Aaj News

جمعہ, اپريل 18, 2025  
19 Shawwal 1446  

ملکی سالمیت کی پالیسی ایوانوں میں نہیں، بند کمروں میں بنائی جارہی ہے، مولانا فضل الرحمان

اسٹیبلشمنٹ جو چاہے فیصلہ کرلے، حکومت کو اس پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے، سربراہ جے یو آئی
شائع 17 فروری 2025 07:57pm

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں، ملکی سالمیت کی پالیسی پالیسی ایوانوں میں نہیں بنائی جا رہی بلکہ بند کمروں میں بنائی جا رہی ہے، ملک میں خاص اسٹیبلشمنٹ جو چاہے فیصلہ کرلے، حکومت کو اس پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایوان میں ایسی قانون سازی بھی دیکھی جو بغیر کاروائی منظور ہوئی، اس ایوان میں اضطراب اور ہنگامہ آرائی کو سال ہوگیا، ہمارا نکتہ نظر کوئی سننے کو تیار نہیں۔

’ایوان کو احسن طریقے سے چلانا اسپیکر کی ذمہ داری ہے‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت چاہے نہ چاہے ایوان کو احسن طریقے سے چلانا اسپیکر کی ذمہ داری ہے، پورا ملک اس وقت اضطراب میں مبتلا ہے، عام آدمی کے پاس روزگار نہیں، محکمہ اور ادارے ملیامیٹ کیے جارہے ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار ہورہے ہیں، حکومت عوام کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو پارلیمنٹ میں بات ہوتی ہے، حکومت ایک سال سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ملکی سالمیت کا مسلہ ہے، بار بار بات کررہا ہوں، ہمیں ریاست کی بقا کی بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہم ان سے لڑ رہے ہیں، ہمیں ادراک ہونا چاہیئے کہ 2 صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے۔

’اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے بات کرتی ہے، ہم سے تو بس انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں‘

انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جو ہورہا ہے وزیراعظم شاید اس سے لاعلم ہیں، افغانستان ہمارے جرگے جاتے تھے اب حکومت کو کچھ علم نہیں، ملک میں کوئی سیاسی بات نہیں اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے بات کرتی ہے، ہم سے تو بس انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں، ہمیں پارلیمان میں فیصلے کرنے ہیں، میرے علاقے میں بعض مقامات کو پولیس تو چھوڑیں آرمی بھی خالی کرگئی، ان علاقوں میں کس کا راج ہے؟

مونالا فضل الرحمان نے کہا کہ بلوچستان کے اضلاع ابھی آزادی کا اعلان کریں تو اقوام متحدہ ان کی درخواست قبول کرلے، میری باتیں بڑی سنجیدہ ہیں،جنوبی خیبرپختونخوا میں کوئی حکومت نہیں، گلیاں سڑکیں مسلح لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔

سربراہ جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ اللہ کو اونچی آواز میں بات پسند نہیں لیکن مظلوم کی اللہ بات سنتا ہے، پہلے ریاست اور حکومت کی رٹ کو تو مضبوط کریں، آپ کس کے لیے قانون بنارہے ہیں، صوبوں کی اسمبلیاں بھی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں، کوئی پبلک نمائندہ عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، نظریاتی اور اتھارٹی کی جنگ ہے، میں نے 2018 کی پارلیمان کو تسلیم نہیں کیا تھا، 2024 کی پارلیمان کو بھی منتخب نہیں سمجھتا۔

’کوئی افغانی مارا جائے تو ہمارا سارا غصہ افغانستان پر نکلتا ہے‘

انہوں نے کہا کہ کسی وقت ایک اور بازو ہم سے ٹوٹ جائے گا کسی نے اس کا سوچا ہے، ہم نے 40 سال پراکسی وار لڑی ہے، ہم نے اپنی فوج کو جنگ میں جھونکا، کیا ہم اس محاذ سے نکل چکے جس میں تمام کھرے ہماری طرف نکلتے تھے، کوئی افغانی مارا جائے تو ہمارا سارا غصہ افغانستان پر نکلتا ہے، ہمیں کبھی اپنا حساب بھی تو کرنا چاہیئے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مشرف دور میں ہم نے کلنٹن کے ترلے کرکے اسے دو گھنٹے کے لئے بلایا، نائن الیون کے بعد ہم نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، ہمارے اڈوں سے امریکا کے جہاز اڑتے تھے اور افغانستان کے خلاف بمباری کی، میں انتخابات سے پہلے حکومت کی اجازت سے افغانستان گیا، ایک ایک نکتہ پر بات ہوئی کس نے اس کو آگے نہیں چلایا، میری ریاست کے کرتا دھرتا ناکام ثابت ہوئے۔

’ہمارے فیصلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے فورم پر ہوتے ہیں‘

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پالیسیاں پالیسی سازوں کے حوالے کی جائیں، ہر قدم درست سمت میں اٹھایا جائے، سیاسی لحاظ اور اقتصادی و دفاعی لحاظ سے غلام بنانے کا وطیرہ رہا، ہمارے فیصلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے فورم پر ہوتے ہیں، ہمارے فیصلے ہم نہیں کرتے، ہمارے اداروں کو آئی ایم ایف کنٹرول کرتا ہے، آئے روز آئی ایم ایف کا وفد آرہا ہے، اب تو آئی ایم ایف حکومت کی بجائے عدلیہ سے بات کرتا ہے، آئی ایم ایف وفد سپریم کورٹ بار سے مل رہا ہے، آئی ایم ایف وفد کا عدلیہ یا بار سے کیا تعلق۔

فضل الرحمان نے مزید کہا کہ اس وقت پوری قوم اضطراب میں ہے، ہمارے ہاتھ پاوں باندھ کر ہمیں غیرمسلح کیا جارہا ہے، ہماری پارلیمنٹ مرضی کی قانون سازی نہیں کرسکتی، دینی مدارس کی رجسٹریشن پر کہا گیا بیرونی اداروں کو اعتراض ہے، دینی مدارس کے حوالے سے صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی نہیں کی جارہی، ٹرمپ نے آتے ہی کہا غزہ ہمارا ہے، ایک آزاد قوم کو دوسرے ملک میں مہاجر بنانے والے آپ کون ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں جبراً آباد کیا گیا، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بےگھر کیا گیا، کیا ہم دوبارہ نو آبادیات کی طرف جارہے ہیں، ہمارے بارڈر پر جو ہورہا ہے یہ 40 سال سے ہے، صرف ایک ہی جگہ پر جنگ مسلط کی گئی ہے، امریکا یہاں معدنیات پر قبضہ کرنے آیا، خیبرپختونخوا اور افغانستان میں 2 طرح کی معدنیات ہیں، ایک وہ پتھر ہیں جو خلا میں جانے کے لیے راکٹس کے لیے کارآمد ہیں۔

’میرے پاس تمام قبائل کا جرگہ آیا ہے، سب کا یہی کہنا کہ ہمیں امن دو‘

سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ امریکا، چین اور روس سب کے یہاں مفادات ہیں جس کی وہ تگ و دو کررہے ہیں، کوئی پتہ نہیں یہ قبائلی علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہوں، ان قبائلی علاقوں سے دنیا کو کنٹرول کرنا چاہتے ہوں، ہمارے قبائلی علاقوں میں جنگیں ہورہی ہیں، آپ نے ان کو ضم کردیا، ہمارے علاقوں کا امن بھی خراب ہوگیا، آپ ملک اور ریاست کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں، میرے پاس تمام قبائل کا جرگہ آیا ہے، سب کا یہی کہنا کہ ہمیں امن دو۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ پشاور میں تمام اضلاع کا جرگہ ہوا کہ ہمیں امن دو، آج قبائل کی خواتین گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، صحیح لوگوں کے حوالے سب کریں، معاملہ پارلیمنٹ طے کرے یہ سب کرسکتی ہے، ہمیں سویلین قیادت پر اعتماد کرنا ہوگا، ورنہ وہی بے معنی باتیں، ورنہ وہی ہرروز بے معنی باتیں، یہ باتیں اس لیے کررہا ہوں کہ شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات۔

اسلام آباد

National Assembly

Fazal ur Rehman

JUIF

Molana Fazal ur Rehman

Maulana Fazal ur Rehman

jamiat ulema e islam