کیا حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات ہی پاکستان کے بحران کا حل ہیں؟
آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ بلوچستان اورخیبرپختونخوامیں ہشت گردی ہے، تمام جماعتوں نے آپریشن کی مخالفت کر دی ہے، کوئی چارہ ہی نہیں کہ عمران خان کے ساتھ راستہ اوپن کیا جائے اور ڈائیلاگ ہوں، محمد زبیر نے کہا کہ ملک کی سب سی بڑی سیاسی جماعت اپوزیشن کو اندر رکھا ہوا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو اندر رکھ کر آپ پاکستان کے حالات کو صحیح طریقے سے چلا سکیں گے تو یہ نہیں ہوگا۔
آج نیوز کے پروگرام انسائٹ وِد عامر ضیا میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت اتنی کمزور ہے، جیسے آج آپ نے اڈیالہ کے باہر دیکھا کہ جہاں کوئی اتنا بڑا اجتماع نہیں تھا، عمران خان کی بہنیں تھیں اور وہاں چند ایم این اے ایز اور ایم پی ایز تھے، اس پر جو رد عمل پولیس نے اور سرکار نے دیا اس سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں کس قدر کمزور حکومت چل رہی ہے، پورا سسٹم ہی گھبرانا شروع ہو جاتا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کو جیل میں مسلسل رکھنے سے عوام اور اداروں کے درمیان فاصلہ بٹتا ہی جا رہا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کا یہ تاثر ہے بالکل رُوڈ ہو چکا ہے اس میں چاہیں آپ منرلز کانفرنس کروا لیں چاہے انوسٹمنٹ کانفرنس کروا لیں وہ چند گھنٹوں کے ایونٹس تو ہو سکتے ہیں لیکن اس کے کوئی دیرپا اثرات آپ کے سامنے نہیں آ سکتے۔
سابق وزیر نے کہا کہ کیوں کہ آپ کے لوگ شہید ہو رہے ہوں روازنہ اور آپریشن کا فیصلہ کریں اور وہاں کی ساری ہی سیاسی قیادت اس کی مخالفت کر دے تو وہ آپریشن کیا ہوگا، آپ جو بھی قدم اٹھائیں آپ کو عوام کا سامنا کرنا پڑے تو آپ بڑے فیصلے کر نہیں سکتے اور اس سے پاکستان میں استحکام نہیں آ سکتا۔
بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی اور سندھ میں کینالز کے معاملے پر حکومت کو بڑا اور بنیادی چیلنج کون سا ہے؟ کے سوال کے جواب میں محمد زبیر سابق گورنر سندھ نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج تو ان کی اپنی کریڈبلٹی کا ہے جسے عوام کی نظر میں اسٹیبلش کرنا ہے۔ کوئی بھی حکومت ایسے آگے نہیں چل سکتی جہاں اس قسم کا رابطہ منقطع ہو، وجہ معلوم ہے کہ ملک کی سب سی بڑی سیاسی جماعت اپوزیشن کو اندر رکھا ہوا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو اندر رکھ کر آپ پاکستان کے حالات کو صحیح طریقے سے چلا سکیں گے تو یہ نہیں ہوگا، نہ پہلے ایسا چلا ہے۔
محمد زبیر نے کہا کہ بہ ظاہر سب لگتا ہے پرسکون ہے، سب ٹھیک ہے، لیکن ہم نے ایوب خان، ضیاالحق کے زمانے میں دیکھا اور مشرف کے زمانے میں دیکھا اور پھر وہ سارا دوبارہ سے شروع کرنا پڑتا ہے اور آج کل ویسے ہی اس حکومت کے دور میں اتنے چیلنجز ہیں، بلوچستان اس وقت سیریس ہے، اسی طرح کے پی میں ہے ظاہر ہے ہمارے ہماسیوں کے ساتھ حالات اچھے نہیں ہیں، افغانستان کے ساتھ حالتِ جنگ ہے، بھارت سے حالات پہلے ہی خراب تھے۔
انھوں نے کہا کہ اکانومی اتنی خراب ہے، استحکام تو آ گیا ہے کہ باہر سے سرمایہ کار آ گئے، ایس آئی ایف سی کو بنے دو سال ہو جائیں گے جون میں اوراس وقت بھی سرمایہ کاری ریشو نیچے ہے تو وہ بھی نہیں آئی اور لوگوں کی قوتِ خرید بھی متاثر ہوئی ہے برے طریقے سے تو بہت سارے محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ لوگ اب اپنے بچوں کیلئے فکر مند ہیں، موجودہ حکومت کیلئے بہت سارے محاذ کھلے ہوئے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اس حکومت کی مقبولیت اور حمایت بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے بحران ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی مقبولیت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن جو پی ٹی آئی کا آرگنائزیشن اسٹریکچر ہے وہ اتنا تباہ شدہ ہے کہ وہ کوئی بڑا چیلنج حکومت کو دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آیا اور اس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے گوہر صاحب ہیں انھیں اندر جانے کی اجازت مل گئی اور بہنوں کو چھوڑ کر اندر چلے گئے، سلمان راجہ صاحب کو اجازت نہیں ملی تو انھوں نے اپنے چیئرمین کے خلاف ٹوئیٹ کر دیا۔
انھوںنے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر جو حالات ہیں ان کی وجہ سے جو صورت حال ہے وہ خراب ہے، دوسری جانب حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی مقبولیت کو ڈینٹ ڈال سکے۔ ملک میں اس وقت سیاسی بحران ہے، بیرونی سرمایہ کاری کےبجائےملک سےپیسہ باہر جا رہا ہے، بلوچستان اورخیبرپختونخوامیں ہشت گردی ہے، تمام جماعتوں نے آپریشن کی مخالفت کر دی ہے، بانی سےمذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلے دوبئی میں پیسے لگ رہے تھے اب روسی اسٹیٹ ہیں باکو وغیرہ سارے پاکستانی جانا شروع ہو گئے، پاکستان کا کرائسز تو بڑھتا جا رہا ہے، بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی ہے آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ آپریشن کریں گے تو ساری پختون لیڈر شپ نے اس کی مخالفت کر دینی ہے تو آپ کیسے کریں گے، بلوچستان میں بھی ساری سیاسی جماعتیں دوسری جانب کھڑی ہو جاتی ہیں۔ یہ سب آپ کیسے کریں گے، کوئی چارہ ہی نہیں کہ عمران خان کے ساتھ راستہ اوپن کیا جائے، ڈائیلاگ ہوں۔ ہم سنگاپور اور دوبئی تو ہیں نہیں کہ دو سال میں ہم بدل جائیں گے کچھ نہیں ہونا۔
محمد زبیر نے کہا کہ عام لوگ پڑھے لوگ بات کرتے ہیں، وہ اتنے فکر مند ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو زندگی گزار لی ہمارے بچوں کا کیا ہوگا۔ ہمیں تو دوبئی کا ویزہ نہیں ملتا، یوکے اور امریکا کو تو چھوڑ دیں، پیکا لاز اور ایگزیکٹو اس قسم کی چیزوں کو ختم کیا جائے، دنیا جوڈیشری پر اعتماد کرنا شروع کریں یہ سب بنیادی چیزیں ہیں اس کو نہیں کریں گے تو وہی ہوگا کہ جو 26ویں ترمیم ہوئی ہے یہ دو سال یا کچھ عرصے کے بعد ریورس ہوگی، ان سب چیزوں کو انڈر اسٹینڈ کرنا چااہیے کہ کتنا سیریس تھریٹ ہے پاکستان کو۔
Comments are closed on this story.