امریکہ میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردی گئیں، شہریوں کی نیند حرام کرنے والی ’ڈے لائٹ سیونگ‘ کیا ہے؟
امریکہ میں ایک مرتبہ پھر گھڑیوں کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں، جس کے باعث کئی امریکیوں کو معمول سے ایک گھنٹہ پہلے نیند سے بیدار ہونا پڑا۔ اتوار کی صبح جب کچھ امریکی سات بجے جاگے تو ان کی گھڑیاں آٹھ بجا رہی تھیں، کیونکہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دو بجے سرکاری طور پر گھڑیاں آگے کی جا چکی تھیں۔
ہر سال مارچ کے آغاز میں امریکہ کی کئی ریاستوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے اور نومبر میں ایک گھنٹہ پیچھے کی جاتی ہیں۔ مارچ میں یہ تبدیلی موسم گرما کی آمد کی علامت سمجھی جاتی ہے، تاکہ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے، جبکہ نومبر میں گھڑیاں پیچھے کرنا موسم سرما کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔
امریکی ریاست ہوائی اور ایریزونا کے بیشتر علاقوں میں یہ طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا، جبکہ امریکہ کے زیر انتظام علاقوں پورٹو ریکو اور ورجن آئی لینڈ میں بھی گھڑیاں پورے سال ایک ہی وقت کے مطابق چلتی ہیں۔
امریکہ کے علاوہ یورپ، کینیڈا کے بیشتر علاقوں اور آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں بھی ڈے لائٹ سیونگ کا عمل رائج ہے، تاہم روس اور ایشیا کے بیشتر ممالک میں ایسا نہیں کیا جاتا۔
ڈے لائٹ سیونگ کا پس منظر
ڈے لائٹ سیونگ کا تصور سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے ماہر فلکیات جارج ورنن ہڈسن نے 1890 کی دہائی میں پیش کیا تھا، تاکہ سورج کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ بعد میں 1900 کے اوائل میں برطانوی ماہر تعمیرات ولیم ویلیٹ نے بھی اسی طرح کی تجویز دی، مگر ابتدا میں اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے سب سے پہلے اس تصور کو اپنایا، جس کے بعد امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک نے بھی اسے نافذ کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے دوبارہ اس پر عمل کیا اور اسے ”جنگ کا وقت“ قرار دیا گیا۔
امریکہ میں وقت کی تبدیلی پر عوامی ردعمل
1970 کی دہائی میں امریکہ کو توانائی بحران کا سامنا تھا، جس کے دوران پورے سال ڈے لائٹ سیونگ نافذ رہا، تاہم شہریوں کی بڑی تعداد نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ خاص طور پر سردیوں میں، جب صبح نو بجے تک سورج طلوع نہیں ہوتا، شہریوں کو اندھیرے میں کام پر اور بچوں کو اسکول بھیجنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق: 43 فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ پورے سال ایک ہی وقت برقرار رکھا جائے۔ جبکہ 32 فیصد شہری پورے سال موسم گرما کا وقت (ڈے لائٹ سیونگ ٹائم) رکھنا چاہتے ہیں۔
صرف 25 فیصد لوگ موجودہ نظام کو پسند کرتے ہیں، جس میں وقت کو سال میں دو بار تبدیل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی 2002 میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ڈے لائٹ سیونگ کا تجربہ کیا گیا تھا، مگر اسے زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھا جا سکا۔
Comments are closed on this story.