نیتن یاہو کو گرفتاری کا ڈر؟ اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے دوبارہ کیوں شروع کیے؟
اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں، جس میں فضائی اور توپ خانے سے بمباری کی جا رہی ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، ان حملوں میں اب تک 400 سے زائد فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
شہداء میں حماس کے چند اعلیٰ عہدیدار اور بڑی تعداد میں عام شہری، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ غزہ کے اسپتالوں اور امدادی ٹیموں کا کہنا ہے کہ وہ زخمیوں کے شدید دباؤ کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے شمالی اور وسطی غزہ کے کئی علاقوں کے باشندوں کو انخلا کے احکامات بھی دیے ہیں، جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ زمینی کارروائی کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں کئی فلسطینی باشندے اپنے تباہ حال گھروں کو لوٹے تھے، لیکن وہ ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
یہ حملے اس وقت کیوں ہو رہے ہیں؟
اسرائیلی حکومت کئی ہفتوں سے حملوں کی دھمکیاں دے رہی تھی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کی قیادت، جو حالیہ دنوں میں دوبارہ متحرک ہو کر غزہ میں کنٹرول سنبھال رہی تھی، اس کو نشانہ بنانے سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ تاہم، یرغمالیوں کے اہلِ خانہ اس دعوے سے متفق نہیں ہیں۔
عملی طور پر دیکھا جائے تو اسرائیل کو اب وہ وسائل اور طاقت میسر آ چکی ہے جو اسے چھ ہفتے قبل دستیاب نہیں تھی۔ امریکہ سے فراہم کردہ اسلحہ اور گولہ بارود کے بعد اسرائیل کے ذخائر دوبارہ بحال ہو چکے ہیں، جنگی طیارے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مرمت مکمل ہو چکی ہے، اور فوجی بھی آرام کے بعد تازہ دم ہو چکے ہیں۔
ایران کے سفیر نے اقوام متحدہ کو امریکی صدر کی دھمکی پر خط لکھ دیا
جنگ بندی پر اس کے اثرات
یہ نئی کارروائی اس جنگ بندی کے 16 دن بعد شروع ہوئی ہے جو جنوری میں تین مراحل پر مشتمل معاہدے کے تحت طے پائی تھی۔ اس معاہدے کے تحت مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور تمام یرغمالیوں کی رہائی ہونی تھی۔
اب جنگ بندی کے حوالے سے بالواسطہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
حماس کا مؤقف ہے کہ اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور دوسرے مرحلے پر عملدرآمد نہیں کیا، جس کے تحت مستقل جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی طے تھی۔ اسرائیل نے اس کے بجائے پہلے مرحلے کو مزید 30 سے 60 دن بڑھانے کی تجویز دی، تاکہ مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے، لیکن حماس نے اسے مسترد کر دیا۔
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ اس نے نئے یرغمالیوں کی رہائی سے انکار کر دیا تھا۔
رہائی پانے والے اسرائیلی یرغمالی کے غزہ کی سرنگوں کے حوالے سے ہوشرُبا انکشافات
حملوں کی دیگر ممکنہ وجوہات
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کبھی بھی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں جانے کے حق میں نہیں تھے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کو غزہ سے نکلنا پڑتا، جس سے حماس دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیتی۔
برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں حماس نے دوبارہ منظم ہو کر اپنی انتظامیہ کو بحال کر لیا ہے اور اس کی عسکری شاخ نے ہزاروں نئے جنگجو بھرتی کیے ہیں۔
ایک اور عنصر یہ ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
داخلی سیاست بھی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ نیتن یاہو اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے دائیں بازو کے اتحادیوں پر انحصار کر رہے ہیں، جو غزہ میں مستقل جنگ بندی کے سخت مخالف ہیں۔ جنوری میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد ان کے ایک وزیر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ اب ان اتحادیوں کی حمایت انہیں دوبارہ حاصل ہو گئی ہے، کم از کم مختصر مدت کے لیے۔
نیتن یاہو خود بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر وہ مجرم ثابت ہوتے ہیں تو انہیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، نیتن یاہو نے ”جنگ کے دوبارہ آغاز“ کی وجہ سے منگل کو عدالت میں پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کی، جو منظور کر لی گئی۔
اتوار کو نیتن یاہو نے اسرائیل کی داخلی سیکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کو برطرف کرنے کا اعلان کیا، جسے اسرائیلی جمہوری نظام پر حملے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف بڑے عوامی احتجاج متوقع ہیں، لیکن جنگ کے تناظر میں نیتن یاہو کے حامی ان مظاہروں کو ”غیر محبِ وطن“ قرار دے سکتے ہیں۔
نیتن یاہو نے حماس سے شکست تسلیم کرنے والے اعلیٰ فوجی افسر کو فارغ کردیا
آگے کیا ہو سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان دو ماہ کی نازک جنگ بندی اب ختم ہو چکی ہے۔ ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ کوئی معاہدہ جلد ہو سکے گا جو ان تازہ حملوں کو روکے۔
اسرائیلی حکام واضح کر چکے ہیں کہ یہ حملے صرف ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہیں، جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حماس 59 یرغمالیوں کو رہا نہیں کر دیتا، جن میں سے نصف سے زائد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں مزید شہری ہلاکتیں، بڑے پیمانے پر بے گھری اور تباہی متوقع ہے۔
غزہ میں انسانی بحران پہلے ہی انتہائی سنگین ہے۔ جنگ بندی کے دوران امدادی سامان پہنچنے سے کچھ بہتری آئی تھی، لیکن دو ہفتے قبل اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی نافذ کر دی، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ حماس امداد کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ حماس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں خوراک اور ضروری اشیاء کے ذخائر تقریباً تین ہفتے تک کافی ہو سکتے ہیں، لیکن جنگ کی شدت میں اضافے سے ان کی تقسیم مزید مشکل ہو جائے گی۔