Aaj News

منگل, مارچ 25, 2025  
24 Ramadan 1446  

سندھ اور بلوچستان کے درمیان ’کتے جی قبر‘ پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا

اس سیاحتی مقام پر ایسا کیا خاص ہے؟
شائع 17 فروری 2025 08:47am
Tension Between Sindh and Balochistan Over ’Kutty Je Qabar‘ Tourist Spot - Aaj News

قمبر شہدادکوٹ کے قریب کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع ”کتے جی قبر“ کے مقام پر سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک بار پھر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ بلوچستان کے ضلع خضدار کی انتظامیہ نے اس مقام کو اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے وہاں لیویز اہلکار تعینات کر دیے ہیں، جبکہ دوسری جانب سندھ کے محکمہ ثقافت اور سیاحت نے 20 جنوری کو نوٹیفکیشن جاری کر کے ”کتے جی قبر“ کو سندھ کے ضلع قمبر شہدادکوٹ کا حصہ قرار دیا تھا اور اسے ثقافتی ورثہ بھی ڈیکلیئر کیا گیا تھا۔

یہ سیاحتی مقام سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 13 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ ماضی میں اس جگہ کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے، لیکن 2018 میں یہ تنازعہ اس وقت منظرعام پر آیا جب سندھ حکومت نے ”کتے جی قبر“ کو اپنی حدود میں شامل کرنے کا دعویٰ کیا، جسے بلوچستان کے حکام نے مسترد کر دیا تھا۔

بلوچستان حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ مقام ہمیشہ سے ضلع خضدار کا حصہ رہا ہے اور یہاں کے رہائشی تمام انتظامی اور قانونی معاملات کے لیے بلوچستان کے حکام سے رجوع کرتے رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر خضدار نے اس حوالے سے حکومت سندھ کو مراسلہ بھیجا ہے، جس میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کو واپس لینے کے لیے اقدامات کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

بلوچستان کے صوبائی مشیر بلدیات نوابزادہ امیر حمزہ زہری نے بھی سندھ حکومت کے حکام سے رابطہ کرکے اس معاملے پر گفتگو کی ہے۔ ان کے مطابق، سیکریٹری سیاحت و ثقافت بلوچستان نے سندھ حکومت کو خط لکھ کر اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ سندھ جلد اپنا نوٹیفکیشن واپس لے لے گا۔

یہ مقام نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہاں قدرتی وسائل، خاص طور پر گیس کے ذخائر کی موجودگی کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ دونوں صوبوں کے درمیان اس تنازعے کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے، یہ آئندہ دنوں میں واضح ہوگا۔

’کتے جی قبر‘ نام کا قصہ کیا ہے؟

سندھ کے نامور ادیب مرزا قلیچ بیگ نے اپنے سفرنامے ”ڈھیاڑو جبل کے سیر“ میں کتے کی قبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ایک شخص 100 روپے کا مقروض تھا، اس نے قرض دینے والے کے پاس اپنا کتا گروی رکھوایا۔ جب اس کے پاس 100 روپے جمع ہو گئے تو وہ ادائیگی کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے میں اس نے دیکھا کہ اس کا کتا چلا آ رہا ہے، وہ اس پر سخت ناراض ہوا اور کتے پر لعن طعن کی جس کے باعث کتا وہیں مر گیا۔

کہانی کے مطابق، جس شخص کے پاس کتے کو گروی رکھا گیا تھا، اس نے مالک کو بتایا کہ کچھ چوروں نے اس کے گھر کو لوٹ لیا تھا اور اس کتے کی مدد سے چوری شدہ سامان برآمد ہوا جس کی مالیت 100 روپے سے کہیں زیادہ تھی۔ کتے کی اس خدمت کے عوض اس نے کتے کو رہا کر دیا۔ مالک کو یہ سُن کر دُکھ پہنچا اور اس نے واپس آ کر اسی جگہ پر کتے کی قبر تعمیر کروائی جہاں وہ مرا تھا۔

نامور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ قبر قدیم دور میں تعمیر کی گئی تھی، جس کو دیگر قدیم قبروں کی طرح پتھروں سے بنایا گیا۔ یہ قبر ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں تک رسائی آسانی سے ممکن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس قبر کو کھول کر دوبارہ بند کیا گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں سرداروں اور معروف افراد کو ان کے قیمتی سامان کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا اس لیے خزانے کی لالچ میں بعض علاقوں میں ان قبروں کو کھولا گیا۔

بلوچستان

sindh

Kutte Ji Qabar