یوکرین کے صدر نےامریکی ڈیل ٹھکرا دی، استعفے کیلئے شرط رکھ دی
یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ اگر کیف کو نیٹو میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ بطور صدر مستعفی ہوجائیں گے، تاہم امریکی صدر ٹرمپ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات سے قبل مجھ سے ملاقات کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زیلنسکی یوکرین میں جنگ بندی اور امن قائم کرنے کی خاطر کسی بھی معاہدے کے حصے کے طور پر یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
زیلنسکی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اگر واقعی مجھے اپنا عہدہ چھوڑنے کی ضرورت ہے، تو میں تیار ہوں، اگر ضرورت پڑی تو فوری طور پر چلا جاؤں گا۔
یوکرین کے صدر کا کہنا تھا کہ میں ٹرمپ سے بات کر کے ایک دوسرے کو سمجھنا چاہوں گا، امریکی صدر کی طرف سے یو کرین کی ’سلامتی کی ضمانت‘ کی بہت ضرورت ہے۔
ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو ڈکٹیٹر قرار دے دیا
ادھر یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی نے امریکا کو معدنیاتی وسائل دینے سے متعلق دو ٹوک اعلان کردیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین کے صدر زیلنسکی نے امریکی صدر کو واضح طور پر پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنگی اخراجات کی واپسی کے لیے کسی بھی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس کا بوجھ آئندہ 10 نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق امریکا کی جانب سے یوکرین کے معدنی وسائل کے 50 فیصد حصے کے حقوق کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اب زیلنسکی نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
روس کے دوبارہ حملہ نہ کرنے کی گارنٹی دی جائے تو دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے، یوکرینی صدر
رپورٹ کے مطابق یوکرینی صدر نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی کسی بھی ڈیل پر دستخط نہیں کریں گے۔
زیلنسکی نے کہا کہ 500 ارب ڈالر تو کیا، 100 ارب ڈالر بھی واپس نہیں کریں گے کیونکہ یہ رقم سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے بطور امداد دی گئی تھی، نہ کہ قرض تھی۔
زیلنسکی نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا کہ خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، امداد واپس کرنا یوکرین کی ذمہ داری نہیں۔
واضح رہے برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ یوکرین اپنی معدنیات امریکا پر قربان کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ تاہم یوکرینی صدر نے واضح پیغام بھیج دیا ہے۔
Comments are closed on this story.