حماس رہنماؤں کو غزہ چھوڑنے کی اجازت دینے کیلئے نیتن یاہو نے نئی شرط رکھ دی
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف بڑھتے ہوئے فوجی دباؤ کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں اور فلسطینی گروہ کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔
نیتن یاہو نے کابینہ اجلاس میں کہا، ’ہم فائرنگ کے دوران مذاکرات کر رہے ہیں… ہمیں نظر آ رہا ہے کہ ان کے مطالبات میں دراڑیں آ رہی ہیں۔‘
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
اسرائیل نے 40 ہزار فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ان کے گھروں کو مسمار کر دیا
ہفتے کے روز حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے اعلان کیا کہ گروپ نے ثالثوں کی جانب سے پیش کردہ نئے جنگ بندی منصوبے کی منظوری دے دی ہے اور اسرائیل سے اس کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے اس منصوبے کی وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل نے اس کے جواب میں ایک متبادل تجویز پیش کی ہے، تاہم ان سفارتی کوششوں کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
اتوار کو نیتن یاہو نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے، لیکن انہوں نے زور دیا کہ حماس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یمن پر حملوں کے دوران جنگی جرائم کا اعتراف کر لیا؟
نیتن یاہو نے کہا, ’ہم تیار ہیں، لیکن حماس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے… اس کے رہنماؤں کو غزہ چھوڑنے کی اجازت دی جائے گی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل غزہ میں سکیورٹی کو یقینی بنائے گا اور ’ٹرمپ منصوبے کے تحت رضاکارانہ ہجرت کے عمل کو نافذ کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے چند دن بعد ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس کے تحت غزہ کے 20 لاکھ سے زائد باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جانا تھا، تاہم اس تجویز کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرمپ کی ٹیرف جنگ کس طرح امریکیوں کیلئے ٹوائلٹ پیپر کا بحران لاسکتی ہے؟
غزہ میں عارضی جنگ بندی 18 مارچ کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نے دوبارہ فضائی اور زمینی حملے شروع کیے۔
اتوار کے روز اسرائیلی فضائی حملے میں خان یونس کے علاقے میں کم از کم آٹھ فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے، غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے تصدیق کی۔