Aaj News

جمعہ, مئ 09, 2025  
11 Dhul-Qadah 1446  

ارمغان کے والد اور مقتول مصطفیٰ کی والدہ کو شامل تفتیش کرنے کیلئے خط لکھ دیا گیا

مصطفیٰ قتل کیس میں بڑی پیشرفت، آج نیوز نے ارمغان کی انٹیروگیشن رپورٹ کی کاپی حاصل کرلی، سنسنی خیز انکشافات
اپ ڈیٹ 10 مارچ 2025 10:11pm

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اغوا کے بعد قتل ہونے والے مصطفی عامر کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار آرائیں نے ڈی آئی جی سی آئی اے، ایس ایس پی اور تفتیشی افسر کے نام خط لکھ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم ارمغان کے والد اور مقتول کی والدہ کو شامل تفتیش کیا جائے۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کی انٹیروگیشن رپورٹ آج نیوزنے حاصل کرلی، ملزم کیخلاف تھانہ گذری، کلفٹن، درخشاں، بوٹ بیسن میں بھی مقدمات درج ہیں، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملزم ارمغان کی ماہانہ آمدن کروڑوں روپے ہے۔

تفصیلات کے مطابق مصطفی قتل کیس میں اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار آرائیں نے ڈی آئی جی سی آئی اے، ایس ایس پی اور تفتیشی افسر کو خط لکھ کر ملزم ارمغان اور مقتول مصطفی عامر سے متعلق جامع تحقیقات کی ہدایات دی ہیں۔

خط میں ملزم ارمغان کے ممکنہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور ملک دشمن عناصر سے تعلقات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ملزم ارمغان کے والد اور مقتول مصطفی عامر کی والدہ کو بھی شامل تفتیش کیا جائے، تحقیقات میں یہ بھی دیکھا جائے کہ ملزم اور اس کے ساتھیوں کا دہشت گردوں یا ان کی مالی معاونت میں کوئی کردار تو نہیں، ملزم کی منی لانڈرنگ اور بین الاقوامی منشیات ڈیلرز سے تعلقات کے امکانات کو بھی جانچنے کی ضرورت ہے۔

مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان سے متعلق نیا انکشاف سامنے آگیا

اسپیشل پراسیکیوٹر کے مطابق، ملزم اور مقتول کے تمام قریبی دوستوں سے پوچھ گچھ کی جائے، جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں، ملزم کی جائیداد، کاروبار، بینک اکاؤنٹس اور ٹریول ہسٹری بھی حاصل کی جائے جبکہ مقتول مصطفی عامر کے کاروبار، جائیداد اور سفری تفصیلات کا بھی جائزہ لیا جائے۔

خط میں اسلحہ اور دیگر برآمد شدہ اشیاء کا فرانزک کرانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے، جس موبائل فون سے تاوان کے لیے کال کی گئی اور جس نمبر پر کال موصول ہوئی، دونوں کا فرانزک معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، ملزم کے گھر سے برآمد شدہ اسلحہ، گولہ بارود، سنائپر گن، 64 لیپ ٹاپ، واکی ٹاکی سیٹس، ڈیجیٹل محفوظ لاکرز اور دو شناختی کارڈز کو کیس پراپرٹی میں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے سوال اٹھایا ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں اسلحہ ملزم نے کہاں سے اور کس سے خریدا؟ ڈی ایچ اے کے سیکیورٹی انچارج اور مقامی انٹیلیجنس اداروں کی مدد لے کر اس پہلو کو بھی کھنگالا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی پولیس سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اس تمام عرصے تک خاموش کیوں رہی اور جرائم پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی، ملزم کے گھر اور ارد گرد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کا فرانزک کرایا جائے جبکہ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آنے والے مواد کو بھی کیس پراپرٹی کا حصہ بنایا جائے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے مزید ہدایت دی کہ مصطفی عامر کا ارمغان کے گھر آنا، اس کی گاڑی کا بلوچستان جانا، جائے وقوعہ اور دیگر مقامات کی تصویریں حاصل کی جائیں، اس کے ساتھ ساتھ، ملزم کے مالک مکان سے بھی پوچھ گچھ کی جائے کہ کرایہ کا معاہدہ کن شرائط پر ہوا تھا اور رہائشی علاقے میں کمرشل سرگرمیاں کیوں جاری تھیں۔

آج نیوز نے ملزم ارمغان کی انٹیروگیشن رپورٹ کی کاپی حاصل کرلی

دوسری جانب کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے، آج نیوز نے ملزم ارمغان کی انٹیروگیشن رپورٹ کی باقاعدہ کاپی حاصل کرلی ہے، جس میں سنسنی خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔

انٹیروگیشن رپورٹ کے مطابق ملزم ارمغان خیابان مومن میں واقع ایک بنگلے میں کال سینٹر چلا رہا تھا، جہاں 30 سے 40 لڑکے اور لڑکیاں کام کرتے تھے، اس بنگلے میں غیرقانونی طور پر شیر کے 3 بچے بھی رکھے گئے تھے جبکہ سیکیورٹی کے لیے 30 سے 35 گارڈز بھی تعینات تھے۔ میں شیر کے 3 بچے بھی غیرقانون طور پر رکھے ہوئِے تھے۔

ماضی کا مجرمانہ ریکارڈ

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملزم ارمغان منشیات کے کاروبار میں ملوث رہا ہے اور اس کے خلاف 2019 میں کسٹم حکام نے مقدمہ درج کیا تھا، جس میں وہ بعد میں ضمانت پر رہا ہوگیا تھا، ملزم کے خلاف گذری، کلفٹن، درخشاں اور بوٹ بیسن تھانوں میں بھی مختلف مقدمات درج ہیں۔

قتل کی رات کا واقعہ

رپورٹ کے مطابق، ملزم ارمغان کی ماہانہ آمدن کروڑوں روپے ہے، ملزم منشیات کا استعمال خود بھی کرتا ہے، شیراز نامی شخص ملزم ارمغان کا بچپن کا دوست ہے، ملزم ارمغان نے نیو ایئر نائٹ پر اپنے بنگلے میں ایک پارٹی رکھی تھی، پارٹی میں رات 12 بجے سے 3 بجے تک اس کا دوست شیراز بھی موجود تھا تاہم پارٹی میں مصطفیٰ عامر شریک نہیں ہوا تھا، 5 جنوری کو ارمغان نے زوما اور شیراز کو اپنے بنگلے پر بلایا اور زوما کو لوہے کی راڈ سے تشدد کا نشانہ بنایا، پھر اسے آن لائن ٹیکسی کے ذریعے واپس بھیج دیا۔

6 جنوری کو رات 9 بجے مصطفیٰ عامر بھی بنگلے پر آیا، جہاں اس کا ارمغان سے جھگڑا ہوا، ارمغان اور شیراز نے مصطفیٰ پر تشدد کیا، دو ملازمین سے کمرے میں موجود خون کے نشانات صاف کرنے کا کہا گیا، مصظفیٰ کے کپڑے، موبائل فون اور انٹرنیٹ ڈیوائس ارمغان نے اپنے پاس رکھ لی، مصطفیٰ کی گاڑی میں پیٹرول نہ ہونے پرارمغان نے بنگلے سے پیڑول کا گیلن ساتھ لیا، رات ساڑھے 4 بجے مصطفٰی کے کپڑے اتارے اور ہاتھ پیر باندھ کر اسے گاڑی کی ڈگی میں ڈال دیا، جس کے بعد حب لے جا کر اس کی گاڑی پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ ملزمان مصطفیٰ کا موبائل فون اوردیگر سامان راستے میں پھیکنتے رہے۔

فرار کی کوشش اور گرفتاری

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قتل کے بعد ملزمان ناشتے کیلئے ایک ہوٹل پر رکے، ارمغان اور شیراز پیدل کراچی واپس آئے اورچند روز بعد مصظفیٰ کی والدہ نے ارمغان سے بیٹے کے بارے میں پوچھا، ارمغان کے مطابق مصطفیٰ 6 جنوری کی رات نعمان نامی دوست کو بتاکراسکے پاس آیا تھا۔ مصطفٰی کی والدہ کے شک ظاہر کرنے پر دونوں اسلام آباد فرار ہو گئے، تاہم پولیس چھاپے سے تین روز قبل ارمغان کراچی واپس آیا، جہاں اسے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھ کر پولیس نے گرفتار کیا، مقابلے کے دوران فائرنگ بھی کی گئی، جس کے بعد پولیس نے اسلحہ، لیپ ٹاپ، وائرلیس سیٹ اور دیگر مشکوک سامان تحویل میں لے لیا۔

یہ ہولناک واردات اور انٹیروگیشن رپورٹ کے انکشافات کیس کی پیچیدگی کو ظاہر کرتے ہیں، جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

منشیات کے گندے دھندے کے بڑے کردار بے نقاب، منشیات کیس کے ملزم ساحر حسین نے اسپیشلائزڈ یونٹ کو سب بتا دیا

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ارمغان منشیات کیس میں گتھیاں مزید سلجھنے لگیں، ملزم ساحر حسن کے 8 سال کی عمر سے منشیات کے استعمال کا انکشاف

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

ڈارک ویب سے منشیات کی سپلائی، مصطفیٰ عامر اور ساحر حسن کراچی کے بڑے منشیات ڈیلرز میں شامل، حکام کا انکشاف

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

Mustafa Kidnapping case

Mustafa Murder Case

Armaghan

Mustafa Murder Case Witness

Cases on Armaghan