مصطفی قتل کیس: ملزم ارمغان 8 سال سے منشیات منگوا کر نشہ کررہا تھا، اہم انکشاف
کراچی میں مصطفیٰ عامر کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے خلاف منشیات کے دو مقدمات کا ریکارڈ پولیس نے حاصل کرلیا، مقدمات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملزم ارمغان 8 سال سے منشیات منگوا کر نشہ کررہا تھا، انسداد منشیات عدالت کراچی نے ملزم کو منشیات کیس میں 18 مارچ کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق پولیس نے ملزمان ارمغان کے خلاف منشیات کے دو مقدمات کا ریکارڈ حاصل کرلیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزم ارمغان 8 سالوں سے ویڈ منگوا کر نشہ کررہا ہے۔
انسداد منشیات عدالت میں ملزمان ارمغان کے خلاف درج منشیات کے 2 میں سے ایک مقدمے کا 6 سال بعد چالان پیش کردیا گیا۔
چالان کے مطابق 30 اپریل 2019 کو غیر ملکی پوسٹ سے ارمغان کے نام پر ایک پارسل پاکستان پوسٹ آیا تھا، پارسل کو مشکوک سمجھ کر کھولا گیا تو 125 گرام ویڈ برآمد ہوا، پارسل ارمغان کے ڈی ایچ اے فیز 6 کے پتے پر منگوایا گیا تھا۔
چالان کے مطابق ملزم اسی طرح کے کیس میں پہلے سے گرفتار اور جیل میں ہے، ملزم ارمغان پہلے بھی اسی ایکسپورٹر سے 500 گرام ویڈ منگواچکا تھا، ملزم کو ملیر جیل سے 3 مئی 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ارمغان یکم جولائی 2017 سے 24 اپریل 2019 تک 9 پارسل منگوا چکا ہے، ملزمان نے یہ پارسل اپنے اور والد کے نام پر منگوائے تھے، دیگر شریک ملزمان میں عبد الغفار اور احتشام احمد شامل ہیں، ملزمان پوش علاقے میں قائم کیفے اور پارٹیوں میں نشہ کرتے ہیں۔
مصطفیٰ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی کے نئے انکشافات، کئی ملزمان کے فرار کا دعویٰ
عدالت نے ملزم ارمغان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم ارمغان کو منشات کیس میں 18 مارچ کو پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان قریشی کو گزشتہ روز جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔
ڈیفنس کے رہائشیوں نے اعلیٰ حکام کو خط لکھ دیا
مصطفی عامر قتل کے بعد ڈیفنس کے رہائشیوں نے ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور اسٹیشن کمانڈر ڈی ایچ اے کرچی سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو خط لکھ دیا، جس میں ڈی ایچ اے رولز کی خلاف ورزی پر ارمغان کے والد کامران قریشی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ڈیفنس کے رہائشیوں کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ حالیہ واقعات کی وجہ سےرہائشیوں کو سیکیورٹی خدشات لاحق ہوگئے ہیں، ارمغان کے زیر استعمال بنگلہ نمبر 35 کے اصل مالک کو سامنے لاکر امغان کے والد کامران سے بنگلے کو خالی کرایا جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بنگلے سے متعدد مرتبہ ہوائی فائرنگ کے واقعات پیش آئے، جس کی وجہ سے علاقے میں خوف کی فضا پیدا ہوئی جبکہ 2023 سے 2024 کے دوران بنگلے میں غیر قانونی طور پر شیروں کو بھی رکھا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ ارمغان قریشی 100 پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ رکھتا تھا، ارمغان اپنے گارڈز کے ذریعے خواتین، گھریلو ملازمین کو ہراساں کرنے میں بھی ملوث ہے، 8 فروری کو بنگلے میں ارمغان اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کی وجہ سے دیگر رہائشی گھروں میں محصور ہوگئے تھے۔
ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کا مؤقف بھی سامنے آگیا
مصطفی قتل کیس کے بعد علاقہ مکینوں کی جانب سے پولیس کوخط لکھے جانے کے بعد ڈی آئی جی ساؤتھ اسدرضا کا مؤقف بھی سامنے آگیا۔
ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق 21 فروری کو رہائشیوں کا خط موصول ہوا تھا، خط پر مزید اقدامات شروع کردیے ہیں، پولیس دیگر اداروں کی مدد سے ارمغان کے زیراستعمال بنگلے کو خالی کرائے گی، ڈی ایچ اے رولز کی خلاف ورزی، متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد ایکشن لیں گے۔
سی آئی اے پولیس نے گزشتہ روز اے ایس آئی ندیم کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا
ادھر کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ قتل کیس میں گذری پولیس کے اے ایس آئی ندیم پر ارمغان کی سہولت کاری کے الزام اور پوچھ گچھ سے متعلق سی آئی اے پولیس نے گزشتہ روز اے ایس آئی ندیم کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا۔
اے ایس آئی ندیم نے تفتیش کاروں کو بیان دیا کہ ملزم ارمغان پر مقدمات تھے جن میں وہ ضمانت کروا چکا تھا، ارمغان پر کیسز کی تفتیش کے سلسلے میں اس سے رابطہ ہوا، بات چیت ہوئی تھی، میں کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں۔
ذرائع سی آئی اے کا کہنا ہے کہ دوبارہ ضرورت پڑی تو اے ایس آئی کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کریں گے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
منشیات کے بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے والے ملزم ساحرحسین سے مزید تفتیش رک گئی
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔
Comments are closed on this story.