اسرائیل میں دو برطانوی اراکین اسمبلی کی گرفتار پر ہنگامہ مچ گیا
اسرائیلی حکام نے دو برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کو اپنی سرزمین پر داخل ہونے سے روک دیا اور انہیں حراست میں لے لیا۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اس واقعے کو ”ناقابلِ قبول“ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی امیگریشن وزارت کے مطابق، ان ارکانِ پارلیمنٹ پر شبہ تھا کہ وہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنا چاہتے تھے اور مبینہ طور پر’اسرائیل مخالف نفرت’ پھیلانے کے ارادے سے آئے تھے۔
جن دو ارکانِ پارلیمنٹ کو روکا گیا، وہ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوان یانگ اور ابتسام محمد ہیں۔ یانگ، ارلے اینڈ ووڈلے کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ابتسام شیفیلڈ سینٹرل کی ایم پی ہیں۔
امریکہ نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی اسرائیل مخالف تجویز کو کیسے ناکام بنایا؟
یہ دونوں اراکین ہفتے کے روز لوٹن (Luton) سے اسرائیل کے لیے روانہ ہوئے تھے، لیکن اسرائیلی حکام نے انہیں ایئرپورٹ پر ہی روک کر ان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔
برطانوی ردِ عمل
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ایک سخت بیان میں کہا، ’میں نے اسرائیلی حکومت میں اپنے ہم منصبوں پر واضح کر دیا ہے کہ برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ اس قسم کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ ہم دونوں ایم پیز سے رابطے میں ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔‘
لیمٰی نے مزید کہا کہ برطانیہ کی توجہ اس وقت جنگ بندی کی بحالی، خونریزی کے خاتمے، یرغمالیوں کی بازیابی اور غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے پر مرکوز ہے۔
اسرائیل نے 40 ہزار فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ان کے گھروں کو مسمار کر دیا
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری تنازعہ بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایسے میں کسی بھی بین الاقوامی وفد، خاص طور پر جمہوری ملک کے منتخب نمائندوں کو روکنا، نہ صرف سفارتی سطح پر کشیدگی پیدا کرتا ہے بلکہ جمہوری اصولوں، آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
یہ ایک حساس وقت ہے جہاں دنیا بھر کی نظریں مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر مرکوز ہیں۔ اس دوران ایسے اقدامات، جو بین الاقوامی تعلقات کو نقصان پہنچائیں، نہ صرف سفارتی ناکامی کا تاثر دیتے ہیں بلکہ خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کے لیے بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔
Comments are closed on this story.