صرف 60 لاکھ ڈالر خرچ کرکے ڈیپ سیک نے امریکی کمپنیوں کے ایک کھرب ڈالر کیسے ڈبودیئے
دنیا کی تاریخ میں اس ہفتے ایک بہت بڑا واقعہ ہوا ہے۔ چین کی ایک چھوٹی سے کمپنی نے مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ کے میدان میں وہ تہلکہ مچایا ہے کہ اینویڈیا سمیت امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ایک ہزار ارب ڈالر ڈوب گئے ہیں۔ یہ منگل کے روز بین الاقوامی میڈیا کی سب سے بڑی خبر بن گئی لیکن لوگ حیران ہیں کہ ایسا ہوا کیسے؟
ڈیپ سیک DeepSeek کا نام اب تک اپ نے سن یا دیکھ لیا ہوگا۔ یہ چین میں مصنوعی ذہانت کا ایک اسٹارٹ اپ ہے۔ دو برس پہلے امریکہ میں مصنوعی ذہانت کی ایک کمپنی اوپن اے آئی سامنے آئی تھی جس کی بدولت بڑے پیمانے پر لوگ چیٹ جی پی ٹی اور مصنوعی ذہانت سے واقف ہوئے۔ اس کے بعد مصنوعی ذہانت کی کئی اور کمپنیاں سامنے آئیں لیکن ڈیپ سیک ان سب سے مختلف ثابت ہوئی ہے۔
ڈیپ سیک کے ذریعے چین نے ٹیکنالوجی اور سیاست دونوں میدانوں میں امریکہ کو ٹکر دی ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں ڈیپ سیک نے کیا کمال کیا؟
اوپن اے آئی اور دیگر تمام مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں اپنے سسٹمز کو چلانے کیلئے مہنگے کمپیوٹر چپس (Chips)استعمال کرتی ہیں جنہیں جی پی یو بھی کہا جاتا ہے۔
اگرچہ ویڈیو ایڈیٹنگ کیلئے استعمال ہونے والے عام کمپیوٹرز میں نصب گرافکس کارڈ کو بھی جی پی یو کہا جاتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت اور ڈیپ لرننگ کے لیے جو کمپیوٹر چپس استعمال ہوتے ہیں وہ بہت الگ اور مہنگے ہوتے ہیں اور صرف ڈیٹا سینٹرز جیسے مقامات پر بھی انسٹال کیے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اوپن اے آئی کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کیلئے H200 Tensor Core GPU استعمال کیے جاتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا ہر ماڈل ہزاروں کی تعداد میں یہ جی پی یو استعمال کرتا ہے۔ یہ تعداد پچاس ہزار سے لے کر ایک ہزار جی پی یو تک ہو سکتی ہے۔ جب کہ ایک جی پی یو کی قیمت پونے دولاکھ ڈالر ہے۔
حساب لگائیں تو مصنوعی ذہانت کا ایک ماڈل بنانے پر اربوں ڈالر کا خرچ آتا ہے۔
چونکہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں جی پی یو کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس لیے یہ جی پی یو تیار کرنے والی این ویڈیا جیسی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
لیکن ڈیپ سیک نے جی پی یو کا یہ مہنگا کھیل ہی الٹ دیا ہے۔
ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کے جو ماڈلز تیار کیے ہیں وہ لاکھوں ڈالر قیمت والے جی پی یو کے مقابلے میں بہت ہی سستے A100 Tensor Core چپس استعمال کرکے بنائے گئے ہیں۔ جہاں اوپن اے آئی کا ماڈل لگ بھگ پچاس ہزار مہنگے جی پی یو استعمال کرتا ہے وہیں ڈیپ سیک کے ماڈل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ صرف دو ہزار چپس استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔
اوپن اے آئی نے اربوں ڈالر خرچ کرکے جو مصنوعی ذہانت کا ماڈل تیار کیا وہ ڈیپ سیک نے صرف 60 لاکھ ڈالر کے خرچ میں تیار کرلیا ہے۔
ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کا سسٹم بنانے کیلئے نیا طریقہ کار اپنا کر بہت بڑی تعداد میں مہنگے اور ایڈوانسڈ جی پی یوز کے استعمال کی ضرورت ختم کردی ہے۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں این ویڈیا کے مہنگے جی پی یوز بڑی تعداد میں فروخت نہیں ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈیپ سیک کی کامیابی کی خبر نے اینویڈیا اور دیگر امریکی کمپنیوں کے شیئرز ڈبو دیئے ہیں۔ صرف این ویڈیا کے شیئرز کی قیمت میں 600 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔
سیاسی میدان میں امریکہ کو شکست
اس پورے معاملے کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ امریکی حکومت نہیں چاہتی کہ چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں آگے بڑھے۔ لہذا اس نے این ویڈیا جیسی کمپنیوں کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ اپنے ایڈوانسڈ قسم کمپیوٹر چپس چین کو فروخت نہ کریں۔
فی الوقت کمپیوٹر چپس بنانے کی ٹیکنالوجی میں این ویڈیا ہی سر فہرست ہے لہذا یہ پابندی چین میں مصنوعی ذہانت کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی تھی۔
لیکن اسی رکاوٹ نے چینی ماہرین کو مختلف طریقے سے سوچنے پر مجبور کیا اور انہوں نے مصنوعی ذہانت کا ایسا ماڈل تیار کیا جو زیادہ مہنگے کمپیوٹر چپس پر انحصار نہیں کرتا۔
ڈیپ سیک کے مطابق انہوں نے A100 جی پی یو بڑی مقدار میں چین سے درآمد کرکے رکھے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اب تک چین کا انحصار این ویڈیا کے بنائے کمپیوٹر چپس یا جی پی یوز پر ہے لیکن اوپن اے آئی کے مقابلے میں چینی اے آئی ماڈل کو بہت کم وسائل درکار ہیں۔ یوں کمپیوٹر چپس کا پورا کھیل پلٹ چکا ہے۔
چین نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں یہ بڑی تکنیکی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسے سامنے لانے کا وقت بھی بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیا۔
ڈیپ سیک کا اے آئی ماڈل 20 جنوری کو لانچ کیا گیا جب امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھایا۔ ٹرمپ امریکہ کی برتری کے زبردست حامی ہیں اور پہلے ہی دوسرے ممالک پر ٹیرف لگانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ٹرمپ کی حلف برداری کے دن لانچ ہونے والے مصنوعی ذہانت کے ماڈل نےچند ہی روز میں امریکہ کی برتری کو زبردست دھچکا پہنچادیا ہے۔
خود این ایویڈیا نے ڈیپ سیک کی کامیابی کا اعتراف یہ کہہ کر کیا ہے کہ یہ بہت ہی شاندار پیشرفت ہے۔
ڈیپ سیک کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کیا ہیں
ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کے دو بنیادی ماڈل فراہم کیے ہیں۔
DeepSeek-V3 عمومی استمال کا ماڈل ہے جو تصاویر بھی جنریٹ کر سکتا ہے۔ جب کہ DeepSeek-R1 سوچ بچار کے کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جہاں اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ آپ بول کر بھی بات کر سکتے ہیں، ڈیپ سیک میں فی الحال یہ سہولت دستیاب نہیں۔
لیکن ڈیپ سیک اوپن سورس ہے اور مفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے رقم کمانے کی دکانیں بند ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔