Aaj News

اتوار, اپريل 06, 2025  
07 Shawwal 1446  

144 سال سے اوول آفس اور ایئر فورس ون میں کوریج کرنے والے امریکی خبر رساں ادارے پر ٹرمپ نے پابندی عائد کردی

وائٹ ہاؤس نے خاص طور پر اے پی کو نشانہ بنایا اور اس کے صحافیوں کو صدارتی تقریبات میں شرکت سے روک دیا
شائع 15 فروری 2025 03:31pm
تصویر بشکریہ نیویارک ٹائمز
تصویر بشکریہ نیویارک ٹائمز

ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے جمعہ کو اعلان کیا ہے کہ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو غیر معینہ مدت کے لیے اوول آفس اور ایئر فورس ون تک رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ یہ اقدام ”گلف آف میکسیکو“ کے ذکر پر اٹھایا گیا، جب کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت اس آبی علاقے کو ”گلف آف امریکہ“ کے نام سے پکارے گی۔

امریکی سرکاری ادارے اس تبدیلی کو اپنانے لگے ہیں، مگر بین الاقوامی سطح پر اسے قبول نہیں کیا گیا۔ چونکہ اے پی کے قارئین دنیا بھر میں موجود ہیں، اس لیے وہ اب بھی ”گلف آف میکسیکو“ کا ذکر کر رہی ہے، ساتھ ہی ٹرمپ کے اعلان کو بھی تسلیم کر رہی ہے۔

دیگر عالمی میڈیا اداروں نے بھی اسی طرح کا فیصلہ کیا ہے، مگر اس ہفتے وائٹ ہاؤس نے خاص طور پر اے پی کو نشانہ بنایا اور اس کے صحافیوں کو صدارتی تقریبات میں شرکت سے روک دیا۔

اے پی کے فوٹوگرافرز کو اب بھی شرکت کی اجازت دی گئی، تاہم جب جمعہ کو ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے مار-اے-لاگو روانہ ہونے والے تھے، انتظامیہ نے تصدیق کی کہ اے پی کے نمائندے ایئر فورس ون میں سفر نہیں کر سکیں گے۔

390 یہودی ربیوں، سیاسی و سماجی کارکنوں نے اسرائیل کیخلاف مذمتی اشتہار دے دیا

وائٹ ہاؤس کے نائب چیف آف اسٹاف، ٹیلر بڈووک نے ایک بیان میں کہا کہ اے پی کی جانب سے ”گلف آف میکسیکو“ کا استعمال ’تقسیم پیدا کرنے والا اقدام ہے اور اس سے ان کی گمراہ کن رپورٹنگ کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’پہلی ترمیم کے تحت انہیں غیر ذمہ دارانہ اور غیر دیانت دار رپورٹنگ کا حق حاصل ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں اوول آفس اور ایئر فورس ون جیسے محدود مقامات تک رسائی دی جائے۔ یہ جگہ اب دیگر ان ہزاروں صحافیوں کے لیے کھولی جائے گی جو اب تک ان تقریبات سے محروم رہے ہیں۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ اے پی کے صحافیوں کو وائٹ ہاؤس کے احاطے میں داخلے کی اجازت برقرار رہے گی، تاہم انہیں ”پولڈ“ ایونٹس، جیسے ایئر فورس ون کے سفر، سے باہر رکھنے سے ان کی رپورٹنگ کی صلاحیت متاثر ہوگی۔

پریس پول اور اے پی کی تاریخی اہمیت

”پریس پول“ کا نظام صدر کے ہمراہ سفر کرنے اور معلومات کو تمام صحافیوں تک پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، اور اے پی اس سسٹم کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ 1881 میں، جب صدر جیمز اے گارفیلڈ کو گولی ماری گئی تھی، تو ایک اے پی رپورٹر وائٹ ہاؤس کے باہر ان کی سانسیں سنتے رہے اور میڈیا کو اپ ڈیٹ فراہم کرتے رہے۔ تب سے لے کر آج تک، اے پی پریس پول کا رکن رہا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے فوری طور پر وائٹ ہاؤس کے اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا، مگر اطلاعات ہیں کہ ادارہ قانونی چارہ جوئی کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک اے پی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سی این این کو بتایا کہ ’یہ نقطہ نظر کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ایک واضح مثال ہے۔‘

جرم کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود تارکین وطن کو گوانتانامو کے سیاہ گڑھے میں دھکیلے جانے کا انکشاف

وائٹ ہاؤس پریس کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن کا ردعمل

وائٹ ہاؤس پریس کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن (WHCA)، جو وائٹ ہاؤس کے پریس کارسپانڈنٹس کی نمائندہ تنظیم ہے، نے اس اقدام کو ”پہلی ترمیم کی خلاف ورزی“ اور ”آزادی اظہار پر صدر کے اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے برعکس“ قرار دیا۔ ایسوسی ایشن نے اشارہ دیا کہ اے پی کی پول میں شمولیت کے حوالے سے دوبارہ جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

یہ تنازع امریکی حکومت اور آزاد صحافت کے درمیان ایک نئے تناؤ کو جنم دے سکتا ہے، اور دیکھنا ہوگا کہ اس پر آئندہ کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔

President Donald Trump

Airforce One

Associated Press (AP)

Oval Office

Ban on AP