جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور چیف جسٹس کام سے روکا جائے، پانچ ججز کا سنیارٹی کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع
اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے اپنی سینیارٹی کے خلاف قانونی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ججز نے سینئر وکلاء منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کی خدمات حاصل کی ہیں۔
ججز کی جانب سے سنیارٹی کے خلاف دائر کردہ ریپریزنٹیشن مسترد ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے سینارٹی کپ خلاف درخواست دائر کردی۔
سپریم کورٹ میں وکیل منیراے ملک، بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کی گئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ قرار دے صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں، مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔
درخواست گزارججز میں جسٹس محسن کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابرستار، جسٹس رفعت امتیاز اور جسٹس بابرستار شامل ہیں۔
فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس: آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
درخواست میں وفاقی حکومت، ٹرانسفر کیے گئے ججز اور مختلف ہائیکورٹس کو فریق بنایا گیا ہے، جبکہ درخواست کے ساتھ حکم امتناعی کی علیحدہ درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں 13 مختلف استدعائیں کی گئی ہیں، جن میں جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت تین ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی شامل ہے۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ صدر کے اختیارات کو جوڈیشل کمیشن کی منظوری سے مشروط کیا جائے۔
مزید برآں، درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی ایڈمنسٹریٹو کمیٹی اور ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹیوں کی تشکیل نو کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفیکیشن اور سابق چیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے سینیارٹی ریپریزنٹیشن مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی فہرست پر نظرثانی کے عمل کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
ورک پلیس پر ہراسگی عالمی مسئلہ قرار، جسٹس منصور علی شاہ کا اہم فیصلہ جاری
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینیارٹی میں سینئر پیونی جج تعینات کرنے کے خلاف ریپریزنٹیشن دائر کی گئی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں صدر مملکت کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200(1) کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں اور مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔
Comments are closed on this story.