قومی اسمبلی اجلاس میں پھر ایجنڈا پورا نہ ہوسکا، اپوزیشن کی مسلسل نعرے بازی
قومی اسمبلی اجلاس میں ایک بار پھر ایجنڈا پورا نہ ہوسکا، کورم مکمل نہ ہونے کے باعث اجلاس وقفہ سوالات کے دوران ہی کل دن 2 بجے تک ملتوی کر دیا گیا، پیپلزپارٹی کے اراکین لابی میں موجود ہونے کے باوجود کورم پورا کرنے میں حکومتی مدد کے لئے تیار نہ ہوئے اور وزیراعظم کی ایوان میں آمد تک اجلاس میں شریک نہ ہونے پر ڈٹے رہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس کے آغاز پر اسپیکر نے اپوزیشن کے مطالبہ پر نکتہ اعتراض دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وقفہ سوالات مکمل نہیں ہوجاتا، نکتہ اعتراض کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسپیکر نے اپوزیشن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کمٹمنٹ کے مطابق وقفہ سوالات کے دوران کورم کی نشاندہی نہ کرے اور ایوان کی کاروائی کو مثبت انداز میں چلنے میں مدد دے، اپوزیشن کی طرف سے مسلسل نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا جس پر اسپیکر نے وقفہ سوالات کی کاروائی شروع کردی۔
اپوزیشن نے احتجاج کے دوران کورم کی نشاندہی کردی، اسپیکر نے گنتی کا حکم دیا لیکن کورم پورا نہ نکلا جس پر اجلاس کچھ دیر کے لئے وقفہ کردیا گیا۔
کچھ دیر وقت بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ایک بار پھر گنتی کرائی گئی لیکن کورم پورا نہ تھا، پیپلز پارٹی اراکین کورم کی نشاندہی ہوتے ہی ممبرز لابی میں چلے گئے۔
حکومت کی تمام تر کوشش کے باوجود پی پی اراکین ایوان میں واپس نہ آئے اور کہا کہ جب تک وزیر اعظم ایوان میں نہیں آئیں گے، اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کل دن دو بجے تک ملتوی کردیا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں سیلز ٹیکس کی مد میں 411 ارب 77 کروڑ سے زائد جبکہ کسٹمز میں کل 30 ارب روپے سے زائد کا فراڈ کیا گیا، غیردستاویزی معیشت کے مسئلہ کے حل کے لئے جامع منصوبہ بنایا گیا۔
وقفہ سوالات کے دوران تحریری جواب میں وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے ایف بی آر میں فراڈ اور کرپشن کی تفصیلات میں بتایا کہ کسٹمز نے 4 برس میں مالی فراڈ کے 299 مقدمات درج کیےجبکہ سیلز ٹیکس فراڈ کیسز میں 77 ایف آئی آرز کا اندراج کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس فراڈ کی کل رقم 411 ارب 77 کروڑ سے زائد ہے، اسی طرح کسٹمز فراڈ کے 299 مقدمات میں کل 30 ارب روپے سے زائد کا فراڈ کیا گیا، فراڈ میں ایف بی آر افسران دشتی خان، رانا نثار احمد، یاسر لطیف، رضوان تاج، حسن خلیل، ملک فیصل سجاد شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دشتی خان انسپکٹر کو معطل اور فرد جرم عائد کر دی گئی، کرپشن کیسز میں ملزمان کی مجموعی تعداد 547 ہے، 105 کوگرفتار کر لیا، 43 لاکھ کی رقم واگزار کروالی ہے، خصوصی عدالتوں میں 44 چالان دائر کئے گئے ہیں۔
وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک کی طرف سے ایک جواب میں بتایا گیا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات حکومت کی پہلی ترجیح ہے، وزیراعظم نے ایف بی آر کا ٹرانسفارمیشن پلان منظور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر اور کسٹمز کی صلاحیت بڑھانے پر کام ہو رہا ہے، معیشت کو مالی سال کے دوران متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، ایف بی آر نے ٹیکس کی بنیاد اور ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے موثر اقدامات شروع کیے ہیں۔
علی پرویز ملک نے کہا کہ کسٹم سائیڈ پر انتظامی تنظیم نو کی گئی ہے، ملک بھر میں ڈیجیٹیل انفورسمنٹ اسٹیشنوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، بلوچستان میں اسٹریٹجک طور پر واقع کسٹمز چیک پوائنٹس کو مضبوط بنانا بھی اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسداد اسمگلنگ آپریشنز کو بہتر بنانے اور حوصلہ افزائی کے لیے کمانڈ فنڈ کا قیام کیا جارہا ہے، یہ اقدامات مئی 2025 کے آخر تک مکمل ہونے کی امید ہے۔
ایوان کو وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ آئندہ چند ماہ میں پاکستان کے مالی خسارے میں بڑی کمی آئے گی۔
رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ 944 ملین ڈالر سرپلس رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں پاکستان کو ایک ارب 27 کروڑ ڈالرز کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا تھا، جون 24 میں کل سرکاری قرضہ 71 کھرب 30 ارب روپے تھا، یہ قرض جی ڈی پی کے تناسب سے 67.4 فیصد ہے۔
قومی اسمبلی کو تحریری جواب میں بتایا گیا کہ مالی سال 25-2024 میں کل 30.9 ملین ڈالرز مالیت کے ترش آور پھل برآمد کئے گئے۔ برطانیہ، پاکستان سے آم خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
پانچ برس میں برطانیہ کو 17.97 ملین ڈالرز کے آم برآمد کیے گئے، عرب امارات کو 10.85، افغانستان کو 3.21، اومان کو 2.4 سعودیہ کو 2.11 جبکہ قازقستان کو 14.49 ملین ڈالرز کے آم برآمد کیے گئے۔
تحریری جواب میں حکومتی کفایت شعاری اقدامات کی تفصیلات ایوان کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ تمام قسم کی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی ہوگی۔
اسی طرح اسپتالوں، لیبارٹریوں، زراعت، کان کنی، اسکولوں کے لیے درکار ساز و سامان کے علاوہ کسی بھی خریداری پر پابندی ہوگی، نئی پوسٹوں کی تخلیق پر بھی پابندی ہوگی۔
سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج پر بھی پابندی عائد، بیرون ملک تمام غیر ضروری دورے جہاں حکومت پاکستان کی فنڈنگ شامل ہے پر مکمل پابندی ہوگی۔ جبکہ گذشتہ تین سالوں سے خالی پڑی تمام آسامیاں ختم کر دی جائیں گی۔
Comments are closed on this story.