر، ڈی آئی جی، ڈی پی او اور اہم حکام ہر لمحے پر ہر فیصلے میں شامل رہے۔
عینی شاہدی کے مطابق آخری تین گاڑیاں جنھوں نے رات ساڑھے 12 یا ایک بجے سپاٹ چھوڑا اس میں دو آرمی اور تیسری گاڑی نائب تحصلیدار آلائی کی تھی۔
اس دوران تمام افراد کے لیے کھانا، پانی، بیٹریز، جنریٹرز وغیرہ سب کا انتظام کیا گیا۔
پورے ہزارہ کی ایڈمنسٹریشن 15 گھنٹے تک الرٹ تھی لیکن اس سارے پراسس میں دو مسائل سے نمٹنا انتظامیہ کے لئے کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔
ایک نیٹ ورک کا مسئلہ جو بار بار مشکل کا باعث بن رہا تھا۔
ضلعی انتظامیہ جیسے ہی آلائی کے ہیڈ کواٹر سے آگے جاتی کبھی رابطہ ہوتا اور کھبی ٹوٹ جاتا، جو پیغام رسانی میں مشکلات کا باعث بنا۔
دوسرا مسئلہ وہ سیکڑوں افراد جو صرف تماشا دیکھنے وہاں پہنچے۔
انتظامیہ کے کچھ اہم افراد کے مطابق ان لوگوں نے موٹر سائیکلیں راستے میں کھڑے کر دیں اور ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر تک ٹریفک بلاک ہوگئی، جس سے آدھا ریسکیو اسٹاف ایک طرف ایک پہاڑ کے کنارے پر تھا دوسرا دوسرے سرے پر، اور یوں انتظامیہ کے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
بٹگرام انتظامیہ کے مطابق ہر فیصلہ صرف اس لیے وقت لے کر کیا گیا کہ کوئی جان نہ چلی جائے اور ہر بچہ اپنے پیروں پر اترے، تمام ادارے اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔
لوگوں نے خود دیکھا کہ کئی بارحکمت عملی صرف اس لیے تبدیل کی گئی کہ جانی نقصان نہ ہو۔
ہر ادارہ آخر تک وہاں موجود تھا لیکن ریسکیو اسٹریٹجی تبدیل کی جاتی رہے۔
بٹگرام ڈولی سے طلبا کو ریسکیو کرنے والے ہیرو علی سواتی نے آج ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ان فواہوں کی تردید کی کہ فوج اندھیرا ہوتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلی گئی تھی۔
ہیونز وے کمپنی کے مالک محمد علی کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ لفٹ کی جگہ پر پہنچیں۔
علی سواتی نے بتایا کہ پاک فوج نے ہی ہم سے رابطہ کیا اور مجھے ہیلی کاپٹر میں وہاں لے جایا گیا۔
علی سواتی کے مطابق آپریشن کے لئے پاک آرمی کے ساتھ مکمل کوآرڈینشن تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کی ہوا سے ڈولی ڈول رہی تھی، جس کی وجہ سے پاک فوج نے آپریشن کو چینچ کرکے بائی زیپ لائن آپریشن کیا۔
علی سواتی کے مطابق ایک بندے کو پاک فوج اور ایک کو مقامی شخص نے ریسکیو کیا، اندھیرے کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں اس لیے پاک فوج نے ہی روشنی کا خصوصی انتظام کیا تھا۔
اسی طرح چئیر لفٹ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے والے محمد الیاس نے ریکسیو آپریشن کی تفصیلات آج ڈیجیٹل کو بتائیں۔
زِپ لائنر محمد الیاس نے بتایا کہ جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچے تو سب سے پہلے وائر اور اینکر کو چیک کیا۔ جب ہم لٹکی ہوئی ڈولی کے پاس پہچنے تو تمام طلبا نڈھال تھے، طلبا نے جب ہمیں دیکھا تو ان کی جان میں جان آگئی۔
الیاس نے بتایا کہ پہلے وہ ڈولی کے اندر اترے اور پھر باری باری طلبا کو ہینگ کرکے نکلا۔
الیاس کا کہنا تھا کہ جب ہم نے پہلے تین بچوں کو ریسکیو کیا تو باقی تین بچوں کی جان میں جان آگئی۔
ریسکیوئر الیاس کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد حاصل تھی کہ ہم نے مشن کو کامیابی سے مکمل کیا۔
بٹگرام چئیر لفٹ ریسکیو آپریشن میں جن افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے اُن مٰں سے 5 کے نام یہ ہیں۔
چیئرلفٹ یا ڈولی میں لوہے کے موٹے رسے یا کیبل کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ چلانے کے لیے برقی موٹر یا جنریٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ ڈولی مقامی لوگ اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں جو ایک جنگلے یا پنجرے کی شکل میں اوپن ہوتی ہیں۔
جبکہ کچھ کارخانوں میں بنائی جاتی ہیں جن کے اوپر چادر یا لوہے کی سلاخوں کی مدد سے کور بنایا جاتا ہے۔
6 سے 10 سیٹر ڈولی میں دونوں طرف سیٹیں لگائی جاتی ہیں۔
ڈولی کو چلانے کے لیے لوہے کے موٹے رسوں یا کیبل کو دریا یا دیگر بلند مقامات پر ایک سے دوسری جانب یوں باندھا جاتا ہے کہ یہ بالکل آمنے سامنے رہیں۔
پھر ڈولی کو اس سے لٹکا دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خستہ حال اور حفاظتی معیار پر پورا نہ اترنے والی چیئر لفٹس فوری بند کرنے کی ہدایت
مزید احتیاط کے لیے ڈولی کو آہنی رسی یا کیبل کی مدد یوں فریم میں جکڑا جاتا ہے کہ اس کا وزن مکمل طور پر انہی رسیوں یا کیبل پر موجود رہے۔
ڈولی کے سفر کے آغاز اور اختتام کے مقام پر چبوترے بنائے جاتے ہیں۔
ماضی میں ان ڈولیوں کو آپریٹر ہاتھوں کی مدد سے رسی کو کھینچ کر چلاتے تھے، لیکن اب کہیں بجلی تو کہیں جنریٹرز کی مدد سے برقی موٹر کے ذریعے انھیں آپریٹ کیا جاتا ہے۔
موٹر چلنے پر ڈولی کے اوپر نصب پہیے لوہے کی رسی پر چلتے اور اسے ایک سے دوسری جانب منتقل کرتے ہیں۔
لفٹ یا ڈولی کا ٹرانسپورٹیشن کے لئے استعمال عموماً ایسے مقامات پر ہوتا ہے جہاں علاقوں کو ملانے کے لئے رابطہ پلیں یا راستہ نہیں ہوتے۔
جیسے کہ پہاڑی علاقوں میں چوٹیوں پر قائم دیہات جن کے درمیان گہری کھائیاں یا دریا اور برساتی نالے ہوتے ہیں۔
تب یہ ڈولیاں ان مقامات پر اتنی اونچائی پر لگائی جاتی ہیں کہ ان کی بلندی ہزاروں فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
ان علاقوں میں طبی یا تعلیمی اداروں تک رسائی ، پھر بازار سے سودا سلف لانے، شادی بیاہ کا موقع یا کسی کے جنازے میں شرکت کرنی ہو، ڈولی کے بغیر سفر کرنا اور ایک سے دوسری جگہ جانا ناممکن ہوتا ہے۔
ایسے ہی چند علاقوں میں ملاکنڈ ڈویژن کا ضلع دیر بھی ہے، جہاں دریائے پنچکوڑہ کے مختلف مقامات میں چئیرلفٹ یا ڈولیاں لگائی گئی ہیں۔
تاہم ان کا فاصلہ اور اونچائی زیادہ نہیں ہوتی۔
ان میں سے کچھ چیئر لفٹ مقامی آبادی نے اپنے روزگار کے لیے بنائی ہیں، کچھ چیئر لفٹ لوگوں کی سہولت کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن نے بھی لگائی ہیں۔
سیلاب کے بعد دریائے پنچکوڑہ پر دیر کے مقام پر رابطہ پل بہہ جانے کی وجہ سے مقامی آبادی کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے چیئر لفٹ قائم کی گئی تھی، جن میں سے کچھ پُل کی دوبارہ تعمیر کے بعد ختم کر دی گئیں، جبکہ کچھ اب بھی کام کر رہی ہیں۔
دیر میں انکار کے مقام جبلوک علاقے کو ملانے کے لیے بھی ایک پرائیویٹ کمپنی نے چیئرلفٹ قائم کی، جہاں پر پل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے گھروں تک جانے کے لئے لمبا راستہ استعمال کرنا پڑتا تھا۔
اب اس چیئرلفٹ کے زریعے چند منٹوں میں مقامی افراد اپنے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔
ان ڈولیوں میں سفر کرنے والوں سے کرایے کی مد میں 30 سے 50 روپے لئے جاتے ہیں۔ جتنی اچھی سرورس ہوتی ہے کرایہ اسی حساب سے لیا جاتا ہے۔
ضلع مالاکنڈ میں 2010 کا سیلاب بیشتر رابطہ پل بہا کر لے گیا، حصار بابا طوطہ کان کے مقام پر رابطہ پل دریا برد ہونے پر مقامی لوگوں نے چندہ جمع کرکے لوئر دیر کے علاقے کمالہ کو ضلع مالاکنڈ سے ملانے کیلئے ڈولی چیئرلفٹ بنائی، جو کئی سال تک لوگوں کو سہولت دیتی رہی لیکن مالاکنڈ انتظامیہ نے اُسے بند کردی۔
اسی طرح ہیڈورکس کے مقام پر محکمہ ایریگیشن کے ریسٹ ہاوس تک جانے کیلئے بھی چیئرلفٹ ڈولی استعمال کی جارہی تھی، مگر ناقص سازوسامان کے باعث انتظامیہ کو اسے بند کرنا پڑا۔
مالاکنڈ اور باجوڑ ایجنسی کو ملانے کیلئے شربتئی اور سیلئی پٹے کے مقام پر دو نجی چیئرلفٹس تھیں، جس میں کئی بار حادثے ہوئے اور کئی افراد جان سے بھی گئے تاہم دونوں مقامات پر پل بننے کے بعد چیئرلفٹ سروس بند کردی گئی۔
دوسری طرف کوہستان بٹگرام اور کاغان ویلی میں بھی ڈولی کا استعمال ان مقامات پر اب بھی ہوتا ہیں جہاں رابطہ پل نہیں ہیں۔
نگران وزیرِاعظم انوارالحق اور سابق وزیراعظم شہبازشریف نے بٹگرام میں چیئرلفٹ سے تمام آٹھ افراد کے بحفاظت ریسکیو پر اظہار تشکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن میں شریک تمام افراد قوم کے ہیرو ہیں۔
نگراں وزیرِاعظم انوارالحق کاکڑ اورسابق وزیراعظم شہبازشریف نے ریسکیو آپریشن میں شریک پاک فوج، پاک فضائیہ، ریسکیو اداروں، ضلعی انتظامیہ اور تمام متعلقہ اداروں کے افسران و اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ ریسکیو میں شامل افسران، اہلکاروں اور رضاکاروں نے 8 قیمتی جانوں کے ساتھ آٹھ گھرانوں کی زندگی بچائی۔
ان کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر مشکل آپریشن کو انتہائی پیشہ وارانہ انداز سے مکمل کرکے آپریشن میں شریک اہلکاروں، افسران اور رضا کاروں نے کئی ماؤں کی گود اجڑنے سے بچائی۔
انھوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن میں شریک تمام افراد قوم کے ہیرو ہیں، دونوں رہنماؤں نے مقامی لوگوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔
اسپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف اور نگراں وزیر داخلہ سرفرازبگٹی نے بھی ریسکیو ٹیموں کو خراج تحسین پیش کیا۔
ایک طرف جہاں بٹگرام میں چئیر لفٹ میں پھنسے بچوں کو نکالنے کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے، وہیں اس حوالے سے خوشخبری آئی ہے کہ لفٹ میں پھنسے تین بچے نویں جماعت میں نمایاں نمبر لے کر پاس ہوگئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں آج میٹرک کے امتحانات کے نتائج بھی جاری ہوئے ہیں، جن میں تینوں طالب علموں نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔
چئیر لفٹ میں پھنسے عطاء اللہ ولد کفایت اللہ نے 442 نمبر حاصل کیے، اسامہ ولد محمد شریف 391 نمبر لے کر کامیاب ہوئے اور بلال محمد 412 نمبر لے کر پاس ہوئے۔
مزید پڑھیں
بٹگرام میں پھنسی چیئرلفٹ کے قریب ہیلی پیڈ قائم، رات کو بھی ریسکیو جاری رہے گا
طلبہ کتنی بلندی پر کیبل کار میں پھنسے، نقشے اور ٹولز سے وضاحت
بٹگرام چیئر لفٹ میں بچہ دل کا مریض اور 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے، گلفراز کا بیان
خیال رہے کہ پاک فوج کے ہیلی کاپٹر نے کیبل کار میں پھنسے آٹھ افراد میں سے 4 کو بچا لیا ہے۔ ریسکیو آپریشن میں 3 ہیلی کاپٹر میں حصہ لے رہے ہیں۔
کمانڈوز نے ایک ’سلنگ آپریشن‘ کیا جس میں اسکول کے دو بچوں کو کیبل کار سے محفوظ فاصلے پر منڈلاتے ہیلی کاپٹر تک لے جایا گیا رہا تھا۔
ایس ایس جی کمانڈوز ہیلی کاپٹر سے ہارنیس کے زریعے کیبل کار تک پہنچے اور دونوں بچوں کو نکال پر ہیلی کاپٹر میں پہنچایا۔
چاروں بچوں کو زمین پر بحفاظت پہنچا دیا گیا ہے۔
نگراں وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ نے خستہ حال اور حفاظتی معیار پر پورا نہ اترنے والی چیئر لفٹس فوری بند کرنے کی ہدایت کردی۔
پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے خیبرپختونخوا کے ضلع بٹ گرام میں چئیر لفٹ میں پھنسے بچوں اور اساتذہ کو نکالنے کیلئے ’سلنگ آپریشن‘ کیا۔
پہلے فضائی اور پھر زمینی آپریشن کرکے چیئرلفٹ میں پھنسے تمام 8 افراد کو بحفاظت نکالا گیا۔
انوار الحق کاکڑ نے واقعہ کے فورا بعد چیئر لفٹ میں پھنسے 8 افراد کو فوری ریسکیو کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔ اس حوالے سے نگراں وزیرِاعظم نے این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور تمام متعلقہ ریسکیو اداروں کو تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی تھی۔
واقعہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے پہاڑی علاقوں میں موجود ایسی تمام چیئر لفٹس پر حفاظتی انتظامات یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں :
بٹگرام چئیرلفٹ میں پھنسے 3 بچے نمایاں نمبر لے کر نویں جماعت میں کامیاب
بٹگرام : چیئرلفٹ میں پھنسے بچے کا والد جذباتی ہوگیا
واضح رہے کہ چیئرلفٹ میں بچے اور اساتذہ کے پھنسنے کا واقعہ خیبرپختونخوا کے ضلع بٹ گرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں پیش آیا۔
ڈی آئی جی ہزارہ طاہر ایوب کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن کی تیاریاں مکمل ہیں، پھنسےافراد کو ہیلی کاپٹر سے ادویات اور کھانا پہنچا دیا گیا ہے، جائے حادثہ کے سامنے پہاڑ پر ہیلی پیڈ قائم کردیا گیا ہے۔
طاہر ایوب کے مطابق ہیلی پیڈ پر تمام ایمرجنسی سامان سے لیس گاڑی موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کی کامیابی پر تمام افراد کا پہلے مکمل چیک اپ ہوگا، طبی مسائل ہوئے تو متاثرین کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
طلبہ کتنی بلندی پر کیبل کار میں پھنسے، نقشے اور ٹولز سے وضاحت
بٹگرام : چیئرلفٹ میں پھنسے بچے کا والد جذباتی ہوگیا
بٹگرام چیئر لفٹ میں بچہ دل کا مریض اور 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے، گلفراز کا بیان
خیبرپختوںخواہ کے ضلع بٹ گرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے چئیرلفٹ دریا کے اوپر بلندی پر پھنس گئی، چیئر لفٹ میں نویں جماعت کے 8 طلباء سوار ہیں، پاک فوج کے دو کمانڈوز چیئرلفٹ تک پہنچ گئے ہیں۔ جی او سی ایس ایس جی علاقے میں پہنچ گئے ہیں اور خود ریسکیو آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ رات کو بھی ریسکیو آپریشن جاری رکھا جائے گا۔
دوسری جانب تحصیل چئیرمین بٹگرام مفتی غلام اللہ نے چئیرلفٹ میں پھنسے گل فراز سے رابطہ جس نے بتایا کہ خوراک کا ابھی تک کوٸی بندوبست نہیں کیا گیا۔
بٹ گرام کے علاقے آلائی جھنگڑئے پاشتو میں کیبلز ٹوٹنے کے سبب ڈولی (مقامی ساختہ چیئرلفٹ) میں 8 طلبہ پھنسے تو جہاں ایک جانب پاکستان بھر میں کروڑوں لوگ ان کے تحفظ کے لیے دعا گو تھے تو وہیں میڈیا کی رپورٹنگ میں اس حوالے سے واضح تضاد پایا گیا کہ یہ ڈولی کتنی بلندی پر پھنسی ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری اعدادوشمار میں بھی فرق تھا۔ آج نیوز نے ڈیجٹل نیوزروم نے نقشوں کے ذریعے بلندی کا درست تعین کر دیا۔
ابتدائی رپورٹنگ میں 9 ہزار فٹ کی بلندی کا ناقابل یقین نمبر بھی آیا۔ بعد ازاں مقامی رپورٹرز نے بتایا کہ ڈولی 6 ہزار فٹ (دو ہزار میٹر) سے زیادہ اونچائی پر ہے۔ کچھ وقت کے بعد یہ اونچائی 2 ہزار فٹ سے 3 ہزار فٹ کے درمیان بتائی جانے لگی۔ ابتدائی طور پر تیار کی گئی ایک سرکاری رپورٹ میں چیئر لفٹ کی اونچائی ”تقریبا دو ہزار میٹر“ تحریر کی گئی۔
نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی نے ایک ٹوئیٹ میں بتایا کہ بچے 900 فٹ کی بلندی پر محصور ہیں۔
آج نیوز نے گوگل میپ اور عرض طول (longtitude) اور عرض بلد (latitude) کے ذریعے زمین کے کسی بھی مقام پر سطح سمندر کی اونچائی معلوم کرنے والے ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے درست طور پر معلوم کیا کہ طلبہ کتنی بلندی پر پھنسے ہوئے تھے۔
یہ طلبہ آلائی جھنگڑئے پاشتو کے ہائی اسکول میں جا رہے تھے جس کی لوکیشن نقشے کے مطابق 34.91232707991632, 73.0457402903258 بنتی ہے۔ اس طول و بلد کے مقام پر سطح سمندر سے اونچائی1890 میٹر یعنی 6201 فٹ ہے۔
طلبہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر واقع اسکول تک جا رہے تھے جن کے بیچ میں ”جھنگڑے خور“ نامی ایک ندی ہے۔
اس ندی کے درمیان کی لوکیشن 34.912989908764615, 73.04252231041109 ہے۔ جہاں پر سطح سمندر سے بلندی 1687میٹر یعنی 5535فٹ بنتی ہے۔
اس جگہ اسکول کی اونچائی اور ندی کی تہہ کی درمیانی اونچائی 6201 منفی 5535 یعنی 666 فٹ ہے۔
بعد ازاں آئی ایس پی آر نے بھی تصدیق کردی کہ لفٹ 600 فٹ کی بلندی پر پھنسی ہے۔
جھنگڑے خور نامی ندی یہاں سے مسلسل ڈھلوان کی طرف جا رہی ہے اور کچھ آگے جا کر یہ فاصلہ 700 فٹ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ تاہم یہ دو یا تین ہزار فٹ ہرگز نہیں ہے۔ این ڈی ایم اے کا بیان حقیقت سے قریب ترین تھا۔
لگ بھگ 700 فٹ کی یہ بلندی بھی کچھ کم نہیں۔ اسلام آباد میں اوشین مال کی اونچائی 393 فٹ ہے جب کہ کراچی میں حبیب بینک کی عمارت 303 فٹ بلند ہے۔
اس بلندی سے کسی بھی شخص کو رسی یا کسی اور سہارا سے ریسکیو کرنا جان جوکھم میں ڈالنے والا کام ہے۔
چیئرمین لفٹ میں پھنسے رضوان کے والد عبدالقیوم نے بتایا ہے کہ بچے صبح 7 بجے سے پھنسے ہوئے ہیں اور اتنظامیہ نے 7 گھنٹے کی تاخیر سے آپریشن شروع کیا ہے، اب بھی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
ضلع بٹ گرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے چئیرلفٹ دریا کے اوپر بلندی پر پھنسی ہوئی اور اس میں 8 طلبہ موجود ہیں۔
لفٹ میں موجود رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم کے والد نے ”آج نیوز“ سے خصوصی بات کی ہے، اور بتایا کہ صبح 7 بجے بچہ اسکول کے لئے نکلا تھا اور لفٹ میں پھنس گیا۔
عبدالقیوم گفتگو کے دوران جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے کہاکہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی دور دراز دیہاتوں سے بھی لوگ جائے حادثہ پر پہنچ گئے لیکن انتطامیہ 7 گھنٹے تک نہ پہنچی۔ صبح 7 بجے سے پھنسے ہوئے بچوں کو ریسکیو کرنے کے لئے آپریشن بہت تاخیر سے شروع کیا گیا ہے، اور اب بھی کوئی واضح امید نظر نہیں آرہی۔
عبدالقیوم نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ ہم سب پریشان ہیں کہ کیا کریں، بچے بھوکے ہیں اور اتنی اونچائی پر یقیناً خوف میں مبتلا ہوں گے، یہ سوچ کر پریشانی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
عبدالقیوم ”آج نیوز“ سے تفصیلات شیئر کررہے تھے کہ اس دوران انتظامیہ نے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔ آج نیوز کے پوچھنے پرعبدالقیوم نے بھی تصدیق کی کہ انہیں بات کرنے سے منع کیا جارہا ہے۔
نمائندہ آج نیوز شاہد چوہدری نے بھی تصدیق کی کہ اس وقت 5 ہزار سے زائد افراد جائے حادثہ پر موجود ہیں، لفٹ میں پھنسے بچوں کی مائیں بھی یہاں پر آگئی تھیں، اور انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنارہی تھی۔
آج نیوز پشاور بیورو چیف فرزانہ علی کے مطابق ہیلی کاپٹرز مسلسل علاقے میں پروازیں کر رہے ہیں لیکن ہیلی کاپٹر سے پیدا ہونے والے ہوا کے دباؤ کے سبب ڈولی کے گرنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔
کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی چیئرلفٹ میں پھنسے اساتذہ اور طلبا مدد کے منتظر ہیں، ریسکیو ٹیم کے رکن نسیم نے ”آج نیوز“ کو بتایا کہ کہ چیئر لفٹ صرف ایک کیبل پر لٹکی ہوئی ہے، ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکیو کی کوشش کی تو تیسری کیبل بھی ٹوٹ سکتی ہے۔
اس سے قبل لفٹ میں موجود ایک فرد جس کا نام گلفراز ہے اس نے فون کرکے انتظامیہ کو بتایا ہے کہ یہاں اردگرد تیز ہوائیں چل رہی ہیں، ہمارے ساتھ 7 طلباء ہیں جن کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
گلفراز نے بتایا ہے کہ تمام طلبہ کی حالت غیر ہے، اور ایک طالب علم 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے، اس بچے کو دل کا مسئلہ ہے۔
لفٹ میں موجود گلفراز نامی شخص نے انتظامیہ کو فون کرکے بتایا ہے کہ ہمارے ساتھ 7 طلباء ہیں جن کی حالت غیر ہے، ایک بچہ دل کا مریض ہے اور 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے۔
خیبرپختوںخواہ کے ضلع بٹگرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے چئیر لفٹ دریا کے اوپر بلندی پر پھنس گئی ہے، اور لفٹ میں نویں جماعت کے 8 طلباء سوار ہیں۔
لفٹ میں موجود ایک فرد جس کا نام گلفراز ہے اس نے فون کرکے انتظامیہ کو بتایا ہے کہ یہاں اردگرد تیز ہوائیں چل رہی ہیں، ہمارے ساتھ 7 طلباء ہیں جن کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
گلفراز نے بتایا ہے کہ تمام طلبہ کی حالت غیر ہے، اور ایک طالب علم 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے، اس بچے کو دل کا مسئلہ ہے۔
نمائندہ آج نیوز کے مطابق لفٹ میں پھنسنے والوں میں نویں کلاس کے 8 طلباء شامل ہیں، جن میں ابرار ولد عبدالغنی، عرفان ولد امریز، گلفراز ولد حکیم داد، اسامہ ولد محمد شریف، رضوان اللہ ولد عبدالقیوم، عطاء اللہ ولد کفایت اللہ، نیاز محمد ولد عمر زیب اور شیر نواز ولد شاہ نظر شامل ہیں۔
کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی چیئرلفٹ میں پھنسے اساتذہ اور طلبا مدد کے منتظر ہیں، ریسکیو ٹیم کے رکن نسیم نے ”آج نیوز“ کو بتایا کہ کہ چیئر لفٹ صرف ایک کیبل پر لٹکی ہوئی ہے، ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکیو کی کوشش کی تو تیسری کیبل بھی ٹوٹ سکتی ہے، چیئرلفٹ سے بچوں کو نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر ضروری ہے
خیبرپختوںخواہ کے ضلع بٹ گرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے پھنسنے والی چئیر لفٹ سے لوگوں کو نکالنے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ دریا کے اوپر بلندی پر پھنسی ہوئی چئیر لفٹ میں نویں جماعت کے 8 طلباء سوار تھے، جنہیں گھنٹوں کی مشقت کے بعد بچا لیا گیا۔
فضائی آپریشن کے دوران پاک فوج کے کمانڈوز نے چیئرلفٹ تک پہنچ کر 2 بچوں کو نکالا، جس کے بعد فضائی آپریشن معطل کرکے زمینی آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
زمینی آپریشن شروع ہونے کے بعد اندھیرے کے باوجود باقی بچوں کو بچایا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق تمام بچوں کو باحفاظت ریسکیو کیا جاچکا ہے۔
بٹگرام چئیر لفٹ ریسکیو آپریشن میں جن افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے اُن مٰں سے 5 کے نام یہ ہیں۔
فضائی ریسکیو آپریشن میں 3 ہیلی کاپٹرز حصہ لے رہے تھے۔
کمانڈوز نے ایک ’سلنگ آپریشن‘ کیا جس میں اسکول کے دو بچوں کو کیبل کار سے محفوظ فاصلے پر منڈلاتے ہیلی کاپٹر سے جڑی رسی سے باندھ کر زمین تک پہنچایا گیا۔
موقع پر موجود مولانا کفایت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب لوگ مایوس ہورہے تھے تواس وقت ہیلی کاپٹر ڈولی کے قریب پہنچا اس میں سے ایک کمانڈو باہر نکل کر رسی کی مدد سے ڈولی تک پہنچا اور اس نے ایک بچے کو اپنے بازوؤں میں لیا اور اس کو ہیلی کاپٹر تک پہنچا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بچے کو ڈولی سے نکالنے کے بعد دوبارہ وہ رسی سے نیچے اترا اور ایک اور بچے کو لے کر ہیلی کاپٹر میں چلا گیا۔
ایس ایس جی کمانڈوز ہیلی کاپٹر سے ہارنیس کے زریعے کیبل کار تک پہنچے اور بچوں کو نکال پر ہیلی کاپٹر سے زمین پر باحفاظت پہنچایا۔
دورانِ ریسکیو حکام نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کے قریب جانے سے لفٹ ہلنا شروع ہوجاتی ہے، اوپر 30 فٹ کی بلندی پر ایک اور تار کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بٹگرام چئیرلفٹ میں پھنسے 3 بچے نمایاں نمبر لے کر نویں جماعت میں کامیاب
دو بچوں کو ریسکیو کرنے کے بعد رات اور موسم کے باعث فضائی آپریشن معطل کردیا گیا اور اس کی جگہ گراؤنڈ سے آپریشن شروع کر دیا گیا۔
پاکستان آرمی کے زمینی ریسکیو آپریشن میں ایک اور چھوٹی ڈولی کو اسی تار پر ڈال کر متاثرہ ڈولی کے قریب لایا گیا جس سے ایک ایک کر کے سب کو ریسکیو کیا جانا تھا۔
چھوٹی ڈولی سے کھانے پینے کی ایشیاء بھی بھیجی گئیں۔
پاک فوج اس آپریشن کے لئے شمالی علاقہ جات سے لوکل کیبل کراسنگز ایکسپرٹ کو لے کر آئی جن کی خدمات بھی بروئے کار لائی گئیں۔
ڈی آئی جی ہزارہ طاہر ایوب کے مطابق پھنسےافراد کو ہیلی کاپٹر سے ادویات اور کھانا پہنچانے کے بعد جائے حادثہ کے سامنے پہاڑ پر ہیلی پیڈ قائم کیا گیا تھا۔
طاہر ایوب کے مطابق ہیلی پیڈ پر تمام ایمرجنسی سامان سے لیس گاڑی موجود رہی۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کی کامیابی پر تمام افراد کا پہلے مکمل چیک اپ ہوگا، طبی مسائل ہوئے تو متاثرین کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔
دوسری جانب اسی دوران مفتی غلام اللہ نے چئیرلفٹ میں پھنسے گل فراز سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ خوراک کا ابھی تک کوٸی بندوبست نہیں کیا گیا۔
این ڈی ایم اے کے مطابق چیئرلفٹ 900 فٹ کی بلندی پر پھنسی ہوئی تھی، اور لفٹ کے اندر 2 اساتذہ اور 6 طلبہ موجود تھے۔
طلبہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر واقع اسکول تک جا رہے تھے جن کے بیچ میں ”جھنگڑے خور“ نامی ایک ندی ہے۔ جسے پار کرنے کیلئے چئیر لفٹ بنائی گئی ہے۔
چئیرلفٹ کی اونچائی کے حوالے سے مختلف میڈیا اور سرکاری رپورٹس میں تضاد نظر آیا۔ تاہم آج ڈیجیٹل نے تکنیکی طور پر صحیح اونچائی کا پتا لگایا جو تقریباً 700 فٹ بنتی ہے۔ جس کی تصدیق آئی ایس پی آر نے بھی کی۔
کیبل کار کو جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہ ضلع آلائی کا ایک دوردراز علاقہ ہے جہاں جانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کو ملانے کے لیے مقامی طور پر ایک چیئرلفٹ نصب کی گئی تھی۔
ڈولی میں پھنسے طلبا کا تعلق جانگری سے ہے اور وہ بٹنگی میں واقع سکول جا رہے تھے۔
جانگری سے بٹنگی تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کیبل کار کی مدد سے یہ فاصلہ چند منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔
ایڈیشنل ایس ایچ او بٹنگی محبت شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نزدیکی ضلع بٹگرام کے ایک مقامی مکینک نے یہ کیبل کار نما لفٹ بنائی تھی جس کے لیے اس نے مقامی انتظامیہ سے این او سی بھی حاصل کر رکھا ہے۔
لوگ اس لفٹ کے ذریعے سفر کرتے تھے کیونکہ انھیں اس لفٹ کے ذریعے ’بٹنگی‘ تک پہنچنے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق آج صبح اس کیبل کار نے حادثے کا شکار ہونے سے قبل دونوں گاؤں کے درمیان چار چکر لگائے تھے اور پانچویں مرتبہ بچوں کو لے جاتے ہوئے اس کی رسی ٹوٹ گئی۔
منگل کی صبح خبر ملتے ہی چیئر لفٹ میں پھنسے طلبہ کو نکالنے کے لئے مساجد سے اعلانات شروع کردیئے گئے، جس کے بعد آپریشن کے لئے عوام، انتظامیہ اور ریسکیو کی ٹیمیں بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئیں۔
کمشنر ہزارہ کی درخواست پر پاک فوج کا ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے لئے جائے وقوعہ پر پہنچا اور آپریشن شروع کردیا۔
پاک فوج کے ہیلی کاپٹر سے لٹکی رسی کے ذریعے دو کمانڈوز لفٹ کے پاس پہنچے اور معائنہ کیا، کمانڈوز نے لفٹ میں موجود افراد کا جائزہ لیا، اور حکام کو رپورٹ کی، جس کے بعد جہاز لینڈ کرگیا۔
ریسکیو آپریشن میں شامل کمانڈوز کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر سلنگ آپریشن کے لئے ریکی کرے گا، کیونکہ چیئر لفٹ کی تین میں سے دو تاریں ٹوٹ چکی ہیں، اور ہیلی کاپٹر سے پیدا ہونے والے ہوائی پریشر سے اکیلی بچ جانے والی تار بھی ٹوٹ سکتی ہے، اس لئے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کو انتہائی محتاط انداز میں کئے جانے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں، جنہیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ”ڈولی“ کہا جاتا ہے۔ جو پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقےجہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہ ہوں وہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔
پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔
ڈولی عمومی طور پر کسی بھی پرانی اور ناکارہ گاڑی کے ڈھانچے میں مناسب تبدیلیاں کر کے بنائی جاتی ہے۔
اسے آپریٹ کرنے کے لیے عمومی طور پر علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد عمومی طور اپنی آمد و رفت کے حساب سے آپریٹر کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کر لیتے ہیں جو ادا کیا جاتا ہے۔
چئیر لفٹ کی ڈولی کا سائز 6 بائی 4 ہوتی ہے اور فی کس کرایہ کم از کم 50 روپے لیا جاتا ہے۔
ڈولی میں بیک وقت چھ سے آٹھ افراد سوار ہوکر سفر کر سکتے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے چئیر لفٹ کی کوئی مینٹننس نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز واقعات معمول بن گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
بٹگرام چیئر لفٹ میں بچہ دل کا مریض اور 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے، گلفراز کا بیان
بٹگرام : چیئرلفٹ میں پھنسے بچے کا والد جذباتی ہوگیا
نمائندہ آج نیوز کے مطابق لفٹ میں پھنسنے والوں میں نویں کلاس کے 8 طلباء شامل ہیں، جن میں ابرار ولد عبدالغنی، عرفان ولد امریز، گلفراز ولد حکیم داد، اسامہ ولد محمد شریف، رضوان اللہ ولد عبدالقیوم، عطاء اللہ ولد کفایت اللہ، نیاز محمد ولد عمر زیب اور شیر نواز ولد شاہ نظر شامل ہیں۔
لفٹ میں موجود رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم نے ”آج نیوز“ سے خصوصی بات کرتے ہوئے بتایا کہ صبح 7 بجے بچہ اسکول کے لئے نکلا تھا اور لفٹ میں پھنس گیا۔
عبدالقیوم نے بتایا انتطامیہ 7 گھنٹے تک نہیں پہنچی، اور ہم پریشان ہیں کہ کیا کریں، آپریشن بہت تاخیر سے شروع کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پریشانی بڑھ گئی ہے کیوں کہ بچے بھوکے ہیں اور خوف میں مبتلا ہوں گے۔
کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی چیئرلفٹ میں پھنسے اساتذہ اور طلبا مدد کے منتظر ہیں، ریسکیو ٹیم کے رکن نسیم نے ”آج نیوز“ کو بتایا کہ کہ چیئر لفٹ صرف ایک کیبل پر لٹکی ہوئی ہے، ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکیو کی کوشش کی تو تیسری کیبل بھی ٹوٹ سکتی ہے، چیئرلفٹ سے بچوں کو نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر ضروری ہے۔
ڈپٹی کمشنر بٹگرام حماد حیدر نے ”آج نیوز“ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پشاور سے ہیلی کاپٹر سے منگوائے ہیں، 2 ہزار فٹ اونچائی پر آپریشن کرنا ہے، ہم کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتے۔
اس سے قبل کمشنر ہزارہ نے آپریشن کے لئے سیکرٹری خیبر پختون خوا، چیئرمین این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو خط لکھا، تاہم کمشنر کے خط کا تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔
کمشنر ہزارہ نے کورکمانڈر پشاور سے بھی فوری طور پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو ریسکیو کے احکامات دیے اور کہا کہ کے پی میں چیئرلفٹ حادثہ الارمنگ واقعہ ہے۔
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ میں نے تمام پرائیوٹ چیئرلفٹس کی انسپیکشن کی بھی ہدایت کردی ہے، یقینی بنائے جائے گا کہ تمام چیئرلفٹس پر سفر محفوظ ہو۔