کسی قیدی سے وکیل کو ملاقات کرنے سے روک نہیں سکتے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ کسی قیدی کو وکیل سے ملاقات کرنے سے نہیں روک سکتے، سپرنٹنڈنٹ بیان حلفی دیتے کہ بانی نے کہا کہ مشعال ان کی وکیل نہیں، وکیل جب کہتا ہے کہ میں وکیل ہوں تواس کی بات رد نہیں کرسکتے، اگر دوسری سائیڈ کہے کہ وہ وکیل نہیں تو آپ کلائنٹ سے پوچھ لیں، آج صرف کیس منتقلی کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈپٹی رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس سردار اعجازاسحاق نے کی۔ عدالت نے آج ڈپٹی رجسٹرار اور ایڈوکیٹ جنرل سے جواب طلب کیا تھا۔ سماعت کے دوران مشعال یوسفزئی روسٹرم پر آ گئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اعتراض کیا کہ ان کا کیس نہیں لگا ہوا، انہیں کہیں کہ روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ جس پر جسٹس سردار اعجاز نے مشال یوسفزئی کو نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کردی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ نیاز اللہ نے کل کہا کہ مشال یوسفزئی بانی کی وکیل نہیں، اس پر عدالت نے کہا کہ کوئی کیس ایک بینچ سے دوسری عدالت منتقل کیا جا سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ تنازع اس لیے شروع ہوا کہ کیا مشال بانی پی ٹی آئی کی وکیل ہیں یا نہیں؟
جسٹس سرداراعجاز نے کہا کہ یہی معلوم کرنے کیلئے توعدالتی کمیشن بھجوایا تھا، آپ کسی قیدی کو وکیل سے ملاقات کرنے سے روک نہیں سکتے، سپرنٹنڈنٹ بیان حلفی دے دیتے کہ بانی پی ٹی آئی نےکہا کہ مشعال ان کی وکیل نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک وکیل جب کہتا ہے کہ میں وکیل ہوں تو اس کی بات رد نہیں کرسکتے، اگر دوسری سائیڈ کہے کہ وہ وکیل نہیں تو آپ کلائنٹ سے پوچھ لیں۔ درخواستیں مختلف بینچز میں ہوں تو اسی بینچ سے ریکوئسٹ کی جاتی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے کیسز یکجا کرنے کی ریکوئسٹ کی، جس پر جسٹس سردار اعجاز نے کہا کہ کیس کی منتقلی کیلئے نوٹس دینا ضروری ہے، کیا دیگر پارٹیز کو نوٹس تھا؟ آپ قانون پڑھیں کہ کیس ٹرانسفر سے متعلق قانون کیا کہتا ہے، رجسٹرارآفس نے اعتراض لگا دیا تھا کہ یہ درخواست دی ہی نہیں جا سکتی۔
عدالت نے کہا کہ جس قانونی نکتے کے تحت درخواست آئی، اس کے تحت نہیں دی جا سکتی، درخواست گزار نے استدعا پر زورنہیں دیا لیکن استدعا مان بھی لی گئی، اس کارروائی کا مطلب ہائیکورٹ کو مزید شرمندہ کرنا نہیں، ہمیشہ کہتا ہوں کہ جج کا احتساب پبلک کرتی ہے، کہیں اور نہیں ہوتا، میں اپنے یا اپنے کولیگز کیلئے کوئی ناخوشگوار بات نہیں چھوڑنا چاہتا۔
جسٹس سردار اعجازاسحاق نے پوچھا کہ کیا آپ اس عدالت کے سامنے لگی توہین عدالت درخواست پر دلائل دیں گے؟ اس پر مشعال یوسفزئی نے جواب دیا کہ توہین عدالت کیس کی 7 سماعتیں ہوئیں، ہر مرتبہ غلط بیانی کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کیس میں کچھ نہیں ہوگا، آپ دیوارسے سر مار رہی ہیں۔
جسٹس سردار اعجاز نے کہا کہ آج صرف کیس منتقلی کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، اس ایشو پر ایک فائنل ججمنٹ لکھنی ہے، میں لکھوں گا کہ اس طرح کیس ٹرانسفرکرنے کی قانون میں گنجائش نہیں، اگر یہ کام ہائیکورٹ جج نے نہ کیا ہوتا تو یہ کرمنل توہین عدالت ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے بھی کہا اعتراض درست ہے یہ درخواست نہیں بنتی لیکن لارجربنچ بنا دیتا ہوں جب درخواست سیکشن 24 کے تحت بنتی ہی نہیں توپھرریکویسٹ منظور کیسے کی جا سکتی ہے؟
شعیب شاہین نے اگاہ کیا کہ آرڈرمیں لکھا ہے آفس اعتراضات کو دورکردیا گیا عدالت نے کہاکہ اچھا ایسا لکھا ہے، لیکن اعتراضات دورکرنے کہ وجہ کوئی نہیں بتائی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔