امریکا میں زیرتعلیم لڑکی، ملزم کا بااثر باپ: کراچی ڈیفنس میں نوجوان کے قتل کی کہانی کیا ہے؟
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہونے والے مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تفصیلات سامنے آگئیں جس میں نئے کردار کی انٹری ہوگئی، مقتول کی والدہ کا اہم بیان سامنے بھی سامنے آگیا، کیس میں غفلت برتنے پر درخشاں کے تھانیدار سمیت 3 پولیس اہلکار بھی معطل ہوگئے جبکہ عدالت نے ملزم شیراز کو جسمانی ریمانڈ پر 21 فروری تک پولیس کے حوالے کر دیا۔
مصطفیٰ عامر کے قتل کی تفصیلات سامنے آگئیں
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہونے والے مصطفیٰ عامر کے قتل کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں، جن میں انکشاف ہوا کہ مقتول اور ملزم کے درمیاقن جھگڑا ایک لڑکی کی وجہ سے ہوا۔ دوسری جانب ملزم کے گھر سے حاصل خون کے نمونے کی ڈی این اے رپورٹ آگئی ہے ، پولیس کے مطابق رپورٹ مقتول مصطفیٰ کی والدہ کے ڈی این اے سے میچ کرگئی ہے جبکہ شریک ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔
تفتیشی حکام کے مطابق مصطفیٰ عامر اور ملزم ارمغان آپس میں دوست تھے اور نیو ایئر نائٹ کے موقع پر دونوں میں ایک لڑکی کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا۔ تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ چھ جنوری کو ارمغان نے مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، جبکہ مارشا نامی لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک فرار ہو گئی۔ کیس میں لڑکی کا بیان انتہائی ضروری قرار دیا گیا ہے، اور انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔ حب پولیس نے کراچی پولیس کو لاش کی اطلاع دی تھی اور ڈی این اے نمونے لینے کے بعد ایدھی کے حوالے کیا تھا، جس کی رپورٹ آگئی ہے اور ڈی این اے مقتول کی والدہ سے میچ کرگیا ہے۔
’قتل کی وجہ لڑکی بنی‘: ڈی این اے میچ کرگیا، مصطفیٰ عامر کے قتل کی تفصیلات سامنے آگئیں
مزید تفتیش میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دوسرا ملزم شیراز، ارمغان کے پاس کام کرتا تھا اور قتل کی منصوبہ بندی اور لاش چھپانے میں شامل تھا۔ پولیس ملزم ارمغان کے ریمانڈ کے لیے عدالت سے درخواست دائر کرے گی۔
تفتیشی حکام کے مطابق مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال برآمد نہیں ہو سکا، جبکہ ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے بارے میں مزید تفتیش کی جائے گی۔ شریک ملزم کا اعتراف جرم
ہفتے کو پولسی نے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے شریک ملزم شیراز کو انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا، جہاؐ ملزم نے اعتراف جرم کیا۔
ملزم شیراز نے عدالت میں بتایا کہ مصطفیٰ کی گاڑی میں ہی اسے حب لے کر گئے تھے، پہلے مصطفیٰ پر ڈیفنس میں تشدد کیا، پھر اسے حب لے گئے۔
مقتول مصطفیٰ کی والدہ کے اہم انکشافات
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کے معاملے پر مقتول کی والدہ کا اہم بیان سامنے آیا ہے۔ والدہ کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کے قتل میں ایک لڑکی ملوث ہے، جس کا نام مارشہ شاہد ہے۔
ہفتے کو دیے گئے بیان میں مقتول کی والدہ نے الزام لگایا کہ مارشہ شاہد نے ہی میرے بیٹے کو قتل کروایا۔ ان کے مطابق، مصطفیٰ اور مارشہ کا 4 سال پرانا تعلق تھا، لیکن بعد میں مارشہ نشے کی لت میں پڑ گئی، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان جھگڑے ہوتے رہے۔
والدہ کے مطابق مارشہ نے ارمغان اور دیگر لڑکوں سے تعلقات قائم کرلیے تھے، جس پر مصطفیٰ نے اعتراض کیا۔ اس کے بعد مارشہ نے مبینہ طور پر ارمغان کو مصطفیٰ کو قتل کروانے کے لیے اکسایا۔
والدہ نے مزید بتایا کہ مارشہ اگست 2024 میں امریکا چلی گئی تھی اور 22 دسمبر کو واپس آئی، جس کے بعد مصطفیٰ اور اس کے درمیان جھگڑے مزید بڑھ گئے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ مصطفیٰ کو دھوکہ دے کر ارمغان نے اسے بلایا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ والدہ کے مطابق، پولیس کو لڑکی کے حوالے سے اطلاع دی گئی تھی، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی، اور بعد میں لڑکی کو امریکا بھگا دیا گیا۔
مصطفی کی والدہ نے کہا کہ اسے تفتیش کے لیے بلایا گیا تو لڑکی کو امریکا بھگا دیا گیا، مارشہ شاہد امریکا بھاگ گئی ہے، ریاست ہمیں انصاف دلوائے۔
مصطفیٰ عامر کی والدہ نے عدالت میں مقتول کی قبر کشائی کی اجازت کیلئے درخواست بھی جمع کرائی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کریں، متعلقہ مجسٹریٹ قبر کشائی اور دیگر معاملات پر آرڈر کا اختیار رکھتا ہے۔
فرائض میں غفلت برتنے پر ایس ایچ او درخشاں سمیت 3 افسران معطل
دوسری جانب ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے فرائض میں غفلت برتنے پر ایس ایچ او درخشاں اور انویسٹی گیشن آفیسر درخشاں سمیت 3 افسران کو معطل کردیا۔
ایس ایچ او درخشاں عبدالرشید پٹھان، ایس آئی او درخشاں ذوالفقار اور انویسٹی گیشن کے اے ایس آئی افتخار علی کو معطل کرکے ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
مصطفیٰ قتل کیس: ملزم شیراز جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، غفلت پر 3 افسران معطل
تینوں افسران کو درخشاں سے اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفی عامر کیس میں نا اہلی اور غفلت برتنے پر معطل کیا گیا ہے۔
تھانے سے متصل علاقہ ایس ایچ او تھانہ ساحل انسپکٹر افتخار آرائیں کو تھانہ درخشاں کا عارضی چارج دے دیا گیا ہے۔
ملزم شیراز جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزم شیراز کو انسداد دہشت گردی منتظم عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر 21 فروری تک پولیس کے حوالے کر دیا۔
عدالت میں پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ آپ کو مارا ہے، ملزم کا کہنا تھا کہ مجھے پولیس نے نہیں مارا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ پر اغوا اور قتل کا الزام ہے، کیا ہوا تھا؟ جس پر ملزم کا کہنا تھا کہ مصطفی، ارمغان کے گھر ڈیفنس آیا تھا، وہاں ہمارا اس سے جھگڑا ہوا، ہم نے اس پر تشدد کیا، تشدد کے بعد مصطفیٰ کو مارا اور اس کی گاڑی میں ہی اسے حب لے گئے، عدالت نے آئندہ سماعت پر مقدمہ کی پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
مقتول مصطفی عامرکی والدہ نے درخواست دائر کی کہ مقتول کی قبر کشائی کی اجازت دی جائے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کریں، متعلقہ مجسٹریٹ قبرکشائی اوردیگرمعاملات پر آرڈر کا اختیاررکھتا ہے۔
مصطفیٰ قتل کیس: ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے اور جج کے ریمارکس پر وزیراعلیٰ سندھ نے سوال اٹھا دئے
پراسیکوٹر منتظر مہدی کا کہنا تھا کہ کیس کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، ہم نے ملزم کا تیس دن کا ریمانڈ مانگا ہے، مصطفٰی کیس سے متعلق پراسیکوٹر جنرل سندھ نے ریمانڈ کے لیے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
ملزم ارمغان کے والد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ہنگامہ آرائی
اُدھر، ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی نے انسداد دہشت گردی عدالت میں ہنگامہ آرائی کی۔ انہوں نے زبردستی عدالت کے چیمبر میں گھسنے کی کوشش کی اور جج سے ملاقات کا مطالبہ کیا۔
کامران قریشی کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے ارمغان کا کیس عدالت میں چل رہا ہے، اور وہ جج سے ملنا چاہتے ہیں۔ جب پولیس نے انہیں روکا تو انہوں نے بدتمیزی کی اور پولیس اہلکار کو دھکے دیے۔
واقعہ کے بعد عدالت میں کشیدگی پیدا ہوگئی، پولیس و رینجرز کی اضافی نفری کو طلب کر لیا گیا تاکہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے اور جج کے ریمارکس پر وزیراعلیٰ سندھ نے سوال اٹھادیے
چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتا نوجوان مصطفیٰ کی لاش پولیس کو بلوچستان کے ضلع حب سے مل گئی ہے، ملزم ارمغان کے دوست نے ہولناک انکشاف کئے ہیں، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے ملزم کا ریمانڈ نہ دینے پر اظہار خیال کیا اور جج کے ریمارکس کو نامناسب قرار دیا ہے۔
پولیس کے مطابق مقتول مصطفیٰ کو اس کے دوست ارمغان نے کراچی میں اپنے گھر پر قتل کیا، پھر لاش کار کی ڈگی میں رکھ کر بلوچستان کے ضلع حب لے جائی گئی اور گاڑی سمیت آگ لگا دی، بلوچستان پولیس کو مکمل طور پر سوختہ لاش ملی جسے فلاحی ادارے نے امانتاً سپرد خاک کردیا۔
مقامی تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق گاڑی گیارہ جنوری کو جلی ہوئی حالت میں ملی تھی اور اس کی ڈگی میں ایک سوختہ لاش تھی جسے حب شہر میں سرد خانے منتقل کیا گیا تھا۔
کراچی پولیس نے جب مصطفیٰ کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے ڈیفنس میں ارمغان کے گھر پر چھاپا مارا گیا، جہاں موجود ارمغان نے پولیس پر فائرنگ کردی جس میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
پولیس نے مقابلے کے بعد ملزم ارمغان کو گرفتار کرلیا، گھر کی تلاشی کے دوران ارمغان کے کمرے سے خون کے دھبے اور مصطفیٰ کا موبائل فون ملا۔
پولیس نے گھر سے سو کے قریب لیپ ٹاپ بھی برآمد کیے تھے، خون کے نمونے ڈی این اے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیے گئے جبکہ کار کی ڈگی سے ملنے والی سوختہ لاش کا ڈی این اے بھی کروایا جارہا ہے۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کی چودہ فروری کی شام سی آئی اے سینٹر صدر میں ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد کیس کی گتھیاں سلجھنے بجائے اور الجھ گئیں۔ انٹیروگیشن میں ملزم شیراز کے ہولناک انکشافات اور قتل سے پہلے مصطفیٰ کی آخری آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی۔
مرکزی ملزم ارمغان قریشی کے ایک اور دوست شیراز نے ہولناک انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو بہانے سے گھر بلوایا، لوہے کی راڈ سے تین گھنٹے تک اس پر بہیمانہ تشدد کرتا رہا پھر اسے نیم بیہوشی کی حالت میں اس کے منہ پر ٹیپ باندھ کر کیماڑی سے بذریعہ ہمدرد چوکی کے راستے بلوچستان لے گئے اور دھوراجی پر دو کلو میٹر دور پہاڑی کے قریب گاڑی روک دی، ڈگی کھولی تو مصطفیٰ سب ابھی زندہ تھا، پھر ارغمان نے پیڑول جھڑکا اور لائٹر سے دور کھڑے رہ کر آگ لگا دی۔
اس کے بعد شیراز کے مطابق ،ملزمان تین گھنٹے پیدل چلتے رہے، راستے میں دونوں ملزمان کو کسی گاڑی والے نے لفٹ نہیں دی، سوزوکی والے کو دو ہزار روپے دے کر فور کے چورنگی پہنچے، جہاں سے دونوں ملزمان رکشہ کے ذریعے ڈیفنس اپنے گھر پہنچے۔
پولیس چھاپے کے بعد ملزم ارغمان نے ویڈیو بنانے کے لئے شیراز کو گھر بھیجا، پولیس کے خوف سے شیراز ویڈیو نہ بنا سکا اور فرار ہو گیا۔
جبکہ مقتول کی آڈیو میں سنا جاسکتا ہے کہ مصطفیٰ نے اپنے دوست کو بتایا کہ ارمغان کے پاس جا رہا ہوں، اگر یہ آڈیو میسج اس کے دوست کے پاس تھا تو پولیس ایک ماہ تک کیوں خاموش رہی؟ مصطفیٰ کے دوست نے کیوں پولیس کو نہیں بتایا کہ مصطفیٰ آخری بار ارمغان کے پاس گیا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ جج کے ریمارکس پر برہم
مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم کو عدالت کی جانب سے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے نہ کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سوال اٹھا دیا اور معزز جج کے ریمارکس پر بھی شکوہ کیا۔
وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز جہاں آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کو مبارک باد دی تو وہیں ڈیفنس میں اغوا کے بعد قتل کیے گئے نوجوان مصطفیٰ کے مقدمے میں پولیس اور عدلیہ کے کردار پر بھی بات کی۔
ان کا کلہنا تھا کہ مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم کو عدالت نے جسمانی ریمانڈ پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا۔ جج صاحب نے پولیس کے بارے میں غیر مناسب ریمارکس کیوں دیے؟
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کیس کی تحقیقات میں کسی پولیس افسر سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو اس کو سزا کے طور پر نوکری سے نکال دینا چاہیے، لیکن عدالت کے جج نے کیس کی سماعت میں پولیس کے بارے میں جو ریمارکس دیے امید ہے عدلیہ اس پر بھی سزا دے گی۔
Comments are closed on this story.