ہم ڈیجیٹل قبرستان بنتے جا رہے ہیں، فریحہ عزیز
فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیم کے تحت پاکستان میں یوٹیوب کا پلیٹ متاثرہوگااس سے ڈیجیٹل پاکستان کا خواب ہےوہ زیادہ متاثرہوگا۔ بیرونی ردعمل آ چکا ہے، مختلف کمپنیزکا بیان آچکا ہےاوروہ اس کوتشویش کےساتھ دیکھ رہے ہیں اورمیری نظر میں تو ہم ڈیجیٹل قبرستان بنتے جا رہے ہیں۔
پیکاترمیم آرڈیننس 2025کے معاملے پرآج نیوزکے پروگرام نیوزانسائیٹ میں سینئراینکرپرسن عامرضیا سےگفتگوکرتے ہوئےڈیجیٹل رائیٹس ایکٹوسٹ فریحہ عزیز نےکہا کہ تفریق کی بنیاد کیا ہے، کیا آرٹیکل 19 اور19 اے سوشل میڈیا پر اپلائی نہیں ہوتے؟ یہ جو تفریق پیدا کی جاتی ہے یہ ڈیوائیڈ اینڈ رول کی ایک حکمت عملی ہے۔ کیوں کہ مین اسٹریم ان کا کلاؤٹ ہے۔
فریحہ عزیز نے کہا کہ پیکا دوہزارسولہ میں بھی یہی کیا گیا تھا کہ یہ دلاسے دیے گئے کہ مین اسٹریم پر لاگو نہیں ہوگا پھرہم نے دیکھا کہ جو مین اسٹریم کے صحافی ہیں ان پربھی پرچے کٹےاوراب یہ بات ان کی نہیں مانی جارہی اس لیےآپ دیکھ رہے ہیں کہ پی ایف یوجیزوغیرہ احتجاج کررہی ہیں کیوں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ یہ کہتے کچھ ہیں اوراس کا اطلاق کسی اورطریقے سے ہوتا ہے۔ اب یہ جو فساد ہے یہ جو بیانہ ہے کوئی ماننے کوتیار نہیں۔
سوشل ایکٹویسٹ نے کہا کہ پہلے مزاحمت اس طرح سے نہیں تھی جیسی اب ہے کیوں کہ ہم نےدیکھا ہے کہ گذشتہ نو دس برسوں میں کتنا جبربڑھا ہے۔ مین اسٹرہم کل سنسرشپ ہوئی ہے وہ ڈیجیٹل کی طرف آئے ہیں، مین اسٹریم پرائم ٹائم اینکرزکو یوٹیوب چینلز بنانے پڑے کیوں کہ ان کے پرائم ٹائمزشوز نہیں تھے یا انھیں نکال دیا گیا تھا۔
فریحہ عزیز نے کہا کہ ہرسیاسی دور میں جو بھی حکومت میں ہو ان کےہاتھوں گزرچکے ہیں اب ریلائزیشن ہے بالکل اینکرزپربھی ہوگا دوسری چیزاحتجاج کی وجہ یہ بنی ہے کہ ان کو کہا گیا تھا ہم آپ کو کنسلٹ کریں گے لیکن انھیں کنسلٹ نہیں کیا گیا اس کو بلڈوزکردیا گیا تو شاید اس کے ری ایکشن میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے کافی پروسیجرزتبدیل کیےہیں جس پربات ہو نہیں رہی ہے اور یہ زیادہ ایشو ہوگا جب ٹرائلز چلیں گے یا جس طرح ہمارے ہاں پیکا کے بھی پرچے کٹے ہیں کیا آپ نے کہا وہ بہت بعد کی بات ہے، پرچہ کٹتا ہےگرفتاری ہوتی۔ کوئی چیز لاگو ہوتی ہے نہیں ہوتی ہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمل کی سزا میں ہراساں بھی کریں گے اس کے بعد دیکھیں گے کہ چارج شیٹ آتی ہے یا ٹرائل چلتا ہےیا نہیں چلتا ہے۔
ڈیجیٹل رائیٹس ایکٹوسٹ نے کہا کہ اس میں بنیادی تبدیلیاں جو پراسس پیکا کا رہا ہے اور کورٹس میں چیلنج کیا گیا اور وہاں سے کسی حد تک ریلیف بھی ملتا رہا ۔ اس میں دو تین چیزیں ہیں کہ جو بھی سمجھتا ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعے جو بھی ایفینس ہوا ہے وہ بن سکتا ہے۔ اب یہ سیکشن ٹوئنٹی کے تناظر میں جو پرسن والا ہے کہ اداروں کے بارے میں آپ نے کہہ دیا یا کسی ادارے سے متعلق اس کا اہلکار مدعی بن گا اس میں ہم یہ پوائنٹ آؤٹ کر دیتے ہیں کہ نیچرل پرسن کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ آپ ڈائریکٹلی متاثرہ ہیں تو آپ شکایت کرسکتے ہیں، اس کی گنجائش اس میں ڈال دی۔ انکوائری کا کوئی تصور نہیں تھا اس میں انکوائری کا لفظ ڈال دیا گیا ہے کہ ان کے پاس ڈائریکٹ پاور آجائے کہ لوگوں میں خوف کی فضا پیدا ہو جائے، لوگ بات کرتے ہوئے گھبرائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ کیا حکومت میں بیٹھے لوگوں پریہ لاگو ہوگا کیوں کہ ہمیں پتاہے یہ پاور گیم ہوتے ہیں۔ کوئی فیک انفارمیشن ہوتی ہے اس کو کوالیفائی کرنے کی ضرورت ہوتی، ہرچیز کو جرم کے زمرے میں نہیں بنایا جا سکتا، ریگولر پریکٹس دیکھیں اس میں کاؤنٹر اسپیچ، اس میں فیکٹ چینکنگ ہوتی ہے جو تمام چیزیں اس میں متاثر ہوں گی کیوں کہ فیکٹس چیکرکو کل آپ نے کہہ دیا کہ آپ تو غلط بیانی کررہے ہیں تو وہ کس طریقے سے تصدیق ہوگی۔ جھوٹی معلومات کےسیکشن 20 میں موجود تھا اور اس کے پرچے ہو رہے تھے، یہ کہنا کہ قانون نہیں تھا یا یہ چیزیں نہیں ہو رہی تھیں تو یہ بھی غلط بیانی ہے کیوں کہ وہ تھا اور پرچے بھی ہوئے ہیں۔
فریحہ عزیز نے مزید گفتگو میں کہا کہ ریگولرٹی سائٹ پرآپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں آپ نے اس کی تعریف وسیع کردی کہ آپ ایڈمن ہوں توشاید اس پر بھی لاگوہواس کے بعد آپ نے رجسٹرکرنا ہے، جرمانہ لگاسکتے ہیں، بند کرسکتے ہیں، کاؤنٹرکیٹگریز بڑھا دی گئی ہیں۔ اس میں آپ کی اپیل صرف سپریم کورٹ جا سکتی ہے ہائیکورٹ کی لیئر ہی ہٹا دی ہے اور جو ٹربیونلز ہے وفاقی حکومت اس کی تعنیاتی بھی کرے گی ایک سیاسی حکومت یہ طے کرے گی کہ آپ پرآرٹیکل 19، 19 اے کے رائٹس کیا ہونے چاہییں اورانکا نفاذ کس طریقے سے ہونا چاہیے۔ ملک میں تو آپ لوگوں کی پتلی گردن پکڑ سکتے ہیں جو لوگ ملک سے باہر بیٹھ کر بات کررہے ہیں اس کو حکومت کیسے مینج کر پائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جورولز2021 میں بھی آئے تھے اس میں بھی یہ کوشش رہی تھی کہ فارنز سوشل میڈیا کمپنیز تھی ان سے کہا گیا کہ آپ اپنے آفسز قائم کریں، کسی نے کچھ نہیں کیا کیوں کہ آپ پاکستان میں یوٹیوب کا پلیٹ متاثر ہوگا اس سے ڈیجیٹل پاکستان کا خواب ہے وہ بڑا متاثر ہوگا۔ بیرونی ردعمل آ چکا ہے مختلف کمپنیز کا بیان آ چکا ہے اور وہ اس کو تشویش کے ساتھ دیجھ رہے ہیں اور میری نظرمیں تو ہم ڈیجیٹل قبرستان بنتے جا رہے ہیں۔
سوشل ایکٹویسٹ اینکرپرسن مزمل شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسےسیاہ دورسے کم نہیں کہہ سکتے، اس وقت آپ انٹرنیٹ کےحالات دیکھ لیں اب لگتا یہی ہے کہ جوفریڈم آف ایکسپریشن ہے اس کو اجازت نہیں دینی ہ۔
مزمل شاہ نےکہا کہ ے اب المیہ دیکھیں کہ دوہزارسولہ میں مسلم لیگ کی حکومت پیکاقانون لےکرآئی، اس وقت تحریک انصاف کہتی تھی کہ صحافتی آذادی کو قدغن لگانے کےمترادف ہے ان کی آوازبند کی جا رہی ہے اورجب پی ٹی آئی کی حکومت 2022 میں آتی ہے، وہ بھی پیکاآرڈیننس لےآتے ہیں تومریم نوازکہتی ہیں یہ آزادی صحافت کےخلاف ہے، اب نوازحکومت ہےتوآج پی ٹی آئی یہ کہہ رہی ہے تو یہ اس نوعیت کی سرکس ہے۔
انھوں نے کہا کہ میراخیال ہےکہ لائبل لازکو تقویت بخشی ہے تو آپ کورٹ میں جائیں اورنقصانات کلیم کریں اس میں اسٹیٹ یا حکومت پارٹی نہیں بنتی، یہاں پرتو فیصلہ بھی حکومت نےکرنا ہےکہ کیا فیک نیوز ہے اوریہ بھی فیصلہ حکومت کرے گی کہ جھوٹی خبر کون سی ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی انصاف کی صورت بنے بھی۔
ایک سوال کے جواب میں مزمل شاہ نے کہا کہ آج صحافیوں نےملک بھرسے ریلیاں نکالیں وہ کم ازکم کسی یونین کی فارمزمیں نمائندگی کرتی ہیں جبکہ سوشل میڈیا کا ایشو یہ ہے کہ اس میں اتنی پولرازیشن ہےکہ میرے خلاف کسی یوٹیوبرزکو پکڑا جائےگا تومیں خاموش رہوں گا اوراگرمجھے پکڑا جائےگا تو وہ خاموش رہےگا تواس طرح سے پولرائزیشن نےاتنا اثر کیا ہےکہ ایک دورمیں جوصحافیوں کی یونین ہوتی اورڈیجیٹل میڈیا کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں یونین نہیں ہے۔
انھوں نے مزید اپنی گفتگو میں کہا کہ پہلےفیصلہ ہوتا ہےبعد میں بحث ہوتی ہے، حالانکہ اس کا الٹ ہونا چاہیے کہ پہلےآپ بات چیت کریں اورفریم ورک کوآپ ڈیویلپ توکریں لیکن یہاں آخری فیصلہ بند کمرے میں ہوجاتا ہے، ہرچیزکواوورریگولیٹ کرنےسےنقصان پہنچتا ہے، غلط بیانی کی تصدیق کیسے ہوگی؟زیادہ مسئلہ ہوگا جب ٹرائلز چلیں گے۔