Aaj News

بدھ, اپريل 23, 2025  
24 Shawwal 1446  

مقبوضہ کشمیر میں درجنوں کتب فروش دکانوں پر چھاپے، مولانا مودودی کی سیکڑوں کتابیں ضبط

جماعت اسلامی کے مطابق یہ کتابیں قانونی طور پر دہلی میں شائع ہوتی ہیں
شائع 20 فروری 2025 01:06pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں درجنوں کتاب فروش رکمغصئ پر چھاپے مار کر 650 سے زائد کتابیں ضبط کر لیں۔ یہ کارروائی بھارتی فوج کی جانب سے اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کے تسلسل کا حصہ قرار دی جا رہی ہے۔

”دی گارڈین“ کے مطابق ضبط کی جانے والی کتابوں میں نامور اسلامی اسکالر اور جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلیٰ مودودی کی تصانیف شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کو بھارت نے پہلے ہی غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔

چھاپے گزشتہ جمعے کو سرینگر میں شروع کیے گئے، جس کے بعد دیگر علاقوں میں بھی یہ کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ سرینگر پولیس کے مطابق یہ چھاپے ایک ”معتبر اطلاع“ پر مارے گئے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کالعدم تنظیم کی نظریاتی کتابیں خفیہ طور پر فروخت اور تقسیم کی جا رہی ہیں۔

پولیس کے مطابق مجموعی طور پر 668 کتابیں ضبط کی گئی ہیں۔

یہ کتابیں زیادہ تر نئی دہلی میں قائم ”مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز“ کی جانب سے شائع کی گئی تھیں، جو جماعت اسلامی کی ہندوستانی شاخ سے وابستہ ہے۔ بھارتی پولیس نے الزام لگایا کہ یہ کتابیں قانونی ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور ان کے حامل افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ فروری 2019 میں بھارتی حکومت نے جماعت اسلامی پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی تھی، جسے بعد ازاں 2024 میں مزید پانچ سال کے لیے بڑھا دیا گیا۔ اگست 2019 میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں میں تیزی آ گئی۔

جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھارتی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کتابوں کی ضبطی ”غیر منصفانہ، غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی“ ہے۔ جماعت کے مطابق یہ کتابیں قانونی طور پر دہلی میں شائع ہوتی ہیں اور اگر حکومت کو کوئی تحفظات ہیں تو وہ قانونی تحقیقات کرے، لیکن اس طرح نظریات کو دبانے کا عمل غیر منطقی اور جانبدارانہ ہے۔

کشمیری حریت رہنما اور وادی کے چیف مفتی عمر فاروق نے اس کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ”اسلامی کتب پر پابندی عائد کرنا نہایت ہی قابل مذمت اور مضحکہ خیز ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ ”خیالات پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کرنا اور کتابوں کو ضبط کرنا آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر اس دور میں جب تمام معلومات ورچوئل دنیا میں آسانی سے دستیاب ہیں۔“

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف 1947 سے مزاحمت جاری ہے، اور اب تک لاکھوں کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔

دی گارڈین کے مطابق 1989 میں جب کشمیری مزاحمت مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوئی تو حزب المجاہدین نے جماعت اسلامی کی عسکری ونگ ہونے کا اعلان کیا تھا، تاہم جماعت اسلامی نے بعد میں اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں اور اس نے کبھی مسلح کارروائی کی حمایت نہیں کی۔

بھارتی فورسز کی جانب سے اسلامی نظریات کو دبانے کے اس اقدام کو عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے، لیکن مودی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے باعث مقبوضہ وادی میں آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

Indian occupied Kashmir

Jamat e Islami

Abul A’la Maududi