Aaj News

جمعرات, مارچ 13, 2025  
12 Ramadan 1446  

متنازع پیکا قانون کیخلاف صحافیوں کا احتجاج رنگ لانے لگا، حکومتی صفوں سے بھی آواز بلند ہوگئی

ن لیگی رہنماؤں کی صحافیوں سے مشاورت کی تجویز، پی ٹی آئی کا پیکا ایکٹ کیخلاف آواز اٹھانے کا اعلان
شائع 02 فروری 2025 08:55pm

متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافیوں کا احتجاج رنگ لانے لگا، حکومتی صفوں سے بھی پیکا قانون کے خلاف آواز بلند ہوگئی، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں عرفان صدیقی اور سعد رفیق نے صحافیوں سے مشاورت کی تجویز دے دی۔

متنازع پیکا قانون میں ترمیم کے اشارے پر صحافیوں کے احتجاج کے بعد حکومتی صفوں سے بھی آوازیں اٹھنے لگیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ جب آئین میں 26 ترامیم کرسکتے ہیں تو پیکا قانون کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، صحافیوں کو اعتماد میں لینا چاہیئے۔

ن لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پیکا قانون پر میڈیا تنظیموں سے مشاورت کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز سے بات کرکے ضروری ترامیم لائی جائیں، کسی حکومت کے پاس شہریوں پر شکنجہ کسنے کے لامحدود اختیارات نہیں ہونے چاہئیں،

صدر مملکت نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے، متنازع ایکٹ قانون بن گیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ قوانین کی چھڑی ہمیشہ وقت بدلنے کے ساتھ اسے بنانے والوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔

مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے متنازع قانون پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو نشانے پر رکھ لیا اور کہا یہ دونوں جماعتیں پیکا اور دیگر کالے قوانین کے نفاذ میں برابر کی ذمہ دار ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے 8 فروری کو پیکا ایکٹ کے خلاف آواز اٹھانے کا اعلان کردیا۔

اسد قیصر نے کہا ہے کہ 8 فروری کو پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی اور ان کے ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام نے بانی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا مگر دھاندلی کے ذریعے شہباز شریف کو مسلط کر دیا گیا، جو صرف 17 نشستوں کا مالک ہے، اسے وزیرِاعظم بنا کر ملک کے ساتھ سنگین زیادتی کی گئی۔

صوابی میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ ہم 8 فروری کو پیکا ایکٹ کے خلاف بھی آواز بلند کریں گے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے فوری طور پر واپس لیا جائے۔

دوسری جانب متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافیوں کا احتجاج جاری ہے، ایمرا نے خانیوال پریس کلب تک ریلی نکالی جبکہ دیپالپور میں صحافیوں نے مظاہرہ کیا۔

اس کے علاوہ بھلوال اور بورے والا میں بھی صحافی سڑکوں پر نکلے اور متنازع قانون کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (29 جنوری) صدر مملکت آصف زرداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے تھے، جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔

حکومت نے متنازع پیکا قانون میں ترمیم کا اشارہ دے دیا

23 جنوری کو قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا، جبکہ یہ بل سینیٹ سے 28 جنوری کو منظور ہوا تھا۔

صحافتی تنظمیوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل مسترد کردیا تھا اور اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی سے مشاورت کے بغیر متنازع بل منظور کروا کر ‏وعدہ خلافی کی مرتکب ہوئی ہے، اس بل کا محور صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ اس کا ہدف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی ہیں جس کا مقصد اختلاف رائے کو جرم بنا دینا ہے۔

پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

سوشل میڈیا پروٹیکشن ریگولیٹری اتھارٹی کو کون کون سےاختیارات حاصل ہوں گے؟

دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔

ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔

پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔

ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی اے (یا چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی رکن) ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔

ٹی وی چینلز کے رپورٹرز کی تنظیم نے بھی پیکا ترمیمی ایکٹ مسترد کردیا

ہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔

ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔

اسلام آباد

PECA

PECA Act

pakistan federal union journalist

peca ordinance 2025

PECA Act Amendment Bill 2025